باطنیہ

مسلمانوں کا ایک گمراہ ترین فرقہ

باطنیہ تمام وہ فرقے جن کا خیال ہے کہ قرآن شریف کی آیتوں کے ظاہر معنی کچھ اور ہیں اور اصلی کچھ اور، قرمطیہ خرمیہ اسماعیلیہ مسلمانوں کے اور مزدکیہ آتش پرستوں کا باطنیہ فرقے خیال کیے جاتے ہیں۔[1]

مسلمانوں کے بعض فرقے جو عباسی خلافت کے زمانے میں نمودار ہوئے۔ ان کی نوعیت دراصل سیاسی تھی۔ البتہ ان کا طریق استدلال مذہبی ہوتا تھا۔ ان کو باطنیہ کہنے کے دو اسباب تھے۔

  1. اول یہ کہ باطنیہ فرقے والے قرآن اور دیگر امور کے داخلی رخ کو ظواہر پر ترجیح دیتے تھے۔
  2. دوسرے یہ کہ سرکاری تشدد کے خوف سے یہ لوگ خفیہ اور پوشیدہ تعلیمات کے قائل تھے۔ اور اپنے مشنریوں کے ذریعے اپنے مذہب کی تعلیمات خفیہ طریقے سے پھیلاتے تھے۔

عموماً باطنیہ ایک اسلامی فرقے کو کہتے ہیں جو حسن بن صباح نامی شخص نے چھٹی صدی میں ایجاد کیا تھا اس نے بلقان کے پہاڑوں میں مصنوعی جنت بنا رکھی تھی یہ لوٹ مارکرتے تھے ڈیڑھ سو سال تک مسلمانوں کو ستاتے رہے یہاں تک کہ خود بادشاہان اسلام بھی ان کے سامنے بے بس تھے انھوں نے کئی جید علما کا قتل کیا بلاآخر ایک بادشاہ رکن الدین بیبرس نے ان کا صفایا کیا۔ تاریخ اسلام میں ایک فرقہ باطنیہ کے نام سے گذرا ہے۔ اس کا ایک مشہور رہنما عبیداللہ القیروانی ہے [2] عام علمائے اسلام بالخصوص دربار خلافت سے وابستہ علما اپنے مخالفین کو بطور تحقیر باطنیہ کہتے تھے۔ باطنیہ دراصلاسماعیلی عقائدکے بہت قریب ہیں۔ اور عام طور پر فرقہاسماعیلی، آغا خانی، رافضی اور خوجا کے لیے باطنیہ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. جامع اللغات، جلد :1صفحہ 386
  2. تفسیر روح القران۔ ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی