اسماعیلی

اہل تشیع کا ایک فرقہ
(آغا خانی سے رجوع مکرر)

اسماعیلی اہل تشیع کا ایک فرقہ ہے جس میں حضرت جعفر صادق (پیدائش 702ء) کی امامت تک اثنا عشریہ سے اتفاق پایا جاتا ہے اور یوں ان کے لیے بھی اثنا عشریہ کی طرح جعفری کا لفظ بھی مستعمل ملتا ہے جبکہ ایک قابلِ ذکر بات یہ بھی ہے کہ اکثر کتب و رسائل میں عام طور پر جعفری کا لفظ اثنا عشریہ اہل تشیع کے لیے بطور متبادل آتا ہے۔ 765ء میں حضرت جعفر صادق کی وفات کے بعد ان کے بڑے فرزند اسماعیل بن جعفر (721ء تا 755ء) کو سلسلۂ امامت میں مسلسل کرنے والے جعفریوں کو اسماعیلی جبکہ موسی بن جعفر (745ء تا 799ء) کی امامت تسلیم کرنے والوں کو اثنا عشریہ کہا جاتا ہے۔ اسماعیلی تفرقے والے حضرت علی، حضرت حسن، حضرت حسین، زین العابدین، محمد باقر اور جعفر صادق علیہم السلام کو اہل تشیع کی طرح اپنے ائمہ مانتے ہیں اور ان کے بعد ساتویں امام اسماعیل بن جعفر صادق اور ان کے بعد محمد بن اسماعیل بن جعفر صادق (746ء تا 809ء) کو اپنے آٹھویں امام کا درجہ دیتے ہیں۔[1]

اسماعیلت کی ابتدا

اسماعیلیہ ان فرقوں کا اسم عام ہے جو امام صادقؑ کی شہادت کے بعد آپؑ کے فرزند اسمعیل یا امامؑ کے پوتے محمد بن اسمٰعیل بن جعفر الصادق کی امامت کے معتقد ہیں اور مختلف ممالک میں مختلف ناموں "باطنیہ، تعلیمیہ، سبعیہ اور حشیشیہ، ملاحدہ، قرامطہ کے ناموں سے جانے جاتے ہیں۔باطنیہ :باطنیہ معنی اسماعیلی دینی تعلیمات کے لیے باطنی معانی کے قائل ہیں۔ گوکہ افواہ عامہ ميں انھیں اس لیے باطنی کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے اعتقادات و احکام کو خفیہ رکھتے ہیں۔ تعلیمیہ:اس نام کا سبب یہ اسماعیلی عقیدہ ہے کہ خدا کی معرفت اور دینی تعلیمات اخذ کرنے کے لیے عقل کافی نہیں ہے تمام متون و احکام اور عقائد و مفاہیم کی تعلیم "امام" معصوم یا امام کے داعیوں کی طرف سے دی جانی چاہیے۔ بالفاظ دیگر: اسماعیلوں کو تعلیمیہ کہا جاتا ہے کیونکہ ان کا اعتقاد ہے کہ بلکہ اس کے لیے ایک امام کی تعلیم و تدریس کی ضرورت ہے جو درحقیقت معلم صادق ہے۔۔۔ سبعیہ: سبعیہ سے ماخوذ ہے بمعنی (سات اماموں کے پیروکار) اور اس نام کا سبب یہ ہے کہ سات امامیوں کا فرقہ، مذہب شیعہ کے اہم مکاتب میں سے ایک تھا۔ حشیشیہ، ملاحدہ و قرامطہ لفظ "حشیشیہ" کا اسماعلیوں پر اطلاق، تاریخی حوالے سے ایک الزام کی حد سے اگے نہیں بڑھ سکا ہے۔ ملاحدہ اور انھیں قرامطہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ اسماعیلیوں کی ایک شاخ حمدان قرمط کے پیرو تھے۔۔مشہور شیعہ عالم شہرستانی کے بقول اسماعیلیہ کا مشہور فرقہ باطنیہ تعلیمیہ ہے۔اس وقت اسماعیلیوں کی نزاری شاخ کے لٸے عام طور پر اسماعیلی لقب استعمال کیا جاتاہے جن کے ہان اونچاسوان امامت جاری ہے۔

ابتداٸی اٸمہ شیعہ اسماعیلیہ

علی بن ابی طالب

حسن ابن علی

حسین بن علی

زین العابدین

محمد باقر

جعفر صادق

اسماعیلیہ کا آغاز اور شیعہ اثناعشری سے علیحدگی کے بعد اٸمہ اسماعیلیہ

  • شیعہ اثناعشری اور شیعہ اسماعیلیہ ساتویں امامت پر الگ الگ ہوئے۔علیحدگی کے بعد اسماعیلیوں کے امامت اسماعیل بن جعفر صادق علیہ السلام سے ہوتے ہوئے آپ کے فرزند محمد بن اسماعیل بن جعفر الصادق کے پاس چلاگیا۔
  • 7 محمد بن اسماعیل سبعیہ یا ہفت امامی اسماعیلی، ان کو آخری امام جانتے ہیں اور ان کی غیبت کے قائل ہیں۔
  • 8وفی احمد امام محمدبن اسماعیل کا سب بڑا بیٹا اور ان کا جانشین اسماعیلیوں کا آٹھویں امام تھا.
  • 11محمد المہدی چوتھے داعی اور پہلے فاطمی خلیفہ جس نے علی الاعلان خود کو اسماعیلیوں کے گیاروان امام کہا اور مہدویت کا اعلان کیا۔
  • 12 مولانالقاٸم پانچویں فاطمی خلیفہ اور باروان امام
  • 13مولاناالمنصور
  • 14مولاناالمغز
  • 15. مولاناالعزیز
  • 16 مولاناحاکم بامرالله چھٹے فاطمی خلیفہ جو سال 1021ھ میں اچانک ہی غائب ہو گئے دروزیہ کا عقیدہ ہے یہی مہدی موعود ہیں جو غائب ہو گئے ہیں .

یہاں سے اسماعیلیہ کے دو گروہ ہو گئے ایک گروہ نے نزار بن معاذ کو اگلا امام جانا اور دوسرے گروہ نے اگلے فاطمی خلیفہ احمد مستعلی کو امام بنا لیا اسی لحاظ سے نزاریہ اور مستعلیہ کہلائے۔

ائمہ مستعلیہ

یہاں سے مستعلیہ فرقہ نمودار ہوتا ہے جو خود کو دعوت قدیم والا کہتے ہیں۔

  1. احمد مستعلی
  2. امیر بن مستعلی
  3. طیب ابوالقاسم

یہاں سے مستعلیہ کے دو گروہ ہو گئے۔ ایک گروہ مستعلیہ طیبیہ ہے اور دوسرا مستعلیہ حافظیہ ہے۔

مستعلیہ طیبیہ کے داعی مطلق

مستعلیہ طیبیہ وہ ہیں جو طیب ابوالقاسم کو اپنا آخری امام جانتے ہیں اور ان کی غیبت کے قائل ہیں۔ اور ان کے نائبین داعی مطلق کہلاتے ہیں۔ ان کو بوہرہ جماعت بھی کہتے ہیں۔

آج کل تمام مستعلیہ، مستعلیہ طیبیہ یا بوہرہ ہی ہیں۔ یہ یمن اور بھارت میں رہائش پزیر ہیں۔

تمام بوہروں کے 26 داعی مطلق مشترکہ ہیں۔ جن کو سب مانتے ہیں۔ بعد میں ان کا داعی مطلق میں اختلاف ہو گیا تو یمن میں ان کو سلیمانی بوہرہ کہا جاتا ہے۔ اور بھارت میں داؤدی بوہرہ کہا جاتا ہے۔ اور جو سنی ہو گئے وہ صغیری بوہرہ کہلاتے ہیں۔

داؤدی بوہرہ کے داعی مطلق

داؤدی بہرہ کے ایک بہت چھوٹے گروہ علوی بوہرہ کو 1980 ء سے ضیاء الدین صاحب بطور 44 ویں داعی مطلق گجرات کے علاقہ برودہ میں چلا رہے ہیں۔ داؤدی بوہرہ کے 29 ویں داعی مطلق کے انتخاب پر علی بن ابراہیم کے اختلاف پر اس گروہ کو علوی بوہرہ کہا جاتا ہے۔ علوی بوہرہ کی وب گاہ

مستعلیہ حافظیہ کے ائمہ

مستعلیہ حافظیہ وہ ہیں جو امامت کو اگلے تخت نشین فاطمی خلفاء میں ہی جاری سمجھتے تھے۔ یہ گروہ فاطمی خلفاء کے ختم ہوتے ہی اختتام پزیر ہو گیا۔

  1. الحافظ
  2. الظافر

ائمہ43. نزاریہ

یہاں سے نزاریہ فرقے کا آغاز ہوتا ہے۔ جو ابومنصور نزار بن معاذ المصطفی لدین الله کو خلیفہ مانتے تھے۔ یہ دعوت جدید والے کہلاتے ہیں۔ ان کے مخالفین ان کو (حشاشین) کہتے ہیں۔

یہاں نزاریہ کے دو فرقے ہو گئے ایک گروہ مؤمنیہ کہلایا جو شمس الدین کے بڑے بیٹے مؤمن کو امام مانتے ہیں۔ دوسرا قاسمیہ جو شمس الدین کے دوسرے بیٹے قاسم شاہ کو امام مانتے ہیں۔ مؤمنیہ کے بقیہ امام یہ ہیں

  1. مومن بن محمد
  2. محمد بن مومن
  3. رضی الدین بن محمد
  4. طاہر بن رضی الدین
  5. رضی الدین دوم بن طاہر
  6. طاہر بن رضی الدین دوم
  7. حیدر بن طاہر
  8. صدر الدین بن حیدر
  9. معین الدین بن صدر الدین
  10. عطیۃ اللہ بن معین الدین
  11. عزیز بن عطیۃ اللہ
  12. معین الدین دوم بن عزیز
  13. محمد بن معین الدین دوم
  14. حیدر بن محمد
  15. محمد بن حیدر (امیر باقر)

یہاں مؤمنیہ نزاریہ کی امامت کا سلسلہ امام محمد بن حیدر امیر باقر، چالیسویں امام پر سنہ ١٢١ ٠ ھ میں رک گیا۔

لیکن قاسمیہ نزاریہ کا (یعنی جو قاسم شاہ کو امام مانتے ہیں) ان کی امامت کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔اور موجودہ زمانے میں صرف انھیں اسماعیلی نام سے پہچانا جاتا ہے۔اور ان کیلٸے اسماعیلی لقب عام طور پر زیادہ استعمال ہوتا ہے۔

اور آج کل نزاریہ کے اس بڑے گروہ (یعنی قاسمیہ نزاریہ) کو ان کے آخری چار اماموں کی لقب آغاخان کی وجہ سے بعض ممالک میں آغا خانی کہا جاتا ہے۔

اسماعیلیت میں مہدویت کا تصور

اسماعیلی فلسفہ و تعلیمات کے مطابق مہدی کوٸی ایک مخصوص شخص کا نام نہیں ہے بلکہ یہ دنیا میں انصاف لانے اور ظلم و ناانصافی سے نجات دلانے اور لوگوں کو ہدایت دینے کا ایک میشن ہے۔جو اسماعیلی نظریات کے مطابق یہ کام چند اسماعیلی اٸمہ کے ذریعہ انجام دیا گیا۔۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بیان کے مطابق مہدی نو یا سات ہونا تھا جیساکہ کتاب الفتن باب خروج المھدی  میں بیان ہوا ہے کہ

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَرْوَانَ الْعُقَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا عُمَارَةُ بْنُ أَبِي حَفْصَةَ، عَنْ زَيْدٍ الْعَمِّيِّ، عَنْ أَبِي صِدِّيقٍ النَّاجِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ النَّبِيَّ ـ صلى الله عليه وسلم ـ قَالَ ‏ "‏ يَكُونُ فِي أُمَّتِي الْمَهْدِيُّ إِنْ قُصِرَ فَسَبْعٌ وَإِلاَّ فَتِسْعٌ فَتَنْعَمُ فِيهِ أُمَّتِي نَعْمَةً لَمْ يَنْعَمُوا مِثْلَهَا قَطُّ تُؤْتَى أُكُلَهَا وَلاَ تَدَّخِرُ مِنْهُمْ شَيْئًا وَالْمَالُ يَوْمَئِذٍ كُدُوسٌ فَيَقُومُ الرَّجُلُ فَيَقُولُ يَا مَهْدِيُّ أَعْطِنِي فَيَقُولُ خُذْ ‏"‏ ‏

ترجمہ۔مہدی میری امت میں ہوں گے۔  اگر وہ قلیل مدت تک زندہ رہے تو سات ہو جائیں گے اور اگر زیادہ عرصہ زندہ رہے تو نو ہو جائیں گے، اس دوران میری امت اس قدر خوش حال ہو گی کہ اس سے پہلے کبھی نہ ہوئی ہوگی۔  زمین اپنی پیداوار لائے گی اور کچھ بھی نہیں روکے گی اور اس وقت دولت کا ڈھیر لگا دیا جائے گا۔  ایک آدمی کھڑا ہو گا۔ اور کہے گا: اے مہدی! مجھے کچھ دیں، وہ جواب دیں گے: لے لو (اس ڈھیر میں سے جتنا جی چاہے)“

جیسا کہ دنیا میں انصاف لانے اور ظلم و ناانصافی سے نجات دلانے والے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد کو المہدی کہا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے "خدا کی طرف سے صحیح رہنمائی کرنے والا"۔  سنی مسلمان، شیعہ اثناعشری مسلمان  اور بہت سے صوفی پیغمبر کی اس اولاد سے توقع کرتے ہیں کہ مہدی ایک واحد  شخص ہوگا جو قیامت سے کچھ دیر پہلے مستقبل میں ظاہر ہوگا اور جو پوری دنیا کو ناانصافی سے نجات دلاتا ہے اور راحت پہنچاتا ہے۔  جبکہ اس کے برعکس  شیعہ اسماعیلی ائمہ اور اسماعیلی مسلم مفکرین نے وضاحت کی ہے کہ مہدویت یا المہدی ایک فرد نہیں ہے بلکہ درحقیقت پیغمبر محمد ﷺ اور آپ ﷺ کے داماد امام علی ابن ابی طالب کی اولاد میں سے کچھ موروثی شیعہ اسماعیلی ائمہ کرام کے ذریعہ انجام دیا گیا ایک نظام کو مہدیت کہلاتے ہیں جس دور میں منصب امامت کے ساتھ منصبت خلافت بھی امام کے پاس ہو۔ایسے زمانے کو دورِمہدویت کا زمانہ کہلاتاہے۔مگر اس کا اغاز دور ستر یعنی مستوراماموں کے بعد شروغ ہونا تھا۔ اس صورت میں اسماعیلی مفکرین نے  تاریخ میں بنو امیہ اور عباسیوں کے دور خلافت کے بعد کی فاطمی دور کو المہدویت کا زمانہ مانتے ہیں۔اسماعیلی عقیدہ و نظریات کے مطابق جب ابتداٸی دور کے اسماعیلیوں کے دور ستر کا اعاز ہوا تو اسماعیلی اٸمہ مخالفین کی وجہ سے مستور یعنی پوشیدہ طور پر زندگی گزارنے پر مجبور ہوگٸے۔اس زمانے کو اسماعیلیت میں دورستر کا زمانہ کہتے ہیں۔دور ستر کے بعد دور کشف کا اغاز ہوا تو مہدیکاظہور ہوا۔۔ یعنی اسماعیلی تعلیمات میں مختلف ادوار ہوتی ہیں جیسا کہ ابتداٸی دور۔دور ستر۔دور کشف۔فاطمی دور۔نزاری دور جس دور کو دور قیامت بھی کہاجاتا ہے۔یاد رہے کہ نزاری فلسفہ امامت کی دورقیامت کے زمانے میں اسماعیلی ایک امام حسن زکریا نے شریعت کو اسماعیلیوں کیلٸے حقیقت کے نام پر ختم کرکے نیا طریقہ راٸج کیا تھا۔۔آج بھی اسماعیلی اس نظریہ پر قاٸم ہے۔نزاری اسماعیلی مہدیویت کا زمانہ اسماعیلی دورستر کے بعد اسماعیلی گیاروان امام المہدی سے لے کر اسماعیلی اٹھاروان امام المستنصر باللہ کے زمانے کو کہا جاتا ہے۔جو فاطمی خلافت کے حکمران اور اسماعیلی امام رہے ہیں۔اسماعیلیوں کا مانناہے کہ پوری تاریخ میں صرف چند ائمہ کے پاس ہی عدل و انصاف کے قیام اور دنیا سے ظلم و ناانصافی کو دور کرنے کے اس عظیم مشن کو انجام دینے کا عملی ذریعہ حاصل ہوا ہے۔جو فاطمی حکومت اور اسماعیلی امامت کا ایک ساتھ ہونا تھا۔ کیونکہ تاریخ میں زیادہ تر اسماعیلی اماموں پر بہت زیادہ ظلم ہوا ہے۔جسوجہ سے انھیں امامت کے ساتھ خلافت نہیں ملاہے۔ اور جبکہ فاطمی خلافت کے بانی، امام عبد اللہ المہدی اور باقی سات اٸمہ قاٸم۔منصور۔معز۔عزیز۔حاکم۔ظاہر۔مستنصر بااللہ جو فاطمیوں کے نزاری جماعت  اور مستعلیوں کے  مشترکہ امام اور فاطمی خلفاء رہے ان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ امامت اور خلافت  کے عظیم میشن کو انجام دینے کا موقع انھیں ملا ہے۔۔اس دور کو اسماعیلت میں مہدی کا دور کہتے ہیں جو تقریباً 297 سال تک خلافت قاٸم رہے۔اسماعیلیوں کا ماننا ہے کہ فاطمی خلفاء ہر ایک نے مہدی کا نظام یا مشن کو انجام دیا۔  اس لیے مہدی ایک مشن ہے جسے کئی شیعہ اسماعیلی اماموں نے انجام دیا ہے نہ کہ کسی مخصوص فرد نے اور اج کی صدی کے جدیدیت میں آغاخان ڈیلوپلمنٹ نیٹورک نام کے ادارہ جاتی نظام بھی اس میشن کو فروع دینے کا ذریعہ ہے۔جو فاطمی خلفاء کا میشن تھا۔ ”اسماعیلیوں کا کہنا ہے کہ اسماعیلی امامت کے مرکزی نظام امامت کے امور کی بنیادیں اور مقاصد اس دور جدید میں آغا خان ڈیولپمنٹ نیٹ ورک کے ذریعے مکمل ہو رہی ہیں، سنی اور شیعہ دونوں کے کتب میں پیغمبر اسلام ﷺ کی متعدد (احادیث) بیان کی گٸی ہیں کہ کس طرح پیغمبر اسلام کی براہ راست اولاد میں سے ایک دنیا میں انصاف قائم کرے گا اور زمین کو ہر طرح کی ناانصافی، ظلم اور غربت سے نجات دلائے گا۔  پیغمبر اسلام نے حضرت امام علی ابن ابی طالب اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے سلسلہ میں اپنے اہل بیت کے رکن کے طور پر اپنی آنے والی نسل کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔۔جس سے مہدویت کہتے ہیں۔۔

