مسلم بن الحجاج
مسلم بن حجاج جو امام مسلم کے نام سے معروف ہیں، محدثین کرام میں جو بلند پایہ رکھتے ہیں وہ کسی سے مخفی نہیں۔ علمائے اسلام کا اگرچہ فیصلہ ہے کہ قرآن مجید کے بعد پہلا مرتبہ صحیح بخاری کا ہے اور پھر صحیح مسلم کا، جس سے صحیح مسلم کے جامع امام مسلم کی عظمت کا کافی اندازہ ہو جاتا ہے لیکن بعض علما کا خیال یہ بھی ہے کہ صحیح مسلم کا درجہ اگر صحیح بخاری سے بلند نہیں تو مساوی ضرور ہے کیونکہ صحیح مسلم کی احادیث کافی تحقیقات کے بعد جمع کی گئی ہیں اور بعض اعتبارات سے تحقیقات میں حضرت امام مسلم کا درجہ امام بخاری سے بڑھا ہوا ہے۔بہر نوع حضرت امام مسلم کا پایہ محدثین کرام میں اس قدر بلند ہے کہ اس درجہ پر امام بخاری کے سوا کوئی دوسرا محدث نہیں پہنچا اور ان کی کتاب صحیح مسلم اس قدر بلند پایہ کتاب ہے کہ صحیح بخاری کے سوا کوئی کتاب اس کے سامنے نہیں رکھی جا سکتی۔
مسلم بن الحجاج | |
---|---|
(عربی میں: مسلم بن الحجاج) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 821ء [1][2][3] نیشاپور |
وفات | 6 مئی 875ء (53–54 سال)[1] نیشاپور |
شہریت | دولت عباسیہ |
مذہب | اسلام |
فرقہ | اہل سنت |
فقہی مسلک | شافعی |
عملی زندگی | |
استاذ | محمد بن اسماعیل بخاری ، یحییٰ بن معین ، احمد بن حنبل ، اسحاق بن راہویہ ، عبدالرحمن دارمی |
تلمیذ خاص | ابن خزیمہ ، ابو عیسیٰ محمد ترمذی ، ابن ابو حاتم |
پیشہ | محدث ، فقیہ |
پیشہ ورانہ زبان | عربی [4] |
شعبۂ عمل | علم حدیث ، فقہ |
کارہائے نمایاں | صحیح مسلم |
درستی - ترمیم |
امام مسلم کا پورا نام ابو الحسین مسلم بن الحجاج بن مسلم القشیری بن دردین تھا۔ ابولحسین آپ کی کنیت تھی اور عساکر الدین لقب تھا۔ قبیلہ بنو قشیر سے آپ تعلق رکھتے تھے جو عرب کا ایک مشہور خاندان تھا اور خراسان کا مشہور شہر نیشاپور آپ کا وطن تھا۔ حضرت امام مسلم201ھ یا 202ھ یا 204ھ یا 206ھ میں باختلاف اقوال پیدا ہوئے لیکن اکثر علما اور مؤرخین کی تحقیق یہ ہے کہ آپ کا سنہ ولادت 206ھ زیادہ معتبر ہے۔ حضرت امام نووی شارح صحیح مسلم لکھتے ہیں کہ حضرت امام مسلم 206ھ میں پیدا ہوئے، 55 سال کی عمر پائی اور 24 رجب 261ھ کو اتوار کے دن رات کو وفات پائی اور پیر کے دن پینیشاپور میں نصر آباد قبرستان میں دفن ہوئے۔
تعلیم و تربیت
ترمیمامام مسلم نے والدین کی نگرانی میں بہترین تربیت حاصل کی اور اس پاکیزہ تربیت ہی کا یہ اثر تھا کہ ابتداے عمر سے آخری سانس تک آپ نے پرہیزگاری اور دینداری کی زندگی بسر کی، کبھی کسی کو اپنی زبان سے برا نہ کہا یہاں تک کہ کسی کی غیبت نہیں کی اور نہ کسی کو اپنے ہاتھ سے مارا پیٹا۔ ابتدائی تعلیم آپ نے نیشاپور میں حاصل کی۔ آپ کو اللہ تعالٰی نے غیر معمولی ذکاوت و ذہانت اور قوت حافظہ عطا کی تھی کہ بہت تھوڑے عرصہ میں آپ نے رسمی علوم و فنون کو حاصل کر لیا اور پھر احادیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیم و تحصیل کی جانب توجہ کی۔
شیوخ و تلامذہ
ترمیمجن سے آپ نے سماعت کی: یحیی بن یحیی التمیمی نیشاپوری اور قتیبہ بن سعید، محمد بن عبد الوہاب الفراء، اسحاق بن راہویہ، محمد بن مہران الحمال، ابراہیم بن موسى الفراء، علی بن الجعد، احمد بن حنبل، عبید اللہ القواریری، خلف بن ہشام، سریج بن یونس، عبد اللہ بن مسلمہ القعنبی، ابو الربیع الزہرانی، عبید اللہ بن معاذ بن معاذ، احمد بن یونس وابراہیم بن المنذر وابو مصعب الزہری وغیرہم۔
کثیر شخصیات نے آپ سے روایت کی ہے: الترمذی (نے ترمذی شریف میں بھی امام مسلم رحمہ اللّٰہ تعالیٰ سے ایک روایت ذکر کی ہے اور وہ ہے مہینوں کے دنوں کے متعلق) ابو الفضل احمد بن سلمہ، ابراہیم بن ابی طالب، شیخہ محمد بن عبد الوہّاب الفراء، ابن خزیمہ، ابو حاتم رازی، ابراہیم بن محمد بن سفیان، ابو عوانہ الاسفرایینی، ابو حامد الاعمشی وغیرہ۔
تصانیف
