زیادتی، جنسی تشدد، ریپ اور قتل کے واقعات مسلسل پیش آ رہے ہیں۔ ماہِ گذشتہ کے اوائل میں قصور میں بچی کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا۔ جنوبی پنجاب میں پانچ ایسے کیس رپورٹ ہوئے۔ مردان میں ایک واقعہ پیش آیا جس کا مجرم تاحال قانون کی گرفت میں نہ آسکا۔ راولپنڈی میں اغوا ہونے والے بچے کو جنسی تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کر ڈالا۔ ابھی اس درد، کرب و الم کی کیفیت سے نکلے نہیں تھے کہ مردان میں ایک اور بچی زیادتی کا نشانہ بن گئی۔ ملزم گرفتار تو ہوا مگر سزا ملے گی یا نہیں؟ ابہام باقی ہے۔ کوئٹہ میں ایک یتیم بچی زیادتی کے بعد قتل کی گئی۔ دوسری طرف ہری پور سے ریپ کیس کا اسکینڈل سامنے آیا۔ محافظ ہی لٹیرا نکلا۔ 97٪ فیصد مسلمان آبادی والے ملک میں بچے بچیاں جنسی تشدد کا شکار ہو رہے ہیں۔ عوام نعروں، جب کہ حکمران بھاشن دینے اور خواب دکھانے میں مصروف عمل ہیں۔ ادارے شائنگ اسٹار بننے کی دوڑ میں ہیں۔ اور میڈیا ریٹنگ کے چکر میں الجھا پڑا ہے۔ ایشیا میں ہر برس 10 لاکھ سے زائد بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ غیر سرکاری تنظیم کی رپورٹ کے مطابق ہمارے ملک میں ہر روز 11 بچے جنسی تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔ 2017 کی ایک رپورٹ کے مطابق، تناسب کے اعتبار سے زیادہ تر واقعات دیہی علاقوں میں پیش آئے۔

2016 کی ایک رپورٹ کے مطابق بچوں کے خلاف جو بڑے جرائم رپورٹ ہوئے ان میں اغواہ کے 1455 کیس، ریپ کے 502 کیس، بچوں سے بدفعلی کے 453، گینگ ریپ کے 271 کیس، اجتماعی زیادتی کے 268، جب کہ زیادتی یا ریپ کی کوشش کے 362 کیس سامنے آئے۔ اسی طرح اس سال کے پہلے چھ ماہ میں کل 1764 کیسز میں سے پنجاب میں 62 فیصد، سندھ میں 28 فیصد، بلوچستان میں 58 فیصد، کے پی کے میں 42 فیصد، کشمیر میں 9 فیصد رجسٹرڈ ہوئے۔ 2017 کے معلوم اعداد و شمار کے مطابق 1441 بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ 15واقعات کو فلمایا گیا، زیادتی کے بعد 31فیصد بچوں کو قتل کر دیا گیا۔ 66 فیصد واقعات دیہی جب کہ 34 فیصد شہری علاقوں میں پیش آئے اور یہ تعداد گذشتہ سال سے کہیں زیادہ ہے۔

رپورٹ پر نظر پڑتے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ہمارا مستقبل، ہمارے بچے کتنے بڑے خطرے سے دوچار ہیں۔ بچوں سے زیادتی، تشدد، ریپ کیسز میں مسلسل اضافہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ حکومت کو ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے قانون بنا کر سخت ترین سزا کا اجرا کرنا ہوگا۔ زینب، اسما جیسے واقعات صرف سخت ترین سزا سے روکے جا سکتے ہیں۔ عبرتناک طریقہ سے سرِ عام پھانسی، سرِ عام قتل کرنا جس کی ایک صورت ہو سکتی ہے۔ قطع نظر اس سے کہ معاشرے پر اس کے مضر اثرات مرتب ہوں گے۔ ہاں البتہ مثبت اثرات ضرور مرتب ہوں گے۔ یہ سزا وحشیانہ اس وقت لگتی ہے جب مجرم کی نفسیات سے دیکھا جائے۔ معاشرے کے حوالے سے نہیں۔ قانون کا خوف جرم کے سدباب کا واحد ذریعہ ہے۔ جب وہ فطری، اخلاقی احساس، تعلیم و تربیت اور سماج کے دباؤ سے ماورا ہو جائے۔ ان مراحل کے بعد بھی نہ رکے، تو وہ سخت سزا کا مستحق ہے۔

