Tribalnews
سانچہ:ویکی متن پر مشتمل تبادلۂ خیال صفحہ مرتب گفتگو میں منتقل کر دیا گیا
ٹرائیبل نیوز ڈیرہ غازی خان ٹرائیبل ایریا سمیت بلوچستان کے پی کے پنجاب آزاد کشمیر گلگت بلتستان سمیت دنیا بھر میں رو نما ہونے خبریں مراسلے تبصرے تجزیئے موسم کا حال اور تاریخ کے آئینے میں ٹرائیبل نیوز ٹویٹر پر فالو کرنے کیلئے ٹائپ میسج FOLLOW TRAIBAL_NEWS To Sand On 40404
اور وزٹ کرنے کیلئے لنک
www.fb.com/traibaltv
www.twitter.com/traibal_news Help 03216363072
خوش آمدید!
ترمیمWelcome! Bienvenue! Willkommen! Benvenuti ¡Bienvenido! ようこそ Dobrodosli 환영합니다 Добро пожаловать Bem-vindo! 欢迎 Bonvenon Welkom
السلام علیکم! ہم امید کرتے ہیں کہ آپ اُردو ویکیپیڈیا کے لیے بہترین اضافہ ثابت ہوں گے۔
یہاں آپ کا مخصوص صفحۂ صارف بھی ہوگا جہاں آپ اپنا تعارف لکھ سکتے ہیں اور آپ کے تبادلۂ خیال صفحہ پر دیگر صارفین آپ سے رابطہ کر سکتے ہیں اور آپ کو پیغامات ارسال کرسکتے ہیں۔
ویکیپیڈیا کے کسی بھی صفحہ کے دائیں جانب "تلاش کا خانہ" نظر آتا ہے۔ جس موضوع پر مضمون بنانا چاہیں وہ تلاش کے خانے میں لکھیں اور تلاش پر کلک کریں۔ آپ کے موضوع سے ملتے جلتے صفحے نظر آئیں گے۔ یہ اطمینان کرنے کے بعد کہ آپ کے مطلوبہ موضوع پر پہلے سے مضمون موجود نہیں، آپ نیا صفحہ بنا سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ ایک موضوع پر ایک سے زیادہ مضمون بنانے کی اجازت نہیں۔ نیا صفحہ بنانے کے لیے، تلاش کے نتائج میں آپ کی تلاش کندہ عبارت سرخ رنگ میں لکھی نظر آئے گی۔ اس پر کلک کریں، تو تدوین کا صفحہ کھل جائے گا، جہاں آپ نیا مضمون لکھ سکتے ہیں۔ یا آپ نیچے دیا خانہ بھی استعمال کر سکتے ہیں۔
|
-- آپ کی مدد کے لیے ہمہ وقت حاضر
محمد شعیب 07:32، 28 مارچ 2018ء (م ع و)
big>بزمِ اردو ویکیپیڈیا میں خوش آمدید Tribalnews
ڈیرہ غازی خان میں بسنے والے قبایل تحرو پیش کش حسن خان چنگوانی
ترمیمڈیرہ غازی خان کی دھرتی تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف ناموں سے مشہور رہی ہے، پندرہویں (15) صدی عیسوی میں بلوچ قبائل نے اس دھرتی کو اپنا مستقر بنایا۔ ایک ممتاز بلوچ سردار میر حاجی خان میرانی نے اپنے لاڈلے بیٹے غازی خان کے نام پر دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر ڈیرہ غازی خان کی بنیاد رکھی۔ 1887 میں ڈیرہ غازی خان دریائے سندھ کے کٹاوُ کی لپیٹ میں آگیا۔ اس وقت یہ شہر موجودہ مقام سے 15 کلومیٹر مشرق میں واقع تھا۔ ڈیرہ کا لفظ فارسی سے نکلا ہے جس کے معنی رہائش گاہ ہے۔ تاہم بلوچ ثقافت میں ڈیرہ کو قیام گاہ کے ساتھ ساتھ مہمان خانہ یعنی وساخ کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
ڈیرہ غازی خان شہر عرفیت: ڈیرہ Motto: Dera phullain da sehra دیرا پھلیں دا سہرا (ترجمہ: Dera–the garland of flowers) ملک پاکستان علاقہ پنجاب ضلع ڈیرہ غازی خان قدیم شہر کی بنیاد 1474 نئے شہر کی بنیاد 1910 آبادی
• شہری 2,512,650
منطقۂ وقت PST (UTC+5)
• گرما (گرمائی وقت) +6 (UTC)
ڈاک رمز 32200 رموز رقبہ 064[1] مخفف DGK محل وقوع کے لحاظ سے ڈیرہ غازی خان ملک کے چاروں صوبوں کے وسط میں واقع ہے، اس کے مغرب میں کوہ سلیمان کا بلند و بالا سلسلہ ہے، شمال میں تھل اور مشرق میں دریائے سندھ ٹھاٹھیں مار رہا ہے، طبقات الارض کے حوالے سے یہ خطہ پہاڑی، دامانی، میدانی اور دریائی علاقوں پر مشتمل ہے، آب و ہوا کے لحاظ سے سردیوں میں سرد اور گرمیوں میں گرم مربوط خطہ ہے۔
علاقے کے رہائشیوں کی اکثریت سرائیکی زبان بولتی ہے جبکہ ارد گرد کے کچھ علاقوں میں سرائیکی کے ساتھ ساتھ بلوچی زبان بھی بولی اور سمجھی جاتی ہے، لغاری، کھوسہ، کھکھل، میرانی، گورچانی، کھیتران، بزدار اور قیصرانی یہاں کے تمندار ہیں، بلوچ قبیلوں کی یہ تقسیم انگریز حکمرانوں نے کی، انہوں نے قبائلی سرداروں کو اختیارات دیے۔ عدلیہ کا کام جرگے نے سنبھالا جس کی نشتیں ڈیرہ غازی خان کے صحت افزاء مقام فورٹ منرو کے مقام پر ہوتی ہیں جو سطح سمندر سے 6470 فٹ بلند ہے۔ انتظامیہ کے لیے بارڈر ملٹری پولیس بنائی گئی ہے جو انہی قبائلی سرداروں کی منتخب کردہ ہوتی ہے۔ 1925 میں نواب آف بہاولپور اور گورنر جنرل غلام محمد کے درمیان میں ہونے والے معاہدے کے تحت ڈیرہ غازی خان اور مظفر گڑھ کے اضلاع کو ریاست بہاولپور میں ضم کر دیا گیا۔ تاہم 1982 میں ڈیرہ غازی خان، مظفر گڑھ، لیہ، راجن پور وغیرہ کو بہاولپور سے علاحدہ کر کے ملتان ڈویژن میں ضم کر دیا گیا۔ بعد میں اس شہر کو منفرد اور نقشے کے مطابق آباد کرنے کا منصوبہ تیار ہوا۔ شہر کی تمام سڑکوں، گلیوں اور بلاکون کو یکم جولائی 1900 میں مختلف بلاکوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ اس وقت کے منصوبے کے مطابق ہر گھر کے لیے پانچ مرلے کا رقبہ مختص تھا اور ہر بلاک 112 مرلے پر مشتمل تھا۔ تاہم وراثتی طور پر مکانات کی منتقلی سے گھروں کا حجم بہت فرق ہو گیا۔ 1982ء میں ﮈیرہ غازی خان ﮈویژن بنا۔ ڈیرہ غازی خان کی چار تحصیلیں ہیں۔ ڈیرہ غازی خان۔ تونسہ شریف۔ ٹرائیبل ایریا۔ اور کوٹ چُھٹہ ڈیرہ غازی خان کی سرزمین معدنی وسائل سے مالا مال ہے ارد گرد کا علاقہ سنگلاخ پہاڑوں کے باعث ناقابل کاشت ہے، علاقے کے نوجوانوں کی اکثریت روزگار کی تلاش میں خلیجی ممالک کا رُخ کرتی ہے، تونسہ کے علاقے سے گیس اور تیل نکلتا ہے، علاقے میں موجود یورینیم کے استعمال سے پاکستان آج ایٹمی طاقت بن چکا ہے، روڑہ بجری، خاکہ اور پتھر کے تاجر کروڑوں روپے کما رہے ہیں الغازی ٹریکٹر پلانٹ فیٹ ٹریکٹر اور ڈی جی سیمنٹ (DG Cement)اس علاقے کی پہچان ہے، اندرون ملک سفر کے ليے ریل، بسوں اور ویگنوں سے ملک کے چاروں صوبوں سے رابطہ کیا جا سکتا ہے چلتن ایکسپریس کوئٹہ سے لاہور، لاہور سے کوئٹہ کے ليے براستہ ڈیرہ غازی خان چلتی ہے، خوشحال خان خٹک ایکسپریس کراچی سے پشاور اور پشاور سے کراچی براستہ ڈیرہ چلتی ہے۔ ڈیرہ غازی خان پاکستان کے چاروں صوبوں کے سنگم پر واقع ہے۔ جس کی وجہ سے یہاں ھر صوبے کے لوگ رہتے ہیں۔ ڈیرہ غازی خان میں اهل حدیث کا دینی ادارہ طلبہ کے قرآن مجید اور حدیث و ترجمہ کے لیے مرکز التوحید چوک چورهٹہ ڈیرہ غازی خان ہے جس کی بنیاد 1956 میں فضیلة الاستاد حاجی محمد موسی نے رکھی جس کی اب سرپرستی ڈاکٹر حافظ عبد الکریم صاحب وفاقی وزیر مواصلات وتعميرات کرتے هیں قاری عبد الرحیم کلیم اس ادارے کی دیکھ بھال کرتے هیں
میر چاکر خان رند اور چاکر اعظم کے تاریخ حسن خان چنے بلوچ کی زبانی
ترمیممیر چاکر رند یا چاکر اعظم صرف ایک نام یا ایک شخصیت نہیں بلکہ بلوچوں کی تہذیب و ثقافت، تاریخ و تمدن، معیشت و معاشرت، اخلاق و عادات، بہادری و جوانمردی، جوش و جذبہ، گفتار و کردار، ایثار م قربانی، ایفائے عہد اور انتقام کا نام ہے۔ سردار میر چاکر رند خود بھی بہادر تھے اور بہادر دوستوں ہی کی نہیں بلکہ دشمنوں کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور بقول میر چاکر "بہادروں کا انتقام بھی مجھے پیارا ہے جو میرے اونچے قلعوں پر حملہ کرنے کی ہمت رکھتے ہیں" میر چاکر خان مکران کے قیام کے دوران اپنی ابھرتی جوانی میں ہی قوم میں مقبول ہو گئے تھے۔ قلات پر حملے کے دوران بہادری کے وہ جوہر دکھائے کہ لوگ انگشت بدنداں رہ گئے۔ میر شہک کے انتقال کے بعد پورے رند علاقوں کا حکمران انکا بیٹا میر چاکر تھا اور رندوں کی تاریخ کا سنہری دور تھا لیکن اس دور کا اختتام اتنا تاریک اور عبرت انگیز ہے کہ میر چاکر کے آخری دور میں نہ صرف رند بلکہ پوری بلوچ قوم اس طرح منتشر ہوئی کہ آج تک دوبارہ اکھٹی نہ ہو سکی میر چاکر کا دور بلوچوں کا عروج اور خوشحالی کا دور تھا اور آج بھی بلوچ قوم کا اجتماعی طور پر ہیرو میر چاکر رند ہے اور آج بھی میر چاکر کا نام عزت و احترام سے لیتے ہیں بقول میر چاکر "مرد کا قول اس کے سر کے ساتھ بندھا ہے" اور میرچاکر اپنے قول کا دھنی تھا اپنے قول کے مطابق ایک مالدار عورت "گوھر" کو امان دی اور اس کی حفاظت کف لیے جان کی بازی لگا دی اور اپنے ہی بھائیوں لاشاریوں سے جنگ کی جو تیس سالہ کشت و خون میں بدل گئی اور یہی جنگ کئی نامور رند اور لاشاریوں کو خاک و خون میں نہلا گئی جن میں میر چاکر کے دو نوجوان بھائیوں کے علاوہ میرھان، ھمل، جاڑو، چناور، ھلیر، سپر،جیند، بیبگر، پیرو شاہ اور دیگر سینکڑوں بہادر بلوچ شامل تھے بلوچوں کی معاشرتی زندگی میں وعدہ خلافی کے علاوہ جھوٹ بولنا معیوب سمجھا جاتا ہے خاص کر اگر وہ رند بلوچ ھو بقول چاکر خان رند کے "سچ بولنا بلوچوں کا شیوہ ہے اور جھوٹ ایمان کی کمزوری کی نشانی ہے" بلوچ معاشرے میں جو کوئی جھوٹ بولے اور وعدہ خلافی کرے تو انکے معاشرے میں کوئی مقام و عزت نہیں ہوتی اور ان کی نظر میں وہ شخص زندہ نہیں بلکہ مردہ ہے اور رندوں کی ایک کہاوت ہے کہ"مرے ہوۓرند کو کوئی راستہ نہیں ملتا دونوں طرف سے انکی زندگی اسیر ہے" بلوچ لوگ بالخصوص رند بلوچ لوگ عورتوں اور بچوں پر کبھی ہاتھ نہیں اٹھاتے، مہمان اور مہمان نوازی بلوچ معاشرے کا ایک لازمی حصہ ہے اور مہمانوں کو خدا کا نعمت سمجھتے ہیں سردار چاکر خان رند کی تاریخ پیدائش کا مختلف روایات ہیں ان میں سب سے زیادہ معتبر 1486ء اور قلات کو 1486ءفتح کیا کہ در آن وقت سردار چاکر کی عمر صرف 16 سال تھی اور سال 1488ء میں سبھی پر قبضہ کیا اور اسی سال میر شہک وفات پا گئے اور رند اور لاشار کی تیس سالہ جنگ کا آغاز سال 1489ءمیں شروع ھوا جو 1519ءمیں اختتام پزیر ہوا 1520ء میں میر چاکر ملتان کی روانہ ہوئے اور 1523ء میں مستقل طور پر ستگھڑہ میں قیام کیا اور 1555ءمیں ہمایوں کے ساتھ دہلی پر حملہ آور ہوئے اور شیر شاہ سوری کے جانشینوں کو شکست دے کر دہلی فتح کیا اور 1565ءمیں یہ عظیم قائد اس دنیاے فانی کو چھوڑکر خالق حقیقی سے جا ملے اور بمقام ستگھڑ میں دفن ہوئے۔
