اگرچہ بھارت میں بہائیت قومی آبادی کے تناسب میں بہت چھوٹا مذہب ہے، بھارت میں اس کی ایک لمبی تاریخ ہے، بھارت میں ایک بہائی عبادت گاہ معبد کنول اور کئی بہائی مدارس ہیں۔ 2016ء کی عالمی مذہبی شماریات کے مطابق بھارت میں 2015ء میں 2 ملین بہائی تھے،[1] 2010ء کے شروع میں ایسوسی ایشن وف ریلیجن ڈیٹا آرکائیوز نے بھارت میں بہائیوں کی تعداد 1،898،000 بتائی؛[2] البتہ، 2011ء کی بھارتی مردم شماری میں صرف 4،572 افراد نے اپنا مذہب بہائی درج کروایا۔[3][4]

معبد کنول، نئی دہلی۔

تاریخ ترمیم

تاسیس ترمیم

بابی عہد ترمیم

بھارت میں بہائیت کی جڑیں، بابیت کے پہلے دن یعنی 1844ء سے ملی ہوئی ہیں۔[5] ابتدا میں ہی 4 بابی افراد کا تعلق ہندوستان (بھارت) سے تھا۔[6] ان میں سے ایک سعد ہندی (متحدہ ہندوستان، ملتان) کے تھے جو اولین 18 بابیوں میں سے ایک ہیں، جن کو بابی اصطلاح میں حروف الحي کہا جاتا ہے۔ دوسرا قائراللہ کے نام سے جانا جاتا ہے،[7] دیگر دو ابدائی بابیوں میں سے ایک ساین ہندی اور دوسرا سید بسر ہندی تھا۔ اس کے علاوہ، چار مزید ہندوستانیوں کے نام قلعہ طبرسی کی لڑائی میں شریک ہونے والے 318 افراد کی فہرست میں مندرج ہے۔[8] ان ابتدائی بابیوں کے بارے کچھ علم نہیں جو بابیت اختیار کرنے کے بعد وطن واپس آئے۔

ابتدائی بہائی عہد ترمیم

بہاء اللہ نے اپنی زندگی کے درمیان میں، بانی مذہب ہونے کے ناطے، اپنے پیروکاروں کے ہندوستان جانے کی حوصلہ افزائی کی۔[9] جس کے نتیجے میں کئی بابی ہندوستان آ کر بس گئے، بشمول حاجی سید مرزا اور سید محمد جنھوں نے بہاء اللہ کے ہاتھ پر 1850ء کی دہائی میں بغداد میں ملاقات کے بعد بابی مذہب قبول کر لیا تھا۔ حاجی سید محمود نے ممبئی میں تجارت کی۔ [8] یہ لوگ عام بطور تاجر اور آڑھتی نہایت کامیاب تھے، یہ مقامی لوگ تھے جنھوں نے مذہب تبدیل کر لیا تھا۔ انھوں نے ایک بہائی مبلغ یا استاد کے لیے درخواست کی جس کے جواب میں 1875ء میں جمال آفندی کو بھیجا گیا۔[8] پھر بھی ان ابتدائی سالوں میں باب کے خاندان کے ایک فرد مرزا ابراہیم نے ممبئی میں پہلا بہائی مطبع و اشاعتی ادارہ قائم کیا اور 182-83 میں ممبئی سے بہائی کتابیں شائع ہونا شروع ہوئیں۔[8] کتاب ایقان اور رسالیہ مدنیہ دونوں کتابیں 1882ء میں شائع کی گئیں۔[10]

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. Brian Grim، Todd Johnson، Vegard Skirbekk، Gina Zurlo، مدیران (2016)۔ Yearbook of International Religious Demography 2016۔ Yearbook of International Religious Demography۔ 3۔ Brill۔ صفحہ: 17–25۔ ISBN 9789004322141۔ doi:10.1163/9789004322141۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 مئی 2018 
  2. "Most Baha'i Nations (2010)"۔ QuickLists > Compare Nations > Religions >۔ The Association of Religion Data Archives۔ 2010۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ اگست 25, 2015 
  3. "C-01 Appendix : Details of Religious Community Shown Under 'Other Religions And Persuasions' In Main Table C-1- 2011 (India & States/UTs)"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ ستمبر 17, 2016 
  4. "Population Enumeration Data (Final Population)"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ ستمبر 17, 2016 
  5. The Bahá'í Faith – Brief History آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ bahaindia.org (Error: unknown archive URL) National Spiritual Assembly of the Bahá'ís of India.
  6. Historical Accounts of two Indian Babis: Sa'in Hindi and Sayyid Basir Hindi By Sepehr Manuchehri, Research Notes in Shaykhi, Babi and Baha'i Studies, Vol. 5, no. 2 (اپریل, 2001)
  7. The Practice of Taqiyyah (Dissimulation) in the Babi and Bahai Religions by Sepehr Manuchehri, Research Notes in Shaykhi, Babi and Baha'i Studies, Vol. 3, no. 3 (ستمبر 1999)
  8. ^ ا ب پ ت Moojan Momen (2000) [1999]۔ "Jamál Effendi and the early spread of the Bahá'í Faith in Asia"۔ Baha'i Studies Review۔ 9۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 مئی 2018 
  9. Bahá'í History by Moojan Momen and Peter Smith
  10. The Baha'i Faith in India: A Developmental Stage Approach by William Garlington, Occasional Papers in Shaykhi, Babi and Baha'i Studies, No. 2 (جون، 1997)

مزید پڑھیے ترمیم

بیرونی روابط ترمیم