Ghazala komal
علم بدیع... علم بدیع و علم بیان کے بارے میں مجلس کے انتہائی اہم رکن نعمان نیر کلاچوی یہاں کچھ لکھ چکے ہیں۔ میں اسی سلسلے کو تھوڑا سا نئے انداز میں یہاں پیش کروں گا۔
علم بدیع: بدیع کا معنیٰ ہوتا ہے بنانے والا، موجد، نیا، نادر، انوکھا اردو ادب میں یہ وہ علم ہے جس کی بدولت یہ معلوم ہوتا ہے کہ کلام، گفتگو یا تحریر میں خوبصورتی کیسے پیدا کی جا سکتی ہے۔ کلام کی آرائش و زیبائش کن طریقوں سے ہوتی ہے۔ یہ وہ علم ہے جو کلام کے حسن و جمال، زیب و زینت اور اس کی خوبیوں کی بحث کرتا ہے۔ اس مقصد کے لیے اپنائے گئے تمام طریقوں کو صنعتیں، صنائع یا محسنات کہا جاتا ہے۔ اور یہ صرف حسن کلام کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔یعنی ان کے استعمال نہ کرنے سے کلام کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن اگر انہیں استعمال کیا جائے تو کلام کا حسن دوبالا ہو جائے۔ یہ صنائع یا صنعتیں بنیادی طور پر دو طرح کی ہوتی ہیں ا- صنائع لفظی ب- صنائع معنوی ان دونوں کی تفصیل آئندہ بیان کی جائے گی۔ ان شاء اللہ علم بدیع اگرچہ لفظی و معنی خوبیاں پیدا کرتا ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ کلام میں صنائع بدائع کا استعمال ایک حد تک ہو اور ان کے بے جا استعمال سے گریز کیا جائے۔ اسی لیے حافظ ابو جعفر اندلسی نے تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ "کلام میں انواعِ بدیع کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے کھانے میں نمک یا حسین کے گال پر تل، جب تک معتدل رہے تو بہتر ثابت ہو، جب حد سے بڑھ جائے تو برا ثابت ہو اور اس کی کثرت سے طبیعتیں اکتا جاتی ہیں۔"
علمِ بیان: بیان کا لفظی مطلب ہے کہ کھول کر بات کرنا یا ظاہر کرنا۔ اردو ادب کی اصطلاح میں علم بیان ایسے قاعدوں اور ضابطوں کے مجموعے کا نام ہے جس کو جان لینے کے بعد ہم ایک ہی بات یا مضمون کو مختلف طریقوں سے ادا کر سکیں۔ اور ان میں سے ہر طریقہ دوسرے سے زیادہ واضح اور موثر ہو۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کلام کے سمجھنے میں غلطی کا امکان کم ہو اور معانی میں خوبصورتی پیدا ہو۔ علم بیان دراصل الفاظ کے چناؤ کا تعین کرتا ہے۔ اس کو موضوع لفظ ہے جسے دو طرح سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ا- حقیقی معنوں میں یا بدیع لفظی: یعنی لفظ کو ان معنوں میں استعمال کیا جائے جن کے لیے وہ وضع ہوا ہے یا بنا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، کلام کی زیبائی یا حسن الفاظ سے وابستہ ہے۔ اگر لفظ کی جگہ اس کے معنی استعمال کیے جائیں تو کلام کا حسن ختم ہو جائے۔ مثلا" شیر اگر کسی کے لیے استعمال ہو تو اس سے مراد وہی درندہ ہو۔ ب- مجازی معنوں میں یا بدیع معنوی: یعنی لفظ کو اس کے حقیقی معنوں میں نہیں بلکہ اس کے مجازی معنوں میں استعمال کیا جائے۔ مثلا" شیر کسی کے لیے استعمال کر کے اس کی بہادری مراد لی جائے۔
وضاحت: یہ دونوں علوم دراصل بلاغت سے تعلق رکھتے ہیں۔ جو کلام میںمعنوی خوبیاں پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اس کو دل نشین بھی بناتا ہے۔ یہاں کلام کا لفظ بار بار استعمال ہو رہا ہے جس کا مطلب ہے کہ بات یا شعر۔ قرآن دراصل فصاحت و بلاغت پر مبنی ایسی الہامی کتاب ہے کہ عرب کے نامی گرامی شعرا بھی اس کا مقابلہ کرنے سے عاجز تھے۔ ان علوم کا تعارف کروانے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ان قرآنی مثالوں کو سمجھنے اور ان کا فہم و ادراک پیدا کیا جائے۔ تاکہ جب ہم قرآن کا ترجمہ بھی پڑھیں تو ہمیں یہ احساس ہو کہ قرآن کتنی فصیح و بلیغ کتاب ہے اور کس انداز سے مثالوں کو ہمارے سامنے بیان کرتی ہے۔
خوش آمدید! ترمیم
(?_?)
السلام علیکم! ہم امید کرتے ہیں کہ آپ اُردو ویکیپیڈیا کے لیے بہترین اضافہ ثابت ہوں گے۔
یہاں آپ کا مخصوص صفحۂ صارف بھی ہوگا جہاں آپ اپنا تعارف لکھ سکتے ہیں، اور آپ کے تبادلۂ خیال صفحہ پر دیگر صارفین آپ سے رابطہ کر سکتے ہیں اور آپ کو پیغامات ارسال کرسکتے ہیں۔
ویکیپیڈیا کے کسی بھی صفحہ کے دائیں جانب "تلاش کا خانہ" نظر آتا ہے۔ جس موضوع پر مضمون بنانا چاہیں وہ تلاش کے خانے میں لکھیں، اور تلاش پر کلک کریں۔ آپ کے موضوع سے ملتے جلتے صفحے نظر آئیں گے۔ یہ اطمینان کرنے کے بعد کہ آپ کے مطلوبہ موضوع پر پہلے سے مضمون موجود نہیں، آپ نیا صفحہ بنا سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ ایک موضوع پر ایک سے زیادہ مضمون بنانے کی اجازت نہیں۔ نیا صفحہ بنانے کے لیے، تلاش کے نتائج میں آپ کی تلاش کندہ عبارت سرخ رنگ میں لکھی نظر آئے گی۔ اس پر کلک کریں، تو تدوین کا صفحہ کھل جائے گا، جہاں آپ نیا مضمون لکھ سکتے ہیں۔ یا آپ نیچے دیا خانہ بھی استعمال کر سکتے ہیں۔
|
-- آپ کی مدد کےلیے ہمہ وقت حاضر
محمد شعیب 22:06, 5 جون 2017 (م ع و)