اسماعیلی امام المعز جو فاطمی خلفاء بھی رہا ہے انھوں  مزید کہا: "اگر یہ [مہدیویت یعنی مہدی کا مشن] صرف ایک شخص کا حصہ ہونا چاہیے ہوتا تو اس میں سے کوئی چیز مجھ تک کیسے پہنچ سکتی ہے۔  المہدی وہ کنجی تھے جس نے خدائی فضل، رحمت، برکت اور سعادت کا قفل کھولا۔  اس کے ذریعہ خدا نے یہ سب اپنے بندوں پر کھول دیے ہیں۔  اور یہ اس کے بعد اس کے جانشینوں میں جاری رہے گا، یہاں تک کہ خدا کا وہ وعدہ جو اس نے اپنے فضل، طاقت اور قدرت سے ان سے کیا تھا، پورا نہ ہو جائے۔

اس طرح، فاطمی خلیفہ کے طور پر حکومت کرنے والے اسماعیلی اماموں نے اپنے تمام ائمہ کے خاندان پر مہدی اور مہدیون کی اصطلاح کا اطلاق کیا۔  فاطمی امام-خلفاء کے عوامی خطبوں میں، وہ ہمیشہ اپنے آپ کو "مہدی الست" (المہدیون) اماموں اور خلفاء کے طور پر کہتے ہیں۔  اس لیے اسماعیلی تعلیمات کے مطابق مہدی کی اصطلاح صرف ایک فرد کی بجائے متعدد اسماعیلی اماموں پر لاگو ہوتی ہے۔  ہر اسماعیلی امام جو پوری دنیا میں عدل کے قیام اور ہمدردی پھیلانے کے مشن کو انجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے اسے المہدی کہا جاتا ہے کیونکہ وہ مہدی کے مشن کو انجام دیتا ہے۔

پہلا فاطمی حکمران عبیداللہ مہدی نے تو کھلم کھولا مہدی معود ہونے کا اعلان کیااور فاطمی خلافت کا قیام کیا۔اس کے بعد اس کے جانیشین القائم نے 302 میں الخلفاء الراشدین المہدیین پر خدا کی رحمتیں مانگیں۔  المنصور کے پہلے خطبہ میں اس نے اپنے دادا کے لیے ابن المہدویین 'مہدیوں کے بیٹے' کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔  بعد ازاں اسی خطبہ میں اس نے الحادۃ المہدیین کا حوالہ دیا، ’’صحیح رہنمائی کرنے والے‘‘۔  اس کے بعد کے ایک خطبہ میں اس نے المہدی کو وارث فاضل العائمہ المہدیین من ابیحی الخلفاء الراشدین کے طور پر بیان کیا ہے، جو مہدی الائمہ کی فضیلت کے وارث ہیں، ان کے صحیح معنوں میں خلیفہ کے رہنما ہیں۔  اسی خطبہ میں اس نے المہدی کو ’’صحیح ہدایت یافتہ ائمہ کی ممتاز اولاد‘‘ (نجیب الائمہ المہدیین) کہا ہے۔  جملہ الائمہ المہدیین بعد کے خطبوں میں معیاری ہو جاتا ہے۔  اور یہ بہت سے سیاق و سباق میں باقاعدگی سے ظاہر ہوتا ہے

دستاویزات اور خطبات — پورے فاطمی دور میں۔

  (فاطمی خلفاء کی تقریریں، باب 2، 70-71

عبیداللہ المہدی کا اعلان مہدویت

عبیداللہ مہدی جو مہدی نام سے 297ھ مغرب افریقا) میں ظاہر ہوا۔ اسماعیلیوں کے عقیدے میں مہدویت کا آغاز اس کے زمانے سے ہوا۔ اس کا پورا نام عبیداللہ مہدی تھا۔لقب مہدی تھا۔مہدی کے داعی عبد اللہ الشیعی کے دعوت پر بنو کتامہ کے لوگوں نے مقام ابراہیمی پر مہدی کے ہاتھ میں بیعت کرکے آپ کو مہدی معود قبول کیا جس سے آپ کی شہرت میں مزید اضافہ ہوا۔اس کے دور حکومت اور دور امامت کے زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بتائے ہوئے دورِ فتن کے زمانے کی ایک پیشنگوئی اس وقت پوری ہو گئی جب کہ اسماعیلیوں سے جدا ایک گروہ جو قرامطہ نام کے جماعت نے اسلام کو بہت نقصان پہنچایا۔قرامطی اس لیے ان کو کہا جاتا تھا کہ اس گروہ کے بانی حمدان ابن اشغث چھوٹی چھوٹی پنڈلیوں والی شخص تھا یعنی نزدیک نزدیک قدم ڈال کر چلتا تھا یہ شخص چوں کہ پستہ قد تھا اور پاس پاس پاؤں رکھ کر چلتا تھا اس لیے وہ قرمط کہلانے لگ گئے اس لیے ان کی مرکوز گروپ کا نام بھی قرامطہ بن گئی۔جس کے مرکوز گروپ نے ابو طاہر سلیمان الجنابی کی سربراہی میں خانہ کعبہ پر حملہ کرکے کئی حاجیوں کو قتل کیا اور حجره اسود کو چوری کرکے یمن لے گئے بائیس سال عرصے تک حجرہ اسود ان کے قبصہ میں رہا اس کے بعد واپسی ہوگئ۔اس واقعہ سے بھی فاطمی بادشاہ المہدی کے حمایتیوں نے دعوی کیا کہ یہ واقعہ کا پیشنگوئی حضورﷺ نے پہلے ہی کیا تھا۔اس وجہ سے مہدی کی شہرت میں مزید اضافہ ہوگئ اور باالاخر اس نے فاطمی حکومت قائم کیا جسے دولت فاطمیہ کا نام دیا گیا۔۔اور اسماعیلیوں کے مطابق دولت فاطمیہ۔یا فاطمی خلافت مہدیت کا قیام تھا۔جو المہدی کے بعد سات اٸمہ تک منظم طریقوں قاٸم رہا۔اس کے بعد فاطمی خلافت تقسیم ہوگٸی۔اور مستعلیوں نے حکومت پر قبصہ کیا اور نزاری مصر سے ایران کی طرف ہجرت کرگٸے۔



اسماعیلی تسبیحات

اسماعیلی فرقہ میں تسبیحات پڑھنے کو بہت اہمیت دیا جاتا ہے۔اور اسماعیلیوں کے ہاں مختلف قسموں اور اوقات کی تسبیحات پڑھی جاتی ہے۔جن میں صبح و شام کی تسبیح۔مشکل آسان کی تسبیح۔چاندرات کی تسبیح۔پیر بھائی کی تسبیح۔بیت الخیال کی تسبیح وغیرہ وغیرہ تسبیحات پڑھی جاتی ہے۔

اسماعیلی تعلیمات میں تسبیح پڑھنے کی اہمیت

تسبیح کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی، بزرگی، حمد اور عظمت بیان کرنا۔ اس کے علاوہ ہر قسم کی قولی، فعلی اور قلبی عبادات بھی تسبیح میں شامل ہوتی ہیں۔ تسبیح کے متعلق قرآن حکیم میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ : سُبُحْنَهُ وَتَعَلَى عَمَّا يَقُولُونَ عُلُوًّا كَبِيرًا ) تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَوتُ السَّبْعُ وَالْأَرْضُ وَمَنْ فِيُهِنَّ ، وَ إِنْ مِّنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِن لَّا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُم - (44-17:43) جو کچھ یہ لوگ کہتے ہیں اُس سے وہ کہیں زیادہ پاک اور برتر ہے۔ ساتوں آسمان اور زمین اور جو کچھ اُن میں ہے اُس کی پاکیزگی بیان کرتے ہیں۔ اور کوئی چیز ایسی نہیں جو حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کرتی ہو لیکن تم اُن کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ہو۔“

اللہ تبارک و تعالی تمام کائنات کا خالق، مالک اور ربّ ہے اور اُس کی ذات یکتا ہر قسم کی عبادات اور تعریفوں کے لائق ہے۔ مندرجہ بالا آیت اسی حقیقت کو ظاہر کرتی ہے کہ کائنات کی ہر چیز کسی نہ کسی انداز میں اپن پروردگار کی تسبیح پڑھتی ہے۔ یہ تصیح زبانِ حال سے بھی ہوتی ہے اور زبانِ قال سے بھی۔ یعنی یہ ساری کائنات اور اس کی ہر چیز اپنے پورے وجود سے اس حقیقت پر گواہی دے رہی ہے جس ہستی نے اُن کو پیدا کیا ہے اور جو ان کی پرورش اور نگہبانی کر رہی ہے وہ ذات ہر قسم کے عیب، نقص اور کمزوری سے پاک ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت امام جعفر الصادق علیہ السلام سے منقول ہے۔

کہ دیواروں کے گرنے سے جو آواز نکلتی ہے وہ بھی تسبیح ہے۔ نیز حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے دریافت کیا گیا کہ کیا  سوکھے ہوئے درخت بھی تسبیح کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ ضرور کرتے ہیں۔ کیا تم نے گھر کی کھڑکیوں کو چھٹتے ہوئے نہیں سُنا؟ بس یہی اُن کی تسبیح ہے۔ (تفسیر المتقین)

قرآن حکیم میں ایک اور مقام پر اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے کہ : أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُسَبِّحُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَالطَّيرُ صَفَتٍ كُلِّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهُ وَ تَسْبِيحَهُ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِمَايَفْعَلُونَ (24:41) " کیا تو نے اتنا بھی نہیں دیکھا کہ جتنی مخلوقات سارے آسمانوں اور زمین میں ہیں اور پر پھیلائے ہوئے پرندے (غرض سب) اُسی کی تسبیح کیا کرتے ہیں۔ سب اپنی صلوٰۃ اور اپنی تسبیح کا طریقہ خوب جانتے ہیں۔ اور جو کچھ یہ کیا کرتے ہیں اللہ اس سے خوب واقف ہے۔ حضرت داؤد علیہ اسلام کے تذکرے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ : إِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهُ يُسَبِّحْنَ بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْرَاقِ ل وَالطَّيْرَ مَحْشُورَة كُلٌّ لَّهُ أَوَّابٌ ( 19-18 :38) یقیناً ہم نے پہاڑوں کو (حضرت داؤد علیہ السلام) کے تابع کر دیا تھا۔ وہ اس کے ساتھ سورج ڈھلنے اور سورج نکلنے کے وقت تسبیح کیا کرتے تھے اور پرندے بھی اکٹھے کیے ہوئے۔ سب اس کے حضور میں بہت رجوع ہونے والے تھے۔“

آسمان میں گرجنے والے بادل اور فرشتوں کے متعلق ارشاد ہے کہ : وَيُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهِ وَالْمَلَئِكَةُ مِنْ خِيفَتِهِ (13 :13) اور گرج اس کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتا ہے اور سب فرشتے اس کے خوف سے (تسبیح کرتے ہیں)۔

اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں کے متعلق ارشاد ہے کہ : وَلَهُ مَنْ فِي السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ ، وَ مَنْ عِندَهُ لَا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَلَا يَسْتَحْسِرُونَ ، يُسَبِّحُونَ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ لَا یفترون (21:19, 20)   اور جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہے سب اس کے لیے ہے اور جو اس کے حضور میں ہیں وہ نہ تو اس کی عبادت سے سرکشی کرتے ہیں اور نہ وہ تھکتے ہیں۔ وہ رات اور دن تسبیح کرتے رہتے ہیں، سستی نہیں کرتے ۔ “

پس جب کائنات کی ہر چیز کسی نہ کسی انداز میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے تو پھر انسان جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ان تمام چیزوں کو پیدا کیا ہے اور جس کو تمام مخلوقات سے اشرف قرار دیا گیا ہے کس طرح اس عمل سے دُور رہ سکتا ہے؟ جیسا کہ پیر صدر دین اپنے کلام میں فرماتے ہیں کہ : اے جی جھیٹا جھیٹا کینک پینگ پکھی اواخیک پراٹیا ، ایوا سر دے جیو اُٹھی صاحب جی کو دھیان دھرے، کو کائے سوتو بند را زھری بھوڑا مورکھ پرانی ، ایوا ... گنان " ایجی ست ونتی جاگو، پاٹھ نمبر8.

"اے بھائی ! چھوٹے چھوٹے کیڑے، پروانے ، پرندے، بے زبان مخلوق ایسی سب مخلوق صبح اُٹھ کر مولا کو یاد کرتی ہیں۔ اے بھولے نادان انسان ! تو کیوں نیند میں سویا ہوا ہے؟"

چنانچہ انسانوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا کہ : يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللهَ ذِكْرًا كَثِيرًا لا وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَ أصيلا 0 (42-41 :33) ”اے لوگو جو ایمان لا چکے ! اللہ تعالیٰ کو یاد کرو بہت یاد کرنا اور صبح و شام اس کی تسبیح کیا کرو۔“

نیز قرآن حکیم کی متعدد آیات سے اس حقیقت کی دلیل ملتی ہے کہ ہر انسان کی روح کا تعلق روح کل یعنی اللہ تعالٰی کے نور کے ساتھ ہے اور یہ نور ہی روح انسانی کی اصل اور اس کا مرکز ہے۔ مگر انسان اپنے بُرے اعمال، حُبّ دُنیا اور ذکر الہی سے غفلت کی وجہ سے اپنی اصل سے دُور ہوتا چلا جاتا ہے۔ عدل الہی اور رحمت خداوندی کا یہ تقاضا ہے کہ وہ انسان کے لیے ایسے ذرائع فراہم کر دے جو اس کی روح کو اپنی اصل سے قریب ہونے میں مدد دے سکیں۔ چنانچہ مندرجہ ذیل آیت کے ذریعہ اللہ تعالی نے اس جانب اپنی حجت تمام کردی۔ جیسا کہ ارشاد ہے کہ : ولِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أسمائه ۔

(7:180)

اور اللہ تعالیٰ کے اچھے اچھے نام ہیں پس اسے انہی سے پکارو۔ اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے نام میں کفر کرتے ہیں۔“ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کو اس کے ناموں کے ذریعہ پکارنے کے حکم پراگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ معنوی اعتبار سے یہ ایک انتہائی وسیع فرمان ہے۔ کو یا اس میں یہ فرمایا گیا ہے کہ خداوند تعالی ہی تمھاری روح کا منبع و مرکز ہے، اس سے قریب ہونے کے لیے اسے پکارو۔ روح کل کے ساتھ اپنے روحانی رشتے کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے کے لیے اسے پکارو۔ وہی تمھارا ولی و ناصر ہے، اس کو مدد کے لیے پکارو۔ اس کے نام میں مٹھاس ہے اس سے لطف اندوز ہونے کے لیے پکارو۔ اس کے نام روحانی خزانوں کی چابیاں ہیں، ان خزانوں تک رسائی کے لیے اُن کا ذکر کرو۔ اس کے ذکر میں دلوں کے لیے سکون اور اطمینان ہے، اپنے بے چین اور بے قرار دل کی تسکین کے لیے اسے یاد کرو کیونکہ اس کا یہ بھی فرمان ہے کہ : الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ اللَّهِ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ القُلُوبُ (13:28) جو لوگ ایمان لا چکے اور ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان پاتے ہیں۔ آگاہ ہو جاؤ، دل اللہ تعالیٰ کے ذکر سے ہی اطمینان پاتے ہیں۔“ ایک اور بات جسے ذہن نشین کر لینی چاہیے وہ یہ ہے کہ انسان وقتاً فوقتاً اس دُنیا میں مختلف قسم کی تکالیف اور آفات میں مبتلا ہوتا رہتا ہے۔ ایسی حالت میں جہاں اسے ان مشکلات سے نجات کے لیے ہر ممکن تدابیر اختیار کرنی چاہیے وہاں دوسری جانب اسے صبر، ہمت اور مشکلات کی آسانی کے لیے ذکر و تسبیح کی جانب بھی توجہ دینی چاہیے کیونکہ بالآخر یہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جو طاقت کا سب سے بڑا سر چشمہ ہے اور وہیں سے اسے مدد حاصل ہو سکتی ہے جیسا کہ ارشاد ہے کہ : امَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ (62 : 27)

بھلا کون ہے جو بے قرار دل کی دُعا قبول کرتا ہے جس وقت بھی وہ اُسے پکارے اور مصیبت کو دور کر دیتا ہے؟“

انبیا علیہم السلام پر کی جانے والی رحمتوں کے تذکرے میں حضرت یونس علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ : وَذَا النُّونِ إِذْ ذَهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادَى فِي الظُّلُمَتِ أَنْ لا إِلَهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَنَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّلِمِينَ 8 فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَ نَجَّيْنَهُ مِنَ الْغَمْ وَ كَذَلِكَ نُنَجِي الْمُؤْمِنِينَ .(21:87-88) اور ذوالنون (مچھلی والا یونس ) جبکہ وہ غضبناک ہو کر چلا گیا تو اس کو یقین تھا کہ ہم ہرگز اس پر روزی تنگ نہ کریں گے، پس اس نے (مچھلی کے پیٹ کے) اندھیروں میں پکارا کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے، یقیناً میں نقصان اُٹھانے والوں میں سے تھا۔ پس ہم نے اس کی فریاد سُن لی اور اُسے غم سے نجات دے دی اور ہم مومنوں کو اسی طرح نجات دیا کرتے ہیں۔“

حضرت یونس علیہ السلام کی اس تسبیح کا ذکر کرتے ہوئے ایک مقام پر

اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ : فَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ ) لَلَبِثَ فِي بَطْنِةٍ إِلَى يَوْمِ ييُعدُّونَ 6 (144-37:143) " پس یقیناً اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتا تو ضرور وہ اس (مچھلی) کے پیٹ میں جی اٹھنے کے دن (قیامت) تک پڑارہتا۔“

جس طرح انسان اپنی دُنیوی خوشی کے بار بار تذکرے سے خوشی محسوس کرتا ہے اور غم کے ذکر سے غمگین ہو جاتا ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ کے پاک ناموں کے ذکر سے مومن کے دل میں پاکیزگی اور روحانی سکون کی برکات کا احساس پیدا ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا نام ہر قسم کی برکات کا سرچشمہ ہے۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالی ہے :

تَبْرَكَ اسْمُ رَبِّكَ ذِي الْجَلْلِ وَالْإِكْرَامِ 6 (55:78) " بڑا با برکت ہے تمھارے پروردگار کا نام جو صاحب جلالت و بزرگی ہے۔"

