بدعت کے لفظ کی اصل الکلمہ عربی زبان کا تین حرفی لفظ بدع ہے جو اعراب کے رد و بدل سے بطور فعل، مصدر اور صفت کے استعمال ہو سکتا ہے[1] اور بنیادی طور پر اس کے معنی ایجاد، اختراع اور بنانے کے آتے ہیں۔ عربی میں اس بدع سے بطور اسم تائے مدورہ کے ساتھ بِدعَة لکھاجاتا ہے اور اردو میں مستعمل لفظ بدعت اسی عربی بدعۃ کی تائے مدورہ کو تائے دراز کی صورت لکھ کر بنایا گیا ہے۔ عام طور پر فقہی کتابوں میں بدعت (heresy) کی یوں تعریف کی جاتی ہے «ادخال ما لیس من الدین فی الدین»۔ یعنی وہ چیز جو دین میں سے نہ ہو، اس کو دین میں شامل کر دینا۔ صحیح بخاری میں بھی بدعت سے متعلق احادیث مل جاتی ہیں لیکن ان سے پہلے خود قرآن میں سورت المائدہ کی آیت تین میں آتا ہے کہ ؛

  • ترجمہ: آج مکمل کر دیا ہے میں نے تمھارے لیے تمھارا دین اور پوری کردی ہے تم پر اپنی نعمت اور پسند کر لیا ہے تمھارے لیے اسلام کو بطور دین۔

مذکورہ بالا آیت بدعت کا اسلام میں مفہوم بیان کرنے کے لیے کافی ہے، بدعت کا مطلب ہوتا ہے کچھ ایجاد کرنا یا بنانا اور اسلام کے نظریے کی رو سے قرآن میں اللہ نے کہہ دیا ہے کہ اس نے یہ دین مکمل کر دیا ہے، تو اب اس کے بعد اس میں جو بھی اضافہ کیا جائے یا کوئی جو بھی اضافہ کرنے کی کوشش کرے خواہ اس کی نیت نیک ہی کیوں نہ ہو تو اسلام کے فلسفے کی رو سے اس کا وہ فعل ایک بدعت کہلائے گا اور اس کا ارتکاب کرنے والا بدعتی ہوگا۔ مذکورہ بالا آیت کی روشنی میں یہ بھی واضح ہے کہ یہاں اس بدعت یا اختراع کا اچھا یا برا ہونے سے کوئی سروکار نہیں۔ اسلام کے نظریے کی رو سے اللہ کے دین میں رو و بدل کا اختیار تو پیغمبروں کے پاس نہیں کجا یہ کہ کوئی امام، عالم یا حضرت اس میں چھیڑ چھاڑ کی کوشش کرے۔

تفرقے اور تاویلیں

مسلمانوں میں پیدا ہو جانے والے کچھ خود ساختہ تفرقے دین میں اختراعات (بدعت) کے لیے نا صرف یہ کہ احادیث بلکہ خود ‍قرآن سے تاویلات گھڑنے کی کوشش کرتے ہیں، اس سلسلے میں وہ قرآن کی سورت الانعام کی آیت ایک سو ایک کا حوالہ دیتے ہیں جس کا ترجمہ یوں ہے ؛
 1۔ موجدِ بے مثال آسمانوں اور زمین کا۔
اس آیت میں سے یہ تفرقے اپنے لیے جواز نکالنے کی تاویل یوں دیتے ہیں کہ اللہ نے خود اپنے لیے بدیع کا لفظ استعمال کیا ہے اور یہ اس کا ایک صفاتی نام بھی ہے، یعنی بدعت (احسن بدعت) کے درست ہونے کے کے لیے اللہ کو بدعتی (گو اللہ بدعتی بمعنی خالقِ کائنات ہے مگر عام آدمی کو کہا جائے کہ اللہ بھی بدعتی ہے تو وہ لازمی دھوکا کھا جائے گا) ثابت کر کہ اپنے تفرقے کی بدعتوں کے لیے راہ ہموار کرتے ہیں۔ اللہ نے تو تمام کائنات میں میں اپنی بدعت (بمعنی تخلیق و ایجاد) پھیلائی ہے اور پھر اس کے بعد کہہ دیا ہے کہ آج میں نے تمھارا دین مکمل کر دیا۔ اس کے بعد فلسفہ اور نظریے کی رو سے یہ بات طے ہے کہ کائنات کی بدع یا تخلیق کا کام اللہ کا تھا اور ہے اور وہ اس نے کر دیا؛ کیا ایک انسان (خواہ پیغمبر ہی کیوں نہ ہو) وہ خود کو اللہ کی طرح بدع کرنے والا سمجھے تو یہ بات نظریۂ اسلام کی رو سے درست ہوگی؟
 2۔ اس کے علاوہ ایک حدیث بھی اس بدعت کے تصور کو دین کا جزء ثابت کرنے کے لیے پیش کی جاتی ہے جو کچھ یوں بیان ہوتی ہے کہ؛

  • من سنّ فی الاسلام سنـۃ حسنۃ فعل بھا بعدہ کتب لہ مثل اجر من عمل بھا و لا ینقص من اجورھم شے و من سنّ فی الاسلام سنۃ سیۃ فعمل بھا بعدہ کتب علیہ مثل وزر من عمل بھا و لا ینقص من اوزارھم شیئی، رواہ جامع صحیح مسلم۔ (صحیح مسلم از امام مسلم۔ کتاب الزکوٰۃ، باب الحث علي الصدقہ)
  • ترجمہ : ـ جو آدمی اسلام میں کوئی اچھا کام جاری کرے پھر اس کے بعد اس پر عمل کیا جائے تو جو لوگ بھی اس پر عمل کریں گے ان کے اجر کی مثل اس (جاری کرنے والے) کے لیے بھی لکھا جائے گا ـ اور خود ان عمل کرنے والوں کے اجر میں سے کچھ کم نہ ہوگا اور جو کوئی اسلام میں کسی برے کام کی طرح ڈالے پھر اس کے بعد لوگ اس کو اپنے عمل میں لائیں تو ان سب کو جو گناہ ہوگا وہ اس (جاری کرنے والے) کے نامہ اعمال میں بھی لکھا جائے گا، جبکہ عمل کرنے والوں کے گناہ میں کچھ کمی نہ ہوگی۔

یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ مذکورہ بالا حدیث کو اگر مستند نہیں بلکہ مستند ترین بھی مان لیا جائے تب بھی اس سے بدعت حسنہ اور بدعت سیئۃ (بدعت خراب) کا کوئی جواز حاصل نہیں ہوتا؛ اردو عبارت کو نہیں اگر عربی عبارت کو دیکھا جائے تو اس میں کسی جگہ لفظ بدع یا بدعۃ استعمال نہیں ہوا ہے بلکہ لفظ آیا ہے سنت کا اور سنت کہتے ہیں پیروی کو، حدیث اصل میں صرف اتنا بیان کر رہی ہے کہ اگر کوئی اچھا کام کرے (نا کہ اچھی اختراع کرے)، مثال کے طور پر کسی غریب بھوکے کو کھانا کھلا دے، نماز وقت پر ادا کرے تو وہ بھلائی کا کام دوسروں کے لیے ایک مثال ہوگا اور اس کا اجر کرنے والے کو بھی اور اچھے کام کی پیروی (سنت) کرنے والے کو بھی ملے گا۔ عربی زبان کی نزاکتوں اور اس کی فصاحت و بلاغت کو سمجھنے والے جانتے ہیں کہ اس زبان میں تو صرف ایک عرب (جمع: اعراب) مختلف ہونے سے معنی و مفاہیم بدل جاتے ہیں یہاں تو سرے سے مکمل لفظ ہی مختلف ہے۔
 3۔ پھر صحیح بخاری کی ایک اور حدیث کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ جس میں جماعت کی شکل میں عبادت کرنے والوں کو دیکھ کر کہا گیا کہ ---- یہ کیا خوب بدعت ہے ----[2] اگر مکمل عبارت کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ ایک کلمہ ہے جو حضرت عمر نے ادا کیا۔
 4۔ بعض اوقات حضرت عثمان کی جانب سے قرآن پر اعراب لگانے کو بھی اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اور تاویل گھڑنے کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔ اگر تھوڑی سے توجہ دی جائے تو یہ بات جان لینا کوئی ایسی مشکل نہیں ہے کہ عثمان کا کارنامہ مذہب میں اختراع یا بدعت نہیں ہے بلکہ یہ بات مذہب کی بجائے لسانیات سے تعلق رکھتی ہے۔ زیر زبر پیش سے معنی بدل لینے والی عربی زبان کو اگر تلفظ درست ادا کرنے کے لیے اعراب لگا دیے گئے تو اس سے دین میں کوئی ایجاد کہاں ہوئی؟ یہ تو لسانیاتی ایجاد ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ قرآن کا کوئی بھی ترجمہ قرآن نہیں ہے، قرآن وہی ہے جو عربی میں ہے اور درست تلفظ کے ساتھ ہے، باقی رہے قرآن کے تراجم تو وہ قرآن نہیں کہے جا سکتے وہ تو بس اپنی سہولت کے لیے ایک لسانیاتی سہارا ہیں۔

حوالہ جات

  1. ایک عربی لغت میں بدع پر اعراب و مفاہیم۔
  2. صحیح بخاری کا ایک روۓ خط موقع اور متعلقہ حدیث (Volume 3, Book 32, Number 227:) کا اندراج۔