ارطغرل ؟؟؟؟؟ ترکش زبان میں غ نہیں ہوتا۔ ترکی میں ğ دراصل یموشک گے ہے یموشک گے سے کوئی لفظ شروع نہیں ہوتا، یہ حروف تہجی نہیں بلکہ حرف علت، حرف کشید کی طرح ہوتا ہے۔ جیسے آ میں الف کے اوپر مد لفظ کو کشید یعنی کھینتا ہے۔ اسی طرح ارطغرل میں غ نہیں بلکہ مد ہے۔ صحیح تلفظ ہے ارطؤرل، ارطرول یا ارطرل -

آپ کی بات درست ہو گی، لیکن جب کسی غیر زبان کے لفظ کا ایک غلط املا رائج ہو جائے تو اسے ہی درست مانا جائے گا، جیسے ہم تلفظ کو بگاڑ دیتے ہیں۔ اب تو خیر اس کا سرکاری ٹی وی سے اگر یہی تلفظ و املا ہو جائے گا، اوپر سے ذرائع ابلاغ اور سماجی روابط پر اسی املا کو استعمال کیا جا رہا ہے۔Obaid Raza (تبادلۂ خیالشراکتیں) 14:11، 22 اپریل 2020ء (م ع و)
السلام علیکم، آپ کی بات لفظ ğ کے متعلق سو فیصد درست ہے۔ ترکی زبان میں ایسے ہی ہوتا ہے لیکن یہ جدید ترکی زبان کا اصول ہے، اچھے بھلے نام کا یہ بگاڑ ترکی زبان کے لاطینی رسم الخط کا شاخسانہ ہے جسے مصطفٰی کمال نے جبراً ترکوں پر مسلط کیا تھا تا کہ انہیں ان کے اسلامی ماضی سے کاٹ دیا جائے۔ اس لئے اردو میں عثمانی ترکی زبان کے لفظ کو فوقیت دی جاتی ہے جس کی واضح جھلک رحمت اللہ ترکمن کی کتاب ارطغرل غازی میں دیکھی جا سکتی ہے، عثمانی ترکی میں ertoğrul کو ارطغرل ہی لکھا جاتا تھا لیکن مصطفٰی کمال کی تبدیلئ رسم الخط کے بعد یہ لفظ اس بھدی اور نامناسب شکل میں آگیا۔ لہذٰا اردو میں اس کا نام ارطغرل ہی لکھا جائے گا۔ --اقبال کا شاہین (تبادلۂ خیالشراکتیں) 05:00، 12 اپریل 2021ء (م ع و)اقبال کا شاہین (تبادلۂ خیالشراکتیں) 09:56، 12 اپریل 2021ء (م ع و)

کیا ارطغرل مسلمان تھا؟

ترمیم

تاریخ کے ایک پروفیسر صاحب نے درج ذیل نکات پہ روشنی ڈالی:

سوشل اورالیکٹرونک میڈیا پر ترکی ڈراما"ارطغرل" کا خوب چرچا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ اسلامی تاریخ کے سنہری دور کی کہانی ہے اور پاکستانیوں کو اپنی تاریخ سے روشناس کرانے کے لیے یہ ڈراما ضرور دیکھتا چاہیے۔

‏ترکی کی تاریخ پر ایک بڑا علمی کام چار ضخیم جلدوں پر مشتمل

Cambridge History of Turkey

ہے، جس کی تدوین میں ترک/عثمانی تاریخ پر اتھارٹی پروفیسر ثریا فاروقی معاون مدیر کے طور پر اور انکے علاوہ دیگر ترک مؤرخین بھی شامل تھے۔ اس کی پہلی جلد میں جو 1071ء سے1453ء کے زمانےسے متعلق ہے، ارطغرل کانام صرف ایک جگہ، صفحہ 118 پر، مذکورہے۔ مصنف کےنزدیک ارطغرل کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے اور اس کی موجودگی کا پتا اسکے بیٹے عثمان کےایک سکے سےچلتا ہے۔ مصنف کےالفاظ ہیں:

We know nothing about the life of Ertugrul, and his existence is independently attested only by a coin of his son Osman.

