سید محمد ابراہیم شاہ المعروف حصار بابا

ترمیم

سید محمد ابراہیم شاہ المعروف حصار باباؒ 953ھ بمطابق 1546 عیسوی ایران کے شہر شیراز میں پیدا ہوئے۔ حصار بابا رحمۃ اللہ علیہ کے والد ماجد کا اسم گرامی سید شیر محمد ولی شاہ شیرازی تھا۔ جو ہمایون بادشاہ کے ساتھ عادل شاہ سوری سے اپنی حکومت واپس لینے کے لیے شیراز، ایران سے آئے تھے۔[1] آپؒ کا شجرۂ نسب مبارک سید ناصر الدین محمود بخاری ابن سیدجلال الدین حسین مخدوم جہانیاں جہاں گشت بخاری (اوچ شریف) سے ہوتا ہوا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک اکتسویں(31) پشت پر جا پہنچتا ہے۔آپؒ ایک روحانی پیشوا شیخ سلیم چشتی فتح پوری (1478–1572) کے ممتاز شاگردوں اور خُلفاء میں سے تھے۔شیخ سلیم چشتی فتح پوری 891 ہجری کو پیدا ہوئے۔اور 29 رمضان المبارک 979 ہجری کو فتح پور، ہندوستان میں رحلت فرمائی۔ان دنوں صوفیا کرام اور مشائخ عظام اپنے خاص شاگردوں، خُلفاء اور دینی طلبہ کو دین کی اشاعت اور ترویج کے لیے ملک کے محتلف حصوں میں بھیجا کرتے تھے۔انہی میں سے ایک سید محمد ابراہیم شاہ ؒ تھے جو 25 سال کی عمر میں مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر کے عہد ِحکومت (1555–1606) میں 1571 عیسوی بمطابق 978 ہجری میں اسلام کی اشاعت و تبلیغ کے لیے دہلی سے سوات رانیزئی جسے آج کل ملاکنڈ ایجنسی کہتے ہیں تشریف لائے۔آپؒ نے موجودہ گاؤں پیر خیل کی بنیاد رکھی۔ اس میں مسجد اور اسلامی تعلیمات کی ترویج کے لیے خانقاہ بھی بنوایا۔

شخصیت

ترمیم

آپؒ ایک نہایت پرہیزگار اور خداترس انسان تھے۔آپؒ فقہ، حدیث اور قرآن شریف کے بہت بڑے عالم تھے۔قرآن شریف زبانی یاد تھا اور اپنے وقت کے بڑے بڑے صوفیائے کرام اور درویشوں میں شمار ہوتے تھے۔آپ ؒ نہایت ہی نرم خو، صابر اور خوبصورت شخصیت کے مالک تھے۔آپؒ ہمیشہ سادہ زندگی بسر کرتے اور اپنی پوری زندگی اللہ تعالیٰ کی عبادت اور مخلوقِ خدا کی خدمت میں گزارتے تھے۔آپؒ نے ہزار ناؤ پہاڑ پر ایک مسجد اور خانقاہ (بابا کوٹہ) بھی تعمیر کروائی تھی۔جہاں آپ ؒنے کافی عرصہ دین کی اشاعت اور تبلیغ میں گزارا۔

اساتذہ

ترمیم

میاں عبدالرشید کی کتاب تذکرۂ علما کبائر و مشائخ عظام صوبہ سرحد کے مطابق حصار بابا، سید علی شاہ المعروف پیر باباؒ (بونیر) کے خلفاء اور شاگردوں میں سے تھے۔سید محمد ابراہیم شاہ شیرازی دہلی سے1571 عیسوی کو جہلم آئے۔اور یہاں سے آپ ؒسوات رانیزئی (موجودہ ملاکنڈ ایجنسی) اپنے پیرو مرشد شیخ سلیم چشتی فتح پوری رحمۃ اللہ علیہ کی ہدایت کے مطابق دین کی اشاعت کے لیے تشریف لے گئے[2]

خلفاء و شاگرد

ترمیم

آپؒ نے سب سے پہلے پیر پیائی، نوشہرہ میں کچھ عرصہ کے لیے قیام فرمایا پھر اس کے بعد پیران کلے ملاکنڈ ایجنسی تشریف لے گئے۔آپ ؒکے مریدانِ خاص اٹے بابا (جد امجد اتمان خیل) یوسف بابا، سلطان بابا، سید بابا اور حضرت خواجہ بابا جن کا تعلق پٹھانوں کے مشہور قبیلہ یوسف زئی سے تھا، نے آپ ؒ کو پیران کلے سے طوطاکان لے آئے تاکہ آپؒ سے اسلامی تعلیمات حاصل کر سکیں۔آپؒ نے اپنی بے مثال عبادت، سچائی اور دیانت داری سے لوگوں کو بہت متاثرہ کیا جس کی وجہ سے بہت سے غیر مسلم بھی مشرف بہ اسلام ہوئے۔جوں جوں عمر بڑھتی گئی آپؒ کے علم وعرفان میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔اس پر آپؒ کے بشری حسن و جمال اور مردانہ وجاہت وجلال ہر ملنے والے کو مسحور کر دیتا۔ جو شخص ایک بار آپؒ کی محفل میں ہم کلامی سے مشرف ہو جاتا وہ ہمیشہ کے لیے آپ ؒکا ہو جاتا۔یہ آپؒ کی صحبت کا اعجاز تھا کہ ہر آنے والے دن آپ ؒکے حلقہء احباب میں اضافہ ہوتا گیا۔اور آپؒ کی دعوت و تبلیغ اور پند و نصیحت کبھی رائیگاں نہیں گئی بلکہ لاکھوں راہ گم کردہ مسلمانوں کو راہ راست پر لانے اور ہزاروں غیر مسلموں کو اسلام کے نور سے منور کرنے کا سبب و موجب بنی۔آپ ؒراست گوئی اور حق بیانی میں کھبی کسی مصلحت کا شکار ہوئے اور نہ کوئی خوف آپؒ کو روک سکا۔ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ کسی کی دل آزاری کیے بغیر مسلک اہل السنت والجماعت کا پرچار اور عشق مصطفٰی کی تکرار کرتے رہے۔

