بہرام دوم ساسانی سلطنت کا پانچواں شہنشاہ تھا۔ اس کا عہد حکومت اٹھارہ سالوں پر مشتمل تھا۔

بہرام دوم
 

معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش 3ویں صدی  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات سنہ 293ء (42–43 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن نقش رستم   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت ساسانی سلطنت   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد بہرام سوم   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد بہرام اول   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
خاندان خاندان ساسان   ویکی ڈیٹا پر (P53) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مناصب
ساسانی سلطنت کا بادشاہ   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
274  – 293 
بہرام اول  
بہرام سوم  
عملی زندگی
پیشہ شاہی حکمران   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

تخت نشینی ترمیم

شہنشاہ بہرام اول نے 275ء میں وفات پائی۔ اس نے اپنے بیٹے بہرام کو ولی عہد منتخب کیا تھا۔ 275ء میں بہرام اپنے والد کے جانشین کے طور تخت نشین ہوا اور تاریخ میں بہرام دوم کے نام سے شہرت پائی۔

بغاوت ترمیم

بہرام دوم کے عہد حکومت کے ابتدا میں سکائی قبائل نے سیتسان میں سر اٹھایا تھا۔ یہ قبائل دوسری صدی قبل مسیح میں سیستان اور افغانستان میں آباد ہوئے تھے۔ بہرام نے ان کے خلاف مردانہ وار فوج کشی کی اور ان کو دوبارہ اپنی اطاعت قبول کرنے پر مجبور کر دیا۔

روم سے تصادم ترمیم

سکائی قبائل کی مہم سے فراغت پانے کے بعد شہنشاہ بہرام نے ایشیائے کوچک کے ان علاقوں کو فتح کرنا چاہا جو ایرانی مقبوضات رہ چکے تھے لیکن قیصرروم کاروس (Carus) اس سے زیادہ ہوشیار اور دلیر تھا۔ اس نے اوریلین کے منصوبے کی تکمیل کرنا چاہی۔ چنانچہ وہ لشکر لے کر ایران کی حدود میں داخل ہوا اور ایک پہاڑی پر ڈیرے جما لیے۔ وادیوں میں لہلہاتے ہوئے باغ اور کھیت نظر آئے تو ان کی طرف ہاتھ بلند کرتے ہوئے کہا ہمیں فتح حاصل ہوئی تو اس علاقے کی زرخیز زمین ہماری ہو گی۔ ایرانی سفیر جب قیصر روم کے ہاں پہنچے تو ان کا خیال تھا کر اس کا دربار شاہانہ ہوگا اور بادشاہ اپنے امرا کے ساتھ بڑے جاہ و جلال سے بیٹھا ہوگا۔ لیکن ان کے تعجب کی کوئی انتہا نہ رہی جب انھیں ایک بوڑھے کے روبرو لایا گیا جو ایک چٹان پر بیٹھا ہوا خشک میوں سے ناشتا کررہا تھا۔ صرف اس کے جبے سے پتا چلتا تھا کہ وہ قیصر روم ہے۔ اس نے تکلف کو برطرف کیا اور ایک لمحہ ضائع کیے بغیر اصل موضوع پر آ گیا۔ دوران گفتگو قیصر روم نے اپنے سر سے ٹوپی اتاری جو اس نے بے بالوں کے سر کو ڈھانپنے کے لیے اوڑھ رکھی تھی۔ اس کے بعد اس نے حلف اٹھا کر کہا اگر شاہ ایران نے سر اطاعت خم نہ کیا تو اس کے ملک کو سبزے سے اس طرح محروم کر دیا جائے گا جس طرح میرا سر بالوں سے محروم ہے۔ اس تنبیہ کے بعد قیصر روم کاروس نے جنگ کا آغاز کیا اور بین النہرین کا تمام علاقہ فتح کر لیا۔ اس کے بعد قیصر روم نے طیسفون کا محاصرہ کیا اور اسے بھی مسخر کر لیا- قیصر روم اپنی فاتحانہ یلغار اپنے منصوبے کے مطابق جاری رکھنا چاہتا تھا کہ ایک رات اچانک بجلی زور سے کڑک کر رومی فوج کے کیمپ پر گری جس کے بعد قیصر روم کاروس کو مردہ پایا گیا۔ مورخین یہ نہیں بتا سکتے کہ قیصر روم کی ہلاکت بجلی گرنے سے ہوئی یا کسی اور وجہ سے۔ بہرحال رومی لشکر نے اس کی ہلاکت کو قہر خداوندی سمجھا اور وہاں سے پسپا ہو جانا ہی مناسب سمجھا۔

