بھاس سنسکرت کا ممتاز ڈراما نویس ہے۔ اس کے عہد کے تعین میں اختلاف ہے۔[1][2][3] بہرحال یہ کالی داس سے پہلے گذرا ہے۔ کالی داس نے اپنی کتاب کوی گگن متر کے پیش لفظ میں کئی ڈراما نویسوں کا ذکر کیا ہے۔ ان میں پہلا نام بھاس کا ہے۔[4] رام چندر کی تصنیف ”ناٹیہ ورتن“ میں بھی بھاس کے ایک ڈراما کا ذکر ہے۔ بھاس کا نام سنسکرت ڈراما نگاروں میں بہت اونچا ہے۔ وہ کئی ڈراموں کا مصنف ہے۔ ایک عرصہ تک بھاس کا نام صرف اس دور کے تذکروں میں ہی ملتا تھا۔ اس کا کوئی ڈراما دستیاب نہ تھا۔ بیسویں صدی عیسویں میں ٹی۔ گنپتی شاستری نے اس کے چند قلمی نسخوں کا پتہ لگایا جو تعداد میں تیرہ ہیں۔ گنپتی نے تحقیق کی روشنی میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس کا مصنف بھاس ہے۔[5]

بھاس سے منسوب تیرہ مخطوطات کی اشاعت کے بعد بہت سے محققین نے اس کی مخالفت کی اور اپنے بیان کی تائید میں بہت سی خارجی و داخلی شہادتیں پیش کی ہیں۔ انھوں نے صرف ایک ڈراما "سوَپن واساوادتم" کے علاوہ دوسری بارہ تخلیقات کو بھاس کی تصنیف ماننے سے انکار کیا ہے۔[6] جو ڈرامے بھاس کے بتائے جاتے ہیں ان میں قابل ذکر حسب ذیل ہیں:[7]

  • بان چرت
  • دوت واکیہ
  • مدھیما ویوک
  • کرن بھارا
  • اورو بھنگا
  • پرتگیہ
  • پرتمانالگا
  • باپ چرت

ان تمام ڈراموں کے ماخذ مہابھارت راماین اور بھگود گیتا ہیں۔ اس کے دو اہم ڈرامے "پرتیما" اور "ابھی شیکا" ہیں جن کی بنیاد راماین کی کتھاؤں پر رکھی گئی ہے۔ سات چھوٹے ڈرامے بھی ہیں جن کا ماخذ مہا بھارت ہے۔ ان کے علاوہ چار اور ناٹک بھاس سے منسوب کیے جاتے ہیں ان میں سے دو کی بنیاد ”اداین“ کے قصوں پر ہے اور دو اس کے اپنے تخیل کی پیداوار ہیں۔ ان ڈراموں کی زبان معیاری اور اسلوب پسندیدہ ہے۔ پُرمغز مکالموں الفاظ کی نفاست، نفسیاتی بصیرت اور حقیقی سیرت نگاری کے لحاظ سے بھاس جدید ڈرامے کے قریب نظر آتا ہے۔ وہ ڈرامائی طنز نگاری کا بڑا ماہر ہے۔

حوالہ جات ترمیم

  1. Arthur Berriedale Keith (1992)، The Sanskrit Drama in Its Origin, Development, Theory & Practice، Motilal Banarsidass، صفحہ: 95–، ISBN 978-81-208-0977-2 
  2. Alfred Louis Kroeber (1944)، Configurations of Culture Growth، University of California Press، صفحہ: 419–، GGKEY:Q5N845X8FFF 
  3. Robert E. Goodwin (1998)، The Playworld of Sanskrit Drama، Motilal Banarsidass، صفحہ: xviii، ISBN 978-81-208-1589-6 
  4. C. R. Devadhar (1966) "Malavikagnimitram of Kalidasa", p.3
  5. Arvind Sharma (2007)۔ Essays on the Mahābhārata۔ ISBN 9788120827387 
  6. Manohar Laxman Varadpande (1987)۔ History of Indian Theatre: Classical theatre۔ ISBN 9788170174301 
  7. Amaresh Datta (1987)۔ Encyclopaedia of Indian Literature: A-Devo۔ ISBN 9788126018031