شادی و اولاد

ترمیم

لوگوں کو آپؒ کے ساتھ اس قدر لگاؤ تھا کہ ایک دفعہ وہ فکر مند ہوئے کہ ایسا نہ ہو کہ سید محمد ابراہیم شاہ باباؒ اپنے ملک واپس چلے جائیں تو انھوں نے فیصلہ کیا کہ آپ ؒکی شادی یہاں کی جائے تو آپ ؒیہاں سے کہیں نہیں جا سکیں گے۔انھوں نے حضرت محمد ابراہیم شاہ باباؒ کی شادی ایک معزز گھرانے میں کرادی۔لوگ پھر بھی فکر مند رہتے تھے کہ آپؒ اپنی رفیقۂ حیات کو کہیں بھی لے جا سکتے ہیں تو انھوں نے باہم فیصلہ کیا کہ حصار بابا کو اپنی جائداد میں سے پورا حصہ دیا جائے۔تو آپؒ کا یہاں سے جانا مشکل ہو جائے گا لہٰذا انھوں نے آپؒ کو بطور حصہ د ار کافی زمین عطیہ کر کے دیدی اور اسی طرح انھوں نے حصار بابا کو ہمیشہ کے لیے اپنا بنا لیا۔ ایک روایت کے مطابق سید محمد ابراہیم شاہ شیرازی سید بہادر باباؒ کے داماد اور سید کستیر گل المقلب شیخ رحمکار کاکا صاحبؒ نوشہرہ کے بہنوئی تھے۔کاکا صاحبؒ 983 ہجری میں پیدا ہوئے تھے اور 1063 ہجری کو رحلت فرمائی۔[3] سید محمد ابراہیم شاہ شیرازی کے چار بیٹے اور تین بیٹیا ں تھیں۔ بڑے بیٹے کا نام سید حسن شاہ عرف اسو بابا تھا۔جو اپنے والد ماجد کے خلیفہ اور سجادہ نشین تھے اور نہایت ہی پرہیزگار اور متقی انسان تھے۔اور ہر وقت قناعت و ریاضت اور عبادت میں مشغول رہتے تھے۔ دوسرے بیٹے کا نام سید محمد فتح خان شاہ تھا وہ بھی نہایت ہی پرہیزگار اور نیک انسان تھے۔تیسرے بیٹے کا نام سید محمد ریحان شاہ تھا وہ بھی نہایت ہی پرہیزگار اور نیک انسان تھے۔چوتھے بیٹے کا نام سید محمد رحمان شاہ تھا۔جنھوں نے خرقہ ء خلافت اپنے والد ماجد سے حاصل کیا تھا آپؒ دنیاوی جاہ و جلال سے بے پروا اور مستغرق بہ یاد مولا تھے۔آپؒ نے تمام عمر شادی نہیں کی ساری عمر مجرد رہ کر یاد الہٰی میں گزاری۔ آپ کی تین بیٹیاں، بی بی دُرمر جان (زوجہ قطب الدین عر ف شیخ بابا)، بی بی رابعہ عر ف پیر آبئی اور بی بی عائشہ تھیں۔ آپؒ کی تمام اولاد کو بہت عرصہ تک روحانی اقتدار حاصل رہا۔ آپؒ کی اولاد پیر خیل، بٹ خیلہ، باغکنڈی شریف، سفرونہ گلآباد (دیر پائیں) اُغزبانڈہ، لنڈی، باڑہ، کنشئی (بٹگرام) چنارکوٹ، سنگل کوٹ، جلوڑا، بالاکوٹ(مانسہرا) امبیلا (بونیر) ٹوپی، غازی (صوابی) اور تانگیر (کوہستان) میں آباد ہیں۔اور متمول زندگی گزار رہیں ہیں۔اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ سید محمد ابراہیم شاہ شیرازی عرف حصار بابا کی اولاد کو دینی، دنیاوی اور اُخروی کامیابیاں و کامرانیاں نصیب فرمائیں۔آمین۔

وصال

ترمیم

حضرت پیر سید محمد ابراہیم شاہ شیرازی المعروف حصار بابا 12 رجب المرجب 1033ھ بمطابق 1624 عیسوی میں گاؤں پیرخیل میں وفات پائی اور آپؒ گاؤں طوطاکان کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔[4] اللہ تعالیٰ آپؒ کو اپنی جوارِ رحمت میں اعلیٰ ٰمقام عطاء فرمائے۔آمین۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. تذکرۂ علما کبائر و مشائخ عظام صوبہ سرحد
  2. تذکرۂ علما کبائر و مشائخ عظام صوبہ سرحد
  3. تزکرۂ السادات شیرازی از پیرزادہ قاضی سید غلام رحمانی القادری
  4. تزکرۂ السادات شیرازی از سید ولایت شاہ شیرازی
واپس "حصار بابا" پر