بابا فرید الدین گنج شکر

سلسلہ چشتیہ کے ممتاز صوفی بزرگ

فرید الدین مسعود گنج شکر بارہویں صدی کے مسلمان مبلغ اور صوفی بزرگ تھے۔ ان کو قرون وسطی کے سب سے ممتاز اور قابل احترام صوفیا میں سے ایک کہا گیا ہے۔[3] ان کا مزار پاک پتن، پاکستان میں واقع ہے۔آپ کا تعلق سلسلہ چشتیہ سے ہے اور آپ اہل سنت حنفی بزرگ گذرے ہیں۔

بابا فرید الدین گنج شکر
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1175ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملتان   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1265ء (89–90 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پاکپتن   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ خواجہ معین الدین چشتی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ مصنف ،  شاعر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان پنجابی   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان پنجابی [2]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

خاندانی پس منظر

ترمیم

فرید الدین گنج شکر کا اصل نام مسعود اور لقب فرید الدین تھا۔[4] آپ کی ولادت 1173ء بہ مطابق 589ھ میں ہُوئی اور وصال1265ء بہ مطابق 666ھ میں ہوا۔ آپ کا خاندانی نام فرید الدین مسعود ہے اور والدہ کا نام قرسم خاتون ؒ اور والد محترم قاضی جلال الدین ہیں۔ بابا فرید پانچ سال کی عمر میں یتیم ہو گئے تھے ۔[5] آپ بغیر کسی شک و شبہ کے پنجابی ادب کے پہلے اور پنجابی شاعری کی بُنیاد مانے جاتے ہیں۔ آپ کا شمار برصغیر کے مُشہور بزرگوں میں ہوتا ہے جنھوں نے اسلام کی شمع جلائی اور صرف ایک اللہ کی دُنیا کی پہچان کروائی۔ بابا فرید584/ 1173 میں ملتان کے ایک قصبے کھوتووال میں پیدا ہوئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے آباء کابل کے فرخ شاہ کی اولاد میں سے تھے۔[6] کہتے ہیں کہ بابا فرید کے والد شیخ شعیب سلطان محمود غزنوی کے بھانجے تھے جو شہاب الدین غوری کے زمانے میں ملتان کے قصبہ کھوتووال میں آ کر آباد ہوئے۔ بعض روایات کے مطابق ان کے دادا ہجرت کر کے لاہور آئے اور اس کے بعد کچھ وقت قصور میں گزار کر کھوتوال چلے گئے۔

گنج شکر کی وجہ تسمیہ

ترمیم

آپ کی والدہ ماجدہ قُرسم خاتون نے پہلی بار بابا فریدؒ کو نماز پڑھنے کی تلقین کی تو کچھ اِس طرح سے سمجھایا۔ کہ، جب چھوٹے بچے اللہ تعالیٰ کی نماز ادا کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ انھیں شکر کا انعام دیتا ہے اور جب بڑے ہو جاتے ہیں تو دوسرے بڑے اور مزید انعامات دیے جاتے ہیں۔ بابا فرید الدین جب نمازپڑھتے۔ تو قرسم خاتون چپکے سے ان کے مصلے کے نیچے شکر کی پڑیاں رکھ دیتیں اور بابا فرید ؒ وہ شکر کی پڑیاں انعام میں پا کر بہت خوش ہوتے، یہ سلسلہ کافی عرصہ تک چلتا رہا۔ یہاں تک کہ ،، ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ قرسم خاتون شکر کی پڑیاں رکھنا بھول گئیں۔ تو اگلے دن اضطراب سے پوچھا کہ اے فرید الدین مسعود کیا آپ کو کل شکر کی پڑیاں مل گئی تھیں؟ تو بابا فرید نے ہاں میں جواب دیا! تو قرسم خاتون نے اللہ عزوجل کا شکر ادا کیا کہ ان کی لاج رہ گئی۔ اور اس بات پر خوشی بھی ہوئی کہ اللہ عزوجل کی طرف سے انعام دیا گیا تب انھوں نے بابا فریدؒ سے کہا کہ اے فرید الدین مسعود آپ تو واقعی گنج شکر ہیں۔[5] آپ کے گنج شکر کے ساتھ لقب ہونے میں چند اقوال نقل کیے جاتے ہیں۔منجملہ ان کے ایک یہ بھی ہے کہ آپ نے مجاہدہ کا ارادہ کیا۔شیخ نے بھوکا رہنا بتلایا۔آپ نے روزے شروع کر دیے۔تین دن بعد ایک شخص چند روٹیاں لے کر حاضر ہوا،آپ نے اس کو اشارہ غیبی سمجھ کر نوش فرمالیا۔کھانے کے بعد تھوڑی ہی دیر میں امتلا ہوا اور سب قے کے راستہ نکل گیا۔آپ نے اپنے شیخ سے یہ قصہ بیان کیا۔انھوں نے فرمایا کہ تین دن کے بعد تو کھایا پھر بھی شرابی کا کھانا کھایا۔حق تعالیٰ کا شکر ہے کہ وہ کھانا پیٹ میں نہ رہ سکا اب تین دن اور بھوکے رہو اور جو غیب سے آئے اس کو کھاؤ۔تین دن گزرنے کے بعد کچھ نہ آیا۔ضعف بیحد غالب ہو گیا۔شدت بھوک میں کچھ کنکریاں اٹھاکر منہ میں ڈال لیں وہ شکر بن گئیں۔شیخ نے یہ سمجھ کر کہ کہیں دھوکا نہ ہوا ان کو تھوک دیا۔تھوڑی دیر بعد پھر شدت بھوک سے مجبور ہوکر کنکریاں اٹھاکر منہ میں ڈالیں وہ بھی شکر بن گئیں۔ایسے ہی تین مرتبہ ہوا۔صبح کو حضرت شیخ سے عرض کیا۔حضرت نے فرمایا کہ بہتر کیا کیا وہ کھالیا۔اسی دن سے آپ کو گنج شکر کہنے لگے۔[7]