‏اردومیں اس سلسلے میں سب سے زیادہ معروف اور پڑھی جانے والی کتاب ڈاکٹر محمد عزیر کی دوجلدوں پر مشتمل کتاب "دولت ِ عثمانیہ" ہے۔ مشہور علمی ادارے دارلمصنفین، اعظم گڑھ، کی شائع کردہ اس تاریخ کا دیباچہ سید سلیمان ندوی نے لکھا اور اس کتاب کا مقصد مسلمانانِ ہند کو ترکوں کے کارناموں سے روشناس کرانا تھا۔

‏ڈاکٹر عزیر تسلیم کرتےہیں کہ سلیمان شاہ اور ارطغرل غیر مسلم تھے اور قبیلہ کا پہلا شخص جس نےاسلام قبول کیا ارطغرل کا بیٹا عثمان تھا۔ وہ ایک مغربی مؤرخ کی شہادتیں پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"تیرہویں صدی عیسوی کی ابتداء میں خراسان اورماوراء النہر کے دوسرے علاقوں کی جوقومیں ایشیائے کوچک کی سرحدوں پر نمودار ہوئیں، ‏ان کے اسلام لانے کا کوئی صریحی ذکر کسی تاریخ میں نہیں ملتا۔ خود عثمانیوں کے مؤرخ نشری کے بیان سے بھی صاف اشارہ ملتا ہے کہ عثمان کا مورث ِ اعلیٰ سلیمان شاہ اور اس کے ساتھی، جو اپنے وطن سے نکل کھڑے ہوئے، غیرمسلم تھے۔ بارہویں صدی عیسوی اور اس کےبعد کے سیاحوں کی بکثریت شہادتوں سےبھی ‏یہ معلوم ہوتاہےکہ یہ قومیں بت پرست تھیں، ان مختلف ترکی قبیلوں نےجواس زمانےمیں ایشیائےکوچک میں داخل ہوئے اپنے آپ کو ایک اسلامی ماحول میں پایا۔ عثمان اوراس کےقبیلہ کےاسلام لانے سےعثمانی قوم پیداہوئی۔ اس تبدیلِ مذہب ہی کا نتیجہ تھا کہ 689ھ (1290ء) کے بعد عثمان کی فاتحانہ سرگرمیاں شروع ہو گئیں۔ ‏ارطغرل اور عثمان ایک دیہاتی سردار کی حیثیت سےسغوت میں سیدھی سادھی زندگی بسرکرتےتھے، ان کی اس زمانہ کی کسی جنگ یا فتح کا ذکر تاریخ میں موجود نہیں۔ ارطغرل کےتعلقات اپنےپڑوسیوں کے ساتھ بالکل صلح ودوستی کےتھے۔ نشری کابیان ہےکہ اس ملک کےکافر و مسلم دونوں ارطغرل اوراس کےلڑکےکی عزت کرتے تھے۔ ‏کافر و مسلم کاکوئی سوال ہی نہ تھا۔ پھر دفعتاً ہم عثمان کواپنے پڑوسیوں پرحملہ آور ہوتے اور انکے قلعوں کو فتح کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ ان لوگوں میں ایک ایسا تبلیغی جوش ہے جو صرف ان ہی لوگوں میں پایا جاتا ہے جنہوں نےحال ہی میں مذہب تبدیل کیا ہو"۔

ان دو مستند کتابوں کی شہادت ہی یہ ثابت کرنے کے لیےکافی ہے کہ ڈرامے کے ‏ارطغرل کا تاریخ کے ارطغرل سےکوئی تعلق نہیں۔ تاریخ کا ارطغرل تو شاید مسلمان بھی نہیں تھا اور اگر مسلمان تھا بھی تو صلیبیوں اور منگولوں کےخلاف جہاد کی وہ ساری تفصیلات جوڈراما کی زیب و زینت ہیں، تاریخی شواہد سےثابت نہیں۔ ڈراما آپ کو پسند ہے تو اسے فکشن/افسانہ سمجھ کر ضرور دیکھئے، ‏لیکن خدارا اسے اسلام کا ڈراما نہ بنائیے۔ ڈاکٹر فراز انجم، پروفیسرفراز انجم، شعبہ تاریخ پنجاب یونیورسٹی۔ "--امین اکبر (تبادلۂ خیالشراکتیں) 06:59، 26 مئی 2020ء (م ع و

