بلوچ ریپبلکن آرمی (بی آر اے) بلوچستان میں مسلح‌کارروائیاں کرنے والی علیحدگی پسند تنظیم ہے۔ اس کی زیادہ تر کارروائیاں ضلع ڈیرہ بگٹی، ضلع جعفر آباد اور ضلع نصیر آباد تک محدود ہیں تاہم تنظیم نے کوئٹہ میں بھی کئی کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اس تنظیم کی کارروائیوں میں ‌2006ء میں نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد تیزی آئی۔ بی آر اے سیکورٹی فورسز کے قافلوں اور چوکیوں پر حملوں کے علاوہ گیس پائپ لائن، بجلی کے ٹاور اور دیگر قومی تنصیبات کو نشانہ بنانے کی درجنوں کارروائیوں کی ذمہ داریاں قبول کرچکی ہیں۔

اہم مسلح کارروائیاں

ترمیم
  • بی آر اے نے جولائی 2009ء میں ڈیرہ بگٹی سے متصل ضلع نصیرآباد کی تحصیل چھتر میں کام کرنے والے گیارہ مقامی مزدوروں کو اغواء کیا اور بعد میں مغویوں کی بازیابی کے لیے جانے والے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 20 سے زائد اہلکاروں کو بھی یرغمال بنا لیا جن کی رہائی کے بدلے تمام لاپتہ اور جیلوں میں مقید بلوچوں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا۔ مطالبہ تسلیم نہ ہونے پر تنظیم نے ان تمام یرغمالی اہلکاروں کو بے دردی سے قتل کیا ۔[1] تاہم مغوی مزدوروں کو رہا کر دیا۔ یہ اس تنظیم کی اب تک سب سے بڑی کارروائی ہے ۔

تنظیم کا سربراہ

ترمیم

بی آر اے کے ترجمان سرباز بلوچ ہیں اور عام تاثر ہے کہ اس تنظیم کی سربراہی براہمداغ بگٹی کر رہے ہیں۔ نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد برہمداغ نے مسلح جدوجہد شروع کی اور وہ اپنے قبیلے کے متعدد افراد کے ہمراہ اِن دنوں افغانستان میں مقیم ہیں۔ اس تنظیم کے زیادہ تر کارندے بگٹی قبائلی ہیں۔[2]

IN Baluchistan there is Punjabi's have got dead.their lands, houses became worthless. A lot of punjabis are dead in target killing and bomb blast by so called Bloch nationals which are rebellions. The Baloch are beating about the bush and they are killing inocent peoples which are having trades like Barber, messon , shopekeeper, govenment servants, students etc

متعلقہ مضامین

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. "ڈیلی ڈان کراچی،گیارہ اگست2009ء"۔ 27 اکتوبر 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 دسمبر 2009 
  2. "نہ سچائی کمیشن بنا، نہ بازیابی ہوئی، بی بی سی اردو، دس فروری 2009ء"۔ 15 فروری 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 فروری 2009