بین الاقوامی خلائی مرکز
بین الاقوامی خلائی مرکز یا عالمی خلائی اسٹیشن ایک خلائی مرکز یا رہائش کے قابل مصنوعی سیارچہ ہے۔
Station statistics | |
---|---|
COSPAR ID | سانچہ:Cospar |
SATCAT № | 25544 |
Call sign | Alpha, Station |
Crew | Fully crewed: Currently aboard: 3 (Expedition 50) |
Launch | 20 November 1998ء |
Launch pad | |
Mass | ≈ 419,455 کلوگرام (924,740 پونڈ)[1] |
Length | 72.8 میٹر (239 فٹ) |
Width | 108.5 میٹر (356 فٹ) |
Height | ≈ 20 میٹر (66 فٹ) nadir–zenith, arrays forward–aft (27 November 2009)[تجدید درکار] |
Pressurised volume | 931.57 میٹر3 (32,898 cu ft)[2] (28 May 2016) |
Atmospheric pressure | 101.3 کلوPa (29.9 inHg؛ 1.0 atm) |
Perigee | 400.2 کلومیٹر (248.7 میل) AMSL[3] |
Apogee | 409.5 کلومیٹر (254.5 میل) AMSL[3] |
Orbital inclination | 51.64 degrees[3] |
Orbital speed | 7.67 کلو میٹر/سیکنڈ (27,600 کلومیٹر/گھنٹہ؛ 17,200 میل فی گھنٹہ)[3] |
Orbital period | 92.65 minutes[3] |
Orbits per day | 15.54 rev/day |
Orbit epoch | 30 September 2016, 18:10:52 UTC[3] |
Days in orbit | 25 سال، 10 ماہ، 18 دن (8 اکتوبر) |
Days occupied | 23 سال، 11 ماہ، 6 دن (8 اکتوبر) |
Number of orbits | 101,081 بمطابق جولائی 2016[update][4] |
Orbital decay | 2 km/month |
Statistics as of 9 March 2011 (unless noted otherwise) References: [1][3][5][6][7][8] | |
Configuration | |
بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (ISS) زمین کے نچلے مدار میں سب سے بڑا ماڈیولر خلائی اسٹیشن ہے۔ اس منصوبے میں پانچ خلائی ایجنسیاں شامل ہیں: ریاستہائے متحدہ کی (ناسا)، روس کی (Roscosmos)، جاپان کی (JAXA)، یورپ کی (ESA) اور کینیڈا کی (CSA)۔ خلائی اسٹیشن کی ملکیت اور استعمال بین الحکومتی معاہدوں اور معاہدوں کے ذریعے قائم کیا گیا ہے۔ یہ اسٹیشن ایک مائیکرو گریوٹی اور خلائی ماحولیات کی تحقیقی لیبارٹری کے طور پر کام کرتا ہے جس میں فلکیات، موسمیات، طبیعیات اور دیگر شعبوں میں سائنسی تحقیق کی جاتی ہے۔
تیاری کا مرحلہ
ترمیمآئی ایس ایس پروگرام اسپیس اسٹیشن فریڈم سے تیار ہوا، 1984 کی ایک امریکی تجویز جس میں ایک مستقل طور پر زمین کے گرد چکر لگانے والے اسٹیشن کی تعمیر کی گئی تھی، یہ نظام شمسی کی سب سے بڑی مصنوعی شے ہے اور زمین کے نچلے مدار میں سب سے بڑا مصنوعی سیارہ ہے، جو زمین کی سطح سے کھلی آنکھ سے باقاعدگی سے نظر آتا ہے۔ ISS تقریباً 93 منٹ میں زمین کے گرد چکر لگاتا ہے، جو روزانہ 15.5 بار مدار مکمل کرتا ہے۔
اسٹیشن کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے: روسی آربیٹل سیگمنٹ (ROS) روس کے ذریعے چلایا جاتا ہے، جب کہ ریاستہائے متحدہ کا آربیٹل سیگمنٹ (USOS) ریاستہائے متحدہ کے ساتھ ساتھ دیگر ریاستوں کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔ روسی طبقہ میں چھ ماڈیولز شامل ہیں۔ امریکی طبقہ میں دس ماڈیولز شامل ہیں، جن کی معاون خدمات NASA کے لیے 76.6%، JAXA کے لیے 12.8%، ESA کے لیے 8.3% اور CSA کے لیے 2.3% تقسیم کی جاتی ہیں۔ دباؤ والے حصوں کے بڑے محور کے ساتھ لمبائی 218 فٹ (66 میٹر) ہے اور ان حصوں کا کل رہنے کے قابل حجم 13,696 cu ft (387.8 m3) ہے۔
روس کی خلائی ایجنسی (Roscosmos) نے پہلے 2024 تک اپنے جاری آپریشنز کی توثیق کی تھی، جس نے OPSEK کے نام سے ایک نئے روسی خلائی اسٹیشن کی تعمیر کے لیے اس حصے کے عناصر کو استعمال کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ ، جو خلائی اسٹیشن کے ان کی طرف سے فنڈنگ میں تبدیلیوں کا سبب بن سکتا ہے۔
اسٹیشن کی تیاری کی لاگت