لبنان کا انتخابی معرکہ اور حزب اللہ کا گھیراؤ تحریر حسن خان جنگوانی بزدار
ترمیملبنان کی صورت حال پر ایک تازہ نظر کی ضرورت محسوس کی، کیونکہ لبنان میں عام انتخابات کا میدان سج چکا ہے۔ ایک سو اٹھائیس اراکین پر مشتمل لبنان کے قانون ساز ادارے (پاکستانی سیاسی اصطلاح میں قومی اسمبلی) مجلس النواب کے لیے 6 مئی 2018ء کو عام انتخابات بہت ہی زیادہ اہمیت کے حامل ہیں، کیونکہ پچھلے انتخابات 7 جون 2009ء کو ہوئے تھے اور اب تقریباً نو سال بعد اس کا انعقاد ہو رہا ہے۔ لبنان میں یونی کیمرل (یک ایوانی) پارلیمانی نظام نافذ ہے اور اس کی یونی کیمرل پارلیمان (مجلس النواب) کے اراکین کو چار سال کی مدت کے لیے عوام ایک پیچیدہ انتخابی نظام و طریقہ کار کے ذریعے منتخب کرتے ہیں اور اس مرتبہ پہلے سے زیادہ پیچیدہ طریقہ کار بنایا گیا ہے۔ مطلب یہ کہ 2009ء کے بعد 2013ء اور اس کے بعد 2017ء میں یعنی دو عام انتخابات ہونے چاہئیں تھے، لیکن بیرونی سازشوں اور اندرونی اختلافات کی وجہ سے نہ صرف انتخابات نہ ہو پائے بلکہ صدر مملکت کا انتخاب بھی نہ ہو پایا۔ لبنان کا سیاسی تعطل بڑی مشکل سے اس وقت ختم ہوا، جب میشال عون کو صدر منتخب کرکے ایک مخلوط حکومت قائم کی گئی، جس میں سعد حریری وزیر اعظم بنے تو حزب اللہ بھی حکمران اتحاد کا حصہ بنی۔ ویسے تو دنیا میں رائج مخصوص سیاست اور خاص طور پارلیمانی و انتخابی سیاست ہے ہی ایسی کہ اس میں تنقید برائے تنقید اور اختلاف برائے اختلاف اور ایک دوسرے پر الزامات کی جنگ ایک جزو لاینفک بن چکی ہے، لیکن لبنان جیسے بہت ہی چھوٹے ملک جس کی خانہ جنگی کی ایک طویل تاریخ رہی ہے، وہاں بیہودہ الزامات اور بے جا تعصبات نے سیاسی فضاء کو کچھ زیادہ ہی کشیدہ کر دیا ہے۔
لبنان کی سیاست میں ایک طویل عرصے سے دو بڑے واضح مگر متضاد سیاسی رجحانات کی حامل قیادتیں اور جماعتیں اپنا وجود رکھتی ہیں اور اس کے پیچھے عشروں سے نافذ غیر عادلانہ مذہبی و مسلکی تقسیم پر مبنی سیاسی نظام کا کردار اپنی جگہ، لیکن عالمی سامراج امریکا، اس کی ناجائز ٹیسٹ ٹیوب بے بی (جعلی ریاست اسرائیل) اور ان کے اتحادیوں کا کردار بھی کچھ کم نہیں ہے۔ ایک قیادت و جماعت حزب اللہ کی صورت میں وجود رکھتی ہے، جو لبنان کی کمزور ریاست اور منقسم قوم کو اسرائیل کے حملوں سے بچانے کے لیے ناقابل فراموش قربانیاں اور کارنامے انجام دے چکی ہے اور جس کا اعتراف صرف دوست اور حامی نہیں بلکہ مخالف اور دشمن بھی کرتے آئے ہیں، لیکن سازشانہ ذہنیت اور اغیار کی غلامی پر آمادہ ایک طبقہ ایسا ہے، جسے اسرائیلی بلاک کے مفاد میں نیابتی جنگ کا ایندھن بننے کا شوق بھی ایک طویل عرصے سے ہے۔ اس بلاک میں فرانس اور برطانیہ بھی شامل ہیں تو اب سعودی عرب بھی کھل کر اسرائیل کا مفاد پورا کر رہا ہے، جس کی صرف ایک چھوٹی سی لیکن تازہ ترین مثال بھارتی طیاروں کو براستہ سعودی عرب، اسرائیل تک فضائی سفر کرنے کی اجازت مل چکی ہے اور پہلی فلائٹ جا چکی ہے۔ یہ وہی سعودی عرب ہے، جس نے ایران اور قطر کے لیے اپنی فضائی حدود استعمال کرنے پر پابندی لگا دی ہے۔
سبھی کو معلوم ہے کہ بین الاقوامی و علاقائی صورت حال ایسی ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ جنگجو انتہا پسندوں کو اہم حکومتی عہدے دے کر کسی نئی مہم جوئی کے لیے پر تول رہے ہیں اور سعودی عرب خود برادر کشی کی بدترین نظیر قائم کر چکا ہے کہ یمن میں یکطرفہ بلاجواز جنگ مسلط کرکے عرب مسلمانوں کا قتل عام کر رہا ہے، قطر کے عرب مسلمانوں اور ایران کے عجمی مسلمانوں پر پابندیاں لگا چکا ہے اور حزب اللہ کے خلاف امریکا و اسرائیل کی نیابتی جنگ (یعنی بیگانی شادی میں عبد اللہ دیوانہ) کا کردار ادا کر رہا ہے، اس لیے لبنان کے یہ عام انتخابات اور زیادہ اہمیت اختیار کرگئے ہیں۔ اسرائیلی بلاک براہ راست بھی اور سعودی حکومت کے ذریعے بھی لبنان کے عام انتخابات میں حزب اللہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف اپنے مہروں کو میدان میں اتار چکا ہے، لیکن حزب اللہ کے مخالفین خود آپس میں بھی بہت سے حلقوں میں ایک دوسرے کے خلاف ہی صف آراء ہیں، کیونکہ فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ، یعنی انکی ڈوریں ہلانے والے متبادل ترجیحات بھی رکھتے ہیں۔ البتہ بیرونی دشمنوں اور ان کے نیابتی کرداروں کی تمام تر توانائیاں جس ایک نکتے پر مرکوز ہیں یا یوں کہیں کہ حزب اللہ کے مخالفین کا بنیادی ہدف بعلبک و ھرمل میں شیعہ خواص کے ذریعے حزب اللہ کے خلاف صف آرائی اور محاذ آرائی ہے۔ اس سلسلے میں دو معمم حضرات پیش پیش رہے ہیں، جیسے محمد علی ال حسینی جو حزب اللہ کے خلاف ہیں اور انہیں اسرائیل میڈیا میں بھرپور کوریج ملی اور بعلبک ھرمل میں اب شیخ عباس جوھری حزب اللہ کی مخالفت میں انتخابات میں اترے ہیں اور جنہیں گرفتاری کے فوری بعد خصوصی طریقہ کار اختیار کرکے رہا کروایا گیا۔
لبنان کے موجودہ وزیر داخلہ نھاد مشنوق نے بیروت میں حزب اللہ اور دیگر کے انتخابی اتحاد پر منفی رد عمل ظاہر کرکے حزب اللہ کے خلاف منفی و توہین آمیز بیان دیا ہے۔ مشنوق کا تعلق سعد حریری کی جماعت تیار المستقبل سے ہے۔ یاد رہے کہ وزارت داخلہ کے ذیلی ادارے کے تحت ہی انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے۔ حزب اللہ کے ایک اور مخالف سیاست دان طرابلس کے اشرف ریفی (سابق وزیر انصاف اور سابق پولیس سربراہ) نے سنی عربوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے الگ انتخابی پلیٹ فارم کا اعلان کیا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ انکے بھی سعودی عرب سے بہت اچھے اور قریبی تعلقات ہیں۔ انہوں نے سعد حریری پر شدید تنقید کی ہے جبکہ سعد حریری کے خلاف سابق وزیر اعظم (سنی عرب سیاست دان) نجیب میقاتی نے بھی بیان جاری کیا ہے۔ اسی طرح القوات اللبنانیہ کے سربراہ سمیر جعجع جنہوں نے ماضی میں علانیہ اسرائیل کی نیابتی جنگ لڑی، وہ بھی بہت سے اتحادیوں کے موقف سے اتفاق نہیں کرتے، لیکن حزب اللہ کی مخالفت کو قدر مشترک مان کر کہیں کہیں ایک دوسرے کا ساتھ دے رہے ہیں تو کہیں ایک دوسرے پر تنقید کر رہے ہیں۔ یعنی انتخابی صف بندی دلچسپ بھی ہے اور حیران کن بھی! لگ ایسا رہا ہے کہ سعودی عرب طرابلس میں اشریف ریفی و میقاتی کے گروپوں کو ترجیح دے سکتا ہے۔
سوشل میڈیا پر حزب اللہ کی کردار کشی تو طویل عرصے سے جاری ہے، لیکن اس مرتبہ فیس بک انتظامیہ نے امریکا اور اسرائیل کی خوشنودی کے لیے حزب اللہ لبنان کا عام انتخابات کے لیے بنایا گیا فیس بک پیج ’’نحمی و نبنی الانتخابات النیابیہ‘‘ بند کر دیا ہے۔ طرابلس میں سعد حریری نے تقریر میں حزب اللہ پر تنقید کی، جبکہ حزب اللہ کے دو رہنما (دونوں علمائے دین) شیخ نبیل قاووق اور شیخ علی دعموش کے بیانات سامنے آچکے ہیں کہ سعودی حکومت اور لبنان کا سعودی سفارتخانہ لبنان کے اندرونی معاملات اور انتخابات سے متعلق معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں۔ شیخ قاووق کے مطابق سعودی عرب لبنانیوں کو ایک دوسرے کے خلاف اکسا رہا ہے اور سعودی عرب کا ہدف یہ ہے کہ لبنان کی اندرونی سیاسی صورت حال کو بدلنا چاہتا ہے، اسی لیے حزب اللہ کے مخالفین کی انتخابات میں مدد کر رہا ہے۔ جیسا کہ پہلے اشارہ کیا کہ سعودی و اسرائیلی بلاک کا ایجنڈا یہ ہے کہ حزب اللہ کے مضبوط گڑھ بعلبک ھرمل میں سیکولر لبرل شیعہ اور مذہبی شیعہ خواص کو حزب اللہ کے خلاف کامیاب کروایا جائے، اس سلسلے میں سمیر جعجع اور سعد حریری کی جماعتوں نے بعلبک ھرمل سے اپنے اتحاد کی فہرست میں چھ شیعہ امیدواروں کو حزب اللہ کے خلاف کھڑا کیا ہے۔ بعلبک ھرمل لبنان کے پندرہ انتخابی اضلاع میں سے ایک ضلع ہے، جس کی مجلس النواب میں کل دس نشستیں ہیں اور ان دس میں سے 6 نشستیں شیعہ مسلمانوں کے لیے مخصوص ہیں، دو نشستیں سنی اور ایک ایک نشست مارونی اور کیتھولک مسیحیوں کے لیے ہے۔
