بچوں کی نشو و نما میں حیاتیاتی، نفسیاتی اور جذباتی تبدیلیاں شامل ہیں جو انسانوں کی پیدائش سے لے کر جواں سالی کے دور کے ختم تک جاری رہتی ہیں، جیسا کہ افراد آزانہ طور نشو و نما کرتے ہیں۔ یہ ایک مسلسل کا طرز عمل ہے جس کے تسلسل کی قیاس آرائی تو لگائی جا سکتی ہے، تاہم یہ سلسلہ ہر لڑکے میں منفرد ہوتا ہے۔ یہ ایک ہی شرح سے آگے نہیں بڑھتی اور ہر مرحلہ اپنے سے سابقہ نشوونمااتی تجربے سے متاثر ہوتا ہے۔ چوں کہ یہ نشوونمااتی تبدیلیاں وراثیاتی عوامل اور ماقبل ولادت زندگی سے کافی متاثر ہوتے ہیں، وراثیات اور ماقبل ولادت نشو و نما کو عمومًا بچوں کی نشو و نما کے مطالعے میں شامل کیا جاتا ہے۔ متعلقہ اصطلاحات میں نشوونمااتی نفسیات، جو مکمل حین حیات کی نشو و نما کا حوالہ دیتی ہے اور طفلیات، جو طب کو وہ شاخ ہے جو بچوں کی دیکھ ریکھ سے تعلق رکھتی ہے۔ نشوونمااتی تبدیلیاں وراثیاتی گرفت والے طریقوں کا نتیجہ ہو سکتے ہیں جسے نشوونمااتی حیاتیات کہا جاتا ہے،[1] یا پھر یہ ماحولیاتی عوامل اور سیکھنے کا نتیجہ ہو سکتا ہے، مگر زیادہ تر اس ان دونوں کی تال میل ہوتی ہے۔ یہ انسانی فطرت کی وجہ سے بھی ممکن ہے اور اس میں انسانوں کی ماحول سے سیکھنے کی عادت کا بھی دخل ممکن ہے۔

کھیل کود میں مصروف ایک کم عمر بچہ۔

بچوں کی نشو و نما کے مراحل کی مختلف تعریفیں موجود ہیں، چوں کہ ہر دور ایک تسلسل ہے جس میں افراد کا درمیانی فرق شروع اور ختم میں نمایاں ہوتا ہے۔ کچھ عمر سے متعلق دوروں اور ان کی تعریف کردہ میعادوں کی مثالیں اس طرح ہیں: نومولود (عمر صفر سے چار ہفتے)؛ گودی بچہ (عمر چار ہفتے سے ایک سال)، رینگتا بچہ (عمر ایک سے تین سال)؛ ماقبل اسکول بچہ (4–6 سال)؛ اسکولی بچہ (عمر 6–11 سال)؛ جواں سال (عمر 12–18 سال)۔[2]

ماں باپ کی تربیت اور دیگر عوامل کی مدد سے بچوں کی نشو و نما کو فروغ دینے سے نو نہالوں کی صحیح گام زنی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔[3]

ماں باپ کسی بھی بچے کی زندگی میں ایک اہم کردار انجام دیتے ہیں اور اس کے سماج سے جڑنے اور اس کی ذاتی نشو و نما میں مدد کرتے ہیں۔ دونوں ماں باپ کا ایک جگہ جمع ہونا ایک بچے کی زندگی میں استحکام لا سکتا ہے اور اس کی وجہ سے صحت مندانہ نشو و نما کی حوصلہ افزائی ممکن ہے۔[4] ایک اور اثر انگیز بات جو بچوں کی نشو و نما میں معاون وہ ماں باپ کی دیکھ ریکھ کی کیفیت ہے۔ بچوں کی دیکھ ریکھ کے پروگرام بچوں کی نشو و نما کو فروغ دینے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ بچے میں جینیاتی طور پر بھی والدین کی خصوصیات منتقل ھوتی ہیں جو ان کی جسمانی ذہنی جزباتی اور نفسیاتی نشو و نما میں انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ بچوں کی جسمانی اور ذہنی نشو و نما کا مطالعہ –



 تعلیمی نفسیات علم نفسیا ت کی ایک شاخ ہے اس لیے یہ ایک سائنسی مطالعہ ہے اور اس میں وہ تمام خصوصیات ہیں ۔ جو علم نفسیات میں پائے جاتے ہیں دوسرے الفاظ میں تعلیمی نفسیات بذات خود ایک سائنس ہے بلکہ ایک اطلاقی سائنس ہے ۔

