مسجد نبوی

مدینہ، سعودی عرب میں تاریخی مسجد

مسجد نبوی سعودی عرب کے شہر مدینہ منورہ میں قائم اسلام کا دوسرا مقدس ترین مقام ہے۔ مکہ مکرمہ میں مسجد حرام مسلمانوں کے لیے مقدس ترین مقام ہے جبکہ بیت المقدس میں مسجد اقصی اسلام کا تیسرا مقدس مقام ہے ۔

مسجد نبوی
ٱلْمَسْجِدُ ٱلنَّبَويّ
Masjid Nabwi 05.jpg
مسجد نبوی is located in سعودی عرب
مسجد نبوی
موجودہ سعودی عرب میں مقام
بنیادی معلومات
متناسقات24°28′06″N 39°36′39″E / 24.468333°N 39.610833°E / 24.468333; 39.610833متناسقات: 24°28′06″N 39°36′39″E / 24.468333°N 39.610833°E / 24.468333; 39.610833
مذہبی انتساباسلام
ملکسعودی عرب
انتظامیہحکومت سعودی عرب
سربراہیامام:
تعمیراتی تفصیلات
نوعیتِ تعمیرمسجد
طرز تعمیرکلاسیکی اور معاصر اسلامی طرز تعمیر؛ عثمانی طرز تعمیر؛ اسلامی طرز تعمیر
تاریخ تاسیسc. 622
تفصیلات
گنجائش600,000 (حج کے دوران 1,000,000 تک اضافہ)
مینار10
مینار کی بلندی105 میٹر (344 فٹ)

تعمیرترميم

مسجد الحرام کے بعد دنیا کی سب سے اہم مسجد ”مسجد نبوی“ کی تعمیر کا آغاز 18 ربیع الاول سنہ 1ھ کو ہوا۔ حضور اکرم ﷺ نے مدینے ہجرت کے فوراً بعد اس مسجد کی تعمیر کا حکم دیا اور خود بھی اس کی تعمیر میں بھر پور شرکت کی۔ مسجد کی دیواریں پتھر اور اینٹوں سے جبکہ چھت درخت کی لکڑیوں سے بنائی گئی تھی۔ مسجد سے ملحق کمرے بھی بنائے گئے تھے جو آنحضرت ﷺ اور ان کے اہل بیت اور بعض اصحاب رضی اللہ تعالٰی عنہم کے لیے مخصوص تھے ۔

مسجد نبوی جس جگہ قائم کی گئی وہ دراصل دو یتیموں کی زمین تھی۔ ورثاء اور سرپرست اسے ہدیہ کرنے پر بضد تھے اور اس بات کو اپنے لیے بڑا اعزاز سمجھتے تھے کہ ان کی زمین شرف قبولیت پا کر مدینہ منورہ کی پہلی مسجد بنانے کے لیے استعمال ہو جائے مگر محمدﷺ نے بلا معاوضہ وہ زمین قبول نہیں فرمایا، دس دینار قیمت طے پائی اور آپ ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہم کو اس کی ادائیگی کا حکم دیا اور اس جگہ پر مسجد اور مدرسہ کی تعمیر کا فیصلہ ہوا۔ پتھروں کو گارے کے ساتھ چن دیا گیا۔ کھجور کی ٹہنیاں اور تنے چھت کے لیے استعمال ہوئے اور اس طرح سادگی اور وقار کے ساتھ مسجد کا کام مکمل ہوا۔ مسجد سے متصل ایک چبوترا بنایا گیا جو ایسے افراد کے لیے دار الاقامہ تھا جو دوردراز سے آئے تھے اور مدینہ منورہ میں ان کا اپنا گھر نہ تھا۔

آپﷺ نے اپنے ہاتھ سے مسجد نبوی کی تعمیر شروع کی جبکہ کئی مسلم حکمرانوں نے اس میں توسیع اور تزئین و آرائش کا کام کیا۔ گنبد خضراء کو مسجد نبوی میں امتیازی خصوصیت حاصل ہے جس کے نیچے محمدﷺ، حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق کے روضہ مبارک ہیں۔ یہ مقام دراصل ام المومنین حضرت عائشہ کا حجرہ مبارک تھا۔ ریاست مدینہ میں مسجد نبوی کی حیثیت مسلمانوں کے لیے عبادت گاہ، کمیونٹی سینٹر، عدالت اور مدرسے کی تھی۔

