تبادلۂ خیال:زیاد بن ابیہ
اس مضمون میں ابو سفیان کی داشتہ کا جملہ درست نہیں اس کو نکالا جاۓ۔
- اگر بات باحوالہ ہے تو داشتہ کی جگہ ، غیر منکوحہ کا لفظ لکھ دیا جانا چاہیۓ۔ --سمرقندی 05:55, 8 اکتوبر 2009 (UTC)
- خلافت و ملوکیت از مولانا مودودی میں یہ تفصیل سے قدیم تاریخی حوالوں کے ساتھ درج ہے کہ زیاد زنا کی پیدوار تھا اسی لیے اسے اس کی ماں کے نام سے زیاد بن سمیہ کہتے تھے۔ معاویہ بن ابی سفیان نے اسے اپنا بھائی قرار دیا حالانکہ وہ سمیہ کے ساتھ زنا سے پیدا ہوا تھا۔ اگر کسی صاحب کے پاس مودودی کی کتاب ہو تو اس میں قدیم حوالے دیے ہوئے ہیں۔ شاید یہ زنا فتح مکہ سے پہلے کا ہو جب ابوسفیان اسلام لایا۔ اس سے پہلے اور اس کی بیوی ہندہ تمام عمر اسلام کے بدترین دشمن رہے۔ مگر چونکہ فتح مکہ کے بعد ابوسفیان اسلام لایا اس لیے زنا یا داشتہ کی جگہ کچھ اور لفظ لکھنا چاہئیے۔ اس سلسلے میں قدیم تاریخی مستند کتابوں میں جیسا لفظ استعمال ہوا ہو وہ لکھنا مناسب ہے۔--اردو دوست 12:44, 8 اکتوبر 2009 (UTC)
- خلافت و ملوکیت میں مولانا مودودی نے یہ دعوی ضرور کیا ہے کہ زیاد زنا کی پیدوار تھا لیکن مولانا کے اس بیان پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ زیاد کی ماں سعیہ سے ابوسفیان کے تعلقات کو زنا کا نام دینا درست نہیں۔ وہ زنا نہیں بلکہ عہد جاہلیت میں نکاح یا شادی کی ایک صورت تھی. ظہور اسلام کے بعد اس قسم کی شادی ، نکاح یا ازدواجی تعلقات کی سختی سے ممانعت کردی گئ اور اس کو زنا کے زمرے میں رکھ دیا گیا . طلوع اسلام کے بعد اگر ابوسفیان اور سمیہ اس قسم کی شادی یا تعلقات کے مرتکب ہوتے تو بلاشبہ ذیاد کے ولد الزنا ہونے میں کوئئ شک نہیں رہتا۔ اسلام نے اس قسم کی نسب کے حامل کسی بھی شخص سے اس کے نسب سے متعلق کوئی بازپرس نہیں کی ہاں آ ئندہ اس پر پابندی ضرور عائد کردی . اس قسم کے نکاح میں ہونے والی اولاد کو ماں کی طرف منسوب کیا جاتا تھا پہی وجہ ہے کہ تاریخ میں ذیاد کو "زیاد بن ابی سفیان" کے بجاۓ " زیاد بن سمیہ" کہا گیا ہے . اس صفحہ کا نام بھی " زیاد بن سمیہ " ہی ہونا چاھیے۔ --انتہا پسند 14:24, 8 اکتوبر 2009 (UTC)
- جناب انتہا پسند کی بات درست ہے کہ مضمون کا نام زیاد بن سمیہ ہونا چاہئیے۔ کیونکہ جلال الدین سیوطی کے مطابق معاویہ بن ابی سفیان کا زیاد کو اپنا بھائی ڈیکلیر کرنا خلاف شریعت فعل تھا۔ دوسری بات یہ کہ سیوطی ہی کی کتاب میں مختلف صحابہ کرام رضوان اللہ کا ذکر ہے جنہوں نے معاویہ بن ابو سفیان کے اس فعل پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ خلاف شریعت ہے اور ابوسفیان نے زنا کیا تھا (یعنی یہ قبل از اسلام کا کوئی نکاح نہیں تھا) اس سلسلے میں صحابہ نے ایک حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ بیٹا اس کا ہوتا ہے جس کے بستر پر پیدا ہوا ہو۔ (دیکھئیے تاریخ الخلفاء از جلال الدین سیوطی)--اردو دوست 15:54, 8 اکتوبر 2009 (UTC)
