بچہ کشی بچوں کا، بالخصوص نولود اور شیر خواری کی عمر کے بچوں کا بالارادہ قتل ہے۔

والدین کی جانب سے بچہ کشی کے موضوع پر تحقیق کرنے والوں نے یہ دریافت کیا ہے کہ مائیں عمومًا باپوں سے کہیں زیادہ نو مولود کشی کی خاطی بننے کا میلان رکھتی ہیں۔[1] مطالعات سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بچہ کشی کی طرف بھی مائیں زیادہ مائل ہیں۔[2] مگر ان مطالعات کے نتائج کا زیادہ تر انحصار یورپ اور بر اعظم امریکا کی ماؤں پر کی گئی تحقیق ہے۔ یہ نتائج ایشیائی تناظر میں کہاں تک صحیح ہوتے ہیں، اس کے لیے مزید تحقیق در کار ہے۔

سابقہ دوروں میں بچہ کشی کی مختلف قسموں کو کئی سماج کے لوگ قبولیت کے درجے تک تسلیم کر چکے ہیں۔ بھارت جیسے ملک میں مادہ بچہ کشی زیادہ عام رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ رہی ہے کہ جنس کا انتخاب کر کے بچہ کشی کو انجام تک پہنچایا جاتا تھا۔[3] اسی قبیل کی ایک مثال میں چین میں 0–19 کے نر و مادہ کی جنسی خلا کا تخمینہ 2010ء میں اقوام متحدہ کے آبادی چندے کے مطابق 25 ملین ہو چکا تھا۔[4]

انگریز قانون کے مطابق بچہ کشی ایک امتیازی جرم کے طور تسلیم کیا گیا ہے جس سے متعلق الگ بچہ کشی قانون موجود ہے۔ اس قانون کی رو سے اس جرم کا اطلاق 12 مہینوں سے کم عمر بچوں کا اپنی خود کی ماؤں کی جانب سے قتل کیا جانا ہے۔ اس قانون سازی کا مقصد قتل کے الزامات کو جزوی دفاع فراہم کرنا ہے۔[5]

بچوں کی قربانی

ترمیم

تاریخی اعتبار کئی وجوہ کی بنا پر بچوں کا قتل کیا گیا ہے۔ ان میں مذہبی عقیدہ، برکت کا حصول، مذہبی رسوم کی تکمیل، کسی نو خیز ترکیب میں کامیابی کا امکان روشن کرنا، سلطنت کو تقویت پہنچانا، دشمن حکم ران یا سازشی اور غداروں وغیرہ کی اولاد کا صفایا شامل ہے۔ زیر نظر چند مثالیں ہیں جہاں کا قتل قربانی کی شکل میں کیا گیا تھا۔

  • بھارت کی ایک غیر سرکاری تنظیم انڈین ریشنیلیسٹ ایسوسی ایشن کے مطابق بھارت میں بسے ہزاروں بچہ کشی کی مذموم رسم کو مختلف کونوں میں وقتًا فوقتًا انجام دیتے رہتے ہیں۔[6]
  • 2011ء میں پیرو میں ماہرین آثار قدیمہ نے ہوانچاکوئیتو لاس للاماس (Huanchaquito-Las Llamas) کے مقام پر ملک کے قرون وسطٰی کی سب سے بڑی قربان گاہ کو ڈھونڈ کر نکالا۔ یہاں سے 140 بچوں اور 200 بالغ للاما جانوروں کو 1400ء اور 1450ء بعد مسیح کے بیچ قربان کیا گیا تھا، جیسا کہ نیشنل جیوگرافک کی اطلاع سے پتہ چلتا ہے۔[7] اس طرح سے یہ ثابت ہو گیا کہ اس ملک میں قرون وسطٰی بچہ کشی کا رواج رہا ہے۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. Dr. Neil S. Kaye M.D - Families, Murder, and Insanity: A Psychiatric Review of Paternal Neonaticide
  2. MARLENE L. DALLEY, Ph.D. The Killing of Canadian Children by Parent(s) or Guardian(s): Characteristics and Trends 1990-1993, January 1997 & 2000
  3. دہلی لاڈلی اسکیم 2008ء آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ delhi.gov.in (Error: unknown archive URL) دہلی کی حکومت، بھارت۔
  4. Christophe Z Guilmoto, Sex imbalances at birth Trends, consequences and policy implications United Nations Population Fund, Hanoi (اکتوبر 2011ء)
  5. Craig M (فروری 2004)۔ "Perinatal risk factors for neonaticide and infant homicide: can we identify those at risk?"۔ J R Soc Med۔ ج 97: 57–61۔ DOI:10.1258/jrsm.97.2.57۔ PMC:1079289۔ PMID:14749398
  6. Changoiwala، Puja (14 اپریل 2018)۔ "India's killer 'godmen' and their sacrificial children"۔ http://www.scmp.com/۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-04-30 {{حوالہ ویب}}: |website= میں بیرونی روابط (معاونت)
  7. DAILY MAIL (29 اپریل 2018)۔ "Archaeologists unearth grisly evidence of largest mass child sacrifice event"۔ https://www.the-star.co.ke/۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-04-30 {{حوالہ ویب}}: |website= میں بیرونی روابط (معاونت)