جب اللہ تعالیٰ اتنی تاکید کے ساتھ اپنے بندوں کو تسبیح پڑھنے کا حکم فرماتا ہے اور اپنے اسمائے حسنیٰ کے ذریعہ اسے پکارنے کا حکم دیتا ہے تو اس کے ساتھ اس حقیقت کو بھی جان لینا چاہیے کہ وہ اسماء، کلمات یا الفاظ جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی تصیح کی جانی چاہیے ان کی نشان دہی بھی پیغمبر" زمانہ یا زمانے کے امام کی طرف سے کی جاتی ہے کیونکہ ہادی زمانہ روحانی طبیب کی حیثیت رکھتا ہے اور مومنین کی باطنی اور روحانی ضروریات کے متعلق ان سے بڑھ کر اور کوئی آگاہ نہیں ہوتا۔ عہدِ نبوی کے مطالعے سے ایسے بہت سے واقعات ہمارے سامنے آتے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ آنحضور صلعم اپنے دور میں مسلمانوں کو ذکر و تسبیح کے لیے مختلف اسماء و کلمات کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر سیرتوں پر مبنی کتابوں میں آیا ہے کہ ایک مرتبہ ام ہانی( رح) نے آنحضرت صلعم سے گزارش کی کہ اب میں بوڑھی ہو گئی ہوں اورچلنے پھرنے سے کمزوری محسوس ہوتی ہے اس لیے کوئی ایسا عمل بتائیے جو بیٹھے بیٹھے انجام دے سکوں۔ آپ نے ایک وظیفہ بتلایا اور فرمایا کہ : سُبحان الله ایک سو مرتبہ الْحَمْدُ لِله ایک سو مرتبہ ، الله اکبر ایک سو مرتبہ اور لَا إِلَهَ إِلَّا الله ایک سو مرتبہ کہا کرو (سیر الصحابیات از مولانا سعید انصاری، صفحہ 135 بحوالہ مسلم)پیغمبر صلعم کے بعد ائمہ علیہم السلام اس جانب مومنین کی رہنمائی فرماتے رہے ہیں۔ مومنین کے لیے امامِ زمان کی ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے کہ دونوں جہاں میں جو بہترین ہے وہ انھیں نصیب ہو۔ چنانچہ امام زمان جہاں دنیوی اور روحانی معاملات میں ہماری رہنمائی فرماتے رہتے ہیں وہاں ہمیں ایسی عبادات اور تسبیحات بھی بتاتے ہیں جو ہماری دنیوی و روحانی مشکلات و آفات کی شدت کو کم کرنے اور انھیں برداشت کرنے کی ہمت حاصل کرنے میں ہماری مدد کرتی ہیں۔ نیز مشکل حالات میں عبادت کے عمل کو آسان تر بنانے میں بھی ہماری مدد کرتی ہیں۔ جیسا کہ حضرت امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے فرمایا کہ : شام کی دُعا کے وقت آپ جہاں کہیں بھی ہوں، کھیت میں یا راستے میں جہاں بھی ہوں دُعا گزار لینا، چوکنا نہیں۔ اگر آپ کو دُعا پڑھنا نہ آتا ہو تو ” پیر شاہ“ کے نام کی بارہ تسبیح پڑھنا۔ بارہ تسبیح اور بارہ سجدے پورے ہونے سے آپ کی دُعا قبول ہوتی ہے۔ بارہ تسبیح پڑھنے تک دُعا کا وقت بھی پورا ہو جاتا ہے۔ اگر آپ کا کاروبار کھیتی باڑی کا ہے تب بھی یہ کھیتی باڑی کا کاروبار آپ کو مذہب پر عمل کرنے سے نہیں روکتا۔“

(کچھ کھد ریسر، 1903-11-23)

ایک اور مقام پر مولا نے فرمایا کہ : ہر ایک مومن پر واجب ہے کہ وقت پر دُعا بندگی ادا کرے۔ اگر دعا پڑھنا آپ کے لیے ممکن نہ ہو تو پیر شاہ یا امام یا محمد یا علی اور یا خدا کے نام کی ایک تسبیح پڑھے تو ہم اُن کو دُعا کے طور پر قبول فرمائیں گے۔“ (بمبئی، 1950-1-14)

نیز مولانا حاضر امام نے مورخہ 1962-5-16 کو اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان کے پریذیڈنٹ کے نام اپنے تعلیقہ مبارک میں فرمایا کہ : ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمارے اُن روحانی بچوں کو جو اب تک نئی عربی دُعا نہیں جانتے اور ہمارے بڑی عمر کے روحانی بچوں کو بھی جن کے لیے دُعا سیکھنا ممکن ہی نہ ہو، آگاہ کریں کہ وہ دُعا کی جگہ مندرجہ ذیل تسبیحات پڑھ سکتے ہیں : شام کی دُعاؤں کے لیے تین تسبیحات :با آسانی یاد کر سکتا ہے۔ مندرجہ بالا فرامین کے حوالے سے محض یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ عبادت بندگی اور ذکر و تسبیح کے طریقے کی نشان دہی کرنا زمانے کے امام کا کام ہے۔ اس لیے مومنین کو چاہیے کہ امام زمان کی جانب سے عبادت و بندگی اور ذکر و تسبیح کے لیے جو طریقہ دیا جائے اسی پر عمل پیرا ہوں۔

چنانچہ جماعت خانوں میں جو تسبیحات پڑھی جاتی ہیں وہ زمانے کے امام کی جانب سے عنایت شدہ یا منظور شدہ ہیں جن کے ساتھ امام زمان کی دُعائیں بھی شامل ہیں۔ چونکہ امام زمان اپنے روحانی بچوں کے لیے ہمیشہ بہترین چاہتے ہیں اس لیے ظاہر ہے کہ آپ جو تسبیحات ہمیں عنایت فرماتے ہیں وہ ہمارے لیے بہترین ہیں۔

یا الله یا عَلِی اور يَا مُحَمَّدٌ

صبح کی دُعا کے لیے چار تسبیحات : يَا ا يا الله، يَا وَهَاب يَا عَلِی اور اللهُ الصَّمَد اس مقام پر یہ واضح رہے کہ مندرجہ بالا فرامین اور اسی نوعیت کے دیگر فرامین اس دور کے ہیں جب دُعا بہت طویل تھی یا عربی دُعا حال ہی میں نافذ ہوئی تھی جسے زبانی یاد کرنا ہر ایک کے لیے اور خاص طور پر بڑی عمر کے لوگوں کے لیے ممکن نہ تھا اس لیے زمانے کے امام کی جانب سے ان کے لیے آسانی فراہم کی گئی۔ موجودہ دور میں دُعا نہایت ہی مختصر ہے اور تعلیم کا نظام کافی بہتر ہے اس لیے ہر شخص اسے با آسانی یاد کر سکتا ہے۔ مندرجہ بالا فرامین کے حوالے سے محض یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ عبادت بندگی اور ذکر و تسبیح کے طریقے کی نشان دہی کرنا زمانے کے امام کا کام ہے۔ اس لیے مومنین کو چاہیے کہ امام زمان کی جانب سے عبادت و بندگی اور ذکر و تسبیح کے لیے جو طریقہ دیا جائے اسی پر عمل پیرا ہوں۔چنانچہ جماعت خانوں میں جو تسبیحات پڑھی جاتی ہیں وہ زمانے کے امام کی جانب سے عنایت شدہ یا منظور شدہ ہیں جن کے ساتھ امام زمان کی دُعائیں بھی شامل ہیں۔ چونکہ امام زمان اپنے روحانی بچوں کے لیے ہمیشہ بہترین چاہتے ہیں اس لیے ظاہر ہے کہ آپ جو تسبیحات ہمیں عنایت فرماتے ہیں وہ ہمارے لیے بہترین ہیں۔۔۔(کتاب مجالس صفحہ نمبر 236)

صبح کی دُعا کے بعد پڑھی جانے والی تسبیحات

ان تسبیحات کے متعلق روایت کی جاتی ہے کہ جولائی 1870ء میں 42 اسماعیلیوں کا ایک قافلہ بادبانی کشتی پر سوار کچھ سے مشرقی افریقہ کی طرف روانہ ہوا۔ قافلے کے تمام افراد بہت غریب تھے اور ان میں سے اکثر نوجوان کسان تھے جو اپنی غربت سے تنگ آکر بہتر معاشی زندگی کی تلاش میں افریقہ جا رہے تھے۔ ہر ایک کو اپنے کھانے پینے کا سامان اپنے ساتھ لینا تھا۔ کشتی کے راستے کچھ سے افریقہ تک کا سفر تقریباً ایک مہینے میں طے ہوتا تھا۔ اُن کی پہلی منزل بمبئی تھی جہاں کشتی کے لیے ساز و سامان مہیا کرنے کے لیے کچھ دنوں کا قیام تھا۔ اُن اسماعیلیوں کو معلوم ہوا کہ امام حسن علی شاہ روزانہ جماعت کی ملاقات کے لیے تشریف لاتے ہیں۔ انھیں امام کے حضور مہمانی پیش کرنے کا موقع میسر آگیا۔ انھوں نے مولا کے حضور میں عرض کی کہ وہ اپنی غربت سے تنگ آکر بہتر زندگی کی تلاش میں افریقہ کی طرف جا رہے ہیں۔ امام نے انھیں اپنی دُعا و برکات سے نوازا۔ نیز افریقہ کی جماعت کے لیے اپنی دُعا و برکات بھیجتے ہوئے روزانہ شام کی پہلی دُعا کے بعد مندرجہ ذیل چار تسبیحات پڑھنے کا حکم فرمایا :

يا الله

يا وهاب

يا على

اللهُ الصَّمَد

اُن 42 اسماعیلیوں میں ایک بارہ سالہ لڑکا محمد رحمت اللہ ہیمانی تھا جو بعد میں ترقی کرتا ہوا زنجار کا بہت بڑا تاجر اور اسماعیلی کونسل برائے افریقہ کا پہلا صدربنا۔

1905ء میں حضرت امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے ان تسبیحات کو شام کی بجائے صبح کو پڑھنے کا حکم فرمایا۔ اس تبدیلی کا ذکر 1905ء میں افریقہ کی جماعت کے لیے نافذ ہونے والے پہلے اسماعیلی آئین کے chapter II کے آئٹم نمبر 12 میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے کہ " مولا کے فرمان کے مطابق جو چار تسبیحات مغرب کے وقت پڑھی جاتی ہیں وہ اب سے فجر کے وقت پڑھی جائیں گی۔“ الواعظ رائی ابو علی عبد العزیز کے مورخہ اکتوبر 1990 کے انگریزی مقالہ Specialfour

Tasbeehs سے ماخوز)۔

نیز مولانا حاضر امام نے مورخہ 1962-5-16 کو اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان کے پریذیڈنٹ کے نام اپنے تعلیقہ مبارک میں فرمایا کہ : " ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمارے اُن روحانی بچوں کو جو اب تک نئی عربی دُعا نہیں جانتے اور ہمارے بڑی عمر کے روحانی بچوں کو بھی جن کے لیے دُعا سیکھنا ممکن ہی نہ ہو، آگاہ کریں کہ وہ دُعا کی جگہ مندرجہ ذیل تسبیحات پڑھ سکتے ہیں :

شام کی دُعاؤں کے لیے تین تسبیحات :

يا الله یا عَلِی اور يَا مُحَمَّدٌ

صبح کی دُعا کے لیے چار تسبیحات :

يا الله، يَا وَهَاب يَا عَلِی اور الله الصمد ۔

یا الله : یعنی اے اللہ " لفظ الله الله سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں معبود اور اس پر علامت معرفہ یعنی الف لام لگانے اور کثرت استعمال کی وجہ سے الله بن گیا۔ اسم اللہ ایک اعتبار سے اللہ تبارک و تعالیٰ کا اہم ذاتی ہے یعنی اللہ تعالٰی نے اپنے لیے زیادہ تر اسی نام کا استعمال فرمایا ہے اور دیگر جتنے بھی اسمائے ذاتی ہیں وہ اسی اسم کی طرف منسوب ہوئے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ : وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى (180 :7)

اور اللہ تعالی کے اچھے اچھے نام ہیں۔“ اس آیت سے یہ حقیقت ظاہر ہے کہ اللہ تعالی کے تمام اسمائے حسنٰی اسم اللہ کی طرف منسوب ہوتے ہیں۔ " الله " خداوند تعالیٰ کے تمام ناموں میں سب سے زیادہ جامع ہے۔ قرآن حکیم میں خداوند تعالیٰ کے جو نام آئے ہیں انھیں اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ خدا کی کسی ایک صفت کو منعکس کرتے ہیں لیکن وہ نام جو تمام صفات و کمالات الہی کی طرف اشارہ کرتا ہے یعنی جو اس کی تمام صفات جمال و جلال کا جامع ہے وہ صرف اللہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ہی آیت میں کئی نام اللہ کی طرف منسوب ہوئے ہیں۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل آیت میں ارشاد ہے : هُوَ اللهُ الَّذِى لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ = هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ ) هُوَ اللهُ الذى لا إله إلا هو ع الملك القُلوسُ السَّلَمُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ سُبُحْنَ اللهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ . هُوَ اللهُ الْخَالِقُ الْبَارِى المُصَوِّرُ لَهُ الاسماء الحسنى (24-59:22)

  " وہ اللہ تعالیٰ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، بادشاہ ہے، پاکیزہ، سلامتی والا، امان دینے والا، نگہبانی کرنے والا، زیر دست، جبار، بڑائی والا، پاک ہے اللہ تعالیٰ اُن چیزوں سے جن سے لوگ شریک قرار دیتے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ ہے پیدا کرنے والا ، ایجاد کرنے والا ، صورتیں بنانے والا۔ اس کے اچھے اچھے نام ہیں۔“

نیز ایک اور مقام پر قرآنِ حکیم میں ارشاد ہے کہ : وَ هُوَ اللهُ فِي السَّمَوَاتِ وَ فِي الْأَرْضِ - (3 :6) اور آسمانوں اور زمین میں وہی اللہ ہے۔"

اس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ اسم اللہ معبود کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور یہاں اس حقیقت کی طرف نشان دہی کی گئی ہے کہ آسمانوں اور زمین میں وہی ایک ذات ہے جو عبادت کے لائق ہے، دوسری کوئی بھی ذات لائق عبادت نہیں اور کائنات کی ہر چیز اُس کے آگے جھکی ہوئی ہے اور اُسی کی عبادت کر رہی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ : المُ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَسْجُدُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَوْتِ وَ مَنْ فِي الْأَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُومُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ وَكَثِيرٌ مِّنَ النَّاسِ ط (22:18) " کیا تو نے نہیں دیکھا کہ جو کوئی آسمانوں میں ہے اور جو کوئی زمین میں ہے اور سورج اور چاند اور ستارے اور پہاڑ اور درخت اور چار پائے اور بہت سے آدمی اللہ تعالی ہی کو سجدہ کرتے ہیں۔“ اس ارشاد الہی سے ظاہر ہے کہ کائنات کی ہر چیز اپنی اپنی جگہ اللہ تعالی

کی عبادت میں مصروف ہے اور انسان اور جنات کے متعلق تو اللہ تعالی کا بہت واضح فرمان ہے کہ۔

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ 0 (56 :51) اور میں نے نہیں پیدا کیا جنوں اور انسانوں کو مگر اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں۔“

اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پیر صدر دین اپنے گنان میں فرماتے ہیں کہ :

(گنان " دُنیا سر جی نے پاٹھ نمبر 2 -1) " اے بھائی ! میرے مالک نے دُنیا کی تخلیق کر کے اناج پیدا کیا، ہوا اور پانی (بھی) پیدا کیے۔ اے بندے ! اگر تم نے مالک کی عبادت نہ کی تو بتاؤ تم کس مقصد کے لیے آئے ہو؟"

  " شیخ سعدی اس حقیقت کو اپنے کلام میں اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ :

  " ابر و باد و مه و خورشید و فلک در کارند

تا تو نانے بکف آری و بغفلت نه خوری،

همه از بهر تو سرگشته و فرمان بردار

شرط انصاف نباشد که تو فرمان نبری

ابر، ہوا، چاند، سورج، آسمان سب کام میں لگے ہوئے ہیں ۔ تا کہ تو روزی حاصل کر سکے اور غفلت سے نہ کھائے۔ یہ سب تیرے لیے پریشان اور تابعدار ہیں (تو پھر) یہ انصاف کی بات نہ ہوگی کہ تو (اللہ کا) فرمان نہ مانے “

(گلستان سعدی، مترجم قاضی سجاد حسین)

  " پس معلوم ہوا کہ اس وسیع کائنات میں اللہ تعالی ہی کی واحد ذات ہے جو سب کا خالق، مالک اور ربّ ہے اور اسی کی ذاتِ یکتا لائق عبادت ہے۔ اسی عقیدے کو دل میں نقش کرنے کے لیے ایک مسلم سے سب سے پہلے یہ اقرار لیا جاتا ہے کہ ، لا الا اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ۔“

" پس جب ہم یا اللہ کی تسبیح پڑھتے ہیں تو ہم اُسی ذاتِ واحد کی تعریف و ستائش کرتے ہیں جو اس پوری کائنات کا معبود حقیقی ہے اور جس کی عبادت میں یہ پوری کائنات مصروف ہے۔

يَا وَهَّابُ: یعنی اے دینے والا ۔ وھاب کے معنی ہیں بلا عوض کوئی چیز دینے والا یا بخشنے والا جس میں نہ دینے والے کی کوئی غرض شامل ہو اور نہ لینے والے کا اپنا کسب۔ قرآن حکیم کے مطالعے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی جانب سے انبیا و اولیاء اور حقیقی مومنین و مومنات کو معجزانہ طور پر جو علم و حکمت اور روحانی نعمتیں عطا فرماتا ہے اس کے لیے فعل وَهَبَ کا استعمال کیا گیا ہے۔ الله تعالى اَرحَمُ الرَّاحِمِینَ یعنی تمام رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے اور بنی نوع انسان پر اس کا یہ کرم ہے کہ وہ انھیں ہر وہ چیز عنایت فرماتا ہے جو وہ اس سے طلب کرتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ :

واتكُم مِّن كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ وَ إِنْ تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا (14:34)

اور جو کچھ تم نے اس سے مانگا اُس نے تمھیں دیا۔ اگر تم اس کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو تم اس کا احاطہ نہیں کر سکو گے۔“ یوں تو دینے اور لینے والوں کا تصور انسانوں کے درمیان بھی پایا جاتا ہے لیکن وہاب کی صفت صرف اللہ تعالی ہی کی ذات کے لیے مخصوص ہے کیونکہ وہی ایک ایسی ذات ہے جو کسی بھی قسم کے معاوضے کی خواہش کے بغیر اپنی مخلوقات کو انگنت نعمتوں سے نوازتی ہے کیونکہ اس کی ذات خواہشات سے بلند ہے۔ جو شخص کسی دوسرے کو کسی معاوضے کی اُمید پر کوئی چیز دیتا ہے وہ دراصل تنظیم نہیں ہوتا بلکہ تاجر ہوتا ہے اور بدلے کی اُمید سے کوئی بھی انسان خالی نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی وھاب مطلق ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ :

يايُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاء إِلَى اللهِ ، وَاللهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ 0 (15 : 35) "اے لوگو ! تم اللہ تعالیٰ کے محتاج ہو اور اللہ تعالیٰ وہی بے نیاز قابل حمد ہے۔“