مسجد کے درمیان میں عمارت کا اہم ترین حصہ محمدﷺ کا مزار واقع ہے جہاں ہر وقت زائرین کی بڑی تعداد موجود رہتی ہے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ یہاں مانگی جانے والی ہر دعا مقبول ہوتی ہے۔ خصوصاً حج کے موقع پر رش کے باعث اس مقام پر داخلہ انتہائی مشکل ہوجاتا ہے۔ اسی مقام پر منبر رسول بھی ہے۔ سنگ مرمر کا بنا حالیہ منبر عثمانی سلاطین کاتیار کردہ ہے

سعودی عرب کے قیام کے بعد مسجد نبوی میں کئی مرتبہ توسیع ہوئی لیکن شاہ فہد بن عبد العزیز کے دور میں مسجد کی توسیع کاعظیم ترین منصوبہ تشکیل دیا گیا جس کے تحت حضرت محمد ﷺ کے دور کے تمام شہر مدینہ کو مسجد کا حصہ بنادیا گیا۔ اس عظیم توسیعی منصوبے کے نتیجے میں مسجد تعمیرات کا عظیم شاہکار بن گئی۔

مسجد نبوى كا مقامترميم

 
Sun rises over al-Masjid al-Nabawi

رسول اللہ ﷺ نے اسی مسجد کے سنگریزوں پر بیٹھ کر معاشرہ کے تمام مسائل کو قرآن کریم کی روشنی میں حل فرمایا۔ آپ کی تمام اصلاحی اور تعمیری سرگرمیاں یہیں سے انجام پاتی تھیں۔ سینکڑوں مہاجرین کی اس چھوٹی سی بستی میں منتقل ہونے کے نتیجہ میں آبادی کے مسائل تھے اور ان نووارد افراد کو معاشرے میں ضم کرنے کے مسائل تھے۔ اس مسئلہ کو مسجد نبوی کے صحن میں بیٹھ کر مواخات کی شکل میں حل کیا گیا۔ نئی مملکت کے تمام سیاسی مسائل کے حل اور قانون سازی کے لیے اس مسجد نے پارلیمنٹ ہاوس کا کردار ادا کیا۔ عدالتی فیصلوں کے لیے اسی مسجد نے سپریم کورٹ کا کردار ادا کیا۔ ہر قسم کی تعلیمی کارروائیاں اسی مسجد سے سر انجام پانے لگیں۔ تمام رفاہی کاموں کا مرکز یہی مسجد قرار پائی۔ تجارت و زراعت کے مسائل کے لیے یہی کامرس چیمبر اور یہی ایگریکلچر ہاوس قرار دیا گیا۔ دفاعی اقدامات اور جنگی حکمت عملی کے لیے بھی یہی مسجد بطور مرکز استعمال ہونے لگی۔ رسول اللہ ﷺ نے جب کسی علاقے میں جہاد کے لیے لشکر روانہ کرنا ہوتا تو اسی مسجد سے اس کی تشکیل کی جاتی اور ایک موقع پر مجاہدین نے جہاد کی تربیت کا مرحلہ بھی اس مسجد کے صحن میں مکمل کیا۔ حضرت عائشہ ا فرماتی ہیں کہ حبشہ کے کچھ لوگ آئے ہوئے تھے اور عید کے روز مسجد نبوی کے صحن میں وہ نیزہ بازی کی مشق کر رہے تھے جسے میں نے رسول اللہ ﷺ کی اوٹ میں کھڑے ہوکر دیکھا۔ رسول اللہ ﷺ نے مسجد ومدرسہ کو مسلم معاشرہ کا محور بنا دیا تھا اور مسجد ومدرسہ کا کردار زندگی کے ہر شعبہ پر محیط تھا، جس کے نتیجے میں دیکھتے ہی دیکھتے صدیوں کے الجھے ہوئے تمام مسائل حل ہو گئے اور مدینہ منورہ کا معاشرہ دنیا کے لیے ایک عظیم الشان مثال بن گیا۔