- اگر موصوف ، ابی سفیان ، ہیں تو ان کے لیۓ بالخصوص رائج التاریخ و معاشرہ روایات سے ہٹ کر والدہ سے نسبت کیوں؟ ویسے تو والدہ سے نسبت ایک اچھا رجحان ہے کیونکہ اس سے عورت مرد کی یکسانیت کا اظہار ہوتا ہے لیکن ایسا صرف ایک (یا چند) شخصیات (اور وہ بھی خالصتاً سیاسی وجوہات کی بنا) پر لاگو کرنا عورت مرد کی برابری سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ کیا ایسا کرنا شرعی یا سنتی طور پر لازم آتا ہے؟ --سمرقندی 01:27, 10 اکتوبر 2009 (UTC)
- ابو سفیان کا زیاد کو اپنا بھائی ڈکلیر کرنا خلاف شریعت فعل نہ تھا. پہاں میں دو اہم مورخین کے حوالے پیش کرنا چاہوں گا
ابن خلدون کے الفاظ میں "سمیہ زیاد کی ماں جو کہ حارث بن کلدہ طبیب کی لونڈی تھی۔ زمانہ جاہلیت میں ابو سفیان اپنے کسی کام کے میں طائف گۓ تھے وہاں انہوں نے سمیہ سے اس طرح کا نکاح کیا جیسے کہ اس زمانے میں رائج تھے۔ اس مباشرت سے زیاد پیدا ہوا اور سمیہ نے اس کو ابوسفیان کی طرف منسوب کیا جس کا ابو سفیان نے خفیہ طور پر کیا [1]
ایک اور اہم مورخ کامل ابن اثیر کے مطابق حضرت معاویہ نے زیاد کا استلحاق اس لۓ کیا تھا کہ جاہلیت میں نکاح کی بہت سی اقسام تھیں جن میں سے ایک یہ تھی کہ کسی کسبی عورت سے ایک یا بہت سے لوگ مباشرت کرتے تھے جب وہ ماں بنتی تھی تو اس کو جس شخص سے منسوب کرنا چاہتی اس سے منسوب کردیتی اور وہ مرد کی اولاد قرار پاتا تھا۔ جپ اسلام آیا تو اس قسم کے تمام نکاح حرام ہوگۓ لیکن نکاح کے ان جاہلی طریقوں میں سے جس طریقے سے کوئی بھی بچہ کسی بھی باپ کی طرف منسوب ہوا اسلام کے بعد بھی اس کو اسی نسب پر برقرار رکھا گیا اور ثبوت اور نسب کے معاملے میں اس سے کوئی تفریق نہییں کی گئ۔ [2]
ان دو مستند مورخین نے اس کو زنا نہیں شمار کیا ہے اور واضح کردیا ہے کہ ابوسفیان نے طائف میں سمیہ سے زنا نہیں بلکہ ایک قسم کا نکاح کیا تھا جو اسلام سے قبل عرب میں رائج تھا اسلام نے اس کو ممنوع تو کردیا مگر اس سے پیدا ہونے والی اولاد کو غیر نسب یا ولدالحرام قرار نہیں دیا۔ ابو سفیان نے اپنے قبول اسلام سے قبل ہی 10 افراد کے سامنے زیاد سے اپنے نسب کا اقرار کیا تھا اگر ابو سفیان اسلام لانے کے بعد اس نسب کا اقرار کرتے تو یہ فعل ضرور قابل مذمت ہوتا لیکن وہ ایسا پہلے ہی کرچکے تھے۔ امیر معاویہ کے سامنے 10 گواہان نے اس بات کی شہادت دی تھی کے ابوسفیان نے ان اشخاص کے سامنے زیاد سے اپنے نسب کا اقرار کیا تھا ان گواہان کی گواہی کے بعد ہی امیر معاویہ نے زیاد کو اپنا بھائی تسلیم کیا۔ مشہور محدث حافظ ابن حجر نے اس واقع کو یوں بیان کیا ہے [3]