اگر قرآنِ حکیم کی ان آیات پر ایک نظر ڈالی جائے جن میں فعل وَهَبَ کا استعمال ہوا ہے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ یہ فعل خاص طور پر معجزانہ قسم کی بخششوں کے لیے استعمال ہوا ہے جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بڑی عمر میں حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق علیہما السلام کا عطا فرمانا ، حضرت بی بی مریم کو حضرت عیسی علیہ السلام کا عطا فرمانا، حضرت داؤد علیہ السلام کو حضرت سلیمان علیہ السلام کا عطا فرمانا، حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حضرت ہارون علیہ السلام کا عطا فرمانا، حضرت زکریا علیہ السلام کو حضرت یحیی علیہ السلام کا عطا فرمانا، نیز انبیا علیہم السلام کو علم و حکمت سے نواز کر منصب نبوت سے سرفراز فرمانا وغیرہ ان تمام رحمتوں اور نعمتوں کے لیے فعل وطب کا استعمال کیا گیا ہے۔ گویا اس میں عطا کرنے کا ایک ایسا معجزانہ عصر شامل ہے جو عام قوانین فطرت کے ذریعہ ممکن نہ ہو۔ جیسا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے ذکر میں یہ دُعا آئی ہے کہ :

قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَهَبْ لِي مُلكًا لَّا يَنْبَغِي لَاحَدٍ مِّنْ بَعْدِي : إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ O (35 :38) " (حضرت سلیمان نے علیہ السلام ) کہا اے میرے پروردگار ! مجھے ڈھانپ لے اور مجھے ایک ایسی سلطنت دے جو میرے بعد کسی اور کو میسر نہ ہو۔ یقیناً تو بہت عطا کرنے والا ہے۔“

انسان اُمیدوں کا پیکر ہے۔ اس کی اُمنگیں اور خواہشیں بحر بے کنار کی طرح ہیں اور وہ اپنی آرزوؤں کی تکمیل کے لیے ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے دُعائیں مانگتا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ئیں طلب کرتے ہوئے یہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ الوهاب یعنی بہت بڑا عطا کرنے والا ہے اس لیے اس کی جانب سے نہ کبھی مایوس ہونا چاہیے اور نہ دُعا مانگنے سے کبھی تھکنا چاہیے ۔ سید محمد شاہ اپنے گنان میں فرماتے ہیں کہ :

اے جی جے جے مانگوں تے توں ہی دیوے، ایوا ایوا لاڈ لڑاوے۔ ا (گنان" صاحب جی توں" پاٹھ نمبر 1) " اے مولا ! جو کچھ میں مانگتا ہوں تو وہی دیتا ہے، تو ایسے ایسے لاڈ کرواتا ہے۔"

  ⬇ يَا عَلِي : یعنی ”اے علی العلی اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ایک اہم ہے جس کے معنی ہیں بہت ہی بلند اور عالی مقام۔ جیسا کہ قرآنِ حکیم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ : وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ ) (2:255) اور وہ بلند مرتبہ عظمت والا ہے۔" اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد ہے کہ : وَانَّ اللهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ  (22:62) اور یقیناً اللہ تعالیٰ وہی عالیشان (اور) بڑائی والا ہے۔“

  اسم العَلِيُّ اللہ تعالیٰ کی اس بلندی اور عظمت کی طرف اشارہ کرتاہے۔

جس کا احاطہ کرنا کسی کے لیے ممکن نہیں۔ وہ انسان کے خیالات اور وہم و گمان

سے کہیں بالاتر ہے بلکہ اس کی بلندی کا انسان تصور بھی نہیں کر سکتا۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ: سُبُحْنَهُ وَتَعَلَى عَمَّا يَقُولُونَ عُلُوًّا كَبِيرًا (17:43) اور جو کچھ یہ لوگ کہتے ہیں اس سے وہ (اللہ ) کہیں زیادہ پاک اور برتر ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اللہ کے ساتھ عام طور پر لفظ ” تعالی اضافہ کیا جاتا ہے

جس کا مقصد اس ذات عالی صفات کی بلندی اور برتری کو ظاہر کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ

کا مقام اتنا بلند ہے کہ نہ تو اس کے برابر کوئی اور مقام ہے اور نہ اس سے برتر ۔

بلکہ دیگر تمام مقامات اس سے پست ہیں کیونکہ لفظ عَلِی الْعُلُو سے مشتق ہے جس

کے معنی ہیں کسی چیز کا بلند ترین حصہ اور یہ سُفُلُٗ کی ضد ہے۔۔ جس طرح اللہ تعالٰی کا ہر نام اس حقیقت کی شہادت دیتا ہے کہ وہ ہر اعتبار سے بلند و برتر ہے اس طرح اسم ”علی“ بھی اس کی برتری اور بلندی بیان کرتا ہے۔ نیز علی سے مراد حضرت امیر المومنین مولا مرتضی علی علیہ السلام بھی ہیں جو آنحضرت صلعم کے جانشین اور امام اول ہیں۔ آپ مشکل کشا کے لقب سے بھی مشہور ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مشکل کشائی کی کوئی بھی دُعا نام علی کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔

چنانچہ حضرت علی علیہ السلام کی ذات، جو آنحضور صلعم کی طرح نور خداوندی کا مظہر تھی، دین اسلام میں ظاہری و باطنی مدد کے لحاظ سے خصوصی اہمیت رکھتی ہے۔ مدد کے میدان میں آپ کے خصوصی اور منفرد مقام کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ خود آنحضرت صلعم نے آپ کو اپنے کار نبوت میں مدد گار قرار دیا اور ہر مشکل مرحلے میں آپ سے مدد طلب کی۔ دعوت عشیرہ کے موقع پر جب آنحضرت صلعم نے سرداران قریش کے

سامنے اپنی رسالت کا اعلان فرمایا اور پوچھا کہ اس کار عظیم میں کون میری مدد کرے گا؟ اس وقت باوجود کم سنی کے حضرت علی علیہ السلام نے تین مرتبہ یہ اعلان فرمایا کہ میں آپ کی مدد کروں گا۔ جب آنحضرت صلعم پر قرآن کی وہ آیات نازل ہوئیں جن میں موسیٰ علیہ السلام منصب نبوت پر فائز ہونے کے بعد اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کو اپنا وزیر اور شریک بنانے کی دُعا کرتے ہیں (35-20:24) تو آپ ﷺ  نے بھی مندرجہ ذیل الفاظ میں خدا سے دعا مانگی کہ :

" خداوندا ! میں بھی تجھ سے وہی سوال کرتا ہوں جو میرے بھائی موسی نے کیا تھا کہ میرے سینے کو کشادہ فرما اور میرا کام میرے لیے آسان کر اور میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ لوگ میری بات اچھی طرح سمجھیں اور میرے اہل بیت سے میرے بھائی علی کو میرا وزیر بنا اور اس کے ذریعہ میری پشت مضبوط کر اور میرے کام میں اس کو میرا شریک بنا تا کہ ہم دونوں کثرت سے تیری تسبیح کریں اور تیری یاد کریں، تُو  تو ہماری حالت دیکھ رہا ہے۔“ (قرآن مجید، مترجم مولانا فرمان علی، صفحہ 432 ، بحوالہ تفسیر در منشور، جلد نمبر 4، صفحه 295)

جنگِ اُحد میں جب حضرت علی سے فتح و نصرت ظہور میں آئی تو جبرائیل نے رسول صلعم سے کہا ہے کہ یہ ہے ہمدردی۔ آپ نے فرمایا : إِنَّهُ مِنِی وَ أَنَا مِنْهُ (بیشک وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں) اور جبرائیل نے کہا : آنا منكما (میں آپ دونوں سے ہوں)۔ اس وقت تمام صحابہ کرام نے یہ آواز سُنی کہ لَا فَتَى إِلَّا عَلِيٌّ لَا سَيْفَ إِلَّا ذُوالفقار ؛ علی کے سوا کوئی بہادر نہیں اور ذو الفقار کے سوا کوئی تلوار نہیں)۔ آنحضرت صلعم نے حضرت علی سے فرمایا کہ ” اے علی ! تم نے اپنی تعریف سنی جو وہ فرشتہ جس کا نام آسمان میں رضوان ہے، کر رہا ہے۔ وہ کہتا ہے لا فتى إِلَّا عَلِيٌّ لا سَيْفَ إِلَّا ذُو الْفِقَار - مصباح الظلم از شمس العلماء نواب سید امداد امام بحوالہ تاریخ طبری، کامل ابن اثیر اور مدارج القبوۃ)۔

اسی طرح معرکہ خیبر کے موقع پر جب بڑے بڑے صحابہ قلعہ قموص کی فتح میں ناکام رہے تو آنحضرت صلعم نے فرمایا کہ : أَمَّا وَاللهِ لاعْطِيَنَّ الرَّأْيَةَ غَدًا رَجُلٌ كَرَّارٌ غَيْرُ فَرَّارٍ يُحِبُّ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ وَيُحِبُّهُ اللهُ وَرَسُولُهُ يَفْتَحُ اللهُ عَلَى يَدِيهِ

کل میں علم اُس شخص کو دوں گا جو بار بار حملہ کرنے والا ہے اور بھاگنے والا نہیں ہے، جو اللہ اور اس کے رسول کو دوست رکھتا ہے اور جسے اللہ اور اس کا رسول دوست رکھتے ہیں اور اللہ اس کے ہاتھوں فتح عطا کرے گا۔“

  حضرت علی اس وقت وہاں موجود نہ تھے اس وجہ سے قریش کے ہر فرد کی یہ اُمید تھی کہ شاید اُسی کو علم دیا جائے گا۔ دوسری صبح حضرت علی اپنے اونٹ پر سوار رسول اللہ صلعم کے پاس پہنچے... ان کی آنکھیں دُکھ رہی تھیں، قطری کپڑے کی پٹی آنکھوں پر بندھی تھی۔ رسول اللہ نے فرمایا قریب آؤ۔ حضرت علی آپ کے قریب آئے تو آپ نے ان کی آنکھوں پر اپنا لعاب دہن لگایا جس سے وہ درد جاتا رہا۔ آپ نے ان کو علم عطا کیا اور انھی کے ہاتھوں قلعہ قموص فتح ہوا۔ اس وقت سے آپ فاتح خیبر کے لقب سے بھی مشہور ہوئے۔

( تاریخ طبری، مدارج النبوة ، سيرة الهى ، خلافت و امامت و غیر ه)

آنحضرت صلعم نے فرمایا کہ :

إِنَّ اللهَ تَعَالَى أَيَّدَ هَذَا الدِّينَ بِعَلِيِّ (كوكب دُری صفحہ 188) " بیشک اللہ تعالیٰ نے حضرت علی کے ذریعہ اس دین کی مدد فرمائی۔“

آپ کے روحانی مقام کے متعلق آنحضرت صلعم کا ارشاد ہے کہ :

يَا عَلى كُنتَ مَعَ الْأَنْبِيَاءِ سِرِّاً وَ مَعِى جِهْرًا

شیخ فرید الدین عطار، مثنوی مظہر العجائب، ترجمه سید شاہد، صفحه 160)

” اے علی ! آپ تمام پیغمبروں کے ساتھ باطن میں تھے اور میرے ساتھ ظاہر میں بھی ہیں۔“

👈حضرت امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے فرمایا کہ :  جب ہم (حضرت) علی علیہ السلام کے متعلق سوچتے ہیں تو اس سے وہ شخص مراد نہیں جو ساٹھ سال تک اس دُنیا میں رہے بلکہ وہ دائمی (ہستی) ہے جو اللہ کی طرف سے آئی تھی اور براہ راست اللہ کی طرف واپس لوٹ گئی ۔"

(اسماعیلیہ ایسوسی ایشن مشن کانفرنس، دار السلام، جولائی 1945)

  نیز آپ کا ارشاد ہے کہ : " آغا علی شاہ داتار نے فرمان فرمایا تھا کہ آدھی رات کو یا علی کا ذکر کریں اس میں جو ثواب ہوگا وہ آپ کا ہے اور جو گناہ ہو وہ ہم پر ہے۔“

(نجوڑی 1893-12-31)

حضرت شمس تبریز فرماتے ہیں کہ :

  تا صورت و پیوند جهان بود علی بود

تا نقش زمین بود زمان بود علی بود

" جب سے دُنیا کی صورت اور اس کے اجزاء وجود میں آئے اس وقت سے علی تھا اور جب سے زمین و زمان کا نقشہ بن رہا تھا اس وقت   سے علی تھا۔(  کتاب المناقب  )اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جب ہم حضرت علی علیہ السلام کو پکارتے ہیں تو اس سے مراد وہ نور علی ہے جو ہر زمانے کے امام کی حیثیت سے مومنین کے درمیان موجود ہوتا ہے۔ چونکہ مشکل کشائی حضرت علی ہی کا دوسرا نام ہے اس لیے ہم ہر قسم کی حاجت روائی کے لیے حضرت علی علیہ السلام کے نام کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اسی حقیقت کے پیش نظر ہماری مقدس دُعا میں اس دُعائیہ کلمہ کو شامل کیا گیا ہے ۔

" يَا عَلِيُّ بِلُطْفِكَ اَدْرِكْنِي " یعنی "اے علی ! اپنی لطف و عنایت سے میری امداد کو پہنچ “ اور چونکہ مولا مرتضی علی علیہ السلام کا نور تا قیامت قائم رہنے والا ہے اور ہر دور کے امام میں دراصل حضرت علی ہی کا نور ہے اس لیے اس بنیادی تعلیم کو بھی ہماری مقدس دُعا میں شامل کیا گیا ہے کہ تَوَسَلُوا عِنْدَ الْمَصَالِبِ بِمَوْلَكُم الْحَاضِرِ الْمَوْجُودِ شَاءُ كَرِيمِ الْحُسَيْنِى۔ یعنی " مصیبتوں کے وقت اپنے حاضر اور موجود امام شاہ کریم الحسینی کا سہارا لو"

" پیر شمس نے اس حقیقت کو اپنے گنان میں انتہائی خوبی کے ساتھ اس طرح بیان فرمایا ہے کہ :

ہے بی علی نے ہو ئیشے بی علی ،

ایسا دین تھے دل مانے دھرنا ،

ایسا وچن تھے دل مانہے دھرنا ،

هرم سب چھوڑی بھائی علی علی کرنا،

(گنان ” کیسری سینہ “ کا پاٹھ نمبر 1) علی ہی ہے اور علی ہی ہوگا۔ یہی خیال تم اپنے دل میں رکھو، یہی خیال تم اپنے دل میں رکھو، تمام وہم و گمان کو چھوڑ کر علی علی کرو۔“

الله الصَّمَدُ : " اللہ بے نیاز ہے۔“ صمد کے معنی ایسی ہستی کے ہیں

جس کی طرف ہر قسم کی امداد کے لیے رجوع کیا جائے اور جس کے سب محتاج ہوں

مگر وہ کسی کا محتاج نہ ہو۔ نیز اس کے معنی ایک ایسے سردار کے بھی ہیں جس کے

اوپر کوئی اور سردار نہ ہو۔ چنانچہ اللهُ الصَّمَدُ کی اس تسبیح میں جو قرآن حکیم کی سورۃ الاخلاص کی ایک آیت بھی ہے، اس حقیقت کی طرف نشان دہی کی گئی ہے کہ خداوند تعالی ہی کی ذات وہ واحد ہستی ہے جس کے سب محتاج ہیں اور وہ خود کسی کا محتاج نہیں۔ ساری کائنات اس پر دارو مدار رکھتی ہے، وہ حیی اور قیوم ہے، اس کی وجہ سے ہر چیز زندہ اور قائم ہے لیکن وہ خود قائم بالذات یعنی اپنی ذات پر قائم ہے، وہ کسی پر دارو مدار نہیں رکھتا۔ قرآن حکیم کی مندرجہ ذیل آیات سے یہ حقیقت صاف طور پر ظاہر ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے کہ : كُلٌّ إِلَيْنَا رَاجِعُونَ ) (21:93) تمام چیزیں ہماری ہی طرف رجوع کرنے والی ہیں۔“

  " ایک اور مقام پر ارشاد ہے کہ : وَلَهُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ كُلِّ لَهُ فَيَتُونَ 0 (26 : 30) اور جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اُسی کے لیے ہے اور سب اُس کے فرمان بردار ہیں ۔ “ پس اللهُ الصَّمَدُ کی معنوی گہرائی میں یہ حقیقت پنہاں ہے کہ کائنات کی ہر چیز خداوند تعالیٰ کی محتاج ہے اور زبان حال یا زبان قال سے اُس سے اپنی حاجت روائی کی التجا کرتی ہے۔ قادر مطلق نے اس حقیقت کو کتنے واضح الفاظ میں بیان فرما دیا ہے کہ :

يايُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَراءُ إِلَى اللهِ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ 0 35:15) "اے لوگو ! تم سب اللہ تعالیٰ کے محتاج ہو اور اللہ بے نیاز اور خوبیوں والا ہے۔“

اس حقیقت کو سید امام شاہ اپنے گنان میں اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ :

اے جی سر بہار سہو نو داتار چھ،

تے سہونی پورے آس،

تے گھٹ گھٹ و یا پک سائیاں ہے،

بھائی جیم پھولوں مان ہے واس

(گنان پیو پیو کیجئے“ پاٹھ نمبر (7) ”اے بھائی ! وہ خالق سب کا داتار ہے اور سب کی اُمیدیں پوری کرتا ہے۔ وہ محبوب ہر دل میں اس طرح پھیلا ہوا ہے جس طرح پھولوں میں خوشبو ۔“

ہر شام پڑھی جانے والی تسبیحات

شیعہ امامی اسماعیلی نزاری شاخ کی تعلیمات انہی کی کتب اسماعیلی مجالس سے لی گئی ہے۔۔جس کے مطابق اسماعیلی ہر شام کو تسبحات پڑھتے ہیں جس کی تفصیل کچھ یوں بیان کی گئی ہے۔

يَا عَلى يَا مُحَمَّدٌ :

یا علی کی تسبیح کی وضاحت اس سے قبل صبح کوپڑھی جانے والی تسبیحات میں ہو چکی ہے۔ یا علی اور یا محمد کی دونوں تسبیحات کی مشترکہ اہمیت کو بیان کرنے سے پہلے یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسم محمد کی تھوڑی سی وضاحت کر دی جائے۔ چنانچہ یا محمد کی تسبیح میں ہم سرور کونین حضرت محمد مصطفی رسول محمدﷺ  کو پکارتے ہیں جو خاتم النبین ہیں اور جن کے متعلق خداوند تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ : وَ ما أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ (21:107) یعنی " (اے محمد صلعم) اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر ۔“ اس مقام پر اس حقیقت کو بخوبی سمجھ لینا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلعم کو جو رحمت قرار دیا ہے یہ وہی ہمہ گیر اور ہمہ رس رحمتِ الہیہ ہے جس نے ساری کائنات کو اپنے گھیرے میں لیا ہوا ہے۔ جیسا کہ ارشادِ خداوندی ہے کہ :

وَ رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ 0 (7:156) اور میری رحمت نے ہر چیز کو اپنے گھیرے میں لے لیا ہے۔"