آرمینیا پر تیرداد کا قبضہ ترمیم

آرمینیا عرصہ دراز سے ایران اور روم کے مابین وجہ نزاع بنا ہوا تھا۔ بہرام دوم کے عہد حکومت تک یہ پہاڑی ملک ایرانیوں کے تسلط میں چلا آرہا تھا۔ اہل آرمینیا حکومت ایران کی برتری کو دل سے تسلیم نہیں کرتے تھے کیوںکہ ساسانیوں نے مذہبی اختلاف کی بنا پر اہل آرمینیا کے جذبات سخت مجروح کیے تھے۔ ساسانی قدیم اشکانی مذہب کو ختم کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ انھوں نے اہل آرمینیا کے سورج اور چاند کے مقدس مجسمے جو چار سو سال پہلے والے ارشک نے بنائے تھے تباہ کر دیے تھے۔ اس وجہ سے اہل آرمینیا والے ساسانی حکومت سے بیزار تھے۔ چنانچہ انھوں نے قیصر روم کی طرف رجوع کرنا چاہا۔ رومی سینٹ نے 286ء میں ڈیوکلیشن کو قیصر منتخب کیا۔ اس نے اہل آرمینیا کی بیزاری اور بے اطمیانی سے فائدہ اٹھانا چاہا اور خسرو (جس کو اردشیر نے قتل کروایا تھا) کے بیٹے تیرداد کو آرمینیا کا تخت و تاج حاصل کرنے پر آمادہ کیا۔ اس کے علاوہ اسے ہر طرح کی مدد دینے کا وعدہ بھی کیا۔ تیرداد قوی ہیکل اور بہادر شخص تھا- وہ رومی فوج میں متعدد بار اپنی شجاعت کا مظاہرہ کر چکا تھا۔ اس کے علاوہ وہ قدیم اشکانی خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ جس کی وجہ سے اس نے بچے کھچے اشکانیوں کی فوج تیار کر لی تھی۔ ڈیوکلیشن نے بھی اسے کمک بہم پہپچائی۔ تیرداد پورے پورے ساز و سامان کے ساتھ آرمینیا کی حدود میں داخل ہوا۔ اہل آرمینیا کو جب معلوم ہوا کہ تیرداد رومیوں کی مدد سے آرمینیا کا تخت و تاج حاصل کرنے کے لیے آیا ہے تو انھوں نے اس کا پرجوش استقبال کیا اور جلد ہی ساسانی فوج کے دستوں کو جو وہاں متعین تھے نکال باہر کیا- تیرداد جنگ کے بغیر ہی آرمینیا کے تخت و تاج کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس نے خود کو ایرانیوں کے اثر سے نہ صرف آزاد رکھا بلکہ ایرانیوں کی سرحدوں پر وقتاً فوقتاً حملے بھی کرتا رہا۔

معاہدہ صلح ترمیم

معاہدہ امن ایران و روم کے درمیان 283ء میں طے پایا۔ اس کی رو سے آرمینیا اور بین النہرین پر روم کا تسلط تسلیم کیا گیا۔

