ایمان بالملائکہ
ایمان | |
ایمان باللہ | ایمان بالملائکہ |
ایمان بالکتب | ایمان بالرسالت |
ایمان بالقدر | ایمان بالآخرت |
ایمان بالملائکہ اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے۔
لفظی معنی
ترمیمملائکہ ’’م - ل - ک‘‘ سے مشتق ہے، اس کی جمع ملائکہ اور ملائک ہے، اس کے لغوی اور لفظی معانی مالک ہونا، فرشتہ، ملکیت اور اقتدار ہیں، اس کے علاوہ اس میں تصرف، قدرت اور امر کا معنی بھی پایا جاتا ہے۔ لفظ ملائکہ آسمانی ارواح کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔[1]
وجہ تسمیہ
ترمیماللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی امر یا کام ان کے سپرد کیا جاتا ہے، اس وجہ سے ان کو ملائکہ کہتے ہیں۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کا پیغام اس کے مقبول بندوں تک پہنچانے کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔ وہ لطیف اور نورانی مخلوق ہیں اور عام انسان انھیں نہیں دیکھ سکتے۔ بعض کم فہم لوگ فرشتوں کے خارجی وجود کا انکار کرتے ہیں اور ان قرآنی آیات کی تلاوت جن میں فرشتوں کا ذکر ہے مجرد قوتوں کے طور پر کرتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایسے تصورات گمراہی پر مبنی ہیں۔ ملائکہ احکامِ الٰہی کی تعمیل کرنے والی معزز مخلوق ہے۔ ان کے وجود اور ان سے متعلقہ تفصیلات کو ماننا ایمان بالملائکہ کہلاتا ہے۔
صورت و ہیئت
ترمیمفرشتوں کی کوئی خاص صورت نہیں، صورت اور بدن ان کے حق میں ایسا ہے کہ جیسے انسانوں کے لیے ان کا لباس، اللہ تعالیٰ نے انھیں یہ طاقت دی ہے کہ جو شکل چاہیں اختیار کر لیں۔ ہاں قرآن شریف سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کے بازو ہیں، اس پر ہمیں ایمان رکھنا چاہیے۔
تعداد
ترمیمفرشتے بے شمار ہیں، ان کی تعداد وہی جانے جس نے انھیں پید ا کیا یا اس کے بتائے سے اس کا پیارا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ان کی پیدائش روزانہ جاری ہے، ہر روز بے شمار پیدا ہوتے ہیں۔ اولیاء اللہ فرماتے ہیں کہ نیک کلام، اچھا کام فرشتہ بن کر آسمان کو بلند ہوتا ہے۔
مشہور فرشتے
ترمیمیوں تو اللہ تعالیٰ نے بے شمار فرشتے پیدا فرمائے ہیں، تاہم درج ذیل فرشتے زیادہ مشہور ہیں:
- حضرت جبرائیل علیہ السلام: ان کے ذمہ پیغمبروں کی خدمت میں وحی لاناہے۔
- حضرت میکائیل علیہ السلام: ان کے ذمہ بارش برسانے اور خدا کی مخلوق کو روزی پہنچانا ہے۔
- حضرت اسرافیل علیہ السلام: ان کے ذمہ قیامت کے دن صور پھونکنا ہے۔
- حضرت عزرائیل علیہ السلام: ان کے ذمہ روح قبض کرنے یعنی لوگوں کی جان نکالنے کی خدمت سپرد کی گئی ہے۔
نوری مخلوق
ترمیمفرشتے اللہ تعالیٰ کی نوری مخلوق ہیں۔ ملائکہ کی حقیقت بارے کئی اقوال ہیں، جن میں سے متفقہ اقوال یہ ہیں :
” | فَذَهَبَ أکْثَرُ الْمُسْلِمِيْنَ إِلٰی أنَّهَا أجْسَامٌ لَطِيْفَةٌ، قَادِرَةٌ عَلَی التَّشَکُّلِ بِأشْکَالٍ مُخْتَلِفَةٍ.[2]
’’پس جمہور مسلمانوں کے مطابق ملائکہ وہ لطیف نورانی اجسام ہیں جنہیں (اپنی لطافت و نورانیت کے باعث) مختلف شکلیں بدلنے پر قدرت حاصل ہوتی ہے۔‘‘ |
“ |
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
” | خُلِقَتِ الْمَلَائِکَةُ مِنْ نُوْرٍ، وَ خُلِقَ الْجَانُّ مِنْ مَارِجٍ مِّنْ نَّارٍ، وَ خُلِقَ آدَمُ مِمَّا وُصِفَ لَکُمْ۔ [3]
’’فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا، جنات کو شعلہ زن آگ سے پیدا کیا گیا اور آدم کو اس شے سے پیدا کیا گیا ہے، جس کی صفت اللہ تعالیٰ نے تمھیں بیان فرمائی ہے (یعنی خاک سے)۔‘‘ |
“ |
ذمہ داریاں
ترمیماللہ تعالیٰ نے ملائکہ کی سرشت میں کامل اطاعت کا پہلو رکھا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق کائنات کے مختلف امور سر انجام دیتے ہیں اور از خود کوئی قدرت نہیں رکھتے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
” | يَخَافُونَ رَبَّهُم مِّن فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ[4]
’’وہ اپنے رب سے جو ان کے اوپر ہے ڈرتے رہتے ہیں اور جو حکم انھیں دیا جاتا ہے (اسے) بجا لاتے ہیں۔‘‘ |
“ |