پروفیسر صاحب (پتہ نہیں پروفیسر ہیں بھی یا نہیں) نے تحریر فرمایا کہ ارطغرل کے دورمیں اسلام ان علاقوں میں موجود ہی نہیں تھا لہذا اسے ارطغرل کے مسلمان ہونے پر شک ہے تو انہیں میں یہ اطلاع دینا چاہتا ہوں کہ آپ اس بات کو چھوڑیں کہ ارطغرل مسلمان تھا یا کافر آپ اس بات پر آئیں کہ اسلام یہاں موجود تھا یا نہیں۔

1207ء میں بلخ افغانستان میں پیدا ہونے والے مولانا رومی کا زیادہ زندگی کا حصہ قونیہ ترکی میں گزرا اور انہوں نے وہیں 1273ء میں وفات پائی۔

سلطان الپ ارسلان جنہوں نے 1071ء میں منکزیرت کی لڑائی لڑی وہ مسلمان تھے اور انہوں سلجوق سلطنت کی بنیاد مضبوط کی اس سے بھی واضح ہوا کہ وہاں اسلام موجود تھا۔

یونس ایمرے (1238ء تا 1320ء)کی پیدائش صاری کوئے نامی گاؤں میں ہوئی۔ اس زمانے میں قونیہ پرسلجوق ترکوں کی حکومت تھی۔ یونس ایمرے نے چالیس سال اپنے استاد شیخ تاپدوک ایمرے کے قدموں میں گزار دیے۔ اُن کی زیر نگرانی انہوں نے قرآن و حدیث کے علم میں کمال حاصل کیا۔ طریقت کے اسرار و رموز سے شناسا ہوئے۔ اُن کے کلام میں رباعی، گیت، ن ظمیں، غزلیں سبھی نظر آتی ہیں۔ترکی ادب پر یونس ایمرے کے اثرات ان کے زمانے سے لے کر دورِ حاضر تک دیکھے جا سکتے ہیں۔ احمد یسوی اور سلطان ولد کے بعد یونس ایمرے پہلے شاعر تھے جنھوں نے فارسی یا عربی میں شاعری کرنے کی بجائے اپنے زمانے اور خطے میں بولی جانے والی ترکی زبان میں شاعری کی۔ ان کا طرزِ تحریر وسطی اور مغربی اناطولیہ کے معروف اور ہم عصر اندازِ بیان کے بے حد قریب تھا۔ ان کے کلام کی زبان وہی ہے جو اس خطے کے بڑی تعداد میں نامعلوم علاقائی شاعروں، علاقائی گیتوں، علاقائی قصے کہانیوں اور پہیلیوں کی زبان ہے۔

پروفیسر صاحب یہ چند باتیں بھی اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ وہاں اسلام موجود تھا اور آپ کے جھوٹ کا پول تو یہاں کھل جاتا ہے کہ اسلام موجود نہیں تھا ارے عقل کے اندھے اسلام تو وہاں تب پہنچ چکا تھا جب حضرت ایوب انصاری نے قسطنطنیہ کی لڑائی میں حصہ لیا باقی رہی بات ارطغر کی کہ وہ مسلمان تھا یا نہیں میں یہ ثابت کرونگا پرانی تاریخ سے سب سے بڑا افسوس یہ ہوا کہ آپ نے وہاں سرے سے اسلام کی موجودگی کو ختم کیا جن علاقوں کی فتح کی خوشنودی نبی اکرمﷺ نے دی تھی پتہ نہیں تم کونسی تاریخ پڑھتے ہو اور لوگوں کو گمراہ کرتے پھرتے ہواپنے عزائم سیدھے صاف بیان کر دیا کرو سازش کرنے سے تمہیں کیا ملتا ہے۔ اختر عثمان سالک (تبادلۂ خیالشراکتیں) 04:46، 4 ستمبر 2020ء (م ع و)