ترمیمامام مسلم کی سب سے مشہور و معروف اور مقبول عام تصنیف تو یہی صحیح مسلم ہی ہے لیکن اس کے علاوہ امام مسلم نے اور بھی کافی کتابیں تصنیف کی ہیں جن میں چند تصانیف مندرجہ ذیل ہیں:
- المسند الکبیر علی الرجا ل
- الا سماء والکنی
- کتاب الجامع علی الابواب
- الجامع الکبیر
- کتاب السیر
- کتاب علل
- کتاب الوحدان
- کتاب الا قران
- کتاب مشائخ الثوری
- کتاب سوالا ت امام احمد بن حنبل
- کتاب حدیث عمرو بن شعیب
- کتاب مشائخ مالک
- کتاب مشائخ شعبہ
- کتاب اولادصحابہ
- کتاب اوہام المحدثین
- کتاب رواہ الشا مین
- کتاب رواۃ الا عتبار
- کتاب المخضرمین
اصول و شرائط
ترمیمامام مسلم نے یہ شرط لگائی ہے کہ وہ اپنی صحیح میں صرف وہ حدیث بیان کر یں گے جس کو کم ازکم دوثقہ تابعین نے دوصحابیوں سے روایت کیا ہو اور یہی شرط تمام طبقات تابعین وتبع تابعین میں ملحوظ رکھی ہے یہاں تک کہ سلسلہ اسناد ان (مسلم ) تک ختم ہو۔
دوسری شرط یہ رکھی کہ راویوں کے اوصاف میں صرف عدالت پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ شرائط شہادت کو بھی پیش نظر رکھتے ۔
امام مسلم فرماتے ہیں کہ میں نے تین لاکھ احادیث نبویہ میں سے انتخاب کر کے کتاب صحیح مسلم تیار کی ۔
مسلم شیوخ اور اساتذہ کی نظر میں
ترمیمامام مسلم کی خدادا د صلاحیتوں نے دیگر محدثین اور علما کے ساتھ ساتھ خود امام مسلم کے اساتذہ اکرام کو بھی ان کا گرویدہ بنا رکھا تھا ۔ اسحاق بن راہویہ کا قول ہے
لن نعدم الخیر ماابقاک اللہ للمسلمین جب تک اللہ تعالی آپ کو مسلمانوں کے لیے زندہ رکھے گا، بھلا ئی ہمارے ہاتھ سے نہیں جانے پائے گی (مقدمہ فتح الملہم)۔
ایک اور استاد محمد بن عبد الوہاب نے ان کے بارے میں کہا:
کا ن مسلم من علمائ الناس و أوعیۃ العلم ما علمتہ الا خیراً امام مسلم لوگوں میں سے سب سے بڑے عالم اور علم کے محافظ تھے اور میں نے ان میں خیر کے سوا اور کچھ نہیں پایا۔[5]
ابوبکر جارودی کہتے ہیں:
وکا ن من أوعیۃ العلم امام مسلم علم کے محا فظ تھے۔
مسلم بن قا سم نے فر ما یا :
﴿ ثقۃ جلیل ا لقدر من الائمۃ ﴾ وہ قابلِ اعتماد اور جلیل ا لقدر امام تھے۔[6]
ابو علی نیشاپوری مسلم کے بارے کہتے ہیں:
﴿ما تحت أدیم السمائ أصح من کتاب مسلم فی علم حدیث﴾ علم حدیث میں رو ئے زمین پر امام مسلم کی کتاب صحیح مسلم سے بڑھ کر صحیح ترین اور کوئی کتاب نہیں ہے ۔[7]
ترتیب | نام امام | مکتبہ فکر | سال و جائے پیدائش | سال و جائے وفات | تبصرہ | |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | ابو حنیفہ | اہل سنت | 80ھ ( 699ء ) کوفہ | 150ھ ( 767ء ) بغداد | فقہ حنفی | |
2 | جعفر صادق | اہل تشیع | 83ھ ( 702ء ) مدینہ | 148ھ ( 765ء ) مدینہ | فقہ جعفریہ، کتب اربعہ | |
3 | مالک بن انس | اہل سنت | 93ھ ( 712ء ) مدینہ | 179ھ ( 795ء ) مدینہ | فقہ مالکی، موطا امام مالک | |
4 | محمد بن ادریس شافعی | اہل سنت | 150ھ ( 767ء ) غزہ | 204ھ ( 819ء ) فسطاط | فقہ شافعی، کتاب الام | |
5 | احمد بن حنبل | اہل سنت | 164ھ ( 781ء ) مرو | 241ھ ( 855ء ) بغداد | فقہ حنبلی، مسند احمد بن حنبل | |
6 | داود ظاہری | اہل سنت | 201ھ ( 817ء ) کوفہ | 270ھ ( 883ء ) بغداد | فقہ ظاہری، |
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب عنوان : Исламский энциклопедический словарь
- ↑ عنوان : Encyclopaedia of Islam
- ↑ جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/119196824 — اخذ شدہ بتاریخ: 17 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: CC0
- ↑ عنوان : Identifiants et Référentiels — ایس یو ڈی او سی اتھارٹیز: https://www.idref.fr/050130765 — اخذ شدہ بتاریخ: 11 مئی 2020
- ↑ صحیح مسلم، امام النو وی۔ دارالمعرفہ بیروت۔ صفحہ: جلد 1 ، ص 86
- ↑ شرح مسلم، النو وی۔ دارالمعرفہ۔ صفحہ: جلد 1 ص87
- ↑ احمد بن علی الخطیب البغدادی۔ تاریخ بغداد۔ العلمیہ۔ صفحہ: جلد 31 ص 201