امیر معاویہ نے 44ھ میں زیاد سے اپنے استلحاق کا اعلان کیا (واضح رہے کہ استلحاق ابو سفیان اپنی زندگی 10 افراد کے سامنے پہلے ہی کرچکے تھے ) اور ان گواہان جن میں زیاد بن اسماء ، مالک بن ربیعہ سلولی ، منذہ بن زبیر، جویریہ بن سفیان، مسور بن قدامہ، ابن ابی نصر الثقفی، زید بن نفیل الازری ، شعبعتہ بن القلم المازنی، عمرو بن شیعبان کے نام قابل زکر ہیں ان اشخاص نے امیر معاویہ کے سامنے اقرار کیا کے ابو سفیان نے ہمارے سامنے زیاد سے اپنے نسب کا اقرار کرچکے ہیں . ان گواہان میں مالک بن ربیعہ سلولی مشہور صحابی ہیں جو بیت الرضوان میں شریک رہ چکے تھے. ان متعبر گواہان کے بعد بھی معاویہ کے اس اقدام پر اعتراض کرنا مناسب ہوگا۔ حضرت معاویہ نے اسی حوالے سے فرمایا تھا " اللہ کی قسم ! سارا عرب جانتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں بھی مجھ کو سب عربوں میں سب سے زیادہ عزت حاصل تھی اور اسلام لانے کے بعد اس عزت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ لہزا نہ تو ایسا ہے کہ کبھی میری نفری قلیل رہی ہو کہ میں نے زیاد کے زریعے اس میں اضافہ کرلیا ہو اور نہ ہی کبھی میں زلیل تھا کہ زیاد کی وجہ سے مجھ کو عزت مل گئ ہو۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ زیاد کا حق تھا جو میں نے اس تک پہنچادیا.[4] [5] [6]
ایک معمولی آدمی کے لۓ بھی یہ بات نہایت ہی ناگوار ہوتی ہے کہ کل تک دنیا جس کو ولد الحرام کہتی رہی ہو آج اس کو اپنا بھائی بنالیا جاۓ . خلیفہ وقت کے لۓ یہ بات کس قدر شاق ہوگی؟ سب کو چھوڑیے حضرت عائشہ نے اس معاملے میں کیا طرز عمل اختیار کیا اس کی تفصیل ابن عساکر کے مطابق
شروع میں حضرت عائشہ بھی اس استلحاق کی مخالف تھیں اس وجہ سے جب یہ معاملہ زوروں پر تھا زیاد نے حضرت عائشہ کو " زیاد بن ابی سفیان " کے نام سے ایک خط لکھا جس کا مقصد یہ تھا کہ جب جواب میں حضرت عائشہ بھی " زیاد بن ابی سفیان " لکھ دیں گی تو اس کو اپنے نسب کی سند حضرت عائشہ کی جانب سے مل جاۓ گی مگر حضرت عائشہ نے جواب میں تحریر کیا
"من عائشہ ام المومنین الی ابنھا زیاد"
ترجمہ " تمام مومنوں کی ماں عائشہ کی طرف سے اپنے بیٹے زیاد کے نام"
لیکن جب بعد میں اصل حقیقت سامنے آئی تو حضرت عائشہ نے خود زیاد کو " ابن ابی سفیان" کے نام سے خط لکھا حافظ ابن عساکر نے اس واقعہ کو اس طرح بیان کیا ہے
ایک مرتبہ مرہ قبیلے کے کچھ افراد زیاد کے پاس عبدالرحمان بن ابوبکر کا سفارشی خط لے جانا چاہتے تھے مگر عبدالرحمان کو زیاد کو "ابن ابی سفیان " لکھنے میں تامّل تھا وہ لوگ حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت عائشہ نے صاف لکھا۔