ابتدائی تعلیم

ترمیم

بابا فرید ملتان میں منہاج الدین کی مسجد میں زیر تعلیم تھے جہاں ان کی ملاقات جناب بختیار کاکی اوشی سے ہوئی اور وہ ان کی ارادت میں چلے گئے۔ اپنے مرشد کے حکم پر بین الاقوامی اور سماجی تعلیم کے لیے قندھار اور دوسرے شہروں میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد دلی پہنچ گئے۔

چشتیہ سربراہ

ترمیم

مرشد کی وفات پر ان کو چشتیہ سنگت کا سربراہ بنایا گیا۔ وہ معین الدین چشتی اور قطب الدین بختیار کاکی کے بعد اس کے تیسرے سربراہ تھے۔ اور حضرت محبوبِ الٰہی خواجہ نظام الدین اولیاء کے مرشد تھے۔ عظیم صوفی بزرگ تھے جنھوں نے جاگیر ہونے کے باوجود اجودھن (پاکپتن) جو اس وقت کفرستان تھا، قبرستان میں اگنے والی جھاڑی (کری) سے ڈیلے حاصل کر کے پانی میں ابال کر کھاتے لیکن کبھی کسی سے مستعار شے لے کر نہ کھائی۔ انھوں نے دیگر علما کرام، صوفیا کرام، مشائخ اور درویشوں کی طرح محبت، بھائی چارے، امن و امان اور باہمی میل جول کا درس دیا جس سے متاثر ہو کر لوگوں نے اسلام قبول کیا۔[8]

خلفاء

ترمیم

آپ کے مشہور خلفاء کے نام یہ ہیں۔ 1۔ حضرت علی احمد علاءالدین صابر کلیری 2۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء 3۔حضرت مولانا بدرالدین اسحاق بابا فرید الدین گنج شکر کے سب سے پہلے خلیفہ کا نام جمال تھا بابا جی نے الجمال کے نام سے مشہور کر دیا جمال الدین ہانسوی ہانسی انڈیا میں رہتے تھے

دلی سے پاکپتن

ترمیم

کہا جاتا ہے کہ ان کو دلی کی شان و شوکت ہرگز پسند نہ تھی جس کی وجہ سے وہ پہلے ہانسی اور پھر اجودھن یا پاک پتن میں ڈیرہ نشین ہو گئے۔ لیکن کچھ روایات کے مطابق دلی اور اس کے گرد و نواح کی چشتیہ اشرافیہ ملتان کے ایک قصباتی نوجوان کو سربراہ ماننے کو تیار نہ تھی اور ان کے خلاف سازشیں ہو رہی تھیں جس کی وجہ سے وہ پاکپتن تشریف لے آئے۔ شاید دونوں باتیں ہی درست ہوں کہ ان کے خلاف سازشیں بھی ہو رہی ہوں اور ان کو اپنے دیس کی عوامی زندگی بھی پسند ہو۔ وہ کہتے ہیں :

فریدا برے دا بھلا کر غصہ من نہ ہنڈاء
دیہی روگ نہ لگئے، پلے سب کجھ پاء

(فریدا، برے کا بھلا کر تاکہ تمھارا دل غصے کے تصرف میں نہ چلا جائے، غصے کی نظر نہ ہو جائے۔ اگر تم جسم کو روگ نہیں لگانا چاہتے ہو تو سب غصے والی چیزیں سمیٹ لو)۔