تعریف: تعلیمی نفسیات سے مرادایسا علم ہے جو ان تبدیلیوں کی تشریح کرتاہے جو تمام اشخاص میں ان کی پیدائش سے لے کر جوانی تک نشو و نما کے مختلیف درجوں میں پیدا ہوتی رہتی ہیں ۔ یہ علم ان حالات پر بحث کر تاہے جو بچوں کی نشو و نما پر اچھے یا برے طریقے سے اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔ ( عبدا لحئی علوی)

گیریزن ( Garrisan) نے یوں تعریف کیا ہے۔ کہ تعلیمی نفسیات کردارکی اس تبدیلی کا نام ہے جو تعلیم کے معاشرتی تعامل Social interaction کی وجہ سے آتی ہے ۔

ٹریورز کے نزدیک تعلیمی نفسیات ، تعلیمی سرگرمی کا نام اور کارروائی کی سائنسی بنیاد کا نام ہے۔

آسو بیل کہتا ہے کہ یہ ایک ایسا علم ہے جس کا تعلق کمرہ جماعت میں تعلم کی حقیقت ، اس پر اثر انداز ہونے والے عوامل اور اس سے حاصل شدہ نتائج کے جائزے سے ہے

بالیدگی اور نشو و نما

بالیدگی کی اصطلاح مقداری اضافے کے معنی میں استعمال ہوتی ہے ۔ جب کہ نشو و نما ایسے اضافے کو کہتے ہیں جس کا تعلق معیار کے ساتھ ہو ۔ ایک بچے کی قد اور جسامت کا اضافہ بالیدگی کہلاتاہے اور جسم کی بڑھوتری کے ساتھ ساتھ اس کادماغ اور جسم کی اندرونی کیفیات میں بھی تبدیلیاں رونما ہو تی ہیں اور ذہنی طور پر بھی تبدیلیاں آتی ہیں یہ نشو و نما کہلاتی ہیں۔ پس ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ بالیدگی اورنشونما سے مراد وہ جسمانی ، ذہنی، معا شرتی ،اور جذباتی تغیرات اورتبدیلیاں ہیں جو پیدائش سے لے کر بلوغت تک رونما ہوتی ہیں۔

اہم باتیں :

توارث: اس سے مراد یہ ہے کہ کچھ عادتیں بچوں میں ان کی والدین کی طرف سے ان کو وراثت میں ملتی ہیں جس کی وجہ سے اس کی بالیدگی ہو جاتی ہے ۔ پھر پیدائش اور ماحول کے اثرات سے فرد کی نشو و نما ہوتی ہے۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ بالیدگی اور نشو نماآہستہ آہستہ اور درجہ بدرجہ ہوتی رہتی ہے ۔ جسمانی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ ذہنی پرورش بھی پروان چڑھتی رہتی ہے لیکن جسمانی نشو و نما ایک حد تک جا کر رک جاتی ہے مگر ذہنی ، جذباتی اور معاشرتی تبدیلیاں زندگی بھر جاری رہتی ہیں اس کے سوچنے، سمجھنے، اُٹھنے بیٹھنے ، ااور خوشی اور غم کے انداز وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں

ابتدا ء میں بچے مختلف اشیاء میں فرق محسوس نہیں کرپاتے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلی آتی ہے۔ جب بچہ چھوٹا ہو تا ہے تو وہ چھری اور چمچے میں فرق محسوس نہیں کرتا یہی وجہ تھی کہ موسیٰ علیہ اسلام نے انگارے کو منہ میں رکھا تھا جس کی وجہ سے ان کی زبان میں لقنت آئی تھی ۔ جسمانی نشو و نما تیزی سے ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وزن بھی بڑھتاہے اور ذہن اور حافظہ بھی تیز ہو جاتاہے

عہد بلوغت میں جسمانی بالیدگی اپنی انتہا کو پہنچتی ہے۔ اور ذہنی صلا حیتیں بھی نکھر آتی ہیں۔ نصب ا لعین، شوق دلچسپی ، مختلف مضامین کا شوق، جسمانی لحاظ سے پختگی اور مشکل کام کو حل کرنا، تو ایسے میں بچوں کی پسند و ناپسند کا مسلہ، لہٰذا بچوں کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے ان سے توقعات کیے جائیں ۔

بالیدگی کی منزلیں

بالیدگی کی چار منزلیں ہیں (1) طفلی منزل یا طفولیت (2) بچپن (3) نو بلوغت (4) بلوغت