حضرت ابن سابط فرماتے ہیں کہ جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے سب ’’اُمُّ الکتاب‘‘ میں موجود ہے۔ تین فرشتوں کو مقرر کیا گیا ہے کہ وہ اس کی نگرانی کریں، پس حضرت جبرائیل علیہ السلام کو کتاب سپرد کی گئی ہے کہ وہ اسے رسولوں تک لے جائیں اور ان کو خدا کے عذاب کے معاملات بھی سپرد کیے گئے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کی ہلاکت کا ارادہ کرتے ہیں تو حضرت جبرائیل علیہ السلام کو (اپنے دشمنوں کے خلاف) جنگ میں مدد پر مقرر کر دیتے ہیں۔ حفاظت، بارش اور زمین کے نباتات حضرت میکائیل کے سپرد ہیں۔ ملک الموت کے سپرد ارواح قبض کرنا ہے، پس جب دنیا ختم ہو گی تو لوگوں کے اعمال ناموں کو جمع کیا جائے گا اور ’’اُمُّ الکتاب‘‘ کے ساتھ تقابل کیا جائے گا تو یہ مدبرین دنیا ان اعمال ناموں کو ام الکتاب کے موافق پائیں گے۔[5]
حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
” | إِنَّ طَرْفَ صَاحِبِ الصُّورِ مُذْ وُکِّلَ بِه مُسْتَعِدٌّ يَنْظُرُنَحْوَ الْعَرْشِ مَخَافَةَ أنْ يُؤْمَرَ قَبْلَ أنْ يَرْتَدَ إِلَيْهِ طَرْفُه کَأنَّ عَيْنَيْهِ کَوْکَبَانِ دُرِّيَانِ. [6]
’’بلاشبہ حضرت اسرافیل جب سے صور پھونکنے پر مقرر ہوئے ہیں تب سے تیار ہیں۔ عرش کے اردگرد اس خوف سے نظر کر رہے ہیں کہ انھیں نظر جھپکنے سے قبل حکم نہ دے دیا جائے، اس کی دونوں آنکھیں چمکدار ستاروں کی مانند ہیں۔‘‘ |
“ |
کراماً کاتبین
ترمیمانسانوں کے اعمال لکھنے والے فرشتے کراماً کاتبین ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
” | وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِينَO كِرَامًا كَاتِبِينَO يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ[7]
’’حالانکہ تم پر نگہبان فرشتے مقرر ہیں، (جو) بہت معزز ہیں، (تمھارے اعمال نامے) لکھنے والے ہیں۔ وہ ان (تمام کاموں) کو جانتے ہیں جو تم کرتے ہو۔‘‘ |
“ |
اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالٰیٰ ہے :
” | أَمْ أَبْرَمُوا أَمْرًا فَإِنَّا مُبْرِمُونَO أَمْ يَحْسَبُونَ أَنَّا لَا نَسْمَعُ سِرَّهُمْ وَنَجْوَاهُم بَلَى وَرُسُلُنَا لَدَيْهِمْ يَكْتُبُونَ[8]
’’کیا انھوں نے (یعنی کفّارِ مکہ نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف کوئی تدبیر) پختہ کر لی ہے تو ہم (بھی) پختہ فیصلہ کرنے والے ہیں۔ کیا وہ گمان کرتے ہیں کہ ہم ان کی پوشیدہ باتیں اور اُن کی سرگوشیاں نہیں سنتے؟ کیوں نہیں (ضرور سنتے ہیں)! اور ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے بھی اُن کے پاس لکھ رہے ہوتے ہیں۔‘‘ |
“ |
حضرت ابن جریج رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں :
” | ’’کراماً کاتبین دو فرشتے ہیں ان میں سے ایک اس (انسان) کی دائیں طرف ہوتا ہے جو نیکیاں تحریر کرتا ہے اور ایک اس کے بائیں طرف ہوتا ہے جو برائیاں لکھتا ہے۔ دائیں طرف والا فرشتہ اپنے ساتھی (فرشتہ) کی گواہی کے بغیر نیکی لکھ دیتا ہے، مگر بائیں طرف والا اپنے ساتھی (فرشتہ) کی گواہی کے بغیر کوئی برائی نہیں لکھتا۔ اگر وہ آدمی بیٹھتا ہے تو ایک اس کے دائیں اور دوسرا اس کے بائیں ہوتا ہے، اور اگر وہ چلتا ہے تو ایک ان میں سے ا س کے آگے ہوتا ہے اور دوسرا اس کے پیچھے، اور اگر وہ سوتا ہے تو ایک ان میں سے اس کے سر کے پاس ہوتا ہے اور دوسرا اس کے پاؤں کی جانب ہوتا ہے۔‘‘ [9] | “ |
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
” | إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌO مَا يَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ [10]
’’جب دو لینے والے (فرشتے اس کے ہر قول و فعل کو تحریر میں) لے لیتے ہیں (جو) دائیں طرف اور بائیں طرف بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ منہ سے کوئی بات نہیں کہنے پاتا مگر اس کے پاس ایک نگہبان (لکھنے کے لیے) تیار رہتا ہے۔‘‘ |
“ |
حوالہ جات
ترمیم- ↑ راغب اصفہانی، المفردات : 472، 473
- ↑ بيضاوي، التفسير، 1 : 80، 81
- ↑ مسلم، الصحيح، 4 : 2294، رقم : 2996
احمد بن حنبل، المسند، 6 : 153، 168
ابن حبان، الصحيح، 14 : 25، رقم : 6155 - ↑ القرآن، النحل، 16 : 50
- ↑ ابن حبان، کتاب العظمۃ، 3 : 973، رقم : 496
- ↑ حاکم، المستدرک، 4 : 603، کتاب الاھوال، رقم : 8676
- ↑ القرآن، الانفطار، 82 : 10 - 12
- ↑ القرآن، الزخرف، 43 : 79، 80
- ↑ ابن حبان اصبھانی، العظمۃ، 3 : 1000، رقم : 519
- ↑ القرآن، ق، 50 : 17، 18