رسول اکرم ﷺ نے مسجد نبوی کو صرف عبادت کی جگہ قرار نہیں دیا بلکہ اس سے لوگوں کی سماجی، سیاسی، علمی اور زندگی کے دیگر امور سے متعلق مسائل کے حل کے لیے بھی استفادہ کرتے تھے اسی لیے یہ مسجد مسلمانوں کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ برسوں سے لاکھوں مسلمان مسجد نبوی اوراس کے احاطے میں واقع روضہ نبوی کی زیارت کے لیے نہایت عقیدت و احترام اور ذوق و شوق کے ساتھ مدینے جاتے ہیں ۔

اسلام میں مسجد نبوی کی اہمیتترميم

اسلام میں حرم المکی کے بعد سب سے زیادہ اہمیت اسی حرم النبوی کو حاصل ہے۔

قرآن مجید میںترميم

قرآن کریم کی سورۃ التوبہ میں مسجد نبوی کی طرف اشارہ اس آیت میں ملتا ہے:

لَا تَقُمْ فِيهِ أَبَدًا لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَى مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ أَحَقُّ أَنْ تَقُومَ فِيهِ فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِين
ترجمہ:جو مسجد پہلے روز سے ہی تقویٰ کی بنیاد پر بنائی گئی ہے وہ اس بات کے لیے زیادہ موزوں ہے کہ تم اس میں (عبادت کے لیے) کھڑے ہو، اس میں ایسے لوگ (عبادت کرنے) آتے ہیں جو پاک رہنا پسند کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

احادیث میںترميم

اس مسجد کی اہمیت کا اندازہ رسول ﷺ کی درج ذیل احادیث سے لگایا جاسکتا ہے:

عن جَابِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال صَلَاةٌ في مَسْجِدِي أَفْضَلُ من أَلْفِ صَلَاةٍ فِيمَا سِوَاهُ إلا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ وَصَلَاةٌ في الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَفْضَلُ من مِائَةِ أَلْفِ صَلَاةٍ فِيمَا سِوَاهُ۔[2]
حضرت جابر () سے روایت ہے كہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا کہ ميرى اس مسجد ميں نماز (اجر كے اعتبار سے )دوسرى مساجد ميں نماز پڑهنے سے ايك ہزار گنا افضل ہے، سوائے مسجد حرام كے اور مسجد حرام ميں نماز پڑهنا اس كے سوا مساجد ميں ايك لاكھ نمازيں پڑهنے سے افضل ہے۔

ایک اور جگہ فرمایا:

لاَ تَشُدُّوا الرِّحَالَ إِلاَّ إِلَى ثَلاَثَةِ مَسَاجِدَ مَسْجِدِى هَذَا وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْمَسْجِدِ الأَقْصَى
ترجمہ:تین مساجد کے علاوہ کسی دوسری مسجد کا (زیادہ ثواب حاصل کرنے کی نیت سے ) سفر اختیار نہ کیا جائے۔ یعنی مسجد الحرام،مسجد النبوی اور مسجد الاقصیٰ

ایک اور حدیث ہے :

مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ وَمِنْبَرِي عَلَى حَوْضِي
یعنی کہ آپ ﷺ کے منبر شریف اور حجرہ مبارک کا درمیانی حصّہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔

شاہ عبد اللہ كا تعميرى منصوبہترميم

سعودی عرب کے فرمانروا شاہ عبداللہ نے مسجد نبوی کی تعمیر و توسیع کے لیے 4ارب 70کروڑ ریال کے عظیم منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ منصوبے کے مطابق مسجد نبوی کے مشرقی حصے کی توسیع کی جائے گی جس کے بعد اس حصہ میں مزید 70 ہزار نمازیوں کی گنجائش ہو جائے گی۔ اس منصوبہ میں مسجد نبوی میں 182 بڑی خودکار چھتریاں بھی نصب کی جائیں گی تاکہ زائرین سورج کی گرمی اور بارش سے محفوظ رہ سکیں۔

مسجد نبوى كى توسيعترميم

تاريخ میں، مسجد نبوى كى توسيع نو مرتبه هوئى.