" من عائشہ ام المومنین الی زیاد بن ابی سفیان"
ترجمہ " ام المومنین عائشہ کی طرف سے ابو سفیان کے بیٹے زیاد کے نام"
جب ذیاد کو یہ خط ملا تو وہ بہت خوش ہوا اور مجمع عام میں یہ خط پڑھ کر سنایا۔
کیا ام المومنین حضرت عائشہ کی بابت یہ سوچنا بھی ممکن ہے کہ آپ کبھی ایک بے نسب اور ولد الحرام شخص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا برادر نسبتی قرار دی سکتی تھیں۔جلال الدین سیوطی کی بابت یہ کیوں نہیں سوچا جاسکتا کہ اس معاملے میں ان سے غلطی ہوئی۔
- برادر انتہا پسند۔ آپ نے تارخ کامل ابن اثیر کا حوالہ دیا ہے۔ عجیب بات ہے کہ تاریخ کامل ابن اثیر اس وقت میرے سامنے کھلی ہوئی ہے۔ اس میں تو لکھا ہے معاویہ کا زیاد کو اپنا بھائی قرار دینا ایسا پہلا اقدام تھا جس سے شریعت کے اصولوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہوئی کیونکہ حدیث میں ہے کہ جائز اولاد وہی ہے جو باقاعدہ شادی سے پیدا ہوئی ہو۔ [9]۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ ابن اثیر اسے ناجائز اولاد سمجھتا تھا۔ آپ نے جو بات ابن اثیر کے حوالے سے لکھی وہ مجھے نہیں ملی۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آپ کے زیر استعمال کون سا اڈیشن ہے اور وہ کہاں اور کب چھپا تھا؟
--اردو دوست 09:38, 10 اکتوبر 2009 (UTC)
- ابن اثیر کو اعتراض اس استلحاق پر تھا نہ کہ اس نے زیاد کو ناجائز قرار دیا تھا اس کا اعتراض امیر معاویہ کی جانب سے اس کو اپنانے پر تھا. امیر معاویہ کا موقف تھا کہ یہ استلحاق ابوسفیان پہلے ہی کرچکے ہیں اور اس کے گواہان کے سامنے آجانے کے بعد میرے پاس زیاد کو محروم کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے ہاں اگر یہ کام ابوسفیان اپنے قبول اسلام کے بعد کرتے تو ہرگز جائز نہ ہوتا لیکن یہ وہ اپنے قبول اسلام سے پہلے ہی کرچکے تھے. آج کے دور میں یہ بات خاصی پیچیدہ معلوم ہوتی ہے کیونکہ اب اس قسم کی حرکت کو زنا کے علاوہ کوئی نام نہیں دیا جاسکتا لیکن ہم جس دور جاہلیت سے متعلق بحث کر رہے ہیں اس دور میں اس قسم کی مباشرت کرنا جائز تھا اور اس مباشرت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد کو اپنانا بھی جائز تھا. ابن اثیر کا اعتراض مباشرت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد کو اپنانا کے معاملے سے تھا نہ کہ وہ مباشرت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد کو ناجائز کہتے اعتراض کرتے تھے. آپ نے یہ مطلب خود نکال لیا ہے اگر آپ دونوں مسائل کو جدا جدا کرکے دیکھیں تو صورتحال واضح ہوجاتی ہے. حدیث میں بالکل ہے کہ " جائز اولاد وہی ہے جو باقاعدہ شادی سے پیدا ہوئی ہو" لیکن عہد جاہلیت میں ہونے والی اولاد کے بارے میں اس حدیث سے استدلال درست نہیں۔ ہاں جب اسلام نے عہد جاہلیت میں رائج نکاح کا تمام طریقے منسوخ کردیے تو اب قیامت تک اسی حدیث پر عمل ہوتا رہے گا.دلجسپ بات یہ ہے کہ آپ کی کتاب آپ ہی کے سامنے کھلی ہوئی ہے اور میں نے جہاں اس کا مطالعہ کیا ہے اس کا روۓخط ہر کو ئی دیکھ سکتا ہے [10]
