بوریت (انگریزی: Boredom) مروجہ استعمال میں جذباتی اور کبھی کبھی نفسیاتی کیفیت ہے جو کوئی شخص اپنی زندگی میں اس وقت محسوس کر سکتا ہے کہ جب یا تو اسے خاص کام کرنے لائق نہ ہو یا وہ روز آنہ ایسے کام کرنے پر مجبور ہو جسے وہ مطلق نہیں چاہتا چاہتا۔ اس جذبے کسی کام سے بے زارگی یا کوئی خاص کام کے فقدان کا احساس شامل ہو سکتا ہے۔ ایک شخص بوریت کا احساس تب بھی محسوس کر سکتا ہے جب اسے کوئی دن بالکلیہ خشک و بے حرکتی سے بھرا لگے یا اس میں اس قدر مشغول اس کام کو لے کر ہو جس میں اس کی دل جمعی نہ ہو۔ کچھ ماہرین اسے ایک جدید مظہر قرار دیتے ہیں جس کا کہ ثقافتی پہلو بھی ہے۔ "بوریت کی کوئی عالمی طور پر تسلیم شدہ تعریف نہیں ہے۔ مکر وہ جیسی بھی ہے، محققین کا دعوٰی ہے کہ یہ تناؤ اور بے حسی کا دوسرا نام نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ ایک دماغی کییفیت ہے جو راحت کی طلب کے ساتھ چُھٹتی ہے، جس میں کہ کئی برتاؤ سے جڑے، طبی اور سماجی عواقب بھی موجود ہیں۔"[1] بی بی سی نیوز کے مطابق بوریت "... ایک خطرناک اور اڑچن پیدا کرنے والی دماغی کیفیت ہے جو آپ کی صحت کو تباہ کرتی ہے۔" ایک اور تحقیق کی رو سے "... یہ پتہ چلا ہے کہ بوریت کے بغیر ہم اپنی تخلیقی کامیابیاں حاصل نہیں کر سکتے۔" [2]

ڈاکٹر فریدہ راج کے مطابق لفظ ’ بور ‘ آج کے جدید زمانے کی دین ہے، چھوٹے بچوں سے لے کر نوجوان لڑکے و لڑکیوں کی لغت میں یہ لفظ عام ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ گھر کی خواتین بھی اس عِلت کا شکار ہیں اور بوریت دور کرنے کے لیے اپنا قیمتی وقت یا تو ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر گزارتی ہیں یا پھر بے معنی اور فضول سی کِٹی پارٹی میں شامل ہوجاتی ہیں۔ بہرحال بچوں میں اس مسئلہ کی وجہ کیا ہے اور اس کو کس طرح سے حل کیا جا سکتا ہے، اس تعلق سے ... کی جانی مانی بچوں کی ماہر نفسیات کا کا کہنا ہے ’’ بورڈم ‘‘ کا شکار صرف شہر کے لوگ ہوتے ہیں اور خصوصی طور پر بچے۔ بظاہر تو اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ بچوں کو نت نئی سرگرمیوں میں اس طرح مشغول رکھا جائے کہ وہ بوریت نام کی چیز کو بھول جائیں۔[3] شاید یہی کچھ بڑے لوگوں کی بھی ضرورت ہو سکتی ہے۔

مثالیں

ترمیم
  • کووڈ 19 کی عالمی وبا کے خطرے کے درمیان دنیا بھر میں بھلے ہی گھر سے کام کرنے کا رجحان 2020ء سے لے کر 2021ء کے بیچ کافی بڑھا لیکن ایک سال کے تجربے کے بعد بڑی تعداد میں لوگوں کو محسوس ہو رہا ہے کہ اس سے ان کی زندگی میں کوئی اطمینان نہیں ہے اور ان کے کام کرنے کی رفتار اور اس کی نتیجہ خیزی بھی متاثر ہوئی ہے۔ فولاد کی صنعت کی طرف سے آج جاری ایک رپورٹ کے مطابق سال 2020ء میں کورونا وبا کی وجہ سے دفتر کے زیادہ تر ملازمین نے سال میں زیادہ تر وقت گھر سے کام کیا جس سے کاروباریوں کو مصنوعات سازی، رابطے اور جدت میں ہوئے نقصان کے لحاظ سے سب سے بھاری قیمت چکانی پڑی ہے۔[4] اس کے ساتھ ہی طبعیت میں بوریت کی بھی شدید کیفیت دیکھی گئی۔
  • 2008ء میں ہونے والے ممبئی پر دہشت گردانہ حملوں کے واحد زندہ ماخوذ ملزم اجمل عامر قصاب نے اپنے معاملے کی طویل سنوائی کے دوران عدالت میں جج سے کہا کہ ’میں بور ہو گیا ہوں اور مجھے پڑھنے کے لیے کچھ کتابیں دی جائیں۔‘[5] یہ غالبًا قید کی چار دیوار میں طبعیت کی دلجمعی نہ ہونا اور باہری دنیا کی کم از کم کچھ آئینہ داری کی طلب تھی۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. Maggie Koerth-Baker (2016)۔ "Why Boredom Is Anything but Boring"۔ Nature۔ 529 (7585): 146–8۔ Bibcode:2016Natur.529..146K۔ PMID 26762441۔ doi:10.1038/529146a ۔ 8 جون 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 اپریل 2018 
  2. David Robson۔ "Psychology: Why boredom is bad... and good for you"۔ bbc.com۔ 24 اگست 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 اپریل 2018 
  3. ’’ بوریت‘‘ کا احساس : نئے زمانے کی دین
  4. گھر سے کام کرتے کرتے ملازمین بوریت کے شکار، دفتر جا کر کام کرنے کی خواہش
  5. قصاب بوریت کا شکار کتابوں کا مطالبہ