توسيع توسيع كى تاريخ زمانہ آمر كل علاقہ (مربع میٹر)[3] نسبة الزيادة دروازوں كى تعداد ميناروں كى تعداد ديگر
پہلى مرتبہ مسجد كو بنانبے والے 1 هـ
622م
النبوی نبی محمد 1,050 - 3 - پہلى مرتبہ
پہلى توسيع 7 هـ
628م
نبوی نبی محمد 2,475 136% 3 - غزوة خيبر کے بعد مكمل ہوئى
دوسرى توسيع 17 هـ
638م
خلفاء راشدين عمر بن خطاب 3,575 44.4% 6 - كنواں
تيسرى توسيع 29 هـ - مطابق:30 هـ|30 هـ
649م - 650م
خلفاء راشدين عثمان بن عفان 4,071 13.9% 6 - جنوبى توسيع مكمل كى
چوتهى توسيع 88 هـ - مطابق:91 هـ|91 هـ
707م - 710م
اموى دور عمر بن عبد العزيز
بأمر من الوليد بن عبد الملك
6,440 58.2% 20 4 حجره نبوى كو مسجد مين داخل كيا
پہلی مرتبہ اذان كى جگہ بنوائى
پہلى مرتبہ كهوكهلى محراب بنوائى
پانچويں توسيع 161 هـ - مطابق:165 هـ|165 هـ
779م - 782م
عہد عباسيہ ابو عبد الله محمد المہدی 8,890 38% 24 3 -
ترميمات وإصلاحات 654 هـ
1275م
مكمل عہد عباسيہ
شروع عہد مملوكيہ
شروع كى المستعصم بالله
مكمل كى ظاہر بيبرس
8,890 0% 24 3 تمت بعد الحريق الأول للمسجد
ترميمات وإصلاحات 881 هـ
1476م
عہد مملوكيہ قايتباي 8,890 0% 24 3 -
چھٹی توسيع 886 هـ - 888 هـ
1481م - 1483م
عهد مملوكية قايتباي 9,010 1.3% 4 4 تمت بعد الحريق الثاني للمسجد
ترميمات وإصلاحات 947 هـ
1540م
عهد عثمانيه سليمان القانونی 9,010 0% 4 4 -
ساتويں توسيع (مجيديہ) 1265 هـ - 1277 هـ
1849م - 1860م
عهد عثمانىيه عبد المجيد الأول 10,303 14.4% 5 5 عهد عثمانى كى بنيادى عمارة
آٹھویں توسيع 1372 هـ - 1375 هـ
1952م - 1955م
سعوديہ عبدالعزیز ابن سعود 16,327 58.5% 10 4 50 ملين سعودى ريال كى لاگت
نوىں توسيع 1406 هـ - 1414 هـ
1985م - 1994م
سعوديہ فہد بن عبدالعزیز 98,327
و235,000 چوك
502% 41 10 سب سے بڑى توسيع

مسجد نبوی کے مؤذنینترميم

  • حضرت بلال حبشیؓ
  • كامل بن صالح بن احمد نجدى.
  • مصطفى بن عثمان بن حسن نعمانى.
  • عبد المطلب بن صالح بن احمد نجدى.
  • عصام بن حسين بن عبد الغنى بخارى.
  • عبد الرحمن بن عبد الإله بن إبراهيم خاشقجي (شيخ المؤذنين).
  • عمر بن يوسف بن محمد كمال۔
  • سامي بن محمد حسن ديولی۔
  • فيصل بن عبد الملك بن محمد سعيد نعمان۔
  • سعود بن عبد العزيز بن حسين بخاری۔
  • محمد بن ماجد بن حمزة حكيم۔
  • إياد بن أحمد بن عباس شكری۔
  • أشرف بن محمد بن حمزة عفيفی۔
  • عبد المجيد بن سلامة بن عودة السريحی۔
  • عمر بن نبيل سنبل۔[حوالہ درکار]

مزید دیکھیےترميم

بیرونی روابطترميم

حوالہ جاتترميم

  1. Google maps. "Location of Masjid an Nabawi". Google maps. اخذ شدہ بتاریخ 24 ستمبر 2013. 
  2. ابن ماجہ، حدیث :1406
  3. بوابة الحرمين الشريفين: عمارة وتوسعة المسجد النبوي

تصاویرترميم