طفلی منزل یا طفولیت

بالیدگی کی پہلی منزل پیدائش سے لے کر پانچ سال کی عمر تک کے عرصے پر محیط ہے۔ اس عمر میں بچے تیز رفتاری سے جسمانی بالیدگی کی عمل سے گذرتاہے ، قد وزن وغیرہ بڑھ جاتاہے بچیاں، بچوں کی نسبت جلدی بڑھ جاتی ہیں لیکن وزن کے لحاظ سے بچے سبقت لے جاتے ہیں

شروع میں بچے دوسروں کے محتاج ہوتے ہیں ان کی ذہنی، جذباتی،اور معاشرتی نشو و نما کوئی خاص نہیں ہوتی ہے۔ دو تین ماہ کے بعد بچے ادھر اُدھر دیکھنے اور پرکھنے کی عمل سے گذرتے ہیں اور بچے مسکرانے کی کوشش کر تے ہیں جب کہ کوئی بھی عمل اس کو اچھا لگے ۔ اس طرح اگر ہاتھ اس کے سامنے لے جایاجائے اور آہستہ آہستہ ہٹایا جائے تو وہ اس ہاتھ کا پیچھاکرتاہے ، اس طرح بچے ماں کی دودھ کے ساتھ ساتھ ٹھوس غذا بھی کھا لیتا ہے اور پھر سال کے عرصے میں کچھ ٹوٹے پھوٹھے الفاظ بھی اپنے توتلے زبان سے ادا کرتاہے دوسرو ں کے سہارے چلنا ، بولنا ، باتیں کرنا اور کھانا کھانا بھی سیکھتا ہے، پھر گھر والوں ، محلے والوں اور گاؤں والوں ، سے رابطہ ہو تاہے۔اس عمر میں بچوں کو ڈر اور خوف کا احساس ہو تاہے۔ اس لیے ان کو بے جا خوف میں مبتلا نہیں کر نا چاہیے اور ان کی مثبت جذبات کا خیال رکھنا چاہیے لہٰذا بچوں سے پیار اور شفقت سے پیش آئے اور ان کی شخصیت پر اس سے اچھا اثر پڑتا ہے

بچپن کا دور(childhood )

بالیدگی کے ادوار میں بچپن ، نوبلوغت اور بلوغت کو خاصاہمیت حاصل ہے ۔ ان ادوار میں بعض ایسی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں ۔ جن کا مطالعہ

والدین اور اسا تذہ کے لیے ضروری ہے ۔ ایک ماہرنفسیات فرائڈ کا قول ہے کہ بچپن کادور آنے والی زندگی کی بنیاد ہے اس لیے اگر اس دور میں تعلیم کی بنیاد مستحکم پڑ گئی تو آئندہ تعلیم بہتر ہو گی اور فرد کی شخصیت مثبت قدروں کی حامل ہو گی اور اگر یہی دور تعلیمی لحاظ سے ناقص اور کمزور ہوگی تو آئندہ کی تعلیمی عمارت کمزور ثابت ہو گی ۔ اور یہ دور چھ سے بارہ سال کے عرصے پرمحیط ہو تا ہے۔ اس دور میں طبعی بالیدگی کے بنسبت ذہنی نشو و نما تیز ہوتی ہے اور ذہنی لحاظ سے لڑکے اور لڑکیاں زیادہ متحرک نظر آتے ہیں۔ اس دور میں اپنے ہم جنس افراد سے دلچسپی لیتے ہیں ان کا حافظہ تیزہوتا ہے اور بہت سی چیزوں کو زبانی یاد کر لیتے ہیں جہاں تک معاشرتی اور جذباتی نشو و نما کا تعلق ہے پہلے کی نسبت ترقی نظر آتی ہے اور بچے گھر کی چار دیواری سے باہر نکل کر معاشرتی تعلقات کو وسیع بناتے ہیں اور اس دور میں بچوں کو تعلیم سے ضرور متعار ف کرا دینا چاہیے بلکہ آج کل تو ڈھائی تین سال کی عمر میں بچوں کو تعلیم سے متعارف کرایا جارہا ہے جیسے کہ ای سی ڈی وغیرہ

نو بلوغت ((adolesence

یہ وہ دور ہے جب انسان بچپن سے گذر کرکر عالم شباب میں قدم رکھتا ہے یہ دور عموماََ تیرہ سال سے اُنیس سال کے عرصے کا دور ہو تا ہے اور لڑکیوں کے لیے یہ دور تیرہ سے سترہ سال کے عرصے پر پھیلا ہوتا ہے ۔ اس دور میں بہت سی طبعی یا جسمانی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں جسمانی ساخت میں تبدیلی آتی ہے ، جلد ، چہرہ اور جسم کے دوسرے حصوں میں نمایا ں تغیر نظر آتی ہے ۔ اس دور میں بچے اپنے آپ کو کبھی بڑوں میں اور کبھی چھوٹوں میں شمارکرتے ہیں۔

یہ دور معاشرتی نشو و نما کے لحاظ سے بھی قابل توجہ ہے ۔ بچپن میں اپنے ہم جنس افراد سے دلچسپی لیتے ہیں لیکن نو بلوغت کے دور میں انسان مخالف جنس میں دلچسپی لینے لگتاہے۔ اور ایک دوسرے سے رابطہ کرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ اور ایک دوسرے کو متاثر کر نے کی خاطر بناو سنگار پر زور دیا جاتاہے۔ اور اچھے اور قابل تحسین کام انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ا س دور میں والدین اور اساتذہ کی بہتر ین رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔

بلوغت (Adulthood)

یہ دور تقریباََ عمر کی پختگی کا دور ہوتا ہے چونکہ جسمانی نشو و نما تقریباََ رک جاتا ہے۔ اور یہ دور بیس بایئس سال سے چالیس سال تک کے عرصے پر محیط ہوتاہے اور طبعی طو رپر کوئی کمی بیشی رہ بھی جائے تو اس عمر کے ابتدائی دو تین سالوں میں وہ مکمل ہو جاتا ہے اس لیے علٰی ملازمتوں کے لیے عموماََ 25 تا 28 سال کا عمر رکھا جاتاہے اور اس دور کے ساتھ تجربات اور مشاہدات کی وجہ سے فرد کی اہمیت تسلیم کی جاتی ہے اور اپنی خیالات اور باتوں کا اظہار سوچ سمجھ کر کرتاہے اس دور میں تین نفسیاتی تقاضوں سے زیادہ تعلق رکھتاہے پہلا تقاضا کسی نصب العیں کو اختیار کر ناہوتا ہے۔ دوسرا ازدواجی زندگی کی طرف راغب ہونا ہے یہ تقاجنسی پختگی اور شدت کی وجہ سے ہوتاہے۔ اور تیسرا تقاضا معاشرے میں کوئی اہم مقام اور عزت حاصل کرنا ہو تاہے۔

بچپن کے نفسیاتی تقاضے (psycologocal needs of childhood)

انسانی بالیدگی اپنی مختلف منزلوں میں مخصوص تقاضے رکھتی ہے اگر ان تقاضوں کی تشفی نہ ہو تو بچے کی بالیدگی متاثر ہو تی ہے اور اس کی نشو و نما کسی حد تک رک جاتی ہے تعلیمی میدان میں اگر ان نفسیاتی یا قدرتی تقاضوں کی بھر پور تشفی نہ کی جائے تو بچوں کی شخصیت پر بُر ا اثر پڑتاہے

یہ تقاضے کچھ اس طرح سے ہیں (1) خود نمائی ( (wish for winnsom (2) تجسس کی خواہش ( (drive for curiosity (3) تقلید کر نے کی خواہش ( drive for imitation ) (4) آزادی کی خواہش ( Indipendence) (5) معاشرتی تعلقات کی خواہش (drive for social relation )

نو بلوغت کے نفسیاتی تقاضے

(1) عظمت کی خواہش (2) خوداری ااور عزت نفس کی خواہش (3) خود مختاری اور نصب لعین کی خواہش

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. Toga AW, Thompson PM, Sowell ER، Thompson، Sowell (2006)۔ "Mapping brain maturation"۔ Trends in Neurosciences۔ 29 (3): 148–59۔ ISSN 0166-2236۔ PMC 3113697 ۔ PMID 16472876۔ doi:10.1016/j.tins.2006.01.007 
  2. Kail, Robert V (2011)۔ Children and Their Development (6th Edition) (Mydevelopmentlab Series)۔ Englewood Cliffs, N.J: Prentice Hall۔ ISBN 0-205-03494-2۔ OCLC 727047867 
  3. Vilaça, S. (2012)۔ Desenvolvimento infantil e capacitação materna como resultado da aplicação do Programa de Empowerment Parental para o desenvolvimento infantil (PEPDI)۔ Doctoral thesis. University of Minho.
  4. PARENTS CAN PLAY VITAL ROLE IN ENCOURAGING CHILDREN’S ACTIVE, HEALTHY LIFESTYLES۔ cdc.gov

بیرونی روابط

ترمیم