الانعام
سورۂ الانعام قرآن مجید کی چھٹی سورت ہے جس کی 165 آیات ہیں۔ یہ ایک مکی سورت ہے۔
فائل:Alanam.PNG الانعام | |
دور نزول | مکی |
---|---|
نام کے معنی | مویشی |
زمانۂ نزول | مکی دور کا آخری زمانہ |
اعداد و شمار | |
عددِ سورت | 6 |
عددِ پارہ | 7 اور 8 |
تعداد آیات | 165 |
الفاظ | 3,055 |
حروف | 12,418 |
گذشتہ | المائدہ |
آئندہ | الاعراف |
نام
قرآن مجید کی اس سورت کے رکوع 16 اور 17 میں بعض اَنعام (مویشیوں) کی حرمت اور بعض کی حلت کے متعلق اہل عرب کے توہمات کی تردید کی گئی ہے۔ اسی مناسبت سے اس کا نام "الانعام" رکھا گیا ہے۔
زمانۂ نزول
- مزید دیکھیے : الانعام آیت 20، الانعام آیت 23، الانعام آیت 93، الانعام آیت 91، الانعام آیت 151 تا 153، الانعام آیت 114
ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ یہ پوری سورت مکہ میں بیک وقت نازل ہوئی تھی۔ حضرت معاذ بن جبل کی چچا زاد بہن اسماء بنت یزید کہتی ہیں کہ "جب یہ سورت نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل ہو رہی تھی اس وقت آپ اونٹنی پر سوار تھے، میں اس کی نکیل پکڑے ہوئے تھی اور بوجھ کے مارے اونٹنی کا یہ حال ہو رہا تھا کہ معلوم ہوتا تھا اس کی ہڈیاں اب ٹوٹ جائیں گی"۔ روایات میں اس کی بھی تصریح ہے جس رات یہ نازل ہوئی اسی رات کو آپ نے اسے قلمبند کرادیا۔
اس کے مضامین پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورت مکی دور کے آخری زمانے میں نازل ہوئی ہوگی۔ حضرت اسماء بنت یزید کی روایت بھی اسی کی تصدیق کرتی ہے کیونکہ موصوفہ انصار میں سے تھیں اور ہجرت کے بعد ایمان لائیں۔ اگر قبول اسلام سے پہلے محض بر بنا عقیدت وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں مکہ حاضر ہوئی ہوں گی تو یقیناً یہ حاضری آپ کی مکی زندگی کے آخری سال میں ہوئی ہوگی۔ اس سے پہلے اہل یثرب کے ساتھ آپ کے تعلقات اتنے بڑھے ہی نہ تھے کہ وہاں سے کسی عورت کا آپ کی خدمت میں حاضر ہونا ممکن ہوتا۔
شان نزول
زمانۂ نزول متعین ہوجانے کے بعد ہم باآسانی اس پس منظر کو دیکھ سکتے ہیں جس میں یہ خطبہ ارشاد ہوا ہے۔ اس وقت اللہ کے رسول کو اسلام کی طرف دعوت دیتے ہوئے 12 سال گذر چکے تھے۔ قریش کی مزاحمت اور ستم گری و جفا کاری انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ اسلام قبول کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد ان کے ظلم و ستم سے عاجز آکر ملک چھوڑ چکی تھی اور حبش میں آپ کی تبلیغ کے اثر سے مکہ میں اور گرد و نواح کے قبائل میں بھی صالح افراد پے در پے اسلام قبول کرتے جا رہے تھے، لیکن قوم بحیثیتِ مجموعی رد و انکار پر تلی ہوئی تھی، جہاں کئی شخص اسلام کی طرف ادنیٰ میلان بھی ظاہر کرتا تھا اسے طعن و ملامت، جسمانی اذیت اور معاشی و معاشرتی مقاطعہ کا ہدف بننا پڑتا تھا۔ اس تاریک ماحول میں صرف ایک ہلکی سی شعاع یثرب کی طرف سے نمودار ہوئی تھی جہاں سے اوس اور خزرج کے با اثر لوگ آکر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کر چکے تھے اور جہاں کسی اندرونی مزاحمت کے بغیر اسلام پھیلنا شروع ہو گیا تھا۔ مگر اس حقیر سی ابتدا میں مستقبل کے جو امکانات پوشیدہ تھے انھیں کوئی ظاہر بیں آنکھ نہ دیکھ سکتی تھی۔ بظاہر دیکھنے والوں کو جو کچھ نظر آتا تھا وہ بس یہ تھا کہ اسلام ایک کمزور سی تحریک ہے جس کی پشت پر کوئی مادی طاقت نہیں، جس کا داعی اپنے خاندان کی ضعیف سی حمایت کے سوا کوئی زور نہیں رکھتا اور جسے قبول کرنے والے چند مٹھی بھر بے بس اور منتشر افراد اپنی قوم کے عقیدہ و مسلک سے منحرف ہو کر اس طرح سوسائٹی سے نکال پھینکے گئے ہیں جیسے پتے اپنے درخت سے جھڑ کر زمین پر پھیل جائیں۔
مباحث
ان حالات میں یہ خطبہ ارشاد ہوا ہے اور اس کے مضامین کو سات بڑے بڑے عنوانات پر تقسیم کیا جا سکتا ہے :
- شرک کا ابطال اور عقیدہ توحید کی طرف دعوت
- عقیدۂ آخرت کی تبلیغ اور اس غلط خیال کی تردید کہ زندگی جو کچھ ہے بس یہی دنیا کی زندگی ہے
- جاہلیت کے ان توہمات کی تردید جن میں لوگ مبتلا تھے
- ان بڑے بڑے اصولِ خلاق کی تلقین جن پر اسلام معاشرے کی تعمیر چاہتا تھا
- نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کی دعوت کے خلاف لوگوں کے اعتراضات کا جواب
- طویل جدوجہد کے باوجود دعوت کے نتیجہ خیز نہ ہونے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور عام مسلمانوں کے اندر اضطراب اور دل شکستگی کی جو کیفیت پیدا ہو رہی تھی اس پر تسلی
- منکرین و مخالفین کو ان کی غفلت و سرشاری اور نادانستہ خود کشی پر نصیحت، تنبیہ اور تہدید۔
لیکن خطبہ کا انداز یہ نہیں ہے کہ ایک ایک عنوان پر الگ الگ یکجا گفتگو کی گئی ہو۔ بلکہ خطبہ ایک دریا کی سی روانی کے ساتھ چلتا جاتا ہے اور اس کے دوران یہ عنوانات مختلف طریقوں سے بار بار چھڑتے ہیں اور ہر بار ایک نئے انداز سے ان پر گفتگو کی جاتی ہے۔
یہاں چونکہ پہلی مرتبہ ناظرین کے سامنے ایک مفصل مکی سورت آ رہی ہے اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام پر مکی سورتوں کے تاریخی پس منظر کی ایک جامع تشریح کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ تمام مکی سورتوں میں اشاعت کو سمجھنا آسان ہو جائے۔
جہاں تک مدنی سورتوں کا تعلق ہے، ان میں سے تو قریب قریب ہر ایک کا زمانۂ نزول معلوم ہے یا تھوڑی سی کاوش سے متعین کیا جا سکتا ہے بلکہ ان کی تو بکثرت آیتوں کی انفرادی شان نزول تک معتبر روایات میں مل جاتی ہیں لیکن مکی سورتوں کے متعلق ہمارے پاس اتنے مفصل ذرائع معلومات موجود نہیں ہیں۔ بہت کم سورتیں یا آیتیں ایسی ہیں جن کے زمانۂ نزول اور موقعِ کے بارے میں کوئی صحیح و معتبر روایت ملتی ہو کیونکہ اس زمانے کی تاریخ اس قدر جزئی تفصیلات کے ساتھ مرتب نہیں ہوئی ہے جیسی کہ مدنی دور کی تاریخ ہے۔ اس وجہ سے مکی سورتوں کے معاملے میں ہمیں تاریخی شہادتوں کی بجائے زیادہ تر ان اندرونی شہادتوں پر اعتماد کرنا پڑتا ہے جو مختلف سورتوں کے موضوع، مضمون اور اندازِ بیاں میں اور اپنے پس منظر کی طرف ان کے جلی یا خفی اشارات میں پائی جاتی ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ اس نوعیت کی شہادتوں کی مدد سے لے کر ایک ایک سورت اور ایک ایک آیت کے متعلق یہ تعین نہیں کیا جا سکتا کہ یہ فلاں تاریخ یا فلاں سن میں فلاں موقع پر نازل ہوئی ہے۔ زیادہ صحت کے ساتھ جو کچھ کیا جا سکتا ہے وہ صرف یہ ہے کہ ایک طرف ہم مکی سورتوں کی اندرونی شہادتوں کو اور دوسری طرف نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مکی زندگی کی تاریخ کو آمنے سامنے رکھیں اور پھر دونوں کا تقابل کرتے ہوئے یہ رائے قائم کریں کہ کون سی سورت کس دور سے تعلق رکھتی ہے۔
اس طرز تحقیق کو ذہن میں رکھ کر جب ہم نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مکی زندگی پر نگاہ ڈالتے ہیں تو وہ دعوت اسلامی کے نقطۂ نظر سے ہمیں چار بڑے بڑے نمایاں ادوار پر منقسم نظر آتی ہے :
پہلا دور، آغازِ بعثت سے لے کر اظہار نبوت تک، تقریباًً تین سال، جس میں دعوت خفیہ طریقے سے خاص خاص آدمیوں کو دی جا رہی تھی اور عام اہلِ مکہ کو اس کا علم نہ تھا
دوسرا دور، اظہار نبوت سے لے کر ظلم و ستم کے آغاز تک، تقریباًً 2 سال، جس میں پہلے مخالفت شروع ہوئی، پھر اس نے مزاحمت کی شکل اختیار کی، پھر تضحیک، استہزاء، الزامات، سب و شتم، جھوٹے پروپیگنڈے اور مخالفانہ جتھہ بندی تک نوبت پہنچی اور بالآخر ان مسلمانوں پر زیادتیاں شروع ہو گئی جو نسبتاً زیادہ غریب، کمزور اور بے یار و مددگار تھے۔
تیسرا دور، آغاز ظلم و ستم سے لے کر ابو طالب اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات تک، تقریباًً پانچ چھ سال۔ اس ميں مخالفت انتہائی شدت اختیار کرتی چلی گئی، بہت سے مسلمان کفار مکہ کے ظلم و ستم سے تنگ آکر حبش کی طرف ہجرت کر گئے، نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کے خاندان اور باقی ماندہ مسلمانوں کا معاشی و معاشرتی مقاطعہ کیا گیا اور آپ اپنے حامیوں اور ساتھیوں سمیت شعب ابی طالب میں محصور کردیے گئے۔
چوتھا دور ہجرت سے قبل کے تین سال، یہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کے لیے انتہائی سختی و مصیبت کا زمانہ تھا۔ مکہ میں آپ کے لیے زندگی دو بھر کردی گئی تھی، طائف گئے تو وہاں بھی پناہ نہ ملی، حج کے موقع پر عرب کے ایک ایک قبیلے سے آپ اپیل کرتے رہے کہ وہ آپ کی دعوت قبول کرے اور آپ کا ساتھ دے مگر ہر طرف سے کورا جواب ہی ملتا رہا۔ اور ادھر اہل مکہ بار بار یہ مشورے کرتے رہے کہ آپ کو قتل کر دیں یا قید کر دیں یا اپنی بستی سے نکال دیں۔ آخر کار اللہ کے فضل سے انصار کے دل اسلام کے لیے کھل گئے اور ان کی دعوت پر آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔
ان میں سے ہر دور میں قرآن مجید کی جو سورتیں نازل ہوئی ہیں وہ اپنے مضامین اور انداز بیاں میں دوسرے دور کی سورتوں سے مختلف ہیں۔ ان میں بکثرت مقامات پر ایسے اشارات بھی پائے جاتے ہیں جن سے پس منظر کے حالات اور واقعات پر صاف روشنی پڑتی ہے۔ ہر دور کی خصوصیات کا اثر اس دور کے نازل شدہ کلام میں بہت بڑی حد تک نمایاں نظر آتا ہے۔ انہی علامات پر اعتماد کرکے ہم آئندہ ہر مکی سورت کے آغاز میں بتائیں کہ وہ مکہ کے کس دور میں نازل ہوئی۔