بدیع الدین قطب المدار
سیدبدیع الدین احمد قطب المدار سلسلہ مداریہ کے عر ف میں جبکہ اصل بانی(عبد العزیز علمبردار مکی) ہیں۔ آپ کی سنہ ولادت پر اختلاف ہے۔ مراۃ مداری میں شیخ عبد الرحمن چشتی نے 715ھ[3] لکھا ہے۔ جبکہ سلسلہ مداریہ کی کتابوں میں آپ ولادت کی تارئخ یکم شوال 242ھ ملتی ہے۔ آپ کی پیدائش حلب ہوئی تھی۔ آپ کے والد ماجد کا نام سید قاضی قدوۃ الدین علی حلبی تھا اور والدہ سیدہ فاطمہ ثانیہ عرف بی بی ہاجرہ تھا۔ آپ حسنی حسینی سید ہیں۔
شیخ بدیع الدین شاہ مدار | |
---|---|
پیدائش | 715ھ[1][2] یکم شوال المکرم242ھمطابق 856ء حلب |
وفات | 17 جمادی الاول 840ھ[1][2] |
اسمائے دیگر | شاہ مدار قطب المدار |
وجہِ شہرت | سلسلہ مداریہ کے بانی |
مذہب | اسلام |
نام و القابات
ترمیمنام سید بدیع الدین احمد ہے۔ کنیت ابوتراب ہے ,بعض ممالک میں احمد زندان صوف کے نام سے مشہور ہیں۔ اہل تصوف اور اہل معرفت وحقیقت آپکوعبداللہ،قطب المدار،فردالافرادکہتے ہیں ”مدارعالم،مداردوجہاں ”مدارالعالمین،شمس الافلاک آپ کے القابات مقدسہ ہیں برصغیر ہند و پاک میں زندہ شاہ مدار اور زندہ ولی کے نام سے زیادہ شہرت حاصل ہے۔
تعلیم و تربیت
ترمیمقاضی حمید الدین ناگوری نے اپنے ملفوظات میں قطب المدار سید مولا علی ابن ابی طالب کی اولاد میں سے بہت بڑی ہستی کے مالک ہیں والد گرامی نے بمنشائے رحمانی آپکو رسم بسم اللہ خوانی کے لیے قطب ربانی شیخ وقت حذیفہ مرعشی شامی متوفی ..276.ھ کی خدمت میں پیش کیا-ابتدا تعلیم سے لے کر شریعت کے تمام علوم وفنون سکھائے جب آپ کی عمر مبارک 14,سال کی ہوئی تو علوم عقلیہ ونقلیہ میں آپکو مہارت تامہ حاصل ہو چکی تھی-حافظ قران مجید ہونے کہ ساتھ ساتھ آپ تمامی آسمانی کتابوں خصوصا توریت۔ زبور انجیل،کے بھی حافظ وعالم تھے -[4] مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی فرماتے ہیں ’کہ بعض علوم نوادر مثلا ھیمیا،سیمیا’کیمیا’اور ریمیا’میں کامل دسترس رکھتے تھے -
بیعت و خلافت
ترمیمظاہری علوم سے فراغت کے بعد زیارت حرمین شریفین کے لیے قدم بڑھایا-والدین کریمین سے اجازت طلب کی اور عازم مکہ اور مدینہ ہوگے -جب وطن سے باہر نکلے تو منشاے قدرت نے حریم دل سے صدادی کہ اے بدیع الدین!صحن بیت المقدس میں تمھاری مرادوں کا کلید لیے ہوئے سر گروہ اولیاءبایزید بسطامی سراپا انتظار ہیں -آپ نے عزم کے رہوار کو بیت المقدس کی طرف موڑ دیا-259ھ میں سلطان الاولیاء بایزید بسطامی عرف طیفور شامی نے صحن بیت المقدس میں نسبت،صدیقیہ،طیفوریہ،وبصریہ،طیفوریہ سے سرفراز فرمایا اور اجازت و خلافت کا تاج سر پر رکھ کر حلہ باطن سے آراستہ وپیراستہ فرمایا- [5][6]
تذکر علما ومشائخ پاکستان و ہند کی نظر میں
ترمیممحمد اقبال مجددی اپنی کتاب تذکر علما ومشائخ پاکستان و ہند میں شاہ مدار کے بارے میں لکھتے ہیں کہ آپ نے حلب میں ہی تعلیم اور علم کیمیاوغیرہ سیکھا اور جوانی میں ہی سیر وسیاحت کے لیے چل پڑے،طویل سفر کیے۔ پیغمبر اسلام محمدﷺ کے روہانی اشارے پر ہندستان آئے ،وہ اویسی المشرب تھے اور طریقئہ اویسیہ کو پاکستان اور ہند میں متعارف کروانے والے آپ ہی تھے۔ معروف صوفی شیخ اشرف جہانگیر سمنامی شاہ مدار کے معاصر اور کئی اسفار میں ان کے ہم سفر تھے[7]شاہ مدار گجرات کے راستے ہندستان آئے اجمیر پہنچ کر خواجہ معین الدین چشتی سے عقیدت ومودت کا اظہار کیا۔[3]اجمیر سے کالپی گئے وہاں بھی قبول عام حاصل ہوا وہاں سے قنوج میں داخل ہوئے توخواص و عام نے استقبال کیا ،مخدوم جہانیاں جہاں گشت بخاری کے خلیفہ شیخ اخی جمشید نے بہت تکریم کی اور شاہ مدار نے قنوج کے مضافات میں مکن پور قصبہ میں سکونیت اختیار کی۔[8]
مزید دیکھیے
ترمیم- تذکر علما ومشائخ پاکستان و ہند از محمد اقبال مجددی
- مراۃ مداری از شیخ عبد الرحمن چشتی