پاکپتن اس زمانے میں تجارتی شاہراہ پر ایک اہم مقام تھا۔ دریائے ستلج کو یہیں سے پار کیا جاتا تھا۔ یہ بات حادثاتی نہیں ہے کہ پنجابی کے دوسرے کلاسیکی دانشوروں نے تجارتی مقامات پر زندگی گزاری جہاں ان کو دنیا کے بارے میں اطلاعات ملتی رہتی تھیں۔ بہت سی تاریخی دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ بہت سے عالم دور دراز سے گرائمر اور زبان دانی کے مسائل حل کرانے کے لیے بابا فرید کے پاس پاکپتن آتے تھے۔

شاعری

ترمیم

ان کی شاعری میں فارسی، عربی، سنسکرت کے الفاظ ملتے ہیں۔ وہ پنجابی شاعری کے پہلے شاعر ہیں۔

شادی

ترمیم

حامد بن فـضل جمالی کا کہنا ہے کہ بابا فرید نے پاکپتن میں ہی شادی کی حالانکہ بعض تاریخی حوالوں کے مطابق وہ دلی میں بادشاہ ناصرالدین محمود کے دربار میں گئے جہاں بادشاہ نے اپنی بیٹی ہزابارہ کی شادی ان سے کر دی۔ لیکن بعد میں ہونے والے واقعات سے پتا چلتا ہے کہ انھوں نے عوامی رنگ میں رہتے ہوئے اپنے طبقے میں ہی شادی کی تھی۔

وفات

ترمیم

5 محرم الحرام 1265ء سن عیسوی بمطابق 666ھ 92 سال کی عمر میں وفات پائی۔ ان کا مزار شہنشاہ محمد بن تغلق نے تعمیر کروایا جو آپ کے مرید تھے۔[حوالہ درکار]

اقوال زریں بابا فرید

ترمیم
  • انسانوں میں رذیل ترین وہ ہے جوکھانے پینے اورپہننے میں مشغول رہے۔
  • جوسچائی جھوٹ کے مشابہہ ہواسے اختیارمت کرو۔
  • نفس کواپنے مرتبہ کے لیے خوارنہ کرو۔
  • اگرتم بزرگوں کامرتبہ چاہتے ہوتوبادشاہوں کی اولادسے دوررہو۔
  • جب کوئی مومن بیمارہوتواسے معلوم ہوناچاہیے کہ یہ بیماری اس کے لیے رحمت ہے۔ جوگناہوں سے اس کوپاک کرتی ہے۔
  • دوریش فاقے سے مرجاتے ہیں مگرلذت نفس کے لیے قرض نہیں لیتے۔
  • جس دل میں اللہ کاذکرجاری رہتاہے وہ دل زندہ ہے اورشیطانی خواہشات اس پرغلبہ نہیں پاسکتیں۔
  • وہ شے بیچنے کی کوشش نہ کروجسے لوگ خریدنے کی خواہش نہ کریں۔
  • اچھائی کرنے کے لیے ہمیشہ کسی بہانے کی تلاش میں رہو۔
  • دوسروں سے اچھائی کرتے ہوئے سوچوکہ تم اپنی ذات سے اچھائی کر رہے ہو۔
  • ہرکسی کی روٹی نہ کھابلکہ ہرشخص کواپنی روٹی کھلا۔
  • وہ لوگ جودوسروں کے سہارے جینے کاارادہ رکھتے ہیں،وہ تساہل پرست،کم ظرف اورمایوس ہوتے ہیں۔
  • اطمینان قلب چاہتے ہوتوحسدسے دوررہو۔[9]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — ناشر: فرانس کا قومی کتب خانہBnF catalogue général — اخذ شدہ بتاریخ: 7 جون 2021
  2. مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہhttp://data.bnf.fr/ark:/12148/cb14639295m — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  3. K. A. Nizami, "The Life and Times of Shaikh Farid-u'd-Din Ganj-i-Shakar," in Babaji, ed. M. Ikram Chaghatai (Lahore: Sang-e-Meel Publications, 2006), p. 15
  4. "نام و لقب"۔ 22 اکتوبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 اکتوبر 2015 
  5. ^ ا ب بابا فرید گنج شکر کیوں کہلائے۔ عاصِمہ شوکت ~ Ishrat Iqbal Warsi
  6. سیرالعارفین،مصنف حامد بن فضل اللہ جمالی،طبع 1311 ھ مطبوعہ رضوی دہلی
  7. تاریخ مشائخ چشت http://www.elmedeen.com/read-book-5168&&page=179&viewer=text#page-185&viewer-text[مردہ ربط]
  8. http://alqlm.org/xen/threads/بابا[مردہ ربط] فرید الدین گنج شکر/
  9. Error - Forbidden