بھنبھور (Bhambore) سندھ، پاکستان کے ضلع ٹھٹھہ میں واقع ایک قدیم شہر تھا جس کی تاریخ پہلی صدی قبل مسیح تک ہے۔[1][2] شہر کے کھنڈر این-5 نیشنل ہائی وے پر کراچی کے مشرق میں واقع ہیں۔

بھنبھور
Banbhore
UNESCO World Heritage Site
مسجد بھنبھور کا فرش، 727ء
اہلیتثقافتی: (چہارم), (پیجم), (ششم)
حوالہ1885
کندہ کاری2004 (مجوزہ فہرست) (خطاء تعبیری: غیر متوقع ( مشتغل۔ دور)

2004 میں محکمۂ آثارِ قدیمہ و عجائب گھر حکومتِ پاکستان نے اس مقام کو یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ مقامات کی فہرست میں شامل کرنے کے لیے پیش کیا۔

مقام

ترمیم

بھنبھور گھارو کریک کے شمالی کنارے پر کراچی کے مشرق میں تقریباً 65 کلومیٹر (40 میل) سندھ کے ضلع ٹھٹھہ میں واقع ہے۔

کچھ ماہرین آثار قدیمہ اور تاریخ دان بھنبھور کو تاریخی شہر دیبل کہتے ہیں، جسے محمد بن قاسم نے راجہ داہر، آخری ہندو حکمران کو شکست دینے کے بعد 711-712 میں فتح کیا۔ تاہم ابھی تک اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

بھنبھور بندرگاہ

ترمیم

بھنبھور بندرگاہ ایک قرون وسطٰی کے ساحلی شہر کی اہم بندرگاہ تھی درآمدی سیرامک​​، دھاتی اشیاء درامد ہوتی تھی اور یہ ایک صنعتی اور تجارتی مرکز بھی تھا۔

آثار قدیمہ

ترمیم

بھنبھور کے کھنڈر کا پہلا مطالعہ 1930ء میں آرکیالوجی سروے آف انڈیا کے سپرنٹنڈنٹ، این جی موجمدارنے کیا جو علم الآثار کے ماہر تھا۔ انھوں نے مختلف جگہوں پر کھدائی کرکے تحقیقی رپورٹ لکھی تھی۔1951 اور 1958ء میں یہاں کھدائی کاسلسلہ دوبارہ شروع ہوا ،جو 1962ءتک جاری رہا۔ اس کھدائی کے نتیجے میں ایک شاندار قلعہ بند بستی کے آثارملے۔[3]مشرقی حصے میں ایک مسجد کے کھنڈر موجود ہیں جن پر فتح سندھ کے سولہ سال بعد 727 عیسوی کا ایک کتبہ موجود ہے، جو اس خطے کی ابتدائی مساجد کی بہترین محفوظ مثال کی نشان دہی کرتا ہے۔  مسجد کی باقیات 1960 میں دریافت ہوئی تھیں۔[4]

ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق ، اس دور میں بھنبھور کا شمار سندھ کی خوش حال ریاستوں میں ہوتا تھا۔وہاں ہاتھی دانت کی دنیا کی سب سے قدیم اوربڑی صنعت کا ایک غیر ملکی جریدے کی رپورٹ سے پتا چلا، جس میں درج ہے کہ ماہرین آثارِ قدیمہ کو سندھ کے 2100 سال قدیم شہر بھنبھور کا دورہ کرتے ہوئے قدیم دور کی ہاتھی دانت کی نقاشی (IVORY CARVING)کا انکشاف ہوا۔ 800 سال پرانی اس ورک شاپ میں سے 40 کلو گرام وزنی ہاتھی دانت کے ٹکڑے اس قدیم شہر کے کھنڈر سے برآمد ہوئے ہیں، اس جگہ کھدائی کرنے والے مزدوروں نے انھیں لاپروائی سے باہر نکال کرپھینک دیا تھا۔یونیورسٹی آف بولوگنا کے آثار قدیمہ کے ماہر Simon Mantellini کے مطابق تلاش کرنے والوں کو اب تک ہاتھی دانت کی بنی ہوئی اشیا نہیں ملی ہیں، جو چیز دریافت ہوئی ہے وہ ایک بہت بڑی کارپنٹری کا کچرا ہے۔رپورٹ کے مطابق اس مقام پر Trench 9 کی کھدائی کا آغاز 2017ء میں ہوا۔ کام کا آغاز حکومتِ سندھ کے محکمہ ثقافت و آثارِ قدیمہ اور اٹلی کے محکمہ خارجہ کے اشتراک سے کیا گیا اور اس میں کیتھولک یونیورسٹی آف سیکر ڈپارٹ میلان کا اشتراک بھی شامل تھا۔ پروفیسر مینٹلنی نے جو خود بڑے ماہرِ آثارِ قدیمہ اور سرامکس (مٹی کے برتن) کے ماہر ہیں، اپنے ساتھیوں کے ساتھ ان آثار پر تحقیق کی۔ ان کا کہنا ہے کہ’’ یہ بلاشبہ اب تک دریافت ہونے والی ہاتھی دانت کی ورکشاپس میں سب سے بڑی ورکشاپ ہے،ہاتھی دانت کی ساخت سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ یہ ورکشاپ اسلامی دور میں قائم کی گئی تھی‘‘۔[5] ’’یہ محض ایک آغاز ہے اور یقیناً یہ ورکشاپ ایک بڑے صنعتی علاقے کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے‘‘۔ ماہرینِ آثارِ قدیمہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ، ہاتھی دانت کا کوئی ایسا ذخیرہ اور ایسی ورکشاپ دنیا میں کہیں اور موجودنہیں ہے۔ یہ اپنی نوعیت کی اچھوتی دریافت ہے۔ بھنبھور کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ہڑپہ کے مقابلے میں جدید شہر ہے جو پہلی صدی عیسوی سے قبل آباد ہوا ہے۔ یہ شہر کراچی کے مشرق میں 65 کلومیٹر دور دریائے سندھ کے دہانے پر واقع ہے۔بھنبھور شہر سیتھائی پارتھیائی عہد (Scytho-Parthian Period) میں قائم ہوا اور ہندو بدھ ادوار سے ہوتا ہوا اسلامی دور تک تیرہویں صدی میں برباد ہونے تک آباد رہا۔ بھنبھور کی جغرافیائی پوزیشن (جیسا کہ یہ دریائے سندھ کے ڈیلٹا کے ساتھ سمندر سے بھی لگا ہوا ہے) کی وجہ سے اس شہر کو قدیم زمانے میں تجارتی مرکز کی حیثیت حاصل تھی۔ بھنبھور کے مقام پر 14000 مربع میٹر پر محیط ایک بڑے قلعہ کے آثار بھی موجود ہیں۔ پرانی دریافتوں میں چہار دیواری کے اندر بنے اس شہر کے علاوہ مختلف عمارتیں اور گلیاں بھی دریافت ہوئی ہیں۔اس شہر کو ازمنہ وسطی میں اسلام کے پھیلائو کے حوالے سے ابتدائی مقام قرار دیا جاتا ہے۔ معروف آرکیالوجسٹ، پروفیسر Mantellini کے مطابق، بھنبھور شہر میں ہاتھی دانت کی صنعت کے آثار اس کی خوش حالی کا اہم سبب تھے۔ 1950ء اور 1960ء کی دہائی میں بھی ہاتھی دانت کے ٹکڑے دریافت ہوئے ہیں۔فیکٹری اور دریافتوں کے حجم سے اس بات کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ یہ مصنوعات مقامی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے علاوہ بیرونی ممالک بھی بھجوائی جاتی تھیں۔[6] ان ہاتھی دانتوں سے کون کون سی اشیاء بنائی جارہی تھیں، دریافت شدہ ٹکڑوں سے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ لیکن مینٹلنی کے مطابق بھنبھور کی اصل مصنوعات ہاتھی دانت سے بنائے ہوئے زیورات تھے۔ ماہرین کو چوکور ٹوٹے ہوئے ٹکڑے ملے ہیں، لیکن جب ان کو جوڑ کر ملا کر دیکھا گیا تو ایک ڈونٹ (Donut) کی شکل کا دائرہ بن گیا۔ یہ ہاتھی دانت کی انگوٹھی کی باقیات محسوس ہوتی ہیں۔بعض ٹکڑوں کو دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ شطرنج کے نامکمل پیادے ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ بناتے وقت ٹوٹ گئے ہوں اور ان کو ضائع کر دیا گیا ہو۔قدیم اور وسطی دور میں ہاتھی دانت کی اہمیت سونے چاندی کے مساوی تھی۔ وادی سندھ سے لے کر روم تک اسے اشیائے تعیشات کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ بھنبھور سے ملنے والے ہاتھی دانت کے آثار اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ بارہویں اور تیرہویں صدی میں یہ انتہائی خوش حال شہر ہونے کے ساتھ مقامی اور بین الاقوامی تجارت کا مرکز تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قدیم بھنبھور سے ہاتھی دانت کی مصنوعات برآمد ہوتی تھیں اور اس کے بدلے مختلف اشیاء درآمد کی جاتی تھیں جن میں شیشے کا سامان بھی شامل ہے۔بین الاقوامی تجارت کی ایک اہم نشانی غیر ملکی ظروف ہیں۔[7]

یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ

ترمیم

2004 میں محکمۂ آثارِ قدیمہ و عجائب گھر حکومتِ پاکستان نے اس مقام کو یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ مقامات کی فہرست میں شامل کرنے کے لیے پیش کیا۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. "Port of Banbhore"۔ World Heritage Sites, Tentative List۔ UNESCO۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 ستمبر 2012 
  2. "Banbhore"۔ Dictionary of Islamic Architecture۔ ArchNet۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 ستمبر 2012 
  3. https://jang.com.pk/amp/508780
  4. "Port of Banbhore"۔ World Heritage Sites, Tentative List۔ UNESCO۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 ستمبر 2012 
  5. https://jang.com.pk/amp/508780
  6. https://jang.com.pk/amp/508780
  7. https://jang.com.pk/amp/508780