پس باری سبحانہ و تعالیٰ نے آنحضرت صلعم کو اسی رحمتِ عالمگیر کا مرکز قرار دیا ہے اور جب ہم یا محمد کہتے ہیں اس وقت ہم اسی مرکز کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ قرآنِ حکیم کے مطالعے سے ایسی بہت سی آیات سامنے آتی ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلعم کو روئے زمین پر اپنے نور کا مظہر قرار دیا ہے اور اللہ تعالیٰ سے آپ کی قربت کا یہ عالم ہے کہ آپ کے اقوال و افعال کو اللہ تعالیٰ اپنے اقوال و افعال قرار دیتا ہے۔ مثال کے طور پر جب آنحضرت صلعم نے غزوہ بدر کے موقع پر اپنی مٹھی میں خاک بھر کر کفار کی طرف پھینکی تو آپ کے اس فعل کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ : وَ مَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللهَ رَمَى  (8:17) یعنی ” (اے محمدﷺ !) آپ نے نہیں پھینکی (مٹھی خاک کی) جبکہ آپ نے پھینکی لیکن اللہ نے پھینکی۔" اسی طرح آپ کی بیعت کرنے والوں کے متعلق فرمایا کہ : إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أيديهم : (10: 48) " یقیناً (اے  محمدﷺ !) جو لوگ آپ کی بیعت کرتے ہیں ما سوا اس کے نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بیعت کرتے ہیں (اور) ان کے ہاتھوں پر اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہے۔“ نیز آپ کی اطاعت کے متعلق ارشاد ہے کہ :

مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ (4:80) اور جو رسول کی اطاعت کرتا ہے پس اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی۔“  علاوہ ازیں خداوند تعالیٰ نے ایسی بہت سی صفات و اسماء کو آنحضرت صلعم کے لیے استعمال فرمایا ہے جنہیں وہ خود اپنی ذات کی طرف منسوب کرتا ہے۔ مثلاً اپنے آپ کو رحمت کہتا ہے تو آنحضرت صلعم کو بھی رحمت کہتا ہے، اپنے آپ ﷺ کو ہادی اورنور کہتا ہے تو آپ کو بھی انہی ناموں سے یاد فرماتا ہے۔ اپنے آپ کو رَہ وُفٌ رَّحِیم کہتا ہے تو آنحضرت صلعم کو بھی اسی نام سے خطاب فرمایا۔ جیسا کہ ارشاد ہے کہ : لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ ) (128: 9) یقینا تم میں سے ایک رسول تمھارے پاس آیا ہے، تمھارا تکلیف اُٹھانا اس پر شاق گزرتا ہے، تمھاری بھلائی کا بڑا خواہش مند ہے، مومنین پر بڑا ہی شفیق اور مہربان ہے۔“ اگر خداوند تعالیٰ ہمیں اس دُعا کی تعلیم دیتا ہے کہ : اهدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ لا (6 :1) ”اے اللہ ! ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت کر ۔“ تو دوسرے مقام پر آنحضرت صلعم کے لیے ارشاد فرمایا کہ : إِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ لا (42:52) اور یقینا تو سیدھے راستے کی طرف ہدایت کرتا ہے۔“ نیز جاننا چاہیے کہ چونکہ آنحضرت صلعم زمین پر نور خداوندی کے مظہر کی حیثیت سے تھے اس لیے آپ کے مقدس نام کی تسبیح سے مومنین کو نور خداوندی کی بخشش ملتی ہے۔ اگر آیۂ نور ( اللهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ 35: 24) پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس آیت میں خداوند تعالیٰ نے اپنے آپ کو آسمانوں اور زمین کا نور قرار دینے کے بعد اپنے نور کی مثال ایک روشن چراغ سے دی ہے۔ اسی طرح ایک دوسری آیت میں آنحضرت صلعم کو بھی سراجاً منيراً (46 :33) (یعنی روشن چراغ قرار دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس روشن چراغ کے ذریعہ ہی کسی کو خداوند تعالیٰ کا نور میسر آسکتا ہے۔ پس جس طرح آنحضرت صلعم اپنے دور میں نور الہی کے مظہر کے مقام پر فائز تھے اسی طرح آپ کے بعد حضرت علی اور ان کی

اولاد اطہار میں ہونے والے ائمہ اطہار اس منصب عالیہ پر فائز ہیں۔ چنانچہ سید امام شاہ

اپنے گنان میں فرماتے ہیں کہ :

اے جی محمد محمد کیجئے ، انے محمد اللہ رسول،

چاپ لیکو کہیئے ، اے تو سدائے چھ رے قبول۔

گنان " ڈلڈل گھوڑے نیٹو ، پاٹھ نمبر (9) ”اے بھائی ! محمد محمد کا ذکر کرو اور محمدﷺ  اللہ کے رسول ہیں، اُن کے نام کا ذکر کرو جو ہمیشہ قبول ہوتا ہے۔“

مندرجہ بالا بیان کے بعد اب اس حقیقت کی وضاحت کی جاتی ہے کہ یا علی یا محمد کی تسبیح میں ہم حضرت علی اور حضرت محمد صلعم دونوں کو بیک وقت پکارتے ہیں کیونکہ یہ دونوں ہستیاں خداوند تعالیٰ کے نور واحد میں سے ہیں۔ جیسا کہ آنحضرت صلعم نے فرمایا کہ :

انَا وَ عَلِيٌّ مِّنْ نُورٍ وَاحِدٍ ( سيد محمد صالح کشفی ، کوکب دری ، صفحہ 125) میں اور علی ایک ہی نور سے ہیں۔“

نیز جاننا چاہیے کہ آنحضرت مسلم علم کا شہر ہیں اور حضرت علی علیہ السلام اس کا دروازہ ہیں۔ جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ :

أَنَا مَدِينَةُ الْعِلْمِ وَ عَلِيٌّ بَابُهَا فَمَنْ أَرَادَ الْعِلْمَ فَلْيَاتِ البَابَ .

(کوکب دوری، صفحہ 151)

" میں علم کا شہر ہوں اور حضرت علی اس کا دروازہ ہے پس جسے علم کی طلب ہے اُسے چاہیے کہ وہ دروازے سے آئے۔“


ایک اور مقام پر آپ نے فرمایا کہ :

أنَا دَارُ الْحِكْمَةِ وَ عَلى بَابُهَا. (کوکب دری ، صفحہ 157) میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔" علاوہ ازیں آنحضرت صلعم دین اسلام کے ظاہر کی حیثیت سے ہیں اور حضرت علی علیہ السلام اس کے باطن کی حیثیت سے ہیں اور ان دونوں ہستیوں کی تعلیمات کی وجہ سے دین اسلام مکمل ہوتا ہے۔ چنانچہ اس سلسلے میں آنحضور صلعم کا ارشاد ہے کہ :

إِنَّ مِنْكُمْ مَنْ يُقَاتِلُ عَلَى تَاوِيلِ الْقُرْآنِ كَمَا قَاتَلْتُ عَلَى تَنْزِيْلِهِ . کو کپ دری، صفحه 168 نیز وجه دین از سیدنا ناصر خسرو، اردو، جلد دوم، صفحه 122) یقینا تم میں سے ایک شخص ہے جو تاویل قرآن پر جنگ کریگا جیسا کہ میں نے تنزیل قرآن پر جنگ کی ہے، تفصیل دریافت کرنے پر آپ ﷺ  نے حضرت علی علیہ السلام کی طرف اشارہ فرمایا ! نیز آپ ﷺ  نے فرمایا کہ : يَا عَلِي أَنَا وَ أَنْتَ أَبَوَا هَذِهِ الْأُمَّة (المجالس الْمَوْتِدِيه) "اے علی ! میں اور آپ اس امت کے والدین ہیں۔“ قرآن حکیم میں بھی متعدد جگہوں پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے آنحضرت صلعم اور حضرت علی علیہ السلام کا ذکر ایک ساتھ فرمایا ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے کہ : يأَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَ كُم بُرْهَانٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ أَنْزَلْنَا إِلَيْكُمْ نُورًا مينا  (4:175) ”اے لوگو ! تمھارے پاس تمھارے پروردگار کی طرف سے ایک واضح دلیل آچکی ہے اور ہم نے تمھاری طرف ایک ظاہر نور نازل کیا ہے۔“ شیعه مفسرین کے مطابق اس آیت میں دلیل سے مراد آنحضرت صلعم اور نورمبین سے مراد حضرت علی علیہ السلام ہیں۔ (تفسیر امتقین) اسی طرح ایک اور آیت میں ذکر ہے کہ : فَامِنُوا بِاللهِ وَرَسُولِهِ وَالنُّورِ الَّذِي أَنزَلْنَا (64:8) پس تم اللہ، اس کے رسول اور اس نور پر ایمان لاؤ جسے ہم نے نازل کیا ہے۔"

تفسیر قمی٘ میں ہے کہ اس آیت میں نور سے مراد حضرت علی علیہ السلام ہیں۔ (تفسیر المتقین ) نیز ایک اور مقام پر ارشاد ہے کہ :

أَفَمَنْ كَانَ عَلَى بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهِ وَيَتْلُوهُ شَاهِدٌ مِنْهُ (11:17) " کیا (منکرِ قرآن ایسے شخص کی برابری کر سکتا ہے) جو اپنے پروردگار کی طرف سے سیدھی راہ پر ہو اور اس کے پیچھے اس کا ایک گواہ بھی ہو۔“

اس آیت میں سیدھی راہ پر چلنے سے مراد آنحضرت ﷺ ہیں اور گواہ سے مراد حضرت علی علیہ اسلام ہیں۔ (تفسیر المتقین)

پیر ستگر نور فرماتے ہیں کہ :

ایکی کلمہ کہو رے مومنو، تھے مت جاؤ کرے بھول، راہ علی نبی جی کی ساچ ہے، اے ہووے گے سدا قبول۔ (گنان " کلمہ کہو رے : " پاٹھ نمبر 1) ”اے مومنو ! تم کلمہ کہو اور بھول مت جاؤ ۔ علی نبی کی راہ ہی سچی راہ ہے۔ اُس راستے پر چلنے والے ہمیشہ مقبول ہوں گے۔“ سید احمد شاہ نے کسی حرفی میں ایک خوبصورت تشبیہ کے ذریعہ اس حقیقت

اوئنگ برنجن ایک ورکھ ج کیتا، اُنکو ڈالی دوئے جو دیتا، ایک نور محمد مصطفی ؛ دوجا نور على مرتضى ، مائی فاطمہ بھی اُن کے پھیلے، حسن حسین اس نور منہے کھیلے۔۔

کو اس طرح بیان فرمایا ہے کہ :

(سی حرفی، پاٹھ نمبر (1) " نا قابل دید خدا نے ایک (نورانی) درخت پیدا کیا، اس کی دو شاخیں بنا ئیں۔ ایک حضرت محمد مصطفیٰ صلعم کا نور ہے اور دوسرا حضرت علی مرتضیٰ کا نور ہے۔ حضرت بی بی فاطمۃ الزہراء بھی ان کے ساتھ ہیں اور حضرت حسن اور حضرت امام حسین علیہما السلام بھی اس نور میں کھیلتے ہیں۔“

نزاری اسماعیلی فلسفہ و نظریات میں جمعہ مبارک کی باطنی تاویل

اسماعیلی بزرگان دین کے تعلیمات کی روشنی میں دیکھا جائے تو سورہ جمعہ بہت زیادہ اہمیت کے حامل سورہ ہے،کیونکہ اسماعیلی پیرؤں کے تعلیمات کے مطابق خدا کے "زندہ دن" ناطق پیغمبر  ہیں،

اتوار: حضرت آدم علیہ السلام

، پیر :حضرت نوح علیہ السلام،

بدھ: حضرت ابرھیم علیہ السلام،

منگل: حضرت موسیٰ علیہ السلام،

جمرات :حضرت عیسیٰ  علیہ السلام اور

جمعہ حضرت محمد صلی اللٰ٘ہ و آلہ والسلام،

جمعہ جو آخری نبی پر دلیل ہے،یہاں اسماعیلی تعلیمات کے مطابق تنزیل کا زمانہ اپنے اختتام کو پہنچتا ہے,اب کوئی نبی نہیں آئے گا ،اس کے بعد امامت کا دور  شروغ ہوا ہے، اس دور میں اساس یعنی اسماعیلی اٸمہ ناطق پیغمبروں کے تنزیل کے پیچھے جو حکمت ہے, یعنی تاویل کو سکھانے والے ہیں، تاکہ تاویل کی وجہ سے اسماعیلی مرید روحانی طور پر پاک ہو جائیں,اور اور دورِ روحانی جو ساتواں دن ہے یعنی ہفتہ اس دور کو دورِ آخر بھی کہا جاتا ہے جیسا کہ امام سلطان محمد شاہ کا ارشاد ہے۔یہ آخر زمانہ ہے اس میں جو ایماندار ہیں،ان کو اپنے زمانے کے امام کی قدرت اور کرامات نظر آئیں گی،لیکن جو ادھورے  دل والے ہیں وہ ظاہری کرامات دیکھیں گے، پھر بھی ان کو جھوٹ سمجھیں گے،جو لوگ پیغمبر اور امام کی قدرت کو نہیں مانتے، ان کی مثال اس اندھے کی طرح ہے، جس کے نزدیک آئینہ اور ٹھیکری دونوں برابر ہیں۔بحوالہ: کلام امام مبین

(بمبئی، 1950ءحصہ اول،ص 1)

سر آغاخان سوٸم سلطان محمد شاہ کے اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں اسماعیلیوں کے نزدیک امامت کی پہچان چشم باطن سے کرنا ہے،کیونکہ یہ زمانہ تاویل کا ہے اور تاویل کا تعلق باطن سے ہے،اور امام کی کرامات ظاہر سے زیادہ باطن میں ہوں گے۔

اسماعیلی مشہور شخصیت حجت خراسان و بدخشان پیر ناصر خسرو اپنی خوبصورت تصنیف وجہ دین میں جمعہ کی کچھ اس طرح تاویل بیان فرماتے ہیں ،۔

ہم خدا کی توفیق بیان کریں گے ، نماز جمعہ ناطق پر دلیل ہے ، اس لیے روز جمعہ سات دنوں میں سے ایک ایسا دن ہے جس میں لوگ ایک جگہ پر جمع ہوجاتے ہیں،جس طرح ناطق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سات اماموں میں سے ایک ایسے امام ہیں ، جن سے پہلے چھہ امام گذر چکے ہیں اور وہ ان سب کے مراتب کا جامع ہیں اور اس دن " یوم الجمعہ" اس لیے کہتے ہیں کہ اس روز امت کے سب لوگ ایک جگہ پر جمع ہوجاتے ہیں ، جس طرح تمام پیغبروں اور اماموں کے مراتب محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جمع ہوئے کہ روز جمعہ انہی کی دلیل ہے ۔

نماز جمعہ دو رکعت ہے ، اس میں دو خطبے پڑھتے ہیں ، اس کی تاویل یہ ہے کہ ناطق لوگوں کو چار اصول دین کی طرف بلاتے ہیں اس میں خطبہ پہلے اور نماز بعد میں پڑھتے ہیں ، جس کی تاویل یہ ہے کہ ناطق پہلے دو روحانیون عقل کل و نفس کل سے آگاہ ہوئے پھر انھوں نے دو جسمانیوں کو یعنی اساس اور امام کو قائم کر دیا اور جمعہ کے دن خطبہ کا ہر زینے پر کچھ وقفہ کھڑا رہتا  ہوا منبر پر چڑھا ، اس بات کی نشاندھی ہے کہ ناطق مستجیبی کے درجے سے بلند ہوکر ماذون کے درجے پر پہنچے ، درجہ ماذونی سے درجہ داعی گری میں ، درجہ داعی گری سے درجہ حجتی میں ، درجہ حجتی سے درجہ امامت میں اور درجہ امامت سے درجہ نبوت میں پہنچنے اور آپ ہر درجے میں طاہر و باطن دونوں میں بحقیقت عمل کیا ، یہان تک کہ علم و عمل دونون کے ذریعہ تمام مراتب سے گذر گئے ۔

خطبہ کا منبر پر کھڑا رہنا ، ناطق کے اپنے مرتبے میں پہنچ جانے کی دلیل ہے اور خطیب کا منہ مشرق کی طرف کرلینا ناطق پر دلیل ہے کہ آپ نے اپنا منہ ناطق کی طرف کر لیا ، جو توحید کا مشرق ہے اور منبر خطیب کا خطبہ پڑھنا عقل کل کے ساتھ ناطق کے مخاطبہ ( یعنی گفتگو) کرنے کی مثال ہے، جس میں پہلا خطبہ ناطق کے عقل کل پہچاننے پر دلیل ہے اور دوسرا خطبہ ناطق کے نفس کل پہچاننے ،اور  اس سے فائدہ حاصل کرنے پر دلیل ہے اور دو خطبوں کے بعد منبر سے خطیب کا اترآنا ان روحانی مخاطبتوں کو عربی زبان میں ناطق کے جسمانی کردینے کی مثال ہے ، جو عقل کل اور نفس کل  سے ان کو حاصل ہوئیں اور سننے والوں کے نزدیک کردینے پر دلیل ہے ۔

پھر قوم کے لیے خطیب کا پیش نماز ہونا اور ان کی طرف پیٹھ کر دینا ،ان روحانی باتوں کو ناطق کے لیے پوشیدہ کہنے پر دلیل ہے ، یعنی ناطق نے دو طرفہ بات کی ، جس طرح پیش امام دوسری طرف منہ کیا ہوا ہے ، یعنی پیش نماز جو کچھ پڑھتا ہے ، اس کا دو طرفہ اطلاق ہوتا ہے ، ایک اعتبار سے آگے کی طرف کہ وہ سامنے کو منہ کیا ہوا ہے اور دوسرے اعتبار سے پیچھے کی طرف کہ وہ اس قوم کا پیش نماز ہے ، یہ ناطق کی مثال ہے جس کی تعلیم ظاہر اور باطن کے درمیان دو طرفہ ہے اور نماز جمعہ پہلے تو خطبہ پڑھا جاتا ہے اور نماز اس کے بعد پڑھی جاتی ہے ، یہ دلیل ہے عالم بالا سے ناطق کے علم حاصل کرنے پھر اسے لوگوں تک پہنچانے پر ۔

دوسرے اعتبار سے روز جمعہ امام برحق پر دلیل ہے کیونکہ وہ مستجیب سے درجہ ہفتم پر ہیں ، جس طرح ناطق امام سے درجہ ہفتم پر ہیں ( یعنی امام اول آدم ع  ، نوح ع  ،ابراہیم  ع ،  موسی ع ، عیسیٰ ع اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم) اور دوسرے درجے پر یہ ہیں : مستجیب ، ماذون مطلق ، داعی محدود ، داعی مطلق ، حجت  جزائر ، حجت اعظم اور امام درجہ ہفتم ہیں اور یہ سات درجے امام تک پہنچ جانے کے لیے ہیں جس طرح ناطق یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مذکورہ اماموں کے درجات کا جامع ہیں اور ان سات درجات میں سے بات کرنے والا دراصل امام ہی ہیں ، جبکہ وہ کسی کو سنانا اور بتانا چاہیں کہ حق کا راستہ یہی ہے ، جس طرح سات اماموں میں سے امام ہفتم ( حضرت قائم علیہ السلام ہر بڑے دور کے آخر میں) ظاہر ہوجاتے ہیں اور اپنے آپ کو ظاہر کردیتے ہیں اور از سر نو نبوت و شریعت رکھتے ہیں اگر جمعہ مسجد میں ہوئی تو  دو رکعت میں پڑھتے ہیں اور اگر مسجد سے باہر ہوئی تو چار رکعت میں پڑھتے ہیں یہ اس لیے کہ دو خطبہ خطیب پڑھتا ہے ، دو روحانیون سے ناطق کے مخاطبہ کرنے پر دلیل ہیں اور دو رکعت نماز بھی جو تنہا الحمد کے ساتھ ہے دو روحانیون کی نشاندھی کرتی ہے ، نیز جامع مسجد درجہ امام کے تخت ظاہری اجتماع پر دلیل ہے ، لیکن یہ ظاہر میں کرنا چاہیے ، دو رکعت نماز جو فاتحہ اور سورے کے ساتھ ہے ، جسمانیوں اور اہل ظاہر پر دلیل ہے اور مسجد سے باہر چار رکعت پڑھتے ہیں ، جس کی تاویل یہ ہے کہ ایسے جزائر میں جہان اہل ظاہر موجود ہوں ، امام کی یاد اور فرماں برداری اور باطن دونوں طرح سے کرنی چاہیے ، کیونکہ چار رکعات دو روحانیون اور دو جسمانیوں پر دلیل ہیں اور دو خطبوں کا پڑھنا آساس اور حجت پر دلیل ہے، جو تاویل کے مالک ہیں اور دو رکعت ناطق اور امام کی دلیل ہیں ، کیونکہ وہ ظاہرِ شریعت کی تالیف کے مالک ہیں ۔

اسماعیلی نظریات میں ستاڑے کا تصور۔۔

  اسماعیلی طریقت میں ستاڑا یعنی مشکل آسان اور روحانی ترقی کے تسبیحات کا پس منظر

شیعہ امامی اسماعیلیوں کے نزاری شاخ میں اسماعیلی ستاڑے نام کے تسبیحات پڑھی جاتی ہے۔ جس کی تفصیل اسماعیلی عقائد کی کتاب کے مطابق یوں بیان کیا گیا ہے۔کہ ستاڑا کے معنی ہیں متواتر سات دن تک خداوند تعالی کی رحمت طلب کرتے ہوئے دُعائیں مانگنا اور خصوصی عبادت میں شرکت کرنا۔ اس کا مقصد مشکلات اور آفات دُور کرنے کے لیے رقت قلب سے گریہ و زاری کرنا اور روحانی ترقی کے لیے خاص کوشش کرنا ہے۔

ستاڑے کی دو قسمیں ہیں : (1) مشکل آسان کے ستاڑے۔ (2) روحانی ترقی کے لیے ستاڑے۔

1 مشکل آسان کے ستارے مشکل ایک فرد کو بھی در پیش آسکتی ہے اور خاندان کو بھی، جماعت کو بھی در پیش آسکتی ہے اور پورے ملک کو بھی۔ چنانچہ جب کسی فرد، جماعت یا ملک پر کوئی ناگہانی آفت یا مصیبت آن پڑتی ہے تو مشکل آسان کا ستاڑا عمل میں لایا جاتا ہے جس میں پوری جماعت ساتھ مل کر خشوع و خضوع سے دُعائیں مانگتی ہے۔ دنیا ایک ایسی جگہ ہے جہاں آئے دن انسان پر انفرادی یا اجتماعی مصائب اور آفات کا نزول ہوتا رہتا ہے۔ بیماری، وبا، قحط، سیلاب، زلزله، جنگ، عداوت، جرائم، حادثات وغیرہ وہ مصائب ہیں جن سے انسان اکثر و بیشتر دو چار ہوتا رہتا ہے۔ گویا مصائب اور تکالیف فطرت کا حصہ ہیں۔ قرآن حکیم اور انبیا و ائمہ علیہم السلام کی حیات طیبات کے مطالعے سے ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ روئے زمین پر مشکلات اور مصائب سے خالی زندگی کا تصور ممکن نہیں۔ جیسا کہ حضرت امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے فرمایا کہ :

"دن رات ہمارے خیالات آپ کے ساتھ ہیں۔ اگر چہ اس دُنیا میں دُکھ اور غم کبھی ختم نہیں ہوتے اور ہر ایک کو دُکھ اور غم کا مناسب حصہ بھگتنا پڑتا ہے، پھر بھی ہماری دعا ہے کہ اعتقاد، ایمان اور آپ کے روحانی باپ کی محبت کے سبب آپ پر کم بوجھ پڑے اور ہر قسم کا سکھ نصیب ہو۔ ہم دُعا کرتے ہیں اور اپنی دُعا و برکات بھی فرماتے ہیں کہ دوسرے  جہان میں ہر وقت دن رات آپکو امام کا حقیقی دیدار، دائمی سکون اور سکھ نصیب ہو جو آپ کو صرف دوسرے جہان ہی میں مل سکتا ہے۔ لیکن اس دُنیا کے لیے ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ تمام عمدہ دُعا و برکات کے باوجود دُکھ اور غم اس دُنیا سے ختم نہیں ہو سکتے ہیں۔ ایک بار پھردونوں جہان کے سکھ کے لیے ہم اپنی دُعا و برکات، محبت بھرے خیالات اور ہر قسم کی دُعا فرماتے ہیں۔“ (افریقہ جماعت کو پیغام، 1948-12-21۔

چنانچہ مصائب دُور کرنے یا ان کے اثرات کم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں دُعائیں مانگنے کی تعلیم دی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ : قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمُ رَبِّي لَوْ لَا دُعَاؤُكُمْ ) (25:77) (اے رسول) کہدو کہ اگر تم دُعائیں نہیں کرتے تو میرا پروردگار بھی تمھاری کوئی پروا نہیں کرتا۔“

اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد ہے کہ :

وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (40:60) اور تمھارے پروردگار نے کہا کہ مجھ سے دعا مانگو میں تمھاری دعا قبول کروں گا ۔“ دُعائیں سننے اور مشکلات دور کرنے سے متعلق ارشاد ہے کہ : أَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ (62 : 27) " بھلا کون ہے جو بے قرار کی دُعا قبول کرتا ہے جس وقت بھی وہ اُسے پکارے اور مصیبت کو دور کر دیتا ہے؟“

پس معلوم ہوا کہ انسان کو چاہیے کہ اپنی مشکلات و آفات کو کم کرنے کے لیے دُعا کا سہارا لے اور اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف مدد کے لیے رجوع کرے۔ علاوہ ازیں ایک مسلمہ حقیقت یہ بھی ہے کہ انفرادی دُعاؤں سے اجتماعی دعاؤں میں زیادہ تاثیر ہوتی ہے اس لیے با جماعت دُعاؤں کی خاص تاکید کی جاتی ہے۔ مشکل آسان کے ستاڑے کے متعلق ایک اہم بات یہ ذہن میں رکھنی چاہیے کہ یہ ستاڑے صرف اُسی وقت عمل میں لائے جاتے ہیں جب کسی فرد، خاندان، جماعت یا ملک پر کوئی ایسی آفت آن پڑے جس کا ازالہ ان کے بس سے باہر ہو۔ معمولی مشکلات کے لیے ستاڑے کا سہارا نہیں لینا چاہیے۔ جیسا کہ حضرت امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے زنجبار میں خواتین کو (جنھوں نے غالباً بلا وجہ

ستاڑے کا انعقاد کیا تھا) فرمایا کہ : ” اب سے ستاڑے منعقد نہ کرنا بلکہ خوشیاں منانا... یونہی ستاڑے عمل میں لائیں گے تو فائدہ نہیں ہوگا۔ جب ضرورت پڑے اس وقت عمل میں لانا۔ اگر یونہی (بلا وجہ ) ستاڑے منعقد کرتے رہیں

گے تو پھر جب تکلیف آئے گی اس وقت ستاڑے منعقد کریں گے تو فائدہ نہیں ہوگا۔ جب ضرورت ہو تب ستاڑے منعقد کرنا ... "

(زنجبار، 1937-1-26)

اسی طرح جب ایک موقع پر خواتین نے آپ سے ستاڑے کی اجازت چاہی تو

آپ  نے فرمایا کہ : ایسا نہ ہو کہ کوئی آپ کو فریب دے جائے۔ آپ سے کوئی کہے کہ مجھے دین کے لیے ستاڑا عمل میں لانا ہے اور اس کے دل میں کوئی دوسری بات ہو۔ ایسے لوگ بہت ہیں... اس لیے کسی کا ستاڑا قبول کرنے سے پیشتر اس بات کا یقین کر لینا کہ اس کے دل میں کوئی اور بات نہ ہو۔“

(زنجبار، 1899-7-10)

2- روحانی ترقی کے ستاڑے

" اس ستاڑے میں مومنین و مومنات متواتر سات دن تک عبادت، ذکر اور تسبیح میں اس غرض سے شریک ہوتے ہیں کہ انھیں روحانی ترقی نصیب ہو اور اس راہ میں حائل دشواریاں دُور ہوں۔ عبادت و ریاضت اور روحانیت کی راہ میں ترقی کے لیے کچھ دن مخصوص کر لیتا اور دیگر معاملات سے چند دن کنارہ کش ہو کر ذکر و فکر کے لیے خلوت نشین ہو جانا اسلام کے دیگر طریقوں میں بھی پایا جاتا ہے مثلاً اعتکاف، چلہ کشی وغیرہ۔ قرآن حکیم کی تعلیمات اور انبیا علیہم السلام کے حالات زندگی سے بھی اس حقیقت کا ثبوت ملتا ہے کہ مختلف پیغمبروں نے روحانی ترقی کے لیے مسلسل عبادات کا اہتمام کیا تھا۔ جیسا کہ واقعہ مشہور ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ

السلام نے دیدار الہی کے لیے کوہِ طور پر چالیس روز تک مسلسل عبادت کا اہتمام

کیا۔ جس کے متعلق قرآنِ حکیم میں آیا ہے کہ : وَإِذْ وَعَدْنَا مُوسَى أَرْبَعِينَ لَيْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَنتُم ظُلِمُونَ 0 2:51) اور (اے بنی اسرائیل) وہ وقت بھی یاد کرو جبکہ ہم نے موسیٰ سے چالیس راتوں کا وعدہ لیا تھا پھر تم لوگوں نے اس کے جانے کے بعد ایک بچھڑے کی پرستش کرلی اور تم ظالم ہو " "

اسی طرح حضرت زکریا علیہ السلام کے متعلق ارشاد ہے کہ : قَالَ رَبِّ اجْعَلُ لِي ايَةٌ قَالَ ايَتُكَ أَلَّا تُكَلِمَ النَّاسَ ثَلْثَ لَيَالٍ سَوِيًّا (19:10)

حضرت زکریا علیھم السلام نے عرض کی اے میرے پروردگار ! میرے لیے کوئی نشانی مقرر کر دے۔ فرمایا تیرے لیے نشانی یہ ہے کہ تو بھلا چنگا ہونے کے باوجود تین روز تک مسلسل لوگوں سے بات نہ کرے۔“ اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی حیات طیبہ سے بھی اس حقیقت کا ثبوت ملتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم متواتر کئی دن تک عبادت و ریاضت اور ذکر وفکر کے لیے غار حرا میں خلوت گزیں ہو جایا کرتے تھے۔ چنانچہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ روحانی ترقی کے لیے کچھ خاص عرصہ مخصوص کر لینا اور اس کے لیے خصوصی اہتمام کرنا انبیا علیہم السلام کا شیوہ رہا ہے اور اس کی ایک مثال روحانی ترقی کا ستاڑا ہے۔

اسماعیلی اصطلاح میں مجالس کا پس منظر

مجالس کا پس منظر

بر صغیر ہند کی جماعتوں میں متعدد مجالس کی جو روایت پائی جاتی ہے اس کی تاریخ بہت قدیم نہیں بلکہ تقریباً اُن سب کا آغاز 1842 کے بعد ہوا جب امام حسن علی شاہ صلوات اللہ علیہ ایران سے ہجرت کر کے ہندوستان تشریف لائے اور مستقل طور پر مریدوں کے درمیان قیام فرمایا۔ تاہم تاریخی طور پر مجالس کی زیادہ واضح شہادتیں حضرت امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے زمانے سے ملتی ہیں کیونکہ اس دور کے احوال اور فرامین نسبتاً بہتر طور پر محفوظ ہیں اور اُن تک رسائی ممکن ہے۔ لفظ مجلس لغت عربی کے فعل جَلَسَ يَجْلِسُ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں چند افراد کا کسی مقصد کے تحت ایک جگہ پر جمع ہونا۔ اسماعیلی اصطلاح میں اس سے وہ مجالس مراد ہیں جن میں بہت سے دیندار عبادت و بندگی، تسبیح، ذکر وفکر، علم نصیحت کی باتیں سننے اور دیگر دینی و روحانی فیوض و برکات حاصل کرنے کی غرض سے جمع ہوتے ہیں۔ قرآنِ حکیم میں مجلس کے لیے ایک آیت ہے جس میں خداوند تعالیٰ

فرماتا ہے : يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قِيلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوا فِي الْمَجْلِسِ فَافَسَحُوا يَفْسَحِ اللهُ لَكُمْ ، وَ إِذَا قِيلَ انْشُزُوا فَانْشُزُوا يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ امَنُوا مِنْكُمْ لا وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَتٍ ، وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ  (58:11)

اے ایمان والو ! جب تم سے کہا جائے کہ مجالس میں جگہ کشادہ کر دو تو کشادہ کر

دیا کرو خدا تم کو کشادگی عطا کرے گا اور جب تم سے کہا جائے کہ اٹھ کھڑے ہو جاؤ تو اُٹھ کھڑے ہوا کرو۔ جو لوگ تم میں سے ایماندار ہیں اور جن کو علم عطا ہوا ہے خدا ان کے درجے بلند کریگا۔ اور خدا تمھارے سب کاموں سے باخبر ہے۔“ حضرت امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے زمانے میں بہت ساری مجالس کا تذکرہ ملتا ہے۔ دراصل امام خود جماعت کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے کہ وہ ٹولیاں بنائیں اور اُن کی مجالس میں باقاعدگی سے حاضری دیں۔ جیسا کہ آپ کا ارشاد ہے کہ :

" آپ پنجے بھائی ہوئے ہیں تو شب بیداری (اور) مجلس میں ہمیشہ آنا اور اپنی مجالس سنبھالنا۔ مجلس کے لیے ہفتے میں کم از کم تین منڈلیاں (ٹولیاں) ہونی چاہئیں۔ ایک بڑی عمر کے مردوں کی، دوسری جوانوں کی اور تیسری چھوٹے بچوں کی ۔“

(کچھ ناگپور، 1903-11-26) چنانچہ امام زمان کی حوصلہ افزائی سے ٹولیوں کی ایک بہت بڑی تعداد وجود میں آگئی۔ ان ٹولیوں میں ایک ہی پیشے سے تعلق رکھنے والوں کی ٹولیاں، ایک ہی علاقے سے تعلق رکھنے والوں کی ٹولیاں، ہفتے کے مختلف دنوں سے منسوب پنجے بھائیوں کی ٹولیاں، خواتین کی مختلف ٹولیاں اور بچوں کی ٹولیاں شامل تھیں۔ مندرجہ ذیل فہرست سے ان ٹولیوں کی نوعیت کا بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے :

فهرست :

1.جنا گڑھ والا پنجے بھائی پنجے بھینٹوں

2.امریلی والا پنجے بھائی پنجے بھینٹوں

3.دھاری والا پنجے بھائی پنجے بھینٹوں

4.مرچی مصالحہ والا پنجے بھائی پنجے بھیٹنوں

5۔آتوار پنجے بھائی پنجے بھینٹوں

6.بدھوار پنجے بھائی پنجے بھینٹوں

.آتوار اور بدھوار پنجے بھائی پنجے بھینٹوں کی ٹولیوں کو بعد میں ملا کر آت مجالس کوبدھ پنجے بھائی پنجے  بھینٹوں “ کر دیا گیا اور پھر مندرجہ بالا پانچوں کو ملا کر پانچ ٹولی پنجے بھائی پنجے  بھینٹوں “ کر دیا گیا۔)

7.تھاور رات پنجے بھائی

8.منگل دار پنجے بھینٹوں

9.جمعہ پنجے بھائی

10.میٹرو پول فروٹ بردر ہوڈ

11.والکیشور پنجے بھینٹوں

12.ست سنگ پنجے بھٹوں

13. صبح صادق پنجےبھینٹوں

14. یووان پنجے بھائی

15. چاندرات پنجے بھائی

16.چاندرات پنجے بھینٹوں

17.بیت الخیال پنجے بھائی

18.بیت الخیال پنجے بھینٹوں

19.روشنی پنجے بھینٹوں

20.ثمر چھانٹا / تیسری تاریخ پنجے بھینٹوں

21.پونم پنجے بھینٹںوں

22.چھٹی کی مجلس

23.بار پنجے بھائی پنجے بھیٹوں (چھوٹے بچوں کی ٹولی)

24. چودھویں پنجے بھائی پنجے بھینٹوں

25. پاک بردر ہوڈ ڈولی

26 . پاک مبارک برور ہوڈ ٹولی

27.  نور پنجے بھائی

28. صاف صفائی پنجے بھینٹوں

30. تاریخ کی خواتین کی مجلس

32.شنبہ خواتین کی مجلس وغیرہ۔

  " دراصل ہندوستان میں امام کی آمد اور مریدوں کے درمیان آپ کا قیام اس علاقے کی جماعت کے لیے ایک تاریخی باب کا آغاز تھا۔ ایک جانب یہ پیروں کی صدیوں کی پیشنگوئی کی تکمیل اور دوسری جانب مریدوں کی صدیوں کی دعاؤں کا جواب اور آرزوؤں کی تکمیل کا دور تھا۔ یہ ایک ایسا دور تھا جب لوگوں کے پاس وقت کی فراوانی تھی۔ زندگی آج کے مقابلے میں کافی سست رفتار ہونے کی بنا پر وقت کوئی بہت بڑا مسئلہ نہیں تھا۔ تعلیم نہ ہونے کے برابر تھی یا بہت ہی ابتدائی مرحلے میں تھی۔ روزگار کی مصروفیات دن کے اوقات تک ہی محدود تھیں، اس لحاظ سے رات کا کافی وقت دستیاب تھا۔ چنانچہ امام زمان نے اُن کے اوقات کو جماعت کی دُنیوی و روحانی بہبود کے لیے استعمال کرنے کا طریقہ بتایا۔ رات کو مجالس کا سلسلہ شروع کیا گیا، شب بیداری کی حوصلہ افزائی کی گئی اور علم و حکمت کی مجالس کے انعقاد کو فروغ دیا گیا۔ جیسا کہ امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے

مندرجہ ذیل فرامین سے ظاہر ہے : " گنان بولیں، ہمیشہ مجلس کریں اور پیر صدر دین نے فرمایا ہے اس طرح چلیں۔“ (احمد آباد، 1896-2-12)

" آپ کا دین سچائی کا ہے اس لیے سچائی رکھیں، مجلس شب بیداری میں جائیں۔“ (زنجبار، 1899-7-1)