یہ بات بجا ہے کہ ہمارے ہاں اس کی سزا سرِعام پھانسی دینا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب اپنے مفاد کا قانون بن سکتا ہے تو عوام کے مفاد، بچوں کی حفاظت کے اقدامات، مجرم کے لیے سخت سزا کا قانون کیوں نہیں بن سکتا؟ ساتھ ہی دیگر محرکات پر غور و فکر کی ضرورت ہے۔ ماہرین کے مطابق ایسے واقعات میں وہ لوگ ملوث ہوتے ہیں جو بچپن میں جنسی تشدد کا نشانہ بنے ہوں۔ ساتھ ہی پورن دیکھنا بھی محرکات میں داخل ہے۔ والدین کا کردار یہاں بہت زیادہ اہم ہے۔ اب وقت ہے کہ والدین اپنی اولاد کی تربیت کریں۔ انھیں زیادہ وقت دیں۔ ان سے دوریاں ختم کر کے دوستی کے رشتے کو پروان چڑھائیں۔ تاکہ کوئی تیسرا اس تعلق میں نہ گھس سکے۔ ان کے ہر عمل پر آپ کی نظر ہو، ان کی اٹھک، بیٹھک نظر میں رہے۔ ان سے ملنے جلنے والوں پر نظر رکھیں۔ کسی پر بھی اندھا اعتماد نہ کریں۔ بہت سے کیسز میں قریبی رشتہ دار، محلے دار، جاننے والے ہی ملوث پائے گئے۔ بچوں کی بات پر توجہ دیں۔ وہ اگر کسی ایسی بات یا کسی کی کسی حرکت کی آپ سے شکایت کریں تو آپ چپ رہنے یا نظر انداز کرنے، خیر ہے کوئی بات نہیں یا نہیں وہ ایسا نہیں کر سکتے، الٹا بچے کو ہی ڈانٹنے پر اکتفا نہ کریں۔ بلکہ ایکشن لیں چاہے وہ کوئی بھی کیوں نہ ہو۔ یہ آپ کا حق ہے۔ اور اگر آپ ایکشن نہیں لیں گے تو آپ بھی مجرم ہوں گے۔

بچوں کی حفاظت کو یقینی بنائیں تا کہ وہ ایسے کسی واقعے کا نشانہ بننے سے بچ سکیں۔ انھیں ابتدائی تعلیم سے آگاہی دیں۔ انھیں حفاظتی تدابیر سے روشناس کروائیں، تاکہ وہ کسی کی بھی لالچ میں نہ آ سکیں۔ کیوں کہ اکثر واقعات میں بچے کو کسی چیز کا لالچ دے کر، گھمانے پھرانے کا لالچ دے کر پھانسا جاتا ہے۔ آج اگر ہم اپنے معالج خود نہیں بنیں گے۔ تو بعد میں بغیر پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ بقایا ہم تو صرف صبر کے گھونٹ ہی بھر کر آنسو ہی بہا سکتے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ دنیا میں کسی بھی قوم کا صبر ضائع نہیں جاتا۔ معلوم نہیں ہمارے ہاں صبر کے نتیجے کا وقت کب آئے گا؟ لیکن بہرحال بہتری کا خواب تو دیکھ سکتے ہیں۔ اور اللہ جی سے امید بھی لگا سکتے ہیں کہ وہ واحد ذات ہے جو ناممکنات کو ممکنات سے بدل سکتا ہے۔ وگرنہ ہم ہاری ہوئی قوم ہیں۔ ہم احمق ہیں احمق ہی رہیں گے۔ ہم اداس نسل ہیں جو اپنے بزرگوں کو سکھ دے سکتی ہے نا ہی اپنے بچوں کا تحفظ کر سکتی ہے۔ ہاں البتہ نعرے خوب لگا سکتی ہے۔

بچوں کے تحفظ کے بنیاری نکات

ترمیم

بچوں کیساتھ روز بروز بڑھتے جنسی واقعات کے پیش نظر، بچوں کو جسمانی صحت، جنسی افعال اور خطرات کے بارے میں آگاہ کرنا اور خطرناک صورت حال سے نبٹنے کے لیے ذہنی طور پر تیار کرنا، تعلیمی اداروں، معاشرے اور والدین اور / سرپرستوں کی اہم ذمہ داری ہے۔ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور استحصال کرنے والے بچوں سے ان کی معصومیت اور ان کا بچپن چھین لیتے ہیں، یہ صرف قانونی مسئلہ نہیں بلکہ سماجی مسئلہ بھی ہے۔[1] اسی طرح کئی اہم معاملوں میں بچوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔

پاکستان میں بچوں کے تحفظ کی صورت حال

ترمیم

2016 کی ایک رپورٹ کے مطابق اغواہ کے 1455 کیس، آبروریزی کے 502 کیس، بچوں سے بدفعلی کے 453، اجتماعی آبروریزی کے 271 کیس، اجتماعی زیادتی کے 268، جب کہ زیادتی یا آبروریزی کی کوشش کے 362 کیس سامنے آئے۔ اسی طرح 2017ء کے پہلے چھ ماہ میں کل 1764 کیسز میں سے پنجاب میں 62 فیصد، سندھ میں 28 فیصد، بلوچستان میں 58 فیصد، کے پی کے میں 42 فیصد، آزاد کشمیر میں 9 فیصد رجسٹرڈ ہوئے۔ 2017ء کے اعداد و شمار کے مطابق 1441 بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ 15 واقعات کو فلمایا گیا، زیادتی کے بعد 31 فیصد بچوں کو قتل کر دیا گیا۔ 66 فیصد واقعات دیہی جب کہ 34 فیصد شہری علاقوں میں پیش آئے۔[2]

حوالہ جات

ترمیم