ترمیمآئی ایس ایس کو اب تک کی سب سے مہنگی واحد شے کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ 2010 تک، اس کی کل لاگت US$150 بلین تھی۔ اس میں ناسا کا 1985 سے 2015 تک اسٹیشن کے لیے $58.7 بلین ($ 2021 میں $89.73 بلین) کا بجٹ، روس کا $12 بلین، یورپ کا $5 بلین، جاپان کا $5 بلین، کینیڈا کا $2 بلین اور اسٹیشن کی تعمیر کے لیے 36 شٹل پروازوں کی لاگت شامل ہے۔ ہر ایک کا تخمینہ $1.4 بلین یا کل $50.4 بلین ہے۔ 2000 سے 2015 تک دو سے چھ افراد پر مشتمل عملے کے 20,000 دنوں کے استعمال کا اندازہ لگاتے ہوئے، ہر دن کی لاگت $7.5 ملین ہوگی، جو اسکائی لیب کے فی شخصی دن کے حساب سے $19.6 ملین (افراط زر سے پہلے $5.5 ملین) کو ایڈجسٹ کیا گیا ہے۔
بین الاقوامی خلائی اسٹیشن اور کشش ثقل
ترمیمعالمی خلائی اسٹیشن پر کشش ثقل ہوتی ہے ۔ یہ عالمی خلائی اسٹیشن زمین سے صرف چار سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور وہاں پر زمین کی کشش بہت زبردست ہے۔ یہ مصنوعی سیارہ زمین کے گرد انتہائی تیزی سے زمين كے مماس کے متوازی حرکت کر رہا ہے۔ اس کی رفتار 7 کلومیٹر فی سیکنڈ ہے۔ اگر کشش نہ ہوتی تو اسٹیشن تیزی سے زمین سے دور نکل جاتا اور کبھی واپس نہ لوٹتا۔ زمین اس کو نیچے کھینچ رہی ہے اور باقی چیزوں کی ہی طرح یہ بھی زمین کی طرف گر رہا ہے لیکن زمین چونکہ گول ہے اور اسٹیشن کی جانبی رفتار حد سے زیادہ تیز۔ اس لیے یہ جتنا گرتا ہے اتنا ہی ایک طرف کو نکل جاتا ہے اور زمین کے مرکز کی طرف بڑھ ہی نہیں سکتا جس کے نتیجے میں یہ ایک مدار میں پھنس جاتا ہے جس میں وہ ہمیشہ گرنے کی حالت میں ہوتا ہے لیکن کبھی سطح زمین سے نہیں ٹکرا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اگر اسے روک دیا جائے تو جانبی رفتار نہ ہونے کے باعث یہ جلد ہی سطح زمین پر تباہ ہو جائے گا۔ انسان اگر اس اسٹیشن تک پہنچنا چاہے تو اسے راکٹ میں بیٹھ کر پہلے اس اسٹیشن کی رفتار حاصل کرنی پڑتی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی آدمی ایک چلتی گاڑی سے دوسری چلتی گاڑی میں سوار ہو۔ اب انسان کی رفتار بھی اسٹیشن کے برابر ہو جاتی ہے اور انسان بھی اس میں زمین کی طرف گرنا شروع کر دیتا ہے۔ اب جب دونوں ہی زمین کی طرف ایک ہی تیزی سے گر رہے ہوتے ہیں تو انسان کو اسٹیشن کی سطح کی طرف کوئی کشش محسوس نہیں ہوتی جس سے "ایسا لگتا ہے" کہ کوئی کشش نہیں ہے۔ اور اسی طرح اس میں موجود تمام چیزیں گر رہی ہوتی ہیں تو اس لیے وہ خلا میں بے ترتیبی سے اڑتی نظر آتی ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی کسی اونچی عمارت کی لفٹ میں سفر کر رہا ہو اور خدا نخواستہ لفٹ کی رسیاں ٹوٹ جائیں تو لفٹ اور اس میں موجود اشیاٰء اور لوگ زمین کی طرف گرنے لگیں گے۔ اور بے وزنی کی وہی کیفیت ہو گی جو عالمی خلائی اسٹیشن میں ہوتی ہے۔
ویکی ذخائر پر بین الاقوامی خلائی مرکز سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |
نگار خانہ
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب Mark Garcia (1 October 2015)۔ "About the Space Station: Facts and Figures"۔ NASA۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 اکتوبر 2015
- ↑ "Space to Ground: Friending the ISS: 06/03/2016"۔ YouTube.com۔ NASA۔ 3 June 2016۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 نومبر 2016
- ^ ا ب پ ت ٹ ث ج Chris Peat (30 September 2016)۔ "ISS - Orbit"۔ Heavens-above.com۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 ستمبر 2016
- ↑ Mark Garcia (16 May 2016)۔ "Station Reaches 100,000 Orbits, Deploys Cubesats"۔ NASA۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 مئی 2016
- ↑
- ↑
- ↑ "STS-132 Press Kit" (PDF)۔ NASA۔ 7 May 2010۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 جون 2010
- ↑ "STS-133 FD 04 Execute Package" (PDF)۔ NASA۔ 27 February 2011۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 فروری 2011