شیخ رحمکار
شیخ المشائخ شیخ رحمکار المعروف کاکا صاحب صوبہ خیبر پختونخوا کی معروف شخصیت ہے۔
ولادت
ترمیمشیخ رحمکار کی ولادت یکم رمضان 981 ہجری مطابق 25 دسمبر 1573ء، جمعہ کی شب صبح صادق کے قریب کنڑہ خیل کوہسار نوشہرہ میں ہوئی۔
نام و نسب
ترمیمآپ کا اسم گرامی سید کستیر(پشتو میںسیاہی مائل زرد رنگ کے عنبر فشاں پھول کو کہتے ہیں) لقب رحمکار(حد درجہ شفیق) اور معروف کاکا صاحب(پشتون معمر اور بزرگ کو کاکا کہتے ہیں) ہے، والد کا نام شیخ بہادر المعروف ابک بابا ، دادا کا نام مست بابا (انکا مزار شیخ رحمکارکے مزار سے سات میل دور ہے۔ آپ کی زیارت مرجع خلائق ہے)اور پردادا کا نام غالب بابا (انکا مزار چراٹ کے پہاڑ کے نیچے واقع ہے بڑا دشوار گزار علاقہ ہے مگر لوگ زیارت کرتے ہیں)تھا۔ آپ تمام صوبہ سرحد اور اکناف و اطراف میں کاکاصاحب کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ کا لقب ’’ شیخ المشائخ‘‘ تھا۔آپ حسینی سید ہیں جو 23 واسطوں سے امام حسین تک پہنچتا ہے ان کی اولاد عرفی نام کی نسبت سے کاکا خیل کہلاتی ہے[1]
سیرت و کردار
ترمیمآپ صائم الدھر، شب بیدار، انتہائی راست گفتار، متواضع، منکسر المزاج، سخی، صاحب قلب سلیم، مخلوق خدا پر شفقت کرنے والے، ہر وارد و صادر پر رحمد لی کرنے والے تھے ہرایک مرید پر توجہہ باطنی فرما کر اس کو محبت الٰہی سے سرشار فرمادیتے۔ وہ مریدین جو آپ سے دور دور ممالک میں سکونت پزیر تھے ان پر بھی آپ کی توجہات باطنی مرکوز رہتی ۔ آپ تارک ماسوا اللہ، قرآن مجید کے بحر زخار، حقیقت و معرفت کے رموز و اسرار کے واقف تھے۔ صاحب مقامات قطبیہ و مقالات قدسیہ آپ کی تعریف میں لکھتے ہیں۔ " کا کا صاحبؒ علم ایقین، حق ایقین او رعین ایقین کا کامل و مکمل علم رکھتے تھے اور ان سے اور ان کے مقامات بہت عظیم اور وافر واقفیت کے مالک تھے۔ صاحب علم لدنی تھے۔ آپ کی نظر کیمیا اثر تھی، آپ مستجاب الدعوات تھے۔ انتہائی یک سو، گوشہ نشین اور کم گو تھے۔"
سلسلہ نسبت
ترمیمآپ کے فرزند جناب میاں عبد الحلیم فرماتے ہیں کہ ’’ اگرچہ آپ نے کبھی نہ فرمایا۔ مگر میرے خیال میں آپ اپنے والد شیخ بہادر سے سلسلہ سہروردی کی نسبت رکھتے تھے۔ آپ نے اپنی عبادت کا مقام اپنے والد گرامی کی قبر مبارک پر مقرر کیا اور جتنا بھی آپ کو فیض حاصل ہوا اور فتوحات و برکات ملے یہ سب اپنے والد عالی مرتبت کی قبر مبارک سے حاصل ہوئے۔ آپ نے اتنی کثرت کے ساتھ کرامات کا صدور ہوا کہ ان کے جمع کے لیے پورا ایک دفتر چاہیے۔ اس وقت آپ کی قبر مبارک سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ آآ کر فیض حاصل کرتے ہیں۔ میاں عبد الحلیم صاحب لکھتے ہیں۔ آپ کی وفات سے بعد بہت لوگوں نے آپ سے فیض حاصل کیا ہے اور کر رہے ہیں، بعض کو تو خواب میں بھی آپ نے فیضیاب کیا ہے اور آپ کے مزار شریف پر بہتوں کو فیض حاصل ہوا ہے ۔