" گاؤں کے سب لوگ ہمیشہ جماعت خانہ جائیں، گنان بولیں، غور و فکر کریں، مجلس کریں اور گنان کی وضاحت کر کے اس سے واقف بنیں۔ (جام نگر، 1900 -4-4)

" جس رات کی مجلس آپ نے طے کی ہو اس میں آپ حاضر رہیں۔ دو گاؤں میں سے ایک گاؤں میں مجلس ہو تو دوسری مرتبہ دوسرے گاؤں میں جا کر مجلس کریں۔ قریب قریب کے دو تین گاؤں کے اسماعیلیوں پر واجب ہے کہ سال میں ایک مرتبہ جمع ہوں اور گنان کی وضاحت کریں۔ (جام نگر، 1900-4-15)

" آپ مجلس میں بیٹھیں گے اور دُعا پڑھیں گے تو آپ کو زیادہ فائدہ ہوگا۔" (راجکوٹ، 1900-10-23)

  ' مذہب کے کام میں عادت ڈالنے کی خاص ضرورت ہے۔ پہلے تو روزانہ جماعت خانہ جانے کی عادت ڈالیں۔ پھر مجلس میں آکر اس عادت کو بڑھائیں۔“ (کچھ مندراء 1903-11-21)

" آپ کو مجلس (اور) شب بیداری میں حاضر رہنا چاہیے۔ مذہب لے کر سُست رہیں گے تو بالآخر آپ میں بے ایمانی کا راستہ داخل ہو جائے گا۔“ (کچھ بھد ریسر، 1903-11-23)

" ہمیشہ دُعا کے وقت جماعت خانہ میں حاضر رہیں، مجلس (اور) شب بیداری ہمیشہ کریں۔ آپ مجلس، شب بیداری میں جائیں اُس وقت تھال، سفرہ، مہمانی وغیرہ کے کام مکمل ہونے سے پہلے اُٹھ نہ جائیں۔“ (زنجار، 1905-8-25)

" آپ جماعت یہاں اس مجلس میں آئے ہیں، آپ کو بہت دُعا و برکات فرماتے ہیں، خانہ وادان۔ آپ قدم اُٹھا کر یہاں مجلس میں آئے ہیں اور جو ایک ایک قدم آپ نے اُٹھایا ہے اس ایک ایک قدم کے بدلے میں بہشت ایک سو قدم آپ کے نزدیک ہوگی۔ یہ ایمان کی نشانی ہے۔ آپ کا گاؤں یہاں سے بہت دُور ہوگا۔ پھر کچھ لوگ بہت دُور سے آئے ہیں۔ بمبئی بھی کوئی نزدیک نہیں۔ جس طرح آپ سب یہاں جمع ہوئے ہیں اس طرح یہاں اور وہاں دونوں جہان میں اسی طرح ہمارے پاس یعنی ہمارے قدم کے پاس ہوں گے ... جہاں جہاں مجالس کے میلے ہوتے ہیں وہاں فیض حاصل کرنے کے لیے جانا ایمانداری کی نشانی ہے۔ گھر پر بیٹھ کر فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔“ (پونا، 1906-2-18)

" ہم آپ پر بہت خوش ہیں۔ آپ مجلس میں جمع ہوتے ہیں اس سے ہم بہت خوش ہوتے ہیں۔" (بمبئی، 1911-1-4)

" آپ جو پنجے بھائی ہیں وہ ہمیشہ مجلس میں آئیں۔ سُستی نہ کریں۔ آپ پنجے بھائی ہو کر مجلس میں نہ آئیں تو کیا فائدہ؟ (ممباسه، 1905-11-7)

" جب آپ مجلس میں آتے ہیں اس وقت ہمیں روحانی مہمانی پیش کرتے ہیں۔“ (کراچی، 1952-1-15)

اسماعیلی سلسلہ کا آغاز

جعفر صادق کے بڑے لڑکے اسماعیل سے یہ فرقہ منسوب ہے، ان کے مطابق اسماعیل کی وفات 133ھ میں ہوئی تھی اور انھوں نے اپنے بیٹے محمد پر نص کیا تھا اور امام محمد کے بعد تین ائمہ عبد اللہ، احمد اور حسین ہوئے۔ یہ تینوں مستورین کہلاتے تھے یعنی یہ بہت پوشیدہ زندگی بسر کرتے تھے۔ ان کے خاص خاص نقیبوں کے علاوہ ان کا پتہ کسی کو نہیں معلوم ہوتا تھا۔ ان کے ناموں میں بھی اختلاف پایا جاتا تھا۔ حسین نے عسکر مکرم میں 297ھ میں وفات پائی۔ اس نے اپنی وفات سے پہلے اپنے بیٹے عبد اللہ مہدی کو نص کیا۔ جو مہدی نام سے 297ھ مغرب (افریقہ) میں ظاہر ہوا۔ مذکورہ بالا مستورین اماموں کے ناموں میں اختلاف ہے۔

فلسفہ اور مذہب

اسلام کے جن فرقوں نے مذہب کو فلسفہ سے ملانے کی کوشش کی ان میں معتزلہ اور اسماعیلی سرفہرست ہیں۔ لیکن اسماعیلیوں کا عقیدہ دوسرے شیعی فرقوں کی طرح یہ تھا کہ شریعت کے تمام روحانی علوم کا منبع اور سرچشمہ حضرت علیؓ کی ذات ہے اور آپ کے بعد ان علوم کی وراثت آپ کی اولاد کو ملی اور سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے ہوئے امام جعفر صادق تک پہنچی۔ اسماعیلیوں کی روایت کے مطابق جعفر صادق نے اس کی اشاعت و تبلغ میں بڑا اہتمام کیا۔

عقائد

اسماعیلی سات کے عدد کو کامل ہونے کی وجہ سے اسے ایک پر اسرار عدد سمجھتے ہیں اور ان کے عقائد میں اس عدد کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ عالم کے مختلف نظاموں میں سات کو بڑا دخل ہے۔ چنانچہ آسمان، زمینیں، کواکب، سیارے، دریا، جہنم کے طبقات، قران کی قراءتیں، سورہ فاتحہ کی آیتیں، انسانی چہرے کے منافذ، گردن کے مہرے، ہفتہ کے دن، بیت اللہ کے طواف وغیرہ یہ سب سات ہیں۔ اسی طرح انبیاے مرسلین جنہیں اسماعیلی نطقا کہتے ہیں اور ان کے ادوار سات ہیں۔ ہر ناطق کا ایک قائم مقام ہوتا ہے جو صامت کہلاتا ہے۔ یہ علم باطن کا وارث ہوتا ہے۔ اس کے دوسرے نام وصی، اساس اور سوس بھی ہیں۔ نبی مرسل کو ناطق اس لیے کہتے ہیں کہ وہ آیت کریمہ "ہذا کتابنا ینطق علیکم بالحق" کے بموجب حق بات کہتا ہے اور خدا کی طرف سے نئی کتاب و شریعت لاتا ہے۔ وصی کو صامت اس لیے کہتے ہیں کہ وہ تاویل بیان کرتا ہے اور ظاہر کے بارے میں خاموشی اختیار کرتا ہے یعنی ظاہر بیان نہیں کرتا ہے۔اس لیے دور حاضر کے اسماعیلی ظاہری شریعت کی بجائے باطنی خواض پر عمل کرتے ہیں انھوں نے ہر ارکان اسلام کی آپنی طرف سے باطنی تشریخ بنائے ہیں اس لیے اسماعیلی ظاہری اعمال کے بارے میں خاموشی اختیار کرتے ہیں۔۔

ولایت

معرفت کی طرح ہر مومن اپنے زمانے کے امام کی ولایت بھی فرض ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسماعیلی اسلام کے سات دعائم شمار کرتے ہیں۔ یعنی ولایت، طہارت، صلوۃ، زکواۃ، روزہ حج اور جہاد۔ ان سب میں اول درجہ ولایت ہے۔ یعنی ولایت کے بغیر کوئی عمل مقبول نہیں، کوئی کیسے ہی اعمال کیوں نہ کرے۔ لیکن اگر وہ امام کی ولایت کا قائل نہیں تو سارے اعمال بیکار ہیں۔ مہدی اسماعیلیوں کے عقیدہ میں کسی ایک خاض شخص کا نام نہیں بلکہ یہ ایک روحانیت ہے۔۔ یعنی اس کا ظہور ہر اس امام کے ساتھ ہوتاہے۔ جو امامت کے ساتھ خلافت یا جدید سیاست میں بھی عہدہ سنبھالتاہے ۔ ہر وہ امام آپنے دور کے مہدی ہوتا ہے ۔۔ اخری مہدی کے بارے میں اسماعیلی کتاب میں تاویلات اور نشانیان موجود ہے۔۔ جو ہر کسی کو نہیں بتا دیا جاتا ہے۔ اسماعیلی عقیدہ میں عالم روحانیت میں قیامت کا تصور بھی ہے۔ جو جسمانی دور کے ساتھ یعنی اماموں کے دور کے ساتھ ہے۔۔ جس کا اغاز اسماعیلی عقیدہ کی کتابوں کے مطابق تو پہلا امام علی کے دور سے شروع ہوا ہے۔۔ جو اسماعیلی کتاب میں مولا علی علیہ السلام کا ارشاد ہے٫ اَناَ الذی اَقومُ الساعة ۔۔یعنی میں ہوں وہ شخص جوقیامت کو برپا کرتا ہوں۔)( منقبت ٥٣ ) ؛کا حوالہ کے ساتھ فلسفے بیان ہوئے ہے۔۔ اور دوسری جسمانی قیامت کا دور اسماعیل بن جعفرصادق کے دور کو کہا جاتا ہے۔ اور تیسری دور عبد اللہ بن حسین المہدی کے دور کو کہتے ہیں، جو گیارویں امام اور فاطمیین کے ظہور کے پہلے خلیفہ ہیں۔ اس کے بعد اسماعیلی دعوت کے نو امام ہوئے، جو ظہور کے امام کہلاتے ہیں 525ھ میں ان کے اکیسویں امام طیب ڈھائی برس کی عمر میں دشمنوں کے خوف سے مستور کر دیے گئے۔ اور امام نزار کے دور کو بھی دور روحانی قیامت کا دور کہا جاتا ہے۔ کچھ اسماعیلی اٹھتالیس وان امام کے دور کو بھی جسمانی قیامت کا دور سمجھتے ہے۔ جس کے بعد کچھ گروہ اس کے فرزند پرنس علی کو جبکہ کچھ گروہ پرنس آغاخان سوم کے پوتے پرنس کریم آغاخان کو امام مانتے تھے۔۔ ۔۔ اسماعیلی عقیدہ میں یہ امامت جہان سے اختلافات کی بنا پر دو گروہ بنتے ہے اس کو جسمانی دور قیامت کا ایک امتحان سمجھا جاتا ہے۔ یو یہ امامت اس سلسلے سے نسل بہ نسل قیامت تک ائمہ یکے بعد دیگر ہوتے رہیں گے ۔، جن کا آخری امام قائم القیامہ ہوگا، جس سے دور کشف کی ابتدا ہوگی۔ یہ سب ائمہ اولولامر کہلاتے ہیں، جن کی اطاعت اساعیلیوں کے مطابق بندہ گانِ خدا پر فرض ہے۔

ناطق

اسماعیلیوں کے نزدیک پہلے ناطق حضرت آدمؑ تھے، جنھوں نے خدا کے حکم سے ایک نئی شریعت وضع کی۔ ان کے بعد حضرت نوحؑ جنھوں نے حضرت آدمؑ کی شریعت کو منسوخ کرکے ایک دوسری نئی شریعت پیش کی۔ اسی طرح برابر ناطق آتے رہے۔ ہر ناطق اپنے پیش رو کی شریعت کو منسوخ کرکے اپنی شریعت کی تعلیم دیتا رہا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے گذشتہ انبیا کی شریعتوں کو منسوخ کرکے ایک جدید شریعت وضع کی۔ آپ محمد صل اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے پہلے حضرت علیؓ پر نص کی۔ حضرت علیؓ نے حضرت حسنؓ کو اپنا جانشین بنایا۔یہ سلسلہ لگاتار امام محمد بن اسماعیل بن جعفر تک پہنچا، جو ساتویں ناطق اور ساتویں امام ہیں۔ جنھوں نے رسول اللہ صلم کی شریعت کے ظاہر کو معطل کرکے باطن کو کشف کیا اور عالم الطبائع کو ختم کیا۔ ناطقوں کے مبعوث ہونے اور ان کی شریعتوں کے منسوخ ہونے کا حوالہ عام تاریخ میں پایا جاتا ہے اور اس کی تصدیق فاطمیین مصر کے مشہور امام معز کی دعاؤں سے ہوتی ہے۔ ان دعاؤں کو اسماعیلی بہت متبرک سمجھتے ہیں، یہ سات دعائیں ہیں۔ ہر دن کے لیے ایک دعا ہے، جس میں ایک ناطق اور اس کے وصی اور ائمہ کا ذکر تفصیل سے کیا گیا ہے۔

ناطق وصی ساتواں امام
آدم شیث[2] نوح
نوح سام ابراہیم
ابراہیم اسماعیل موسی
موسی ہارون عیسی
عیسی شمعون محمد
محمد علی مہدی [3]

امام

سوائے کسانیہ اور زیدیہ کے کل شیعی فرقوں کے اعتقاد کے لحاظ سے سچے امام کی دو بڑی شرطیں ہیں۔ ایک یہ وہ فاطمی ہو اور دوسری اس کے پیش رو نے اس پر نص بھی کی ہو۔ شیعی امام کی جامع اور مانع تعریف یہ ہو سکتی ہے کہ وہ زمین پر خدا کے خاص منتخب نمائندے ہیں جنہیں اس نے اپنے بندوں کی ہدایت کے لیے رہنما بنایا ہے اور مانوق الطبعیت قوتوں سے سرفراز کیا ہے اور جنہیں مومنین سے بیت لینے کا حق کسی انتخاب اور امت کے اجماع سے نہیں بلکہ برا راست خدا سے حاصل ہے۔ غرض کہ شیعہ آسمانی حق و اصول کے قائل ہیں جو جمہوری انتخاب کے اصول سے مخالف ہے۔ امام علم خدا کا خازن اور علم نبوت کا وارث ہے۔ اس کا جوہر سمادی اور اس کا عالم علوی ہے۔ اس کے نفس پر افلاک کا کوئی اثر نہیں ہوتا ہے۔ کیوں کہ اس کا تعلق اس عالم سے ہے جو خارج از افلاک ہے۔ اس میں اور دوسرے بندگان خدا میں وہی فرق ہے، جو حیوان ناطق اور غیر حیوان ناطق میں ہے۔ ہر زمانے میں ایک امام کا ہونا ضروری ہے۔ زمین کبھی امام سے خالی نہیں رہے سکتی ہے، ورنہ متزلزل ہو جائے۔ اماموں کا سلسلہ روز قیامت تک حضرت فاطمہؓ کی نسل سے جاری رہے گا۔ باپ کے بعد بیٹا خواہ وہ عمر میں بڑا ہو یا چھوٹا ہو، بالغ ہو نابالغ امام ہوتا رہے گا۔ سوائے حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کے جو ایک خاص صورت ہے۔ امام کو ہی دنیا پر حکومت کرنے کا حق حاصل ہے۔ دوسرے سب احکام غاسب اور متغلب ہیں۔ کبھی امام ظاہر ہوتا ہے اور کبھی اپنے دشمنوں کے خوف سے چھپ جاتا ہے۔ ایسی صورت میں اس کے نائب جنہیں داعی کہتے ہیں اس کے قائم مقام ہوتے ہیں ۔

اسماعیلی امام کو خداوند کیون کہتے ہیں؟

فارسی لفظ خداوند یا خداوند کا مطلب ہے، "بادشاہ، شہزادہ، رب، آقا۔  یا بڑے بااختیار آدمی۔"  بہت سی فارسی اور وسطی ایشیائی سلطنتوں نے اس اصطلاح کو پوری تاریخ میں اعلیٰ مقام کے لوگوں کے لیے استعمال کیا، جن میں بعض اوقات، سلطان (حکمران)، وزیر، سرکاری اہلکار اور سرپرست شامل ہیں۔اسلام کی شیعہ تشریح میں، ائمہ کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے خاندان کے موروثی جانشین تصور کیا جاتا ہے۔

اسماعیلی امام بارہویں سے انیسویں صدی تک فارس (جدید ایران) میں رہے۔  اس دور میں، کمیونٹی نے امام کے لیے خداوند کی اصطلاح اختیار کی۔  اس کا مفہوم عربی اصطلاح مولا سے ملتا جلتا ہے جس کے معنی "مالک" یا "رب" کے بھی ہیں۔

خداوند کے اپنے طور پر اس استعمال کو خدا کے حوالہ کے طور پر ابہام میں نہیں لانا چاہیے۔  ایران اور پاکستان جیسے ممالک میں خدا کی طرف اشارہ کرنے کے لیے خداوند عالم ("رب العالمین") اور خداوند تعالی("آقا، اعلیٰ ترین") جیسی مخصوص اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں۔

اسماعیلی، تمام مسلمانوں کی طرح، خدا کی وحدانیت (توحید) پر یقین رکھتے ہیں جیسا کہ شہادت کے اسلامی اعلان کے پہلے حصے میں دعویٰ کیا گیا ہے: لا الہ الا اللہ، جس کا مطلب ہے "اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔"


