بچوں کی قربانی بچوں کی رسمی قربانی کا نام ہے۔ اس کا مقصد کسی معبود کی رضامندی یا کسی مافوق البشر جان دار کی خوش نودی حاصل کرنا ہے کہ تاکہ کوئی مطلوبہ نتیجہ حاصل ہو سکے۔ یہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے انسانوں کی قربانی ہے۔ اس رسم کو پوری تاریخ میں قابل لحاظ حد تک تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا اور یہ بہ طور ان اصحاب کے لیے ایک ہتھیار کا کام کرتا ہے جو مذہب کی تنقید سے جڑے ہوئے ہیں۔ بچوں کی قربانی اُس خیال کی انتہائی توسیع سمجھی گئی ہے اور اس کا اہم عنصر جو قربانی ہے، اس کا انجام دینے والا اپنے آپ میں عقائد کی رو سے خدا ترس سمجھا جاتا ہے۔[1]

بچوں کی قربانی کے پس پردہ تصورات

ترمیم

بچوں کی قربانی چوں کہ عالمی سطح پر انجام پائی ہے، اس لیے اس کے پس پردہ تفصیلات کے حساب سے مختلف رہے ہیں۔ اہم عناصر عقائد اور مذہبی فریضے کی انجام دہی رہے ہیں۔ بھارت جیسے ملک میں جہاں آج بھی کم ہی سہی مگر قانونی روک ٹوک کے باوجود بچوں کی قربانی رائج ہے، اس کے پس پردہ چند تصورات اس طرح رہے ہیں:

  • کالی جیسی کئی ہندو دیویوں کے آگے بلی چڑھانے کی رسوم صدیوں سے چلی آ رہی ہیں۔ اس میں انسان، نو مولود بچے، غیر شادی شدہ لڑکیاں، بکرے اور بھینس وغیرہ سبھی شامل ہیں۔ اس بلی یا قربانی کو تبرک اور خیر و برکت کا سبب سمجھا جاتا ہے۔ کسی کام کے حصول کے لیے اسے ضروری، خطاؤں کا کفارہ اور مستقبل کی فتح اور کامیابی کے لیے ماحول کو سازگار بنانے میں اس قربانی کو معاون سمجھا جاتا ہے۔
  • دنیا کے ہر حصے میں چوپایوں اور یہاں تک کہ انسان تک کی بلی دینے کا رواج کبھی نہ کبھی ضرور رہا ہے۔ دنیا کا کوئی بھی حصہ ایسا نہیں ہے، جہاں بلی کی رسم نہیں تھی یا اسے کسی نہ کسی طرح انجام نہیں دیا گیا ہو۔ اس کے اسباب پر اگر غور کیا جائے تو ایک سوچ یہ نکل کر آتی ہے کہ ایک زندگی کو مارنے کا مقصد یہ نہیں کہ اس سے کوئی بھگوان خوش ہوگا۔ اس کا بھگوان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس کا مقصد ہے جسم کو ختم کرکے، زندگی کو چلانے والی توانائی کو باہر نکالنا اور اس توانائی کا ایک خاص مقصد کے لیے استعمال کرنا۔ یہ طریقہ اگر چیکہ بے رحمانہ اور غیر مہذبانہ تھا، مگر پھر بھی توانائی کی روانی اور خدا سے اس کے دوسرے سمت روانہ کرنے کی ایک طرح کی التجا تھی۔
  • انسانی اور بچوں کی قربانی کو کئی بار غیر جان دار پوجا پاٹ سے جڑی اشیا سے مشابہت کی جاتی ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ لوگ جب ناریل توڑتے ہیں، وہ بھی ایک بلی ہے۔ کیونکہ مندر میں ناریل توڈنا یا ایضًا نیبو کاٹنے کا مقصد بس نئی توانائی کو آزاد کرنا اور اس کا فائدہ اٹھانا ہے۔ کسی بکرے یا مرغے یا کسی بھی چیز کو کاٹنے کا ادیشیہ بھی یہی ہے۔ غالبًا اسی وجہ سے بلی کے لیے ہمیشہ اس طرح کی زندگی کو چنا جاتا ہے، جو تازہ اور پوری طرح جان دار ہو۔ اسی عقیدے کے تحت جب بلی دی جاتی تھی، تو ہمیشہ کم عمر، کم سن اور جوان لوگوں کو چنا جاتا تھا۔ یہی بات چوپایوں کی بلی پر عائد ہوتی ہے، کوئی بھی بوڑھے بکرے کی بلی نہیں دیتا۔ جوان اور فعال بکرے، بھینس وغیرہ کو چنا جاتا ہے۔
  • خون سے پاکیزگی اور بلند مقاصد کے حصول کو عورت کے حیض سے تشبیہ دی گئی ہے۔ بے شک حیض ناپاکی ہے، دوران حیض عورت کو الگ کیا جاتا ہے۔ مگر بعد کے دور میں یہی عورت سے مقاربت حمل کو دعوت دیتی ہے۔ اس طرح بلی کا خون بھی کچھ لوگوں کی نظروں میں نئی شروعات، برکت اور سابقہ نحوست سے چھٹکارے کا باعث ہوتا ہے۔
  • بچوں کی بلی کے حامیوں کا یہ بھی دعوٰی ہے ہر انسان کو زندگی میں کچھ نہ کچھ قربانی دینا ہی پڑتا ہے۔ یہ بھلے ہی بچے کی پیدائش کے وقت ماں کے جسم سے خون کا بہنا ہو یا اس کے لیے ماں کا اپنی نیند چین کو قربان کرنا ہو۔ ایک باپ بھی اسی طرح اولاد کی خوشی کے لیے کئی قربانیاں دیتا ہے۔ کچھ لوگوں اس جذبہ ایثار کو بلی اور قربانی کے جواز کے لیے استعمال کرتے ہیں۔[2]

بچوں کی قربانی کی تاریخ

ترمیم

بچوں کی قربانی کی تاریخ ہزاروں سالوں سے چلتی آئی ہے۔ یہ کئی ملکوں کو تہذیبوں میں رائج رہی ہے۔ چوں کہ بچے عمومًا اپنا دفاع خود نہیں کرتے، اس لیے بالغوں کے مقابلے یہ عمل ان بچوں کے لیے سہل ہے۔ تاہم اس رسم و رواج میں ماں باپ کی کئی بار مرضی شامل رہی بھی اور کبھی کبھی یہ عمل جبری طور پر بھی انجام پایا ہے جس میں ماں باپ کی مرضی کا کچھ عمل دخل نہیں تھا۔ حالاں کہ بیشتر ممالک میں یہ رسم اب مفقود ہے، تاہم بھارت جیسے کچھ ممالک میں یہ رسم آج بھی گاؤں دیہاتوں اور قبائل میں پائی جاتی ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی بچوں کی قربان گاہ کی دریافت 2011ء میں پیرو میں ہوئی۔ اس مقام پر شاید 140 بچوں کو قربان کیا گیا تھا۔[3] ماہرین کے مطابق قربان کیے جانے والے ان بچوں کی عمر پانچ سے 14 برس کے درمیان تھی۔ اسی طرح کے شواہد قدیم میکسیکو میں ملے۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. "LacusCurtius • Greek and Roman Sacrifices (Smith's Dictionary, 1875)"۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اگست 2015 
  2. "काली मंदिर : क्याें चढ़ाई जाती है बलि?"۔ 13 مئی 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 اپریل 2018 
  3. 140 سے زائد بچوں کی قربانی