- ابن اثیر نے صاف لکھا ہے کہ اسے بھائی بنانا شرعاً ناجائز تھا۔ یہ ابن اثیر ہی کے الفاظ ہیں۔ دوسری بات یہ کہ آپ نے جو روئے خط حوالہ دیا ہے وہ ابن اثیر کا نہیں بلکہ مفتی تقی عثمانی کی کتاب ہے۔ جبکہ میرے پاس تاریخ الکامل ہے جو ارویجنل سورس ہے۔ بہرحال اس پر مزید تحقیق کروں گا کچھ دن تک پھر حاضر ہونگا۔--اردو دوست 13:29, 10 اکتوبر 2009 (UTC)
- عام طور پر ایسے متنازع معاملات میں بہترین راستہ یہی ہوتا ہے کہ تمام فریقین کے نظریات الگ الگ قطعات میں حوالہ جات کے ساتھ درج کر دیئے جائیں اور فیصلہ صارف (قاری) پر چھوڑ دیا جائے کہ ویکیپیڈیا کا کام محض مستند معلومات درج کرنا ہے ان معلومات سے خود کوئی نظریہ اخذ کر کہ قاری کو اس پر ایمان لانے پر مجبور کرنا نہیں فائل:Smile.PNG --سمرقندی 13:33, 10 اکتوبر 2009 (UTC)
- جی درست ہے سمرقندی بھائی لیکن تحقیق کرنا بھی ضروری ہے۔ میں نے ابھی ایک جگہ پڑھا ہے کہ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے معاویہ بن ابی سفیان کا اقدام نہیں مانا، سخت مخالفت کی اور زیاد کو اپنا بھائی نہ مانا (حوالے یہ ہیں: ابن خلدون جلد 3 صفحہ 7 و 8، البدایہ والنہایہ جلد 8، ابن اثیر جلد 3 صفحہ 220 و 221، جو تمام مستند کتب ہیں)۔ میرا موقف بھی یہی ہے کہ یہ سب باتیں پیش کی جائیں۔--اردو دوست 13:39, 10 اکتوبر 2009 (UTC)
- حضرت عائشہ کے طرز عمل کو کیا نام دیں گے ؟
- دونوں امہات المومنین ہیں۔ دونوں کا طرزِ عمل اس مضمون میں حوالوں کے ساتھ بیان ہونا چاہئیے۔--اردو دوست 14:17, 10 اکتوبر 2009 (UTC)
- علم فقہ اور دینی مسائل میں جتنا عبور ام المومنین حضرت عائشہ کو حاصل تھا اتنا امہات المومنین میں کسی اور کو نہیں تھا.
- اس سلسلے کو بھی میں نے دیکھا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا زیاد کو ابن سفیان لکھنا صرف تہذیب ابن عساکر نے لکھا ہے (بقول آپ کے)۔ اس کے علاوہ کسی نے نہیں لکھا۔ شبلی نعمانی کے مطابق تہذیب ابن عساکر اصل میں تاریخ ابن عساکر کا خلاصہ ہے جسے ابن بدران نے لکھا اور اکثر روایات بغیر راویوں کا نام لکھے بیان کی ہیں۔ بہرحال اگر یہ درست بھی ہو تو بھی دونوں امہات المومنین کا طرزِ عمل بیان ہونا چاہیئے تاکہ قاری سے یہ باتیں چھپی نہ رہیں۔--اردو دوست 18:44, 10 اکتوبر 2009 (UTC)
- الولد للفراش و للعاھرالحجر !