اسماعلیت میں امام کی خصوصیات

اسماعیلیوں کی موجودہ آغاخانی نزاری کا ماننا ہیں کہ امام معصوم ہوتا ہے اس سے کوئی خطا نہیں ہو سکتی ہے۔ ہر حالت میں اس کے حکم کی تعمیل مرید پر لازم ہے خواہ اس میں کوئی حکمت نظر آئے یا نہ آئے۔ امام شریعت کے تمام علوم جانتا ہے۔ خصوصاً قران کے حروف مقطعات کے اسرار سے سوائے امام کے کوئی دوسرا واقف نہیں۔ ہر مومن پر اپنے زمانے کے زندہ امام کی معرفت واجب ہے، اگر وہ چل بسے اور اپنے زمانے کے امام کو نہیں پہچانے تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔ امام اپنے رائے سے نہیں بلکہ خدا کے الہام سے اپنا خلیفہ مقرر کرتا ہے۔ امام کے بعد اس کا بیٹا ہی امام بنتا ہے، چاہے وہ چھوٹا ہو کہ بڑا۔امامت کا سلسلہ باپ کے بعد بیٹے کا یہ سلسلہ دنیا ختم ہونے تک جاری رہے گا، ہر زمانے میں امام کا ہونا ضروری ہے اور اس کے وجود سے دنیا میں برکت برقرار ہوتی ہے۔ امام کبھی ظاہر ہوتا ہے اور کبھی دشمنوں کے خوف سے مستور یعنی پوشیدہ زندگی بسر کرتا ہے۔اور اس کی نیابت اس کے داعی کرتے ہیں۔ جن پر ہمشیہ اس کی تائید ہوتی رہتی ہے۔ امام اپنے مریدوں کی جان و مال کا مالک ہوتا ہے اور ان کے متعلق جیسا چاہے ویسا ہی احکام نافذ کر سکتا ہے۔ قیامت کے دن قایم القیامہ ظاہر ہوں گے جو اس زمانے کی تمام حکومتوں کو مغلوب کر کے اپنی حکومت قائم کریں گے۔ قیامت کی ابتدا امام محمد بن اسماعیل سے ہو گئی ہے اور ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ظاہری شریعت کی تاویلات بیان کر دیا ہے۔ معرفت کی طرح ہر مومن پر اپنے زمانے کے امام کی ولایت کا اقرار و عہد بھی فرض ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسماعیلی اسلام، کے سات دعائم شمار کرتے ہیں۔ یعنی ولایت، طہارت، صلوۃ، زکواۃ، روزہ حج اور جہاد۔ ان سب میں اول درجہ ولایت ہے۔ یعنی ولایت کے بغیر کوئی عمل مقبول نہیں، کوئی کیسے ہی اعمال کیوں نہ کرے۔ لیکن اگر وہ امام کی ولایت کا قائل نہیں تو سارے اعمال بیکار ہیں۔ مہدی اسماعیلیوں کے لحاظ سے عبد اللہ حسین ہیں، جو گیارویں امام اور فاطمیین کے ظہور کے پہلے خلیفہ ہیں۔ اس کے بعد فاطمی دعوت کے نو امام ہوئے، جو ظہور کے امام کہلاتے ہیں۔اس کے بعد بھی فاطمی امام کی نسل سے قیامت تک ائمہ یکے بعد دیگر ہوتے رہیں گے ۔، جن کا آخری امام قائم القیامہ ہوگا، جس سے دور کشف کی ابتدا ہوگی۔ یہ سب ائمہ اولولامر کہلاتے ہیں، جن کی اطاعت بندگان خدا پر فرض ہے ۔

نصف و توقیف

شیعوں کے تمام فرقوں کی طرح اسماعیلی بھی باشاہوں کے خدائی حق کے قائل تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ آدم کو اللہ نے اپنا خلیفہ بنایا اور بندوں کو اختیار نہیں ہے کہ وہ کسی کو خلیفہ مقرر کریں۔ اللہ نے آدم کو حکم دیا وہ اپنا جانشین مقرر کرے۔ اس طرح ان کا قائم مقام بھی خدا کا خلیفہ کہلاتا ہے۔ خدا کی خلافت ہمیشہ زمین پر قائم رہتا ہے اور یہ کبھی منقطع نہیں ہوتی ہے اور یہ سلسلہ ہمیشہ روئے زمین پر جاری رہتا ہے۔ کسی امام کا اپنا جانشین مقرر کرنا نص و توقیف کہلاتا ہے۔ بغیر نص و توقیف کے کسی امام کا قیام جائز نہیں ہے۔ اس میں بندوں کی رائے اور اجماع کا کوئی دخل نہیں ہے۔ اور شیعی فرقوں کی طرح اسماعیلیوں میں نصف و توقیف کا اصول بہت اہم ہے۔ جس میں خلافت کا قیام اجماع امت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلکہ یہ اختیار خود اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خود اللہ تعلیٰ نے اپنا رسول بنایا اور آپ نے خدا کے حکم سے حضرت علی کو اپنا خلیفہ مقرر کیا،۔ کسی خلیفہ کی خلافت بغیر نص و تو قیف کے درست نہیں ہو سکتی ہے۔ علاوہ اس اصول کی بنیادی امتیاز حضرت فاطمہ کی نسل سے ہر زمانے میں ایک امام کے ضرورت ہے۔ خواہ وہ ظاہر ہو یا کسی مصلحت سے مستور ہو۔ باپ کے بعد بیٹا خواہ وہ عمر میں بڑا ہو یا چھوٹا ہو، بالغ ہو نابالغ امام ہوتا رہے گا۔ سوائے حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کے جو ایک خاص صورت ہے۔ امام کو ہی دنیا پر حکومت کرنے کا حق حاصل ہے۔ دوسرے سب احکام غاسب اور متغلب ہیں۔ فاطمیین کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رسول بنایا اور انھیں حکم دیا کہ علیؓ کو اپنا خلیفہ بنائیں اور حضرت علیؓ نے اللہ کے حکم سے خلافت کی امانت ہماری طرف منتقل کی۔ لہذا ہم اللہ کے خلیفہ ہیں اور ہم دنیا میں مذہبی و سیاسی حکمران ہیں ۔

آسمانی حق کا تصور

کہا جاتا ہے کہ آسمانی حق اور خاندانی حکومت ایسے تصورات جن کی طرف عرب کی ذہنیت مائل نہیں تھی۔ اس کے بخلاف ایرانی حق آسمانی کو اہم سمجھتے تھے۔ جن کے یہاں حکومت ایک خاندان میں محدود رہتی تھی۔ ساسانی بادشاہ اپنے آپ کو دیوتا یا ربانی وجود سمجھتے تھے۔ قدیم کیانی خاندان کی اولاد ہونے ساتھ اپنے کو حکومت اور فر کیانی کا جائز وارث سمھتے تھے۔ ساسانیوں کے عہد میں حق آسمانی کا عقیدہ جس عمومیت اور جوش کے ساتھ ایران میں پھیلا اس کی مثال نہیں پیش کی جا سکتی ہے۔ ائمہ کے جو غلو آمیز عقیدے پھیلے ان کا بانی یمن کا عبد اللہ بن سباتھا۔ جس نے حضرت علیؓ کو ’ انت انت ‘ یعنی تم خدا کہا۔ یہ یہودی تھا اس لیے حضرت موسیؑ کے وصی یوشع بن نون کے متعلق یہی عقیدہ رکھتا تھا۔ آسمانی حق اور تناسخ وغیرہ جیسے ایرانی خیالات کے یمن میں شائع ہونے کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ایرانیوں نے عام الفیل یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے سال یمن فتح کیا تھا۔ اسماعیلوں کے دور کشف، دور فترت، دور ستر اور جہنم اور نفوس کی جزا اور سزا کے مسائل کم و بیش ہندی فلسفے سے ملتے جلتے ہیں۔ اگرچہ بعض مسائل میں اسماعیلیوں نے جدت بھی دکھائی ہے ۔

دعوت

اسماعیلیوں نے اپنی سیاسی عمارت کی بنیاد مذہب پر رکھی تھی۔ جسے وہ دعوت کہتے تھے۔ مہدی سے مستنصر کے زمانے تک ان کی مذہبی سرگرمیں جاری رہیں۔ لیکن مستنصر کے دور میں ہی اس کی قوت گھٹنے لگی۔ مستنصر کی وفات کے بعد خود اسماعیلیوں کے دو فرقے ہو گئے۔ مستعلیوں نے آمر کے قتل کے بعد اپنی دعوت یمن منتقل کردی، نزاریوں نے ’ الموت ‘ کو اپنا مرکز بنایا۔ دروزی جو حاکم کو خدا مانتے تھے مصر چھوڑ کر لبنان منتقل ہو گئے۔ اس طرح اسماعیلیوں کی قوت جو ایک مرکز پر تھی منتشر ہو گئی۔ اسماعیلیوں کے دعوت کے اس اصول کے مطابق امامت باپ کے بعد منتقل ہونی چاہیے۔ لیکن آمر کے بعد اس کا چچا ذاد بھائی حافظ امام بن گیا۔ گو مستعلوی کہتے ہیں کہ آمر کے قتل کے بعد اس کا ڈھائی سالہ بیٹا طبیب حقیقی امام جو نزاریوں کے خوف سے چھپادیا گیا۔ اس وجہ سے بھی بہت سے اسماعیلیوں کے نظریات بدل گئے اور اسماعیلیوں کی قوت کو ضعیف پہنچا۔اور اسماعیلی دعوت کمزور ہو گئے ابھی قرامطہ ؛ دروز ؛ مستعلی (( مستعلیہ )) بوہری اور نزاری اسماعیلی آغاخانی چار طرح کے اسماعیلی لوگ دنیا بھرکے تقریباً آٹھائیس ممالک میں رہتے ہیں۔

باطنی

اسماعیلیوں کی کتابوں میں ظاہر شریعت کے تعطیل کے معتدد حوالے ملتے ہیں۔ امام معز کی دعا میں جو تعطیل کا لفظ ہے اس کے معنی تبدیل و منسوخ کے ہیں۔ علاوہ اس کے شریعت محمدی کا مقابلہ انبیا سابقین سے کیا ہے، جن کا ظاہر منسوخ کر دیا گیا ہے۔ غرض کہ ساتویں امام محمد بن اسماعیل بن جعفر الصادق کے جو قائم القیامہ اور یوم القیامۃ و البعث ہیں کے دور میں ظاہری شریعت کے اسرار واضح کر دیا گیا۔ ۔۔ اور چھٹا جسمانی دور ختم ہو کر ساتویں روحانی دور کی ابتدا ہوئی، اب ظاہری اعمال یعنی نماز، روزہ وغیرہ کی تاویلات بیان کردی گئی۔ اور اسماعیلی عقیدہ شریعت سے طریقت میں تبدیل ہوئی۔۔ کیوں کہ اسماعیلیوں کے عقیدے کے مطابق شریعت کی تاویلات ظاہر کردی گئیں ہیں۔ ممثولات کی معرفت اور ولایت ( محبت ) کافی ہے۔ امام معز کی دعاؤں کا حوالہ اور شرح جلیل قدر داعیوں نے کیں ہیں۔ امام محمد بن اسماعیل کے بعد جو چودہ امام ان کی نسل سے ہوئے اور روز قیامت تک جاری ہوں گے۔ ان کو امام معز نے اپنی دعاؤں میں امام محمد بن اسماعیل کے خلفاء کہا ہے۔ امام مزکور سے قائم کا روحانی دور شروع ہوا ہے۔ اسماعیلوں کے مطابق انے والے دور کے اماموں میں سے جس کو موقع ملے وہ قائم کی حثیت سے ظاہرہو کر عدل و انصاف سے حکومت کرے گا۔ اور یہ امامت نسل بہ نسل جاری رہے گا۔ ۔۔۔

امام معز کی دعاؤں سے پتہ چلتا ہے کہ قدیم اسماعیلوں کا عقیدہ یہ ہے کہ امام محمد بن اسماعیل کے عہد سے ظاہری اعمال اٹھ گئے اور علم باطن کا دور شروع ہوا۔ چنانچہ قدیم اسماعیلی فرقہ مثلاً قرامطہ اور نزاری بھی یہی عقدہ رکھتے تھے۔ بلکہ انھوں نے کھلاکھلم اپنا عقیدہ ظاہر کیا۔ امام مہدی اور ان کے جانشینوں نے اس قسم کے عقیدے ظاہر نہیں کیے۔ اس کی وجہ مشترق اولیری نے یہ بتائی کہ ان حکمرانوں کو مصر و شام پر مستقل حکومت کرنے کا موقع ملا اور ان ممالک میں اکثریت اہل سنت کی تھی۔ اس لیے انھوں نے صرف ایسے عقیدے ظاہر کیے جو ان کی رعایا سے ملتے جلتے تھے۔ مہدی اور اس کے خلفاء نے باطن کی تعلیم تو دی لیکن اس کے ساتھ اس امر پر بھی زور دیا کہ کہ باطن کے ساتھ ظاہر بھی ضروری ہے۔ ظاہری اعمال دور کشف میں قائم القیامۃ ہی اٹھائیں گے۔ اس مقام پر یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے باطن کی تعلیم ہر کس و ناکس کو نہیں دی جاتی تھی، بلکہ اس میں سننے والے کے استعداد اور وقت کے مقتضاد کا بڑا لحاظ کیا جاتا تھا۔ دعوتوں کی مجلسیں صرف قیصر ہی میں پوشیدہ مقام پر ہوا کرتی تھیں۔ مبتدی صرف ظاہر کی تعلیم سے مستفید ہوا کرتے تھے۔ علامہ مجلسی کی روایت ہے کہ امام جعر صادق نے اسماعیل کو اپنا جانشین بنایا تھا۔ لیکن ایک موقع پر وہ شرع عمل کے مرتب ہوئے۔ یہ دیکھ کر ان کے والد برا فروختہ ہوئے اور امامت کے عہدہ موسیٰ کاظم کی طرف منتقل کر دیا، فرقہ اسماعیلیہ نے نہیں مانا اور تاویل کی کہ اسماعیل کا ایسا کرنا ان کی اعلیٰ روحانیات کا ایک ثبوت ہے، کیوں کہ وہ ظاہر شریعت کے پابند نہ تھے بلکہ باطن کے قائل تھے۔ یہ اسماعیلیوں کے اس رجحان کی مثال ہے جو تاویل یعنی باطنی شریعت کی طرف ہے ۔

اسماعیلی دعوت کے درجات

عہدہ حجت امور
صدر دعوت ( 1 ) ناطق # نبی کے بعد وصی جس کا دوسرا نام صامت ہے# وصی کے بعد امام ظاہر شریعت کی تعلیم

باطنی علوم کی تعلیم ظاہری شریعت کی حفاظت باطنی علم کی تعلیم اور حفاظت

بارہ باطنی مدگار

ان میں امام کا خاص اور اول مدد گار شامل ہے جسے داعی البواب کہتے ہیں

پہلی حجتیں یہ لوگ امام کی خدمت میں رہتے ہیں اور ان پر جہاد فرض نہیں ہے ۔
بارہ ظاہری مدگار نہاری حجتیں ظاہری شریعت کی تعلیم۔ بارہ زجزیروں میں زمین کی تقسیم کی جاتی ہے اور ہر جزیرے میں ایک حجت کو بھیجاجاتا ہے۔ نہاری حجتوں پر جہاد فرض ہے ۔
مبلغین جو نبی یا وصی یا امام کی طرف سے مختلف شہروں میں تبلیغ کے لیے بھیجے جاتے ہیں۔ داعی البلاغ ظاہری شریعت کی حفاظت اور باطنی علوم کی تعلیم امام کی مستور یعنی غیبت کے زمانے میں جو داعی اس کا قائم مقام ہوتا ہے، اسے داعی مطلق کہتے ہیں، اسے کل اختیارات ہوتے ہیں۔ سب داعیوں کے صدر کو داعی الدعاۃ کہتے ہیں ۔
داعی کا اول مددگار ماذوں مستجب سے عہد میثاق لینا
داعی کا دوسرا مددگار مکاسر مستجب کے پہلے مذہب کو باطل ٹہرانا اور اپنا ،مذہب ثابت کرنا۔

۔

نزاری اسماعیلیوں کے مخصوص مذہبی علم

علم تفصیل
( 1 ) فقہ فقہ جعفری کی اسماعیلی شاخ میں قیاس اور رائے کو بالکل دخل نہیں ہے، اجتہاد گمراہی کا راستہ ہے۔ ہر شریعی حکم نص قطی کا محتاج ہے ،
( 2 ) تاویل اس فن میں سب سے معتبر تصنیفیں قاضی القضاۃ نعمان بن محمد کی ہیں۔ علم تاویل کو علم باطن بھی کہتے ہیں۔ ان میں وہ اسرار ہیں جو عوام کو نہیں بتائے جاتے ہیں۔ اسماعیلیوں میں بھی جو ایک خاص درجہ تک پر پہنچتا ہے وہی ان پر مطلع ہو سکتا ہے ۔
( 3 ) فلسفہ تاویل کے ختم ہوجانے پر مذہبی فلسفہ کی تعلیم دی جاتی ہے جسے اسماعیلی اپنی اصطلاح میں ’ حقیقت ‘ کہتے ہیں۔ اس فن میں عالم کی ابتدا، انتہا، قیامت، بعث، حشر وغیرہ کے مثائل بیان کیے جاتے ہیں ۔

علم حقیقت ( یا حقائق ) میں سب سے اہم اور مستند کتاب ’ اخوان الصفا ‘ ہے۔ اس کے آخری رسالہ جو ’ جامعہ ‘ نام سے مشہور ہے۔ اس میں تاویل و حقائق کے بنیادی مسائل بیان کیے گئے ہیں۔اس کے بعد اسماعیلی پیر حجت خراسان ناضر خسرو بدخشانی کی کتاب ”وجہ دین“ مشہور ہے۔اس کتاب میں ہر ظاہری اعمال کی اسماعیلی عقیدہ و نظریات کے مطابق باطنی تشریخ بیان کی گئی ہے۔

نزاری عبادت خانہ

نزاری اسماعیلیوں کا عبادت گاہ کو جماعت خانہ کہلاتے ہیں ۔نزاری اسماعیلی جماعت خانہ میں اسماعیلیوں کے علاوہ کسی دوسرے کا داخلہ ممنوع ہے

اسماعیلی فرقے

اسماعیلی دعوت کی ابتد کو بارہ صدیاں سے زیادہ گذر چکی ہے۔ اس طویل مدت میں کئی مذہبی اور سیاسی تبدیلیاں ہوئیں۔ جس کی وجہ سے اس میں مختلف فرقہ پیدا ہوئے، اس لیے اصل عقیدے میں تبدیلیاں ہو چکی ہیں۔ ہر فرقہ نے علحیدہ اعتقاد اختیار کیا۔ اس وقت جو اسماعیلی ہیں ان میں بعض امام کو خدا مانتے ہیں جیسے دروزی۔ بعض صرف باطن ہی کے قائل ہیں جیسے نزاری جو عام طور پر خوجے کہلاتے ہیں اور بعض باطن کے ساتھ ظاہر کے بھی پابند ہیں جیسے داودی اور سلیمانی بوہری اسماعیلی جو یمن ،پاکستان اور ہندوستان اباد ہے۔

ایران کے قلعہ الموت میں ان کی بے مثال حکومت رہی ہے۔ یہ حکومت ان سے مصر میں ان کی مشہور زمانہ فاطمی دور حکومت کے چھن جانے کے بعد شروع ہوتی ہے جس میں حسن صباح مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ موجودہ دور میں اسماعیلی پوری دنیا کے پچیس ممالک میں آباد ہیں اور بین الاقوامی سطح پر اسلام کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ بہت ہی پر امن لوگ ہیں اور کسی دوسرے کے عقیدے کو نہیں چھیڑتے ہیں۔ پوری دنیا میں ان کی تعداد میں روز بروز اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ اس وقت اسماعیلی مسلمان ہندوستان، پاکستان، یمن، لبنان، شام اورایران میں آباد ہیں اور بہت ہی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔

ماخذ ڈاکٹر زاہد علی۔ تاریخ فاطمیین مصر

دیگر نام و گروہ

بیرونی روابط

حوالہ جات

  1. دیکھیں اسماعیلی ویب سائیٹ امانہ نیز اسماعیلی تاریخ کی ویب گاہ
  2. بعض اسماعیلی، ہابیل کو آدم علیہ السلام کا وصی سمجھتے ہیں.
  3. یہ تمام اسماعیلی فرقے کا نظریہ ہے۔ البتہ مہدی کون ہے یہ اختلاف ہے۔

https://ismaililiterature.com/urdu-books/

اسماعیلی تصور میں مہدویت۔https://ismailignosis.com/2016/02/12/aga-khan-development-network-the-mahdi-ist-mission-of-the-ismaili-imamat/