یاد رہے کہ لبنان کے سیاسی نظام میں صدر کا عہدہ مسیحی مارونی لبنانی، وزیر اعظم کا عہدہ سنی عرب اور مجلس النواب کے رئیس (اسپیکر قومی اسمبلی) کا عہدہ شیعہ اثناء عشری کے لیے مخصوص ہے۔ لبنان کی سیاست کے اہم مسیحی مارونی خاندانوں میں فرنجیہ اور جمایل (جمیل) اور شخصیات میں ان خاندانوں کی شخصیات کے علاوہ حزب اللہ کے اتحادی موجودہ صدر میشال عون، انکی جماعت فری پیٹریاٹک موومنٹ کے سربراہ اور انکے داماد جبران باسل (موجودہ وزیر خارجہ) اور خود سمیر جعجع جیسے لوگ شامل ہیں اور یہ شخصیات اور جماعتیں دونوں قسم کے سیاسی رجحانات میں تقسیم ہیں، جیسے کہ لبنان کے دیگر اہم سیاست دان ہیں۔ اس عام انتخابات کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ اس میں سابق وزیر اعظم تمام سلام، موجودہ وزیر (دروز سیاست دان) مروان محمد علی حمادہ اور نبطیہ کے سیکولر شیعہ سابق وزیر یاسین کامل جابر بھی رکن پارلیمان بننے کے مقابلے میں کھڑے ہوئے ہیں، اسی طرح پرانے سیاست دانوں کی اولادیں جیسا کہ ولید جنبلاط نے اپنے بڑے بیٹے تیمور کو جانشین بناکر میدان میں اتارا ہے اور اسی طرح جبران توینی کی بیٹی میشال توینی، سابق لبنانی صدر سلیمان فرنجیہ کے پوتے طونی فرنجیہ، پہلی مرتبہ انتخابات کے میدان میں اترے ہیں۔ تیمور جبنبلاط شوف و عالیہ کے انتخابی حلقے میں سعد حریری اور سمیر جعجع کے اتحادی ہیں۔ ولید جنبلاط کے خیال میں انتخابات سے تبدیلی تو ممکن نہیں، لیکن نئے چہرے آکر کچھ تحرک دکھا سکتے ہیں، جبکہ جعجع کی نظر میں انتخابات ہی تبدیلی کی کنجی ہیں۔
لیکن حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ کی نظر میں مالی بدعنوانیوں کا خاتمہ سب سے زیادہ اہم ہے۔ انکی نظر میں سابق وزرائے اعظم لبنان پر قرضوں میں اضافے کے ذمے دار ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ وہ ذاتی طور بدعنوانی کے خلاف میدان میں اتریں گے۔ انہوں نے لبنان کی قومی فوج کی حمایت کی۔ حزب اللہ نے بعض حلقوں میں
میشال عون یا جبران باسل کی جماعت سے انتخابی اتحاد یا ایڈجسٹمنٹ کی ہے تو کہیں اسپیکر نیبہ بری کی حرکت الامل سے ناتا جوڑا ہے۔ نبیہ بری کہتے ہیں کہ عام امتخابات میں مقابلہ دشمن اسرائیل سے ہے۔ حزب اللہ بھی یہی سمجھتی ہے کہ دشمن اسرائیل ہے اور تکفیری دہشت گرد بھی خاص طور پر داعش دشمن ہے اور تکفیریوں کے حامی حزب اللہ اور انکے اتحادیوں کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔ لبنان سمیت پوری دنیا میں اس وقت ماہرین متذبذب ضرور ہیں، لیکن سبھی یہ سمجھتے ہیں کہ امریکی حکومتی عہدیداروں کی تبدیلیاں اور لبنان کے اطراف کے خطے کی صورت حال اس عام انتخابات پر بہت زیادہ اثر انداز ہوگی، جبکہ حزب اللہ کے مخالف بلاک کے سیاست دان ولید جنبلاط نے بھی ایک انٹرویو میں اعتراف کیا ہے کہ اگر جنگ ہوئی تو اسرائیل جیت نہیں سکے گا، کیونکہ اسلامی مقاومت (حزب اللہ) اس کا مقابلہ کرے گی، جیسا کہ پہلے کرچکی ہے۔ لبنان کی معروف خاتون صحافی مونا العالمی جو اٹلانٹک کاؤنسل کے رفیق حریری سینٹر فار دی مڈل ایسٹ کی نان ریزیڈنٹ فیلو ہیں، کو 28 فروری 2018ء کو اپنے مقالے میں یہ اعتراف کرنا پڑا (حالانکہ یہ بھی جزوی سچ ہی ہے، مکمل نہیں کیونکہ حزب اللہ پورے لبنان کابلا تفریق دفاع کرتی ہے اور پوری مملکت میں دشمنوں کا مقابلہ کرتی ہے): Hezbollah's power and resilience at the Lebanese level is not only derived from its military might and Tehran's constant backing, but more importantly, from the tireless support of its Lebanese Shia Muslim community base. The allegiance of Lebanese Shia to Hezbollah is widely known to be rooted in the party's capability to win hearts and minds through its social program and the organization's nearly forty year struggle against Israel and more recently its war on terror."
انتخاب وقت پر ممکن نہیں
ترمیمآرمی چیف اور چیف جسٹس کا ایکا، عام انتخابات وقت پر نہیں بلکہ اب کب ہونگے؟خبر نے ہلچل مچا دی
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)عام انتخابات 2018کے انعقاد میں تاخیر، آرمی چیف اور چیف جسٹس ایک پیج پر، کیا عندیہ دیدیا۔ تفصیلات کے مطابق عام انتخابات 2018کے انعقاد کے حوالے سے آرمی چیف اور چیف جسٹس دونوں ایک پیچ پر نظر آ رہے ہیں۔ دونوں کی جانب سے انتخابات میں تاخیر کا عندیہ دیا گیا ہے۔ آرمی چیف سینئر صحافیوں اور اینکرز سے ملاقات میں تکنیکی وجوہات کی وجہ سے الیکشن انعقاد مقررہ وقت سے چند ہفتے تاخیرکا کہہ چکے ہیں جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان حلقوں کی حد بندیوں کی وجہ سے انتخابات میں تاخیر کا اشارہ دے چکے ہیں۔
ان کے مطابق حلقہ کی حد بندیوں کا معاملہ ابھی تک حل نہیں ہوا اس لیے انتخابات میں تا خیر ہو سکتی ہے۔ دوسری جانب الیکشن کمیشن کے مطابق انتخابات میں تاخیر کی کوئی ٹھوس وجہ نہیںاس لیے انتخابات وقت پر ہونگے۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز نواز شریف الیکشن کے بروقت انعقاد کو یقینی بنانے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ Tribalnews (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 06:56، 29 مارچ 2018ء (م ع و)
== تاریخ بلوچستان پیش کش حسن جنگوانی بلوچ ==
برصغیر ہندو و پاک کا نقشہ ، سر زمین ایشیا جہاں کئی متضاد ثقافتوں اور تہذیبوں کا گہوارہ ہے وہیں جغرافیائی طور پر بھی گوناگوں خصوصیات کی حامل سر زمین ہے۔ یہ وہ خظہ ہے جہاں انسانی تہزیبوں نے سب سے پہلے جنم لیا تھا ایشیا کا نقشہ اگر دیکھیں تو سر زمین ایشیا کو دنیا کے سب سے اونچے پہاڑی سلسلے نے دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے شمال میں ہمالیہ کی بلند ترین چوٹیوں سے جنوب میں عظیم میدانوں، غیر آباد وسیع صحراؤں اور منطقہ حارہ کے گھنے جنگلات اور ناریل کے درختوں سے سجے ساحلوں تک ہر علاقہ اس سرزمین کی رنگا رنگی میں اضافہ کرتا جاتا ہے۔ جنوبی ایشیا کے شمال میں ایک عظیم سلسلہ کوہ ہمالیہ ہے جو برف سے ڈھکی ایک عظیم دیوار کی طرح ایستادہ ہے اور اسے براعظم ایشیا کے دیگر علاقوں سے جدا کرتا ہے۔ ہمالیہ نقشے میں ایک کمان کی طرح نظر آتا ہے۔ دریائے سندھ، گنگا اور برہم پترا کے عظیم زرخیز میدان اور ڈیلٹائی علاقے ان پہاڑی علاقوں کو جزیرہ نما سے الگ کرتے ہیں۔ وسط میں دکن کی عظیم سطح مرتفع ہے جس کے دونوں جانب ساحلوں کے ساتھ ساتھ مشرقی گھاٹ اور مغربی گھاٹ نامی دو پہاڑی سلسلے ہیں۔ ایشیا سے ایشیا کے جنوب مشرقی ایشیا میں داخلے کے لیے اور ہمالیہ پہاڑ کو عبور کرنے کے لیے ہمیں صرف دو ہی راستے ملیں گے ایک برصغیر ہندو پاک کے مغرب میں دریائے سندھ کے مغرب میں واقع تمام خطے کے ذریعے جو پاکستان کے پانچوں صوبوں سے گزرتے ہوئے ملیں گے دوسرا برصغیر کے مشرق میں بدوسری جانب بنگلہ دیش کے انتہائی شمال مشرق میں واقع راستے ہیں ان دونوں راستوں میں ایران اور سینٹرل ایشیا سے برصغیر میں داخلے کا راستہ انتہائی سہل اور آسان اور محفوظ راستہ ہے جس پر تمام پاکستان کے چاروں ہی صوبے واقع ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ ہزاروں برس سے وسط ایشیا ایران اور یورپ کے حملہ آورں نے پاکستان کے چاروں صوبوں میں واقع کسی نہ کسی راستے کو برصغیر میں داخلے کا ذریعہ بنایا ہے جبکہ برصغیر سے وسط ایشیا ایران جانے کے لیے پاکستان کے صوبہ پنجاب یا سندھ سے ہی گزر کر صوبہ پختون خواہ یا بلوچستان میں سے گزرتے ہوئے ایران یا وسط ایشیا کا رخ کیا گیا ہے جیسا کہ وسط ایشیا سے آریائی حملہ آور برصغیر میں داخلے کے لیے پہلے پاکستان مین داخل ہوئے یہاں انہوں نے ایک طویل مدت اپنے آپ کو اس خطے میں قدم جمانے صرف کی جس کے بعد آریا قبائل دریائے سندھ کو عبور کرکے برصغیر میں داخل ہوئے سکندر اعظم نے برصغیر سے ایران واپسی بھی بلوچستان کے راستے اختیار کی یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان کے تمام ہی علاقوں میں کسی نہ کسی بیرونی قوم کی حکمرانی رہی ہے جیسا کہ ڈھائی ہزار سال قبل یا تین ہزار سال قبل ، ساتویں صدی سے دسویں صدی تک یہ علاقہ عربوں کے زیر حکومت رہا، سترویں صدی کے اوائل میں یہاں پر مغل حکومت قائم ہوئی،جس کے زوال کے دوران ایران کے نادر شاہ افشار نے بلوچستان کے ان علاقوں پر قبضہ جما لیا نادر شاہ افشار کے قتل کے بعد احمد شاہ ابدالی نے اپنی حکومت قائم کی یہ بات واضح رہے کہ احمد شاہ ابدالی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی پیدائیش ملتان شہر کی ہے احمد شاہ ابدالی کی حکومت قائم ہونے کے نتیجے میں بلوچستان کی تمام ہی ریاستِیں قلات خاران،مکران ،لسبیلہ،اور سبی کے قبائلی علاقہ جات جن میں مری بگٹی اور دیگر قبائل شامل ہیں سب افغانستان کا حصہ بن گئے اگر چہ کہ افغانستان کی مانند بلوچستان مقامی قبائلی سرداروں کے زیر حکومت رہا جن میں خوانین قلات اہم تھے مگر اس کے باوجود یہ سب افغان بادشاہوں کے ماتحت تھے ،
افغان جنگ کے دوران یہاں انگریزوں کا قبضہ ہو گیا، 1876، 1879 اور 1891 کے معاہدوں کے مطابق شمالی علاقہ جن کو بعد میں برٹش کو بلوچستان کہا گیا کو برطانوی کنٹرول میں دے دیا گیا،
کوئٹہ میں ملٹری بیس قائم کر دیا گیا 1947 میں اس علاقہ کو پاکستان میں شامل کر دیا گیا،1970 میں بلوچستان کو صوبے کا درجہ ملا۔ 1976، میں حکومت پاکستان نے سرداری نظام کا خاتمہ کرکے کنٹرول اپنے ہاتھ لیا، جس کے باعث حکومت کے خلاف تحریکوں کا آغاز ہوا، اس علاقہ مین چند چھو ٹی بڑی قبا ئلی شورشیں بھی ہوئیں܂ حکومت اور متحارب گروپوں میں 2004 میں گوریلا جنگ دوبارہ پھوٹ پڑئ، جس کئی وجہ بلوچستان کے مختلف وعلاقوں میں ملٹری کی تنصیبات میں اضافہ اور بڑی تعداد غیر مقامی افراد کی تعداد میں اضافہ، بتایا جاتا ہے