وجوہات ترمیم

یہ معاہدہ ایسے وقت میں کیا گیا جب رومی حکومت میں کمزوری کے اثرات ظاہر ہو رہے تھے لیکن اس کی وجہ سلطنت کے مشرقی حصے میں بغاوت بنی۔ بہرام دوم کے عہد حکومت تک خراسان کا گورنر ہمیشہ کوئی شہزادہ ہوتا تھا۔ جیسے شہنشاہ شاہپور اول کے بھائی کروز نے اپنے سکوں پر اپنا لقب کوشان شاه بزرگ لکھا ہے۔ 252ء کے بعد جب شاہپور اول نے اپنے بیٹے ہرمز کو (شہنشاہ ہرمز اول) خراسان کا گورنر مقرر کیا تو اس کو اس سے بھی زیاد شان دار خطاب شہنشاہ کوشان بزرگ دیا۔ اسی طرح بہرام اول اور بہرام دوم بھی بادشاہ ہونے سے پہلے اس اعلی عہدے پر فراز رہے۔ بہرام دوم کے زمانے میں اس کا بھائی ہرمز خراسان کا گورنر تھا۔ روم کے ساتھ جنگ کے زمانے میں اسی ہرمز نے بغاوت کی تھی۔ اس نے ساکا، کوشان اور گیل اقوام کی مدد سے مشرق میں اپنے لیے ایک آزاد سلطنت قائم کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ بہرام دوم نے عجلت کے ساتھ جنگ کو ختم کیا تا کہ تمام قوت کو اپنے باغی بھائی کے خلاف کام میں لا سکے۔ [1] معاہدہ صلح مکمل ہونے کے بعد بہرام دوم نے اپنی تمام تر طاقت اکھٹی کرنے بعد اپنے باغی بھائی پر حملہ کر دیا۔ اس جنگ کے نتیجے میں ہرمز کو شکست ہوئی اور ساکستان فتح ہو گیا۔ شہنشاہ بہرام دوم نے ہرمز کی جگہ اپنے بیٹے بہرام (شہنشاہ بہرام سوم) کو سگانشاہ کا گورنر مقرر کیا۔ [2]

یادگار ترمیم

شہنشاہ بہرام دوم کی یادگار چند برجستہ تصویریں ہیں جو نقش رستم اور شہر شاپور کی چٹانوں پر نظر آتی ہیں۔

  1. نقش رستم میں اردشیر بابکاں اول کی تاج پوشی کی تصویر کے ساتھ بہرام دوم نے ایک تصویر بنوائی جس میں وہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ کھڑا ہے۔ بادشاه وسط میں ہے اور اس کے سر پر تاج ہے جس میں پر لگے ہیں۔ اس کے دونوں ہاتھ ایک لمبی تلوار کے دستے پر ہیں۔
  2. شہرشاپور کی چٹان پر بہرام دوم کی ایک تصویر ہے جو اقوام ساکا پر فتح پانے کی یادگار میں کندہ کی گئی تھی۔ بہرام گھوڑے پر سوار ہے اور مفتوح اقوام کے سردار اس کے سامنے پیش کیے جا رہے ہیں۔ بادشاہ کے سامنے ایک ایرانی سپہ سالار ہے جس کے دونوں ہاتھ تلوار پر ہیں۔ تصویر میں ایک گھوڑا اور دو اونٹوں کے سر بھی نظر آ رہے ہیں۔ [3]

وفات ترمیم

شہنشاہ بہرام دوم نے 293ء میں وفات پائی۔ اس کا دور حکومت 275ء سے 293ء تک اٹھارہ سال پر مشتمل تھا۔ یہ انتہائی خشونت اور بے رحم تھا۔ وہ معمولی سی معمولی بات پر گردن اڑانے کا حکم دے دیتا تھا۔ اس کا لقب بہرام متکبر تھا۔ آخرکار ایک موبد کے سمجھانے سے اس نے اپنی کچھ اصلاح کر لی تھی۔

اولاد ترمیم

شہنشاہ بہرام دوم کے ایک بیٹے کا ذکر تاریخ میں ملتا ہے۔

  1. بہرام سوم [4]

حوالہ جات ترمیم

  1. تاریخ ایران جلد اول (قوم ماد تا آل ساسان) مولف مقبول بیگ بدخشانی صفحہ 330 تا 333
  2. تاریخ ایران قدیم (زمانہ قدیم تا زوال بغداد) مولف شیخ محمد حیات صفحہ 40
  3. تاریخ ایران جلد اول (قوم ماد تا آل ساسان) مولف مقبول بیگ بدخشانی صفحہ 333
  4. تاریخ ایران قدیم (زمانہ قدیم تا زوال بغداد) مولف شیخ محمد حیات صفحہ 40