بئر رومہ کا کنواں جسے بئر عثمان بھی کہا جاتا ہے۔ یہ مدینہ کے اس بڑے کنویں کا نام ہے جو وادئ عقیق ازہری محلہ میں مسجد قبلتین سے ایک کلومیٹر جبکہ مسجد نبوی سے ساڑھے تین کلو میٹرشمال کی جانب واقع ہے۔ اس کنویں کا پانی نہایت شیریں، لطیف اور پاکیزہ ہے۔ اس مناسبت سے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشارت کے مطابق اس کنویں کو خریدنے اور وقف کرنے کے سبب حضرت عثمان کا جنتی ہونا ثابت ہوا، اس کنویں کا ایک نام " بئر جنت یعنی جنتی کنواں " بھی مشہور ہے، اس زمانہ میں حضرت عثمان نے اس کنویں کو ایک لاکھ درہم کے عوض خریدا تھا۔ " اور اپنے ڈول کو مسلمانوں کا ڈول بنا دیا " یہ " وقف کرنے " سے کنایہ ہے یعنی جو شخص اس کنویں کو خریدے اور اس کو اپنی ذاتی ملک قرار نہ دے بلکہ رفاہ عامہ کے لیے وقف کر دے تاکہ جس طرح خود وہ شخص اس کنویں سے فائدہ اٹھائے اسی طرح دوسرے لوگ بھی اس سے فائدہ اٹھا سکیں اب یہ محکمہ زراعت کے کنٹرول میں ہے[1]

مہاجرین مکہ معظمہ سے ہجرت کر کے مدینہ طیبہ میں آئے یہاں کا پانی پسند نہ آیا شور تھا، بنی غفار سے ایک شخص کی مِلک میں ایک شیریں چشمہ جس کا نام رومہ تھا وہ اس کی ایک مشک نیم صاع کو بیچتا، سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا :یہ چشمہ میرے ہاتھ ایک چشمہ بہشت کے عوض بیچ ڈال۔ عرض کی : یارسول اللہ!میری اورمیرے بچوں کی معاش اسی میں ہے مجھ میں طاقت نہیں۔ یہ خبر عثمان غنی کو پہنچی وہ چشمہ مالک سے خریدلیا، پھر خدمت اقدس حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں حاضر ہوکر عرض کی : یارسول اللہ!کیا جس طرح حضور اس شخص کو چشمہ بہشتی عطافرماتے تھے اگر میں یہ چشمہ اس سے خرید لوں تو حضو رمجھے عطافرمائیں گے؟ فرمایا:ہاں۔ عرض کی : میں نے بِئر رومہ خرید لیا اورمسلمانوں پر وقف کر دیا۔[2] درمنثور ص 60 ج 5میں لکھا ہے کہ غزوہ احزاب (جسے غزوہ خندق بھی کہتے ہیں) کے موقع پر قریش مکہ ابو سفیان کی قیادت میں مدینہ منورہ کی آبادی کی قریب بئر رومہ کے پاس ٹھہر گئے اور قبیلہ بنی غطفان کے لوگ آئے تو یہ لوگ احد کی طرف آکر ٹھہر گئے۔[3]

حوالہ جات

ترمیم
  1. تاریخ مدینہ منورہ، محمد الیاس عبد الغنی، صفحہ130
  2. المعجم الکبیر عن بشیر اسلمی حدیث 1226، المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت
  3. تفسیر انوارالبیان مولانا عاشق الہٰی