جب کہ بہت سے بلوچ دانشوروں کے مطابق ان لڑائیوں کی اصل وجہ یہ ہے کہ بلوچستان میں سڑکوں کے جال بچھ جانے کے نتیجے میں اور جدید مواصلاتی ذرائع کی موجودگی کے باعث عوام کے اندر شعور پیدا ہو رہا ہے آج سے بیس سال قبل تک مقید اور کمزور بلوچ کسان اور زمیندار کی پیداوار ان جدید سڑکوں کے ذریعے جہاں کراچی لاہور اور
اسلام آباد کی منڈیوں تک پہنچ رہی ہے وہیں یہ بے بس اور کمزور کسانوں اور چھوٹے زمینداروں کی رسائی اپنے علاقے سے باہر تک ہونے لگی ہے اب ان علاقوں میں تعلیم رائج ہورہی ہے جس کے نتیجے میں ان کے اندر شعور بھی بیدا ہو رہا ہے بلوچ عوام کی اکثریت جو کل تک ان سرداروں کے آگے مجبور اور بے بس تھے اب ان بے بس اور مجبور عوام کے اندر اپنے حقوق کے حصول کا احساس پیدا ہو رہا ہے یہ بات بہت ہی دلچسپ اور اہم ہے کہ 1973 سے لے کر1977 تک بلوچستان میں برپا کی جانے والی لڑائی جسے بغاوت کا نام دیا گیا تھا اس کے بیشتر قائدین اور وہ افراد جنہیں بلوچ آزادی کا مجاہد کہا جاتا ہے وہ سب کے سب اس وقت اپنے سرداروں کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں یا اگر وہ اس دنیا میں نہیں رہے ہِں تو ان کا آخری وقت حکومت پاکستان کی بجائے اپنے سرداروں کے خلاف جنگ اور اپنے قبیلے کے اندر سرداری نظام کے کی جنگ میں گزرا ہے جیسا کی مری قبیلے کے مشہور گوریلا لیڈر جنرل شیروف عرف میر محمد مری کا معاملہ ہے انہوں نے مری قبیلے کے سردارنواب کیر بخش مری کی خاطر ہر طرح کی قربانی دی میدانوں پہاڑوں میں جلاوطنی کے دنوں کے دوران سخت ترین زندگی گزاریہر طرح کی قربانی دی قبیلہ صوبہ وطن چھوڑ کر پاکستان سے باہر گئے مگر جب انہوں نے یہ دیکھا کہ سردار خیر بخش مری اور دیگر سردار مری عوام کے حقوق ادا نہیں کر رہے ہیں تو انہوں نے قبیلے کی روایات کے مطابق جرگے میں اعلان کیا کہ قبیلے کی زمینیں اور پہاڑ قدیم روایات کے مطابقپورے قبیلے کی ملکیت ہوتا ہے ان سے استفادے کاحق بھی قبائیلی افراد کو ہوتا ہے جنرل شیروف میر محمد مری کی یہ بات نواب خیر بخش مری اور ان کے ساتھی برداشت نہیں کرپائے اس کے نتیجے میں سردار خیر بخش مری کے اشارے پر پاکستان کے خلاف بگاوت کرنے والے جنرل شیروف میر محمد مری نے سردار خیر بخش مری اور اور کے ساتھیوں کے خلاف بغاوت کردی جس کے نتیجے میں مری قبائیل میں اس بگاوت کی ابتدا ہوئی جو آج تک جاری ہے اسی طرح مینگل قبیلے میں سردارعطا اللہ مینگل کے اہم ساتھی میر نصیر مینگل اب ان کے خلاف بغاوت کرچکے ہیں جبکے بگٹی قبیلے کے اندر کلپر اور مسوری قبیلے کے افراد کی نواب اکبر بگٹی کے خلاف بغاوت تو اب تک جاری ہے اس وقت تمام ہی بلوچ قبائل میں اس طرح کی کیفیات جاری ہیں جاری ہے
مقا می قبا ئل کے آپس میں زاتی جھگڑے اور مسئلے بھی ہیں
2007 میں اس علاقے میں آنے والے سائکلون نے شدید تباہی پھیلائ اور کم از کم 800،000 لوگوں کو متاثر کیا یہ شہر ڈویژنل اور ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اور اہم تجارتی اور کمیونیکیشن مر کز ے جو وادئ شال کے شمالی حصے میں سطح سمندر سے 5،500 فٹ کی بلندی پر واقع ہے܂ کوئٹہ کا علاقہ 1876 میں برطانوی کٹر ول میں تھا܂ سر رابرٹ سنڈیمن نے یہاں پر رزیڈنسی قائم کی ܂ شہر یہاں کے مضبوط ملٹری گیریزن کے ارد گرد قائم ہوا اور اسے 1897 میں میونسپلٹی میں شامل کیا گیا܂ یہاں آرمی کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج 1907 میں کھلا܂ مئ 1935 میں آنے والے شدید زلزلے نے کوئٹہ شہر کو تہس نہس کر دیا اور تقریب 20،000 جانوں کا زیاں ہوا܂ اب یہ علاقہ مغربی افغانستان ، مشرقی ایران اور وسطی ایشیا کے کچھ حصوں کے لیے تجارتی مرکز ہے܂ یہاں کے انڈسٹریز میں کاٹن مل سلفر ریفائنری، تھرمل پاور اسٹیشن پھلوں کے باغات شامل ہیں܂ کوئٹہ میں جیو فزیکل انسٹی ٹیوٹ، جیو لوجکل سروے، سنڈ یمن لائبریری، دو گورنمنٹ کالجز جو پشاور یونیورسٹی سے الحاق شدہ ہیں܂ بلوچستان یونیورسٹی Tribalnews (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 07:09، 29 مارچ 2018ء (م ع و)
شجرہ بلوچ
ترمیمEditWatch this pageRead in another language بلوچ قبائل کی فہرست Page issues
میں شائع کریں
بلوچ قبائل کی فہرست درج ذیل ہے :
ا
آخوند آسکانی۔ رند احمد زئی۔ قمبرانی۔ مروانی احمدانی۔ رند امیری اعظم خیل۔ لاشاری الکانی۔ رند الکانی۔ لاشاری آخوندانی۔ لاشاری المانی اثرکانی۔ رند ب
بادینے-رند بگٹی۔ رند بجرانیرند بردی برھان زئی۔ رند بامری۔ لاشاری بجوئی۔ زھری برمانی بھنگوار بجکانی بدو زئی۔ بنگلزئی بھنڈ۔ کولاچی بزنجو۔ رند بادینی۔ راخشانی بنگلزئی۔ رند بارکزئی۔ بارنزئی باران بارازانی باکھرانی۔ رند بار بھرگری بحرانی بلیدی برفات بزدار۔ رند بھوتانی بابرانی۔ رند بنگلانی۔ لاشاری بہارمانیْلاشاری بلنوشی سید پ
پسوئی پرکانی پتافی پندرانی پراکزئی پردل پیروزئی۔ رند پیروزانی۔ بگٹی پھوز۔ رند پیرمحمدی۔ لاشاری ت۔ بنی تمیم التمیمی تہھیم بلوچ قبیلہ عرب
تھہیم تالپور۔ ہوت تنگوانی تمرانی۔ بزنجو تگرانی۔ رند ٹ
ث
ج
جتوئی جمالدینی۔ رخشانی جمالی جسکانی بلوچ بلوچ قبیلہ جکھرانی۔ ڈومکی جروار جلبانی۔ رند جاگیرانی جاتک جمالانی جکانی۔ رند جنگلانی۔ رند جمال زئی جادو وانی۔ رند جلال زئی جاسوری۔ رند جہتانی۔ لاشاری جاگووانیلاشاری جلالانی۔ لاشاری جمانی۔ کورائی جانی۔ کورائی جالمبانی جھنگیل۔ کھوسہ جدگال چ
چانڈیو یا چانڈیہ۔ ہوت چنگ چنگوانی چاکرزئی چھلگری چاکرانی۔ رند چک۔ لاشاری ح
حسنی۔ رند حالا زئی حاجی زئی حسبانی حسن زئی حیدرانی۔ رند حسنانی۔ رند حیروانی۔ لاشاری خ
خراسانی خشک خرانی خواجہ خیل۔ دہوار د
دریشک۔ رند دشتی۔ رند دستی درخانی۔ رند دہوار دودئی داہانی دینار زئی دہواری دامانی درا زئی دلاوری ڈ
ڈومکی۔ رند ڈاگر زئی ڈگرانی ذ
ذاگر۔ مینگل زینو زئئ۔ کولاچی ذرکانی۔ رند ذامو رانی ر
رند۔ اہم قبیلہ۔ میر رند خان۔ میر جلال خان بلوچ] راہیجہ۔ رند رئیس یا رئیسی۔ رند رخشانی رئیسانی ریکی یا رگی رودینی۔ میروانی رحیمی رحمان زئی رودنانی ریحانی ڑ
ز
زہری۔ زیرک بلوچ۔ رند زینو زئئ۔ کولاچی زہرو زئی زرداری ژ
س
سارونے-بادینے سلارزئی سنجرانی سربازی۔Baloch Tribes of Sarbaz Western Balochistan سراوانی سدوزئی سمازئی صفرانی سرمستانی سرپاڑھ ساسولی سربانی سبقیSabki سمالانی۔ میروانی سرانی سلاچی سہتانی سردار زئی ساجدی سنجرزئی ستک زئی سیال۔ رند سراب زئی سرگانی سندرانی۔ رند سارنگ سرگلزئی سفرزئی سعیدانی سارنگانی۔ رند سویرانی۔ لاشاری سالارانی۔ لاشاری سلمانی۔ لاشاری سنگیانی۔ لاشاری سہر ش
شاہوانی شار۔ رند شیر زئی شیرانی شامبے زئی شاہانی شہداد زئی شاہو زئی شاہی شاہی زئی۔ رند شاہسوار شہکانی۔ رند شاہدانی۔ لاشاری شاہنوازی شیرو زئی شاہنشاہی ص
صفرانی۔ رند ض
ط
طاہر زئی طمارانی ظ
ع
عمرزئی۔ رند عمرانی۔ رند علی زئی۔ دہوار علیانی۔ لغاری عباسانی۔ رند عبابانی غ
غزلانی بلوچ غزینی۔ مری غمشاد زئی غلامانی غمشاد زئی غلام بولک ف
فتح خانی ق
قمبرانی۔ میروانی قیصرانی۔ رند قلندرانی۔ میروانی قاضی قمبر زئی ک
کورائی۔ میر کورا خان، میرجلال خان بلوچ کلماتی۔ ہوت کلپر۔ بگٹی کلوئی کھدرانی۔ زہری کاشانی کندوخیل۔ لاشاری کلام زئی کینگزئی کلواہی کھیتران کھوسہ۔ کھوسو،ہوت کیازئی۔ محمد حسنی کیازئی -رند کبدانی کولاچی۔ ہوت کرد۔ رند کنرانی کلیری کہداہی کاہیری کنارا،کنیراخیل۔ لاشاری کلاتی۔ رند کندرانی کمالانی۔ لاشاری گ
گورچاني گرگناری۔ میروانی گشکوری۔ رند گڈانی گچکی گورگاگئ۔ رند گوشانی گہرام زئی گورمانی گولا گبول گلفاد گورچانیرند گوپانگ گجانی گازو زئی گرانی گلیانی ل
لاشاری۔ میر لاشارخان۔ میر جلال خان بلوچ لانگو لہری۔ ڈومکی لہرانی۔ مری لغاری۔ رند لنڈ۔ رند لالازئی لڈھکی۔ ہوت+رند م
میروانی۔ میرو میروانی بلوچ مری۔ رند [[مگسی لاشاری ملغانی۔ رند مندوانی۔ رند مصوری۔ بگٹی ماسودی مشوانی مزاری۔ ہوت+رند مینگل ماشوری میرانی۔ رند مبارکی مغیری محمد شاہی ملا ملازئی مندائی ملازئی۔ رند محمد حسنی مستوئی۔ رند موسیانی۔ زہری مندرانی۔ بگٹی محمد زئی مندوزئی میرو زئی۔ رند مزار زئی مزارانی۔ مری موسی زئی مکرانی Baloch Tribes of Makran Balochistan living in India ملنگزئی مریدزئی مزرانی محمود زئی مطاہر میردادی۔ رند محمدانی۔ رند مریدانی۔ رند میروادانی۔ لاشاری مبارکانی۔ لاشاری میرنانی۔ لاشاری منیانی۔ لاشاری مزارخانی۔ لاشاری مظفرانی۔ جتوئی ن
نوشیروانی نظامانی۔ رند نوہانی۔ رند نوتیزئی نوتکانی یا نتکانی۔ رند ناروئی نچاری۔ زہری نوتانی نادوانی۔ رند نابادیانی۔ لاشاری نہکانی۔ ہوت و
وڈیلا وڈانی۔ کھوسہ ہ
ہوت۔ میر ہوت خان،میرجلال خان بلوچ ھالہ زئی ہارونی ہوتک ہوتنزئی۔ رند ہستانی۔ رند ی
یالاں زئی۔ رند یراحماد زئی یوسف زئی۔ دہوار یوسفانی۔ رند تھہیم بگٹی رئیسانی رند غزلانی بلوچ کورائی گبول لغاری محمد حسنی مری مینگل کرد نوتکانی یا نتکانی چنگواني کینگزئی/کینہ زئی ح Tribalnews (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 07:14، 29 مارچ 2018ء (م ع و)