اولاد
ترمیمآپ کے پانچ فرزند تھے۔ آزاد گل، محمد گل، خلیل گل، عبد الحلیم، نجم الدین ۔ آپ کی اولاد میں علما ء، فضلاء اور صاحبان دولت وحکومت ہیں، عوام میں اور خصوصاً علاقہ خٹک میں آپ کی اولاد کو بڑی قدر و منزلت کے ساتھ دیکھا جاتا ہے۔
سلسلہ شیوخ
ترمیمحضرت شیخ سید کستیر گلؒ عرف رحمکار بابا
- حضرت شیخ سید بہادر باباؒ
- حضرت شیخ سید نادر باباؒ عرف مست بابا
- حضرت شیخ عبد القدوس نعمانیؒ گنگوہی
- حضرت شیخ برہان الدین محمد درویش اودھیؒ
- حضرت شیخ سید بڈھن بڑائچیؒ
- حضرت شیخ سید اجمل بڑائچیؒ
- مخدوم جہانیاں جہاں گشت سید جلال الدین بخاریؒ
- حضرت شیخ ابوالفتح رکن الدین ملتانیؒ
- حضرت شیخ صدر الدین عارف ملتانیؒ
- حضرت شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانیؒ
- حضرت شیخ شہاب الدین عمر سہروردیؒ
- حضرت شیخ صیاء الدین عبد القاہر ابو النجیب سہروردیؒ
- حضرت شیخ ابو احمد غزالیؒ
- حضرت شیخ ابوبکر نساجؒ
- حضرت شیخ ابو القاسم گورگانیؒ
- حضرت شیخ ابو عثمان مغربیؒ
- حضرت شیخ ابو علی کاتبؒ
- حضرت شیخ احمد ابوعلی رودباری
- سید الطائفہ حضرت شیخ جنید بغدادی
خلفاء
ترمیمآپ کے بہت خلفاء ہیں ان میں یہ خلفاء بہت مشہور ہیں جو صاحبان علم وفقر اور صاحب کرامات تھے۔ غازی خان، عزیز شیخ، عبد الرحیم مشہور، شیخ رحیم خٹک، علی گل و ملی گل (یہ دونوں آپ کے خاص خادم بھی تھے، ان دونوں کی قبریں بھی آپ کے روضہ میں ہیں)۔ فقیر صاحب شگی، شیخ جمیل (جمال خان خٹک)، یہ خوشحال خان خٹک جو مشہور شاعر ہے اس کا بھائی ہے اور آپ کے مرید ہونے کے بعد فقیر جمیل بیگ اور فقیر بابا کے نام سے مشہور ہے۔ یہ خٹک قوم کا امیر تھا۔ میرزا گل یہ ولی کامل تھے۔ شیخ بابر، دریاخاں چمکنی، شیخ فتح گل، شیخ اوین، شیخ کمال، شیخ حیات، پیرمیاں حاجی، حسن بیگ، آخوند ہلال یہ قلندر تھے۔ آخوند اسماعیل ۔
وفات
ترمیمآپ وفات سے ایک سال پہلے سے علیل رہتے تھے۔ مگر باوجود علیل رہنے کے آپ نے نماز قضا نہیں کی۔ اکثر اوقات قیام کی طاقت نہ رکھتے تو دو آدمی آپ کے بازوپکڑ کر آپ کو کھڑا کر دیتے۔ پھر آپ نماز کی تکمیل کر دیتے۔ اپنے معمولات کو آخری وقت تک پورا کیا۔ 24رجب 1063ھ جمعہ کے دن نماز جمعہ کے لیے جب امام منبر پر خطبہ پڑھنے کے لیے نکلا۔ آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ آپ کی عمر اسی برس تھی۔[2]