کیا سلجوق سلطنت ایشیا کوچک میں نہیں تھی اپنی بکواس بند کر اور اپنے عزائم واضح کر کہ تو کیا چاہتا ہے اور کس نطفے کی پیداوار ہے؟ اختر عثمان سالک (تبادلۂ خیالشراکتیں) 04:49، 4 ستمبر 2020ء (م ع و)

کیا ارطغرل مسلمان تھا؟

ترمیم

یہاں پر ایک صاحب نے تحریر فرمایا کہ ارطغرل کے دورمیں اسلام ان علاقوں میں موجود ہی نہیں تھا لہذا اسے ارطغرل کے مسلمان ہونے پر شک ہے تو انہیں میں یہ اطلاع دینا چاہتا ہوں کہ آپ اس بات کو چھوڑیں کہ ارطغرل مسلمان تھا یا کافر آپ اس بات پر آئیں کہ اسلام یہاں موجود تھا یا نہیں۔

1207ء میں بلخ افغانستان میں پیدا ہونے والے مولانا رومی کا زیادہ زندگی کا حصہ قونیہ ترکی میں گزرا اور انہوں نے وہیں 1273ء میں وفات پائی۔ اور وہاں اس وقت سلجوق سلطنت قائم تھی جو مسلمان تھے

سلطان الپ ارسلان جنہوں نے 1071ء میں منکزیرت کی لڑائی لڑی وہ مسلمان تھے اور انہوں سلجوق سلطنت کی بنیاد مضبوط کی اس سے بھی واضح ہوا کہ وہاں اسلام موجود تھا۔

یونس ایمرے (1238ء تا 1320ء)کی پیدائش صاری کوئے نامی گاؤں میں ہوئی۔ اس زمانے میں قونیہ پرسلجوق ترکوں کی حکومت تھی۔ یونس ایمرے نے چالیس سال اپنے استاد شیخ تاپدوک ایمرے کے قدموں میں گزار دیے۔ اُن کی زیر نگرانی انہوں نے قرآن و حدیث کے علم میں کمال حاصل کیا۔ طریقت کے اسرار و رموز سے شناسا ہوئے۔ اُن کے کلام میں رباعی، گیت، ن ظمیں، غزلیں سبھی نظر آتی ہیں۔ترکی ادب پر یونس ایمرے کے اثرات ان کے زمانے سے لے کر دورِ حاضر تک دیکھے جا سکتے ہیں۔ احمد یسوی اور سلطان ولد کے بعد یونس ایمرے پہلے شاعر تھے جنھوں نے فارسی یا عربی میں شاعری کرنے کی بجائے اپنے زمانے اور خطے میں بولی جانے والی ترکی زبان میں شاعری کی۔ ان کا طرزِ تحریر وسطی اور مغربی اناطولیہ کے معروف اور ہم عصر اندازِ بیان کے بے حد قریب تھا۔ ان کے کلام کی زبان وہی ہے جو اس خطے کے بڑی تعداد میں نامعلوم علاقائی شاعروں، علاقائی گیتوں، علاقائی قصے کہانیوں اور پہیلیوں کی زبان ہے۔

پروفیسر صاحب یہ چند باتیں بھی اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ وہاں اسلام موجود تھا اور آپ کے جھوٹ کا پول تو یہاں کھل جاتا ہے کہ اسلام موجود نہیں تھا ارے عقل کے اندھے اسلام تو وہاں تب پہنچ چکا تھا جب حضرت ایوب انصاری نے قسطنطنیہ کی لڑائی میں حصہ لیا باقی رہی بات ارطغر کی کہ وہ مسلمان تھا یا نہیں میں یہ ثابت کرونگا پرانی تاریخ سے سب سے بڑا افسوس یہ ہوا کہ آپ نے وہاں سرے سے اسلام کی موجودگی کو ختم کیا جن علاقوں کی فتح کی خوشنودی نبی اکرمﷺ نے دی تھی پتہ نہیں تم کونسی تاریخ پڑھتے ہو اور لوگوں کو گمراہ کرتے پھرتے ہواپنے عزائم سیدھے صاف بیان کر دیا کرو سازش کرنے سے تمہیں کیا ملتا ہے۔ اختر عثمان سالک (تبادلۂ خیالشراکتیں) 04:41، 4 ستمبر 2020ء (م ع و)

واپس "ارطغرل" پر