- کسی نے کیا خوب اوپر عربی میں اصل بات لکھ دی ہے جو کہ اصل میں حدیث کے الفاظ ہیں۔ میں نے آج کا ویک اینڈ اسی تحقیق میں گذار دیا ہے اور حیران ہوں کہ اسلامی تاریخ کیسی شرمناک ہے کہ مجھے نقل کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔ تاریخ ابوالفداء میں مختلف دیگر حوالوں کے ساتھ یوں لکھا ہے سمیہ مذکور حارث بن کلدہ ثقفی کی لونڈی تھی اور حارث نے اس کی تزویج اپنے ایک رومی غلام عبید نام سے کردی تھی جس سے زیاد پیدا ہوا۔ زمانہ جاہلیت میں ابوسفیان طائف کو گئے تو ابومریم شراب فروش کے یہاں اترے اور ابومریم سے کہنے لگے کہ میں اس وقت عورت کی خواہش میں بے چین ہوں ابومریم نے کہا کہ اگر تم سمیہ کو پسند کروتو میں اس کو بلادوں ابوسفیان نے ہیجان خواہش میں کہا کہ اسی کو بلادو باوجود یکہ وہ دراز پستان اور قبیح البطن ہے۔ ابو مریم نے سمیہ کو بلادیا۔ ابوسفیان اس سے ہم بستر ہوئے چنانچہ کہا جاتا ہے کہ سمیہ حاملہ ہوگئی اور بعد انقضائے مدت حمل زیاد پیدا ہوا پس جب معاویہ نے زیاد کو اپنے سلسلہ نسب میں شامل کرنا چاہا تو لوگوں کو اس بات میں گواہی دینے کے لیے طلب کیا منجملہ ان گواہوں کے ابومریم شراب فروش نے بھی گواہی دی جو سمیہ کو طائف میں ابوسفیان کے لیے بلاکر لایا تھا اور اس نے بیان کیا کہ میں نے بچشم خود سمیہ کے اندام نہانی سے ابوسفیان کا مادہ حیوانی ٹپکتے ہوئے دیکھا ہے۔ پس معاویہ نے زیاد کو اپنے نسب میں شامل کرلیا۔اور یہ پہلا واقعہ ہے جس میں علانیہ طور پر شریعت کی مخالفت کی گئی۔ (حوالہ تاریخ ابوالفداء) ۔ اگر سمیہ عبید نامی غلام کی بیوی تھی تو اس کا نکاح (چاہے جاہلیت کا ہی کیوں نہ ہو) ابوسفیان سے کیونکر ہو سکتا تھا۔ یہی کچھ (اس بات سمیت کہ اس زنا کے وقت سمیہ عبید نامی غلام کی بیوی تھی) تاریخ ابن اثیر، اردو، نفیس اکیڈمی کراچی میں بھی لکھا ہے۔ یہی تمام شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے بھی لکھا ہے--اردو دوست 19:11, 10 اکتوبر 2009 (UTC)
- اتنی محنت جو تبادلہ خیال پر کی گئی ہے اسے مضمون کا حصہ بنائیں اور وہ باتیں درج کریں جن کے مستند حوالے موجود ہیں۔--سید سلمان رضوی 22:18, 10 اکتوبر 2009 (UTC)
حوالہ جات
ترمیم- ↑ تاریخ ابن خلدون ص14جلد2، دارلکتب اللبنان بیروت 1957
- ↑ کامل ابن اثیر ص 177 ج3 طبع قدیم
- ↑ الاصابہ ص63 ج1 ، المکتبہ الکبری القاہرہ 1358ھ
- ↑ ابن خلدون ص14 ج 3
- ↑ ابن اثیر ص176 ج3 طبع قدیم
- ↑ طبری ص163 ج 4
- ↑ ابن خلدون ص16 ج3
- ↑ تہذیب ابن عساکر ص411 ج 5 مبطوعہ الروضہ الشام1332ھ
- ↑ تاریخ کامل از ابن اثیر صفحہ 225 جلد 3
- ↑ http://www.kr-hcy.com/PDFBooks/sahaba/10-Ameer-Muawiah-Tareekhi-Haqaiq.pdf