شجرہ بلوچ
ترمیمEditWatch this pageRead in another language بلوچ قبائل کی فہرست Page issues
میں شائع کریں
بلوچ قبائل کی فہرست درج ذیل ہے :
ا
آخوند آسکانی۔ رند احمد زئی۔ قمبرانی۔ مروانی احمدانی۔ رند امیری اعظم خیل۔ لاشاری الکانی۔ رند الکانی۔ لاشاری آخوندانی۔ لاشاری المانی اثرکانی۔ رند ب
بادینے-رند بگٹی۔ رند بجرانیرند بردی برھان زئی۔ رند بامری۔ لاشاری بجوئی۔ زھری برمانی بھنگوار بجکانی بدو زئی۔ بنگلزئی بھنڈ۔ کولاچی بزنجو۔ رند بادینی۔ راخشانی بنگلزئی۔ رند بارکزئی۔ بارنزئی باران بارازانی باکھرانی۔ رند بار بھرگری بحرانی بلیدی برفات بزدار۔ رند بھوتانی بابرانی۔ رند بنگلانی۔ لاشاری بہارمانیْلاشاری بلنوشی سید پ
پسوئی پرکانی پتافی پندرانی پراکزئی پردل پیروزئی۔ رند پیروزانی۔ بگٹی پھوز۔ رند پیرمحمدی۔ لاشاری ت۔ بنی تمیم التمیمی تہھیم بلوچ قبیلہ عرب
تھہیم تالپور۔ ہوت تنگوانی تمرانی۔ بزنجو تگرانی۔ رند ٹ
ث
ج
جتوئی جمالدینی۔ رخشانی جمالی جسکانی بلوچ بلوچ قبیلہ جکھرانی۔ ڈومکی جروار جلبانی۔ رند جاگیرانی جاتک جمالانی جکانی۔ رند جنگلانی۔ رند جمال زئی جادو وانی۔ رند جلال زئی جاسوری۔ رند جہتانی۔ لاشاری جاگووانیلاشاری جلالانی۔ لاشاری جمانی۔ کورائی جانی۔ کورائی جالمبانی جھنگیل۔ کھوسہ جدگال چ
چانڈیو یا چانڈیہ۔ ہوت چنگ چنگوانی چاکرزئی چھلگری چاکرانی۔ رند چک۔ لاشاری ح
حسنی۔ رند حالا زئی حاجی زئی حسبانی حسن زئی حیدرانی۔ رند حسنانی۔ رند حیروانی۔ لاشاری خ
خراسانی خشک خرانی خواجہ خیل۔ دہوار د
دریشک۔ رند دشتی۔ رند دستی درخانی۔ رند دہوار دودئی داہانی دینار زئی دہواری دامانی درا زئی دلاوری ڈ
ڈومکی۔ رند ڈاگر زئی ڈگرانی ذ
ذاگر۔ مینگل زینو زئئ۔ کولاچی ذرکانی۔ رند ذامو رانی ر
رند۔ اہم قبیلہ۔ میر رند خان۔ میر جلال خان بلوچ] راہیجہ۔ رند رئیس یا رئیسی۔ رند رخشانی رئیسانی ریکی یا رگی رودینی۔ میروانی رحیمی رحمان زئی رودنانی ریحانی ڑ
ز
زہری۔ زیرک بلوچ۔ رند زینو زئئ۔ کولاچی زہرو زئی زرداری ژ
س
سارونے-بادینے سلارزئی سنجرانی سربازی۔Baloch Tribes of Sarbaz Western Balochistan سراوانی سدوزئی سمازئی صفرانی سرمستانی سرپاڑھ ساسولی سربانی سبقیSabki سمالانی۔ میروانی سرانی سلاچی سہتانی سردار زئی ساجدی سنجرزئی ستک زئی سیال۔ رند سراب زئی سرگانی سندرانی۔ رند سارنگ سرگلزئی سفرزئی سعیدانی سارنگانی۔ رند سویرانی۔ لاشاری سالارانی۔ لاشاری سلمانی۔ لاشاری سنگیانی۔ لاشاری سہر ش
شاہوانی شار۔ رند شیر زئی شیرانی شامبے زئی شاہانی شہداد زئی شاہو زئی شاہی شاہی زئی۔ رند شاہسوار شہکانی۔ رند شاہدانی۔ لاشاری شاہنوازی شیرو زئی شاہنشاہی ص
صفرانی۔ رند ض
ط
طاہر زئی طمارانی ظ
ع
عمرزئی۔ رند عمرانی۔ رند علی زئی۔ دہوار علیانی۔ لغاری عباسانی۔ رند عبابانی غ
غزلانی بلوچ غزینی۔ مری غمشاد زئی غلامانی غمشاد زئی غلام بولک ف
فتح خانی ق
قمبرانی۔ میروانی قیصرانی۔ رند قلندرانی۔ میروانی قاضی قمبر زئی ک
کورائی۔ میر کورا خان، میرجلال خان بلوچ کلماتی۔ ہوت کلپر۔ بگٹی کلوئی کھدرانی۔ زہری کاشانی کندوخیل۔ لاشاری کلام زئی کینگزئی کلواہی کھیتران کھوسہ۔ کھوسو،ہوت کیازئی۔ محمد حسنی کیازئی -رند کبدانی کولاچی۔ ہوت کرد۔ رند کنرانی کلیری کہداہی کاہیری کنارا،کنیراخیل۔ لاشاری کلاتی۔ رند کندرانی کمالانی۔ لاشاری گ
گورچاني گرگناری۔ میروانی گشکوری۔ رند گڈانی گچکی گورگاگئ۔ رند گوشانی گہرام زئی گورمانی گولا گبول گلفاد گورچانیرند گوپانگ گجانی گازو زئی گرانی گلیانی ل
لاشاری۔ میر لاشارخان۔ میر جلال خان بلوچ لانگو لہری۔ ڈومکی لہرانی۔ مری لغاری۔ رند لنڈ۔ رند لالازئی لڈھکی۔ ہوت+رند م
میروانی۔ میرو میروانی بلوچ مری۔ رند [[مگسی لاشاری ملغانی۔ رند مندوانی۔ رند مصوری۔ بگٹی ماسودی مشوانی مزاری۔ ہوت+رند مینگل ماشوری میرانی۔ رند مبارکی مغیری محمد شاہی ملا ملازئی مندائی ملازئی۔ رند محمد حسنی مستوئی۔ رند موسیانی۔ زہری مندرانی۔ بگٹی محمد زئی مندوزئی میرو زئی۔ رند مزار زئی مزارانی۔ مری موسی زئی مکرانی Baloch Tribes of Makran Balochistan living in India ملنگزئی مریدزئی مزرانی محمود زئی مطاہر میردادی۔ رند محمدانی۔ رند مریدانی۔ رند میروادانی۔ لاشاری مبارکانی۔ لاشاری میرنانی۔ لاشاری منیانی۔ لاشاری مزارخانی۔ لاشاری مظفرانی۔ جتوئی ن
نوشیروانی نظامانی۔ رند نوہانی۔ رند نوتیزئی نوتکانی یا نتکانی۔ رند ناروئی نچاری۔ زہری نوتانی نادوانی۔ رند نابادیانی۔ لاشاری نہکانی۔ ہوت و
وڈیلا وڈانی۔ کھوسہ ہ
ہوت۔ میر ہوت خان،میرجلال خان بلوچ ھالہ زئی ہارونی ہوتک ہوتنزئی۔ رند ہستانی۔ رند ی
یالاں زئی۔ رند یراحماد زئی یوسف زئی۔ دہوار یوسفانی۔ رند تھہیم بگٹی رئیسانی رند غزلانی بلوچ کورائی گبول لغاری محمد حسنی مری مینگل کرد نوتکانی یا نتکانی چنگواني کینگزئی/کینہ زئی ح Tribalnews (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 07:14، 29 مارچ 2018ء (م ع و)
امریکا کے منہ میں رام رام بغل میں چھری
ترمیمدوستی کے پرفریب نعروں کے بعد امریکا کا سعودی عرب پر اب تک کا سب سے خطرناک وار، ایسا فیصلہ سنا دیا کہ کسی نے سوچا تک نہیں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے امریکا کے حالیہ دورہ کے موقع پر انتہائی پرتپاک استقبال کیا گیا، اس استقبال کے بعد تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکا اور سعودی عرب کے مابین تعلقات انتہائی خوشگوار ہو چکے ہیں، لیکن اب ایک امریکی عدالت نے ایسا فیصلہ دیا ہے جس سے دونوں ممالک کے تعلقات بگڑ بھی سکتے ہیں۔ امریکی عدالتوں میں نائن الیون دہشتگردی کے متاثرین کی جانب سے سعودی عرب کے خلاف مقدمہ قائم کرنے کی درخواستیں کئی سال سے زیر سماعت تھیں۔ سعودی عرب نے اپنی بھرپور کوشش کی کہ
امریکا کی عدالتیں اس کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہ کریں، مگر امریکا کے ایک جج نے فیصلہ سنایا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب کو بہرصورت نائن الیون دہشتگردی میں سہولت کاری اور متاثرین کو اربوں ڈالر ہرجانے کی ادائیگی سے متعلقہ مقدمات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کا کہنا ہے کہ امریکی ڈسٹرکٹ جج جارج ڈینیلز کا کہنا تھا کہ جسٹس اگینسٹ سپانسر ز آف ٹیرر ازم ایکٹ 2016ء کے تحت وہ ان کیسز کی سماعت کر سکتے ہیں۔ شروع دن سے سعودی عرب کا موقف یہ رہا ہے کہ نائن الیون کی دہشت گردی سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ نائن الیون کو دہشتگردی کے اس واقعے میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی عمارت سے دو طیارے ٹکرائے جبکہ امریکی محکمہ دفاع کے ہیڈکوارٹر پینٹا گان پر بھی حملہ ہوا اور ایک طیارہ ریاست پنسلوانیا میں گر کر تباہ ہو گیا۔ اس واقعہ میں تین ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ امریکا کی عدالت کے فیصلے کا اطلاق نائن الیون میں ہلاک ہونے والے تقریباً تین ہزار افراد اور 25 ہزار سے زائد زخمی ہونے والے افراد کے دعوؤں پر ہوگا، اس کے علاوہ متعدد کاروباری و انشورنس کمپنیوں نے بھی سعودی عرب کی حکومت کے خلاف دعوے دائر کیے ہوئے ہیں۔ اس فیصلے پر سعودی عرب کے وکیلوں کا ابھی تک کوئی موقف نہیں آیا۔
انڈین ٹیکنالوجی کی دنیا میں اب تک کا سب سے بڑا جھٹکا
ترمیمﺑﮭﺎﺭﺕ ﮐﻮ ﭨﯿﮑﻨﺎﻟﻮﺟﯽ ﮐﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﺏ ﺗﮏ ﮐﺎ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﺟﮭﭩﮑﺎ ﻟﮓ ﮔﯿﺎ، ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﺍﮨﻢ ﺍﻭﺭ ﺑﮍﯼ ﭼﯿﺰ ﮔﻢ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ
ﺑﮭﺎﺭﺗﯽ ﺧﻼﺋﯽ ﺍﯾﺠﻨﺴﯽ ﮐﺎ ﺧﻼ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌﮮ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺳﯿﭩﯿﻼﺋﭧ ﺳﮯ ﺭﺍﺑﻄﮧ ﻣﻨﻘﻄﻊ ﮨﻮ ﮔﯿﺎﮨﮯ ۔ﺑﮭﺎﺭﺗﯽ ﻣﯿﮉﯾﺎ ﮐﺎ ﮐﮩﻨﺎﮨﮯ ﮐﮧ ﺑﮭﺎﺭﺕ ﻧﮯ ﺟﻤﻌﺮﺍﺕ ﮐﮯ ﮐﻮ ﺳﯿﭩﯿﻼﺋﭧ ﺧﻼ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌﺍ ﺗﮭﺎ ﺟﺴﮯ ﺑﮭﺎﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﺗﻌﯿﻨﺎﺕ ﺩﻭﺭ ﺩﺭﺍﺯ ﮐﮯ ﻋﻼﻗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﺎﺭﺗﯽ ﻓﻮﺟﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺭﺍﺑﻄﮯ ﮐﯽ ﺑﮩﺘﺮﯼ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﻧﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﺎﮨﻢ ﺍﺏ ﺑﮭﺎﺭﺕ ﮐﺎ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺭﺍﺑﻄﮧ ﻣﻨﻘﻄﻊ ﮨﻮ ﮔﯿﺎﮨﮯ۔ ﯾﮩﺎﮞ ﯾﮧ ﺍﻣﺮ ﺑﮭﯽ ﻗﺎﺑﻞ ﺫﮐﺮ ﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﭘﮩﻠﯽ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺍ ﺑﻠﮑﮧ ﺑﮭﺎﺭﺗﯽ ﺧﻼﺋﯽ ﺍﯾﺠﻨﺴﯽ ﮐﺎ ﭼﮫ ﻣﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﺗﺠﺮﺑﮧ ﺗﮭﺎ ﺟﻮﮐﮧ ﻧﺎﮐﺎﻡ ﮨﻮ
کراچی موٹر سائیکل چوری میں ملوث نیوی اور فضائیہ کے افراد شامل √ رپورٹ ٹرائیبل نیوز ڈیرہ غازی خان
ترمیمﮐﺮﺍﭼﯽ ﭘﻮﻟﯿﺲ ﮐﮯ ﺍﯾﻨﭩﯽ ﮐﺎﺭ ﻟﻔﭩﻨﮓ ﺳﯿﻞ ( ﺍﮮ ﺳﯽ ﺍﯾﻞ ﺳﯽ ) ﻧﮯ ﻣﻮﭨﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻠﯿﮟ ﭼﮭﯿﻨﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮔﯿﻨﮓ ﮐﮯ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﮐﻮ ﭘﮑﮍﻧﮯ ﮐﺎ ﺍﻋﻼﻥ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺍﺋﯿﺮ ﻓﻮﺭﺱ ﺍﻭﺭ ﭘﺎﮎ ﺑﺤﺮﯾﮧ ﮐﮯ ﺍﮨﻠﮑﺎﺭ ﺑﮭﯽ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﯿﮟ۔ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﭘﮍﮬﯿﮟ۔۔۔ ” ﻣﻼﻟﮧ ﮐﮭﻮﺗﯽ۔۔۔ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﯽ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ۔۔۔ “ ﺧﺎﺩﻡ ﺣﺴﯿﻦ ﺭﺿﻮﯼ ﻧﮯ ﻣﻼﻟﮧ ﭘﺮ ’ ﺣﻤﻠﮧ ‘ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ، ﺍﯾﺴﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﮩﮧ ﺩﯼ ﮐﮧ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﻨﮧ ﮐﮭﻠﮯ ﮐﮯ ﮐﮭﻠﮯ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﺍﮮ ﺳﯽ ﺍﯾﻞ ﺳﯽ ﮐﮯ ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﺳﯿﺪ ﺍﺳﺪ ﺭﺿﺎ ﻧﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ” ﮐﺮﺍﭼﯽ ﮐﮯ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﻋﻼﻗﻮﮞ ﺑﺎﻟﺨﺼﻮﺹ ﮈﯾﻔﻨﺲ، ﭨﯿﭙﻮ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺷﺎﮨﺮﺍﮦ ﻓﯿﺼﻞ ﮐﮯ ﻋﻼﻗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﭨﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻠﯿﮟ ﭼﮭﯿﻨﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﭼﻮﺭﯼ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮔﺮﻭﮦ ﮐﮯ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﮐﻮ ﮔﺮﻓﺘﺎﺭ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ۔ “ ﻧﺠﯽ ﺧﺒﺮ ﺭﺳﺎﮞ ﺍﺩﺍﺭﮮ ﮈﺍﻥ ﻧﯿﻮﺯ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﻧﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﮔﺮﻓﺘﺎﺭ ﻣﻠﺰﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮩﯿﻞ ﻣﺮﺗﻀﯽٰ ﺍﻭﺭ ﯾﻮﻧﺲ ﺟﻮﻧﺰ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﯿﮟ ﺟﻦ ﮐﯽ ﻧﺸﺎﻧﺪﮨﯽ ﭘﺮ 14 ﻣﻮﭨﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﺑﮭﯽ ﺑﺮﺁﻣﺪ ﮐﺮ ﻟﯽ ﮔﺌﯽ ﮨﯿﮟ ﺟﺒﮑﮧ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺳﺎﺗﮭﯽ ﺷﺎﮦ ﺟﮩﺎﻥ ﻓﺮﺍﺭ ﮨﮯ ﺟﻮ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻧﯿﻮﯼ ﻣﯿﮟ ﻣﻼﺯﻣﺖ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﮮ ﺳﯽ ﺍﯾﻞ ﺳﯽ ﮐﮯ ﺳﯿﻨﺌﺮ ﺍﻓﺴﺮ ﻧﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ” ﺳﮩﯿﻞ ﻣﺮﺗﻀﯽٰ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺍﺋﯿﺮ ﻓﻮﺭﺱ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﻝ ﻣﻼﺯﻡ ﮨﮯ ﺟﺒﮑﮧ ﺷﺎﮦ ﺟﮩﺎﻥ ﻧﯿﻮﯼ ﮐﻤﭙﻠﯿﮑﺲ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺘﻈﺎﻣﯽ ﻋﻤﻠﮯ ﮐﺎ ﺭﮐﻦ ﮨﮯ۔ “ ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﭘﯽ ﺍﺳﺪ ﺭﺿﺎ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﮔﺮﻓﺘﺎﺭ ﻣﻠﺰﻡ ﮐﺎﺭﺭﻭﺍﺋﯽ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺳﯿﮑﯿﻮﺭﭨﯽ ﭼﯿﮏ ﭘﻮﺳﭩﺲ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺮﻭﺱ ﮐﺎﺭﮈﺯ ﺩﮐﮭﺎ ﮐﺮ ﻧﮑﻠﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﭘﮍﮬﯿﮟ۔۔۔ ” ﺁﺟﺎﺅ۔۔۔ ﺁ ﺟﺎﺅ ﻧﺎﮞ۔۔۔ “ ﭘﯽ ﺍﯾﺲ ﺍﯾﻞ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻧﺪﺍﺭ ﮐﺎﺭﮐﺮﺩﮔﯽ ﺩﮐﮭﺎﻧﮯ ﭘﺮ ﺁﺋﯽ ﭘﯽ ﺍﯾﻞ ﭨﯿﻤﻮﮞ ﻧﮯ ﻟﯿﻮﮎ ﺭﻭﻧﮑﯽ ﮐﮯ ” ﺗﺮﻟﮯ “ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﺋﯿﮯ، ﻟﯿﮓ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﮐﯿﺎ ﺟﺘﻦ ﮐﺌﮯ ﺟﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ؟ ﺟﺎﻥ ﮐﺮ ﺁﭖ ﺑﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﮩﮧ ﺍﭨﮭﯿﮟ ﮔﮯ ” ﺑﻮﻟﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮧ ﮔﮭﺎﺱ ﮈﺍﻟﯽ؟ “ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺰﯾﺪ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﻣﻠﺰﻡ ﻣﻮﭨﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻠﯿﮟ ﭼﮭﯿﻨﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﭼﻮﺭﯼ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﭘﺮﺯﮦ ﺟﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺗﺒﺪﯾﻞ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺩﯾﮕﺮ ﻋﻼﻗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭻ ﺩﯾﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﮮ ﺳﯽ ﺍﯾﻞ ﺳﯽ ﭘﻮﻟﯿﺲ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﻣﺰﯾﺪ ﺗﺤﻘﯿﻘﺎﺕ ﺟﺎﺭﯼ ﮨﯿﮟ ﺟﺒﮑﮧ ﻣﻠﺰﻣﻮﮞ ﮐﯿﺨﻼﻑ ﻣﻘﺪﻣﮧ ﺑﮭﯽ ﺩﺭﺝ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ ﮔﯿﺎ
جہلم سے موبائل بنانے والے گرفتا √رپورٹ حسن بلوچ
ترمیمﺟﮩﻠﻢ ( ﻭﯾﺐ ﮈﯾﺴﮏ ) ﺍﯾﻒ ﺁﺋﯽ ﺍﮮ ﻧﮯ ﻣﻮﺑﺎﺋﻞ ﻓﻮﻥ ﭨﮭﯿﮏ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺁﮌ ﻣﯿﮟ ﺗﺼﻮﯾﺮﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﻭﮈﯾﻮﺯ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﮐﮯ ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﻠﯿﮏ ﻣﯿﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﮔﺮﻓﺘﺎﺭ ﮐﺮﻟﯿﺎ۔ ﺍﯾﮑﺴﭙﺮﯾﺲ ﻧﯿﻮﺯ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﻭﻓﺎﻗﯽ ﺗﺤﻘﯿﻘﺎﺗﯽ ﺍﺩﺍﺭﮮ ﺍﯾﻒ ﺁﺋﯽ ﺍﮮ ﮐﮯ ﺳﺎﺋﺒﺮ ﮐﺮﺍﺋﻢ ﻭﻧﮓ ﮐﮯ ﺍﮨﻠﮑﺎﺭﻭﮞ ﻧﮯ ﺟﮩﻠﻢ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﺭﺭﻭﺍﺋﯽ ﮐﺮﮐﮯ ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﮐﻮ ﺑﻠﯿﮏ ﻣﯿﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﻠﺰﻡ ﮐﻮ ﮔﺮﻓﺘﺎﺭ ﮐﺮﻟﯿﺎ۔ ﻣﻠﺰﻡ ﮐﻮ ﺣﺮﺍﺳﺖ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺗﻔﺘﯿﺶ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺩﯼ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﯾﻒ ﺁﺋﯽ ﺍﮮ ﺣﮑﺎﻡ ﮐﺎ ﮐﮩﻨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮔﺮﻓﺘﺎﺭ ﮐﺌﮯ ﮔﺌﮯ ﻣﻠﺰﻡ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺍﻓﻀﻞ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﻮﺑﺎﺋﻞ ﻓﻮﻥ ﭨﮭﯿﮏ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ، ﺍﺳﯽ ﮐﺎﻡ ﮐﯽ ﺁﮌ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺑﺎﺋﻞ ﻓﻮﻥ ﮐﮯ ﮈﯾﭩﺎ ﺳﮯ ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﮐﯽ ﺗﺼﺎﻭﯾﺮ ﺍﻭﺭ ﻭﮈﯾﻮﺯ ﭼﻮﺭﯼ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺳﮯ ﮐﺎﭦ ﭼﮭﺎﻧﭧ ﮐﺮ ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﻠﯿﮏ ﻣﯿﻞ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﻠﺰﻡ ﻧﮯ ﻧﺎﺻﺮﻑ ﺩﯾﮕﺮ ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﺰﻥ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﻧﺎﺯﯾﺒﺎ ﻭﮈﯾﻮ ﺍﭖ ﻟﻮﮈ ﮐﺮﺩﯼ ﺗﮭﯽ۔
پاک چین کوریڈودر تحریر حسن بزدار
ترمیم
اسلام آباد(سی پی پی) چین نے کہاہے کہ مغربی کمپنیوں نے گزشتہ 5 سال کے دوران پاکستان میں سرمایہ کا ری کا موقع کھو دیا ہے،مقامی لیبر کو ترجیح دیں گے، ریل کی رفتار بڑھنے سے ٹریول ٹائم کم ہو گا، سی پیک منصوبوں سے پاکستان کے توانائی بحران پر قابو پالیا گیا، مغربی 2018اور مشرقی روٹ 2019تک مکمل ہوجائے گا۔ ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ڈپٹی چیف آف مشن لی جیان ژا لی نے کہا کہ سی پیک کے حوالے سے یہ افواہیں گردش کررہی ہیں کہ چائنہ نے سی پیک منصوبوں پر کام کرنے کے لیے اپنے قیدی
پاکستان میں بھیجے ہیں۔ ایسا کچھ نہیں، چین اور پاکستان کی انڈ سٹری کے درمیان جوائنٹ وینچر کا آپشن بہترین ہے۔ 85 ملین نوکریاں چائنہ سے شفٹ ہو رہی ہیں یہ نوکریاں افریقہ اور دیگر ممالک میں جا رہی ہیں تو پاکستان میں کیوں نہ آئیں۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک منصوبوں سے پاکستان کے توانائی بحران پر قابو پالیا گیا سی پیک کا مغربی روٹ 2018اور مشرقی روٹ 2019تک مکمل ہوجائے گا۔ بہت سی مغربی کمپنیوں نے گزشتہ 5 سال کے دوران پاکستان میں سرمایہ کا ری کا موقع کھو دیا ہے۔ میں پر امید ہوں دیگر ملک بھی چائنہ کی پیروی کرتے ہوئے پاکستان میں سرمایہ کا ری کریں گے۔ چین کے ڈپٹی چیف آف مشن لی جیان ژا نے کہاکہ سی پیک ایک نئے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے اب ہم انڈ سٹریلائزیشن کے مرحلے کی طر ف جا رہے ہیں۔ 5 سال پہلے پاکستان کو لو ڈ شیڈنگ کا سامنا تھا اب کا فی بہتر ہے انفراسٹرکچر بھی بہتر ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم چائنہ کی بجائے پاکستان میں یہاں کی مقامی لیبر کو ترجیح دیں گے کیوں کہ یہ سستی ہے پاکستان میں لیبر کاسٹ ایک بڑا فائدہ ہے جبکہ پاکستانی انڈ سٹری اور مقامی لوگ مارکیٹنگ، ٹیکسیشن اور دیگر چیزوں کا بہترین ادراک بھی رکھتے ہیں۔ انھوں نے کہاکہ سی پیک منصوبے کے تحت ریل کی رفتار بڑھنے سے ٹریول ٹائم کم ہو
پاکستان ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ میں تقریبا تیسرے پے
ترمیمپاکستان کے ایٹمی ہتھیاراب دنیا میں سب سے زیادہ۔۔ پوری دنیا میں عسکری تاریخ اور ایٹمی امور میں نمبر ون ماہر سمجھنے جانیوالے شخص نے ایسادعویٰ کر دیا کہ بھارت اور امریکا میں کھلبلی مچ گئی، جان کر آپ بھی فخر محسوس کرینگے
واشنگٹن(ٹرائیبل نیوز)پاکستان کی جوہری طاقت کتنی ہے اور روز بروز اس میں کتنا اضافہ ہو رہا ہے، اس بات سے ہمسایہ ملک بھارت پہلے ہی پریشان رہتا ہےاوپر سے آئے روز ماہرین اور تجزیہ کاروں کے تجزیات نے اس کی سٹی گم کر رکھی ہے۔ اور ایسا ہی اب بھی ہوا ہےجب عسکری تاریخ اور عالمی امور کے ماہر جوزف مکالف کا ایک تازہ مضمون عسکری حوالے سے مواد شائع کرنےوالی ویب سائٹ پر جاری ہوا ہے جس نے بھارت اور پاکستان دشمنوں کو خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔ جوزف مکالف نے ویب سائٹ Militry.comپر اپنے تازہ ترین مضمون
میں لکھا ہے کہ پاکستان نے موجودہ رفتار سے ایٹمی ہتھیار بنانا جاری رکھے تو عنقریب یہ ہتھیاروں کی تعداد کے لحاظ سے دنیا کی تیسری بڑی ایٹمی طاقت ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور خصوصاً 5 سے 10 کلوٹن کے چھوٹے ہتھیاروں کی تیاری جنوبی ایشیاءکے خطے میں عسکری توازن کو تبدیل کرسکتی ہے۔ مکالف کا کہنا ہے کہ پاکستان کی بھارت اور امریکا کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی جبکہ دوسری جانب بھارت اور چین کے درمیان بڑھتا ہوا تناؤ خطے میں عدم استحکام پیدا کرسکتا ہے۔ مکالف اپنے تجزیے میںکہتے ہیں کہ ”پاکستان 1971ءسے ایٹمی میدان میں نمایاں پیش رفت کر رہا ہے اور پلوٹونیم اور افزودہ یورینیم پر مبنی ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد بڑھا رہا ہے۔ پاکستان کے پاس پلوٹونیم پروڈکشن کے چار ری ایکٹر جبکہ پلوٹونیم پراسیسنگ کے تین پلانٹ ہے۔ پاکستان اعلیٰ ترین افزودہ یورینیم پیدا کر رہا ہے جبکہ اس کی افزودگی کے لیے گیس سنٹری فیوج استعمال کی جارہی ہے۔ “مکالف نے یہ بھی لکھا ہے کہ ”پاکستانی ایٹمی ہتھیاروں کا ڈیزائن اور ایٹمی ہتھیار کی تیاری القاعدہ، داعش یا کسی بھی جہادی گروپ کی پہنچ سے باہر ہے۔ مختلف انٹیلی جنس ذرائع کے حوالے سے مکالف نے خیال ظاہرکرتے ہوئے لکھاہے کہ پاکستان کے پاس اس وقت 140 سے 150 ایٹمی ہتھیار ہیں جبکہ ان کے اندازے کے مطابق پاکستان کے پاس تین ہزار سے چار ہزار کلوگرام ہتھیار بنانے کے لیے تیار HEUاور 200 سے 300 کلوگرام پلوٹونیم موجود ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس ذخیرے سے 200 سے 250 ہتھیار بنائے جاسکتے ہیں۔ اگر چھوٹے ایٹمی ہتھیار بنائے جائیں تو ان کی تعداد او ربھی زیادہ ہوسکتی ہے۔ مکالف کے مطابق پاکستان افزودہ یورینیم اور پلوٹونیم اتنی مقدار میں پید اکر رہا ہے کہ ہر سال 10 سے 20 ایٹمی ہتھیار بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
شوبز کی دنیا
ترمیممیری نظر میں رنبیر سے زیادہ بہتر اور کوئی اداکار نہیں‘کرینہ کپور
ممبئی (این این آئی)بالی ووڈ کے چاکلیٹی ہیرو رنبیر کپور جو ان دنوں اپنی فلم ’’براہمسترا‘‘ کی شوٹنگ میں مصروف ہیں، وہیں ان کی آنے والی بائیوگرافی فلم ’سنجو‘ کے ٹیزر نے تہلکہ مچا رکھا ہے۔’’سنجو‘‘ میں رنبیر کپور اداکار سنجے دت کا کردار ادا کرتے نظر آئیں گے، جس میں دیا مرزا ان کی اہلیہ کے روپ میں نظر آئیں گی۔ اس فلم میں انوشکا شرما اور منیشا کوئرالہ سمیت دیگر کئی اداکارائیں بھی جلوے دکھاتی نظر آئیں گی۔’سنجو‘ کا پہلا ٹیزر ٹریلر رواں ماہ 24 اپریل کو جاری کیا گیا تھا، جسے اب تک 3 کروڑ 68 لاکھ سے
زائد بار دیکھا جا چکا ہے۔ پہلے ٹیزر کے آتے ہی لوگوں نے رنبیر کپور کی اداکاری کی تعریفیں کرنا شروع کردی تھیں۔’سنجو‘ میں بہترین اداکاری دکھانے پر اپنے کزن رنبیر کپور کی تعریف کرتے ہوئے بولی وڈ کے بے بو کرینہ کپور نے انہیں سب سے بہترین اداکار قرار دے دیا۔ ڈی این اے انڈیا کے مطابق دار الحکومت میں ایک تقریب کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے کرینہ کپور نے کہا کہ انہیں نہیں لگتا کہ ’سنجو‘ میں رنبیر کپور کی جگہ کوئی اور اداکار اتنے بہترین انداز میں کام کرسکتا۔ چھوٹے خان سیف علی خان کی اہلیہ نے اپنے کزن کی اداکاری کی تعریف کرتے ہوئے صاف الفاظ میں کہا کہ ’سنجو‘ میں سنجے دت کا کردار ادا کرنے کے لیے رنبیر کپور سے بہتر کوئی اور اداکار کردار ادا نہیں کرپاتا۔ کرینہ کپور اس سے قبل بھی رنبیر کپور کی اداکاری کو سراہتے ہوئے ان کے ساتھ فلم میں کام کرنے کی خواہش کا اظہار کر چکی ہیں۔ اگرچہ دونوں اداکار کزن ہیں، تاہم انہوں نے آج تک ایک ساتھ کسی فلم میں کام نہیں کیا۔ کرینہ کپور کی خواہش ہے کہ اگر انہیں اپنی بہن کرشمہ کپور کے ساتھ فلم میں کام کرنے کا موقع نہیں ملتا تو کم سے کم انہیں چاکلیٹی ہیرو رنبیر کے ساتھ کام کرنے کا موقع ضرور ملے۔ تاہم تاحال ان دونوں کے اکٹھے کام کرنے کے حوالے سے کوئی امکانات دکھائی نہیں دیتے۔ خیال رہے کہ ’سنجو‘ کو رواں برس 29 جون کو ریلیز کیا جائے گا۔ Tribalnews (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 06:45، 1 مئی 2018ء (م ع و)
پاکستان کے سامنے امریکا نے گھٹنے ٹجک دیے
ترمیمپاکستانی دھمکی کام کر گئی، امریکا نے گھٹنے ٹیک دیے پاکستانی سفارتکاروں پر پابندی سے متعلق حیران کن فیصلہ
واشنگٹن(سی پی پی) پاکستان اور امریکا کے درمیان دو طرفہ تعلقات میں کشیدگی کے خاتمے کی کوششوں کے پیش نظر امریکا نے پاکستانی سفارتکاروں کی نقل و حرکت محدود کرنے کا اپنا فیصلہ ملتوی کر دیا،حکم نامے پر(آج)یکم مئی سے عملدرآمد ہونا تھا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق گزشتہ ہفتے دفترخارجہ کے ایک اہلکار نے تصدیق کی تھی کہ امریکا نے پاکستانی سفارتکاروں پر نئی پابندیاں لگانے کافیصلہ کر لیا ہے، پاکستانی ذرائع ابلاغ کی حالیہ رپورٹس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی حکومت نے پاکستانی حکام کو اپنے ارادوں سے پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا۔ واشنگٹن میں موجود پاکستانی سفارتخانے کو موصول ہونے
والے حکم نامے کے مطابق امریکی دار الحکومت میں موجود پاکستانی سفارتکار اور دیگر شہروں میں موجود قونصل خانوں کے اہلکار بغیر پیشگی اجازت کے 40 کلومیٹر کے دائرے سے باہر سفر نہیں کرسکیں گے۔ نجی ٹی وی کے مطابق امریکا میں موجود پاکستانی سفارتخانے نے، امریکی خدشات سے اسلام آباد میں موجود حکام کا آگاہ کیا تھا جس میں انہوں نے خبردار کیا تھا کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو دو طرفہ تعلقات میں مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے حکام کو مذکورہ معاملے کے دور رس نتائج کے پیش نظر، اس کے حل کے لیے امریکی سفارتی اہلکاروں کے ساتھ مذاکرات کی بھی سفارش کی گئی تھی۔ ادھر پاکستانی سفارت خانے نے خبردار کیا تھا کہ امریکا کی جانب سے سفارتکاروں کی نقل و حرکت محدود کیے جانے کے فیصلے سے دنیا بھر میں پاکستان کے خلاف کیے جانے والے منفی پروپیگنڈے میں اضافہ ہوگا اور امریکا میں رہنے والی پاکستانی کمیونٹی پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اسی ضمن میں سفارت خانے کی جانب سے ان خدشات کا بھی اظہار کیا گیا تھا کہ اس قسم کی پابندیاں پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں لا کھڑا کریں گی جنہیں واشنگٹن میں دشمن ملک سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ مثلا ایران اور کیوبا وغیرہ۔ ایک پاکستانی سفارت کار نے اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکا اور پاکستان کے تعلقات اس نہج پر نہیں پہنچیں گے جو پابندیوں کے سبب متوقع ہیں۔ ایک امریکی تجزیہ نگار کا کہنا تھا کہ امریکا اور پاکستان کے درمیان پیدا ہونے والے حالیہ تنا کے باوجود دونوں ممالک دفاعی معاملات سمیت دیگر اہم معاملات پر ایک دوسرے سے تعاون جاری رکھیں گے۔ دونوں ممالک کے تعلقات پابندیوں کے اطلاق سے پیدا ہونے والی صورت حال سے کئی درجے بہتر ہیں۔ رپورٹس کے مطابق معاملات میں بہتری نہ آنے کی صورت میں مذکورہ حکم نامے پر یکم مئی سے عملدرآمد ہونا تھا، نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے متعلقہ حکام کا کہنا تھا کہ دونوں جانب سے تعلقات میں بہتری کے لیے کی جانے والی کوششوں کے سبب اس فیصلے کو مئی کے وسط تک ملتوی کر دیا گیا۔ واضح رہے کہ پاکستان کی جانب سے غیر ملکی شہریوں اور سفارتکاروں پر فاٹا، کراچی اور بلوچستان کے کچھ علاقوں کا سفر اختیار کرنے پر دہشت گردی کے خطرے کے پیش نظر پابندی عائد کی گئی تھی۔ اس ضمن میں پاکستان میں موجود امریکی مشن تک رسائی حاصل کرنے والے افراد کو بھی کڑی حفاظتی نگرانی اور شناخت کے عمل سے گزرنا پڑ رہا تھا، پاکستان کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کا مقصد صرفغیر ملکی مشن اور ان کے ملازمین کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔ دوسری جانب امریکا کی جانب سے پاکستان میں موجود سفارتکاروں اور امریکی مشن کے گھر اور دفاتر میں بلائے گئے مہمانوں پر بھی اسی قسم کی حفاظتی پابندیوں کا اطلاق کرنے کے سبب تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ اس سے قبل مہمانوں کو صرف ہتھیار نہ لے جانے کی تصدیق کے لیے میٹل ڈیٹیکٹر سے گزرنا پڑتا تھا جبکہ موجودہ صورت حال کے برعکس نہ تو ان سے کوئی شناختی دستاویز طلب کی جاتی تھیں نہ ہی آمد کا مقصد پوچھا جاتا تھا۔ اس ضمن میں امریکا کی جانب سے شکایات بھی سامنے آئیں کہ سفارت خانے میں آنے والے مہمانوں کے ساتھ کبھی کبھار سفارت خانے میں کام کرنے والے پاکستانی عملے کو بھی اسی قسم کی کارروائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جنسی تسکین کیلئے دن میں پانچ برسیکس ناکافی تھا#ربیکا
ترمیم’بیماری جس میں روزانہ پانچ مرتبہ سیکس بھی ناکافی تھا‘
ربیکا کے مطابق سیکس کی لت نے ان کے رشتوں اور زندگی کو تباہ کر دیا تھا برطانیہ میں تعلقات سے متعلق فلاحی ادارے ریلیٹ نے ایسے افراد کو مدد کی پیشکش کی جو سیکس کی لت کا شکار تھے، دو افراد نے اپنی زندگی پر اس کے اثرات کے بارے میں بات کی۔
’اس کی بدترین حالت کے دوران دن میں پانچ مرتبہ سیکس بھی ناکافی تھا۔‘
تین بچوں کی ماں ربیکا بیکر کا کہنا تھا کہ وہ 2014 میں اس حالت کا شکار ہوئیں اور ان کے تعلقات خراب ہو گئے۔
ان کی اس عادت کے باعث وہ اپنے پارٹنر سے بار بار سیکس کرنے کے لیے کہتیں۔
37 سالہ ربیکا کا کہنا تھا ’جاگنے کے بعد یہ پہلی چیز ہوتی جس کے بارے میں میں سوچتی تھی۔‘
’مجھے ایسا لگتا تھا ہر چیز مجھے اسی کی یاد دلاتی ہے۔ مجھے لگتا تھا شاید یہ میرے ڈپریشن سے منسلک ہے۔ مجھے ایسا لگتا تھا کہ میرا پورا جسم اس کے لیے بھوکا ہے۔‘
’اس سے مجھے فوری تسکین ملتی لیکن پانچ منٹ بعد ہی مجھے یہ دوبارہ چاہیے ہوتا۔‘
’میں گوشہ نشین ہو گئی، میں گھر میں ہی رہنے لگی کیونکہ مجھے شرمندگی ہوتی کیونکہ میں اسی کے بارے میں سوچتی رہتی۔ حالانکہ کوئی میرا ذہن نہیں پڑھ سکتا لیکن پھر بھی مجھے بے چینی محسوس ہوتی۔‘
ربیکا کی لت نے ان کے تعلقات کو کافی نقصان پہنچایا۔ اگرچہ ان کے ساتھی نے شروع شروع میں اس توجہ کا کافی لطف لیا تاہم رفتہ رفتہ یہ ان کے لیے بے چینی کا باعث بن گیا۔
اسی بارے میں
معمر افراد میں سیکس کی چاہ پہلے سے زیادہ
’خواتین کی سیکس میں عدم دلچسپی مردوں سے دگنی‘
'سیکس سے بچنے کے لیے مجھے بہانے بنانے پڑتے'
’شروع شروع میں وہ ٹھیک تھا لیکن پھر اسے سمجھنے سے قاصر تھا۔ کچھ ماہ بعد اس نے سوال اٹھانا شروع کر دیے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟‘
اس نے مجھ پر افیئر چلانے کا الزام لگایا۔ اسے لگتا تھا شاید میں اب پچھتا رہی ہوں اس لیے اس کے ساتھ سیکس کرنا چاہتی ہوں۔‘
2014 میں ربیکا نے اس تعلق میں توقف اختیار کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنی ماں کے پاس رہنے چلی گئیں۔
’میں نے جانے سے پہلے اپنے ساتھی سے کہا کہ مجھے وقفہ چاہیے۔ اس نے مجھے جانے دیا لیکن اس کے فوراً بعد یہ تعلق ٹوٹ گیا۔‘
’میں اس وقت اپنا علاج کروا رہی تھی لیکن میرے معالج نے با رہا میری دوا تو تبدیل کی لیکن یہ نہیں بتایا کہ کچھ گروہ ہیں جو اس معاملے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔‘
سنہ 2012 میں تیسرے بچے کے بعد ربیکا کے ڈپریشن کی تشخیص ہوئی تھی جو سنہ 2014 میں ان کی ملازمت کی تبدیلی اور علیحدگی کے بعد شدید تر ہو گئی۔‘
ان کا کہنا تھا ’میں نے ڈپریشن اور اپنی لت پر قابو پانے کے لیے اپنے طرزِ زندگی میں تبدیلی کی۔ جس نے کام بھی کیا۔‘
فلاحی تنظیم ریلیٹ کے مطابق جنسی عمل کی لت ایسے ہی ہے جیسے کوئی بھی اختیار سے باہر جنسی عمل ہوتا ہے اور امکان ہے کہ عالمی ادارۂ صحت ’جنسی رویے کی بے قاعدگی‘ کی اس کیفیت کو سنہ 2019 کی بیماریوں کی درجہ بندی کی فہرست میں شامل کرے گا۔
Click to load this picture بیکرز کے مطابق جاگنے کے بعد پہلا خیال ہی سیکس کا آتا تھا بیوی سے بے وفائی
گراہم جن کی شناخت تبدیل کی گئی ہے کا کہنا تھا کہ اس لت کی وجہ سے انھوں نے اپنی بیوی سے دھوکا کرتے ہوئے درجنوں سیکس ورکز کے ساتھ تعلقات قائم کیے جس کا انھیں شدید پچھتاوا ہے۔
انھوں نے بتایا ’جب آپ کسی لت کا شکار ہوتے ہیں تو جاگنے سے لے کر دوبارہ سونے تک آپ پر صرف اسی کے بارے میں سوچتے رہنے کی دھن سوار رہتی ہے۔ `
’یہ خوفناک اور کریہہ تجربہ تھا کہ دنیا میں سیکس کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں رہی تھی۔ جب آپ جاگیں تو تکلیف میں ہوں۔ یہ قطعی سیکسی نہیں ہے۔‘
’یہ نقصان دہ ہے اور زندگی کے لیے تباہ کن۔‘
گراہم جن کی عمر 60 برس سے زائد ہے کا کہنا ہے کہ انھوں نے ہر ماہ سینکڑوں پاؤنڈ سیکس ورکرز پر خرچ کیے۔
’کام کی جگہ پر ایک افیئر سے شروع ہونے والا کام میرے لیے روز کا نشہ بن گیا۔‘
’آپ ایک تعلق بناتے ہیں اور پھر آپ کو دوسرا اور تیسرا چاہیے ہوتا ہے۔
’جلد ہی مجھے احساس ہوا کہ اپنی اس لت کو پورا کرنے کا تیز ترین طریقہ یہ رقم ادا کر کے حاصل کرنا تھا۔ میں ہفتے میں تین یا چار مرتبہ سیکس ورکرز کے پاس جاتا۔‘
وہ کہتے ہیں: ’یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ کو شراب کی لت لگ جائے۔ آپ اس کے بارے سوچ کر ہی بے خود ہونے لگتے ہیں یہ کیسے ہوگا۔ اور آپ اس پر اپنے منصوبے کے مطابق عمل کرتے ہیں۔‘
’ لیکن یہ کرنے کے بعد آپ نادم محسوس ہوتے کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ ایسا پھر کبھی نہیں کریں گے۔‘
شرمندگی سے وقار تک کا سفر
گراہم نے اپنی اس ہولناک دوہری زندگی کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا جب ان کے اہلیہ نے ان کی ایک ای میل دیکھ لی اور ان سے سوال کیا۔
انھوں نے جنسی لت میں مبتلا لوگوں کی مدد کرنے والے گروہ رابطہ کیا۔
’جب مجھے اس بارے میں Tribalnews (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 10:42، 3 مئی 2018ء (م ع و)
پولیس اہلکاروں کے لیے خوشخبری، 30 ہزار اہلکاروں کی ممکنہ اپ گریڈیشن کے بعد تنخواہوں میں کتنا اضافہ ہو گا؟
ترمیمپشاور(ٹرائیبل نیوز)خیبر پختونخوا پولیس کی 30ہزار اہلکاروں کی ممکنہ طور پر اپ گریڈیشن کے بعد تنخواہوں میں 4ہزار سے 40ہزار روپے تک کااضافہ کر دیا جائے گا خیبر پختونخوا پولیس کی اپ گریڈیشن سابق آئی جی کی سفارشات کی روشنی میں کی جا رہی ہیں اپ گریڈیشن کی منظوری صوبائی حکومت کی جانب سے دی گئی ہے تاہم ممکنہ طور پراس کا اعلان آئندہ نئے مالی سال کے بجٹ میں کر دیا جائے گادہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں کانسٹیبل، ہیڈ کانسٹیبل اور اسسٹنٹ سب انسپکٹر اہم ترین کردار اداکر رہے ہیں۔ اور سینکڑوں اہلکاروں نے اب تک جامع
شہادت بھی نوش کی ہے۔ خیبر پختونخوا پولیس کے اہلکاروں کی تنخواہیں اسلام آباد پولیس اور پنجاب پولیس کے برابر کردی جا ئیگی۔ خیبر پختونخوا میں اپ گریڈیشن کے بعد کانسٹیبل کی تنخواہ 30ہزارسے مجموعی طور پر45ہزار روپے تک، ہیڈ کانسٹیبل کی تنخواہ 43ہزار سے اضافہ کے بعد 58زار روپے تک جبکہ اسسٹنٹ سب انسپکٹر کی تنخواہ جو 45ہزار سے 48ہزار کے درمیا ن میں ہیں میں اپ گریڈیشن کے بعد مجموعی طور پر اضافہ 65ہزار سے 68ہزار روپے تک کر دیا جائے گا دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں اہم کردار ادا کرنے پر صوبائی حکومت خیبر پختونخوا پولیس کی اپ گریڈیشن عمل میں لا رہی ہے۔ خیبر پختونخوا پولیس کی 30ہزار اہلکاروں کی ممکنہ طور پر اپ گریڈیشن کے بعد تنخواہوں میں 4ہزار سے 40ہزار روپے تک کااضافہ کر دیا جائے گا خیبر پختونخوا پولیس کی اپ گریڈیشن سابق آئی جی کی سفارشات کی روشنی میں کی جا رہی ہیں اپ گریڈیشن کی منظوری صوبائی حکومت کی جانب سے دی گئی ہے تاہم ممکنہ طور پراس کا اعلان آئندہ نئے مالی سال کے بجٹ میں کر دیا جائے گا دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں کانسٹیبل، ہیڈ کانسٹیبل اور اسسٹنٹ سب انسپکٹر اہم ترین کردار اداکر رہے ہیں۔ اور سینکڑوں اہلکاروں نے اب تک جامع شہادت بھی نوش کی ہے۔ Tribalnews (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 10:45، 3 مئی 2018ء (م ع و)
قبائلی عوام کی اسلحہ ضبطی سے مزید
ترمیماسلحے کی ضبطی کے بعد قبائل میں عدم تحفظ کے احساس میں اضافہ
قبائلی رہنماؤں، تجزیہ کاروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں ک ذمہ داران کا کہنا ہے کہ تنازعات کے حل کے لیے ضروری ہے کہ سابق قبائلی علاقوں میں سرکاری اداروں کو فی الفور مضبوط بنایا جائے۔
پشاور — شمالی وزیرستان سمیت سات سابق قبائلی ایجنسیوں میں عام لوگوں سے فوجی کاروائیوں کے دوران اسلحہ ضبط کرنے کے باعث ان علاقوں میں جہاں ایک جانب عدم تحفظ کا احساس بڑھا ہے، وہیں اسلحہ نہ ہونے کی وجہ سے روایتی دشمنیوں اور اختلافات میں ملوث خاندان اور گروہ اب جھگڑوں میں اسلحے کے بجائے ڈنڈوں، پتھروں اور چاقووں کا استعمال کر رہے ہیں۔
قبائلی رہنماؤں، تجزیہ کاروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں ک ذمہ داران کا کہنا ہے کہ تنازعات کے حل کے لیے ضروری ہے کہ سابق قبائلی علاقوں میں سرکاری اداروں کو فی الفور مضبوط بنایا جائے۔
قبائلی مشران کا کہنا ہے کہ ان علاقوں میں قیامِ امن کے لیے سکیورٹی اداروں کی کارکردگی کو بھی مؤثر بنانے کی ضرورت ہے جس سے نہ صرف ٹارگٹ کلنگ بلکہ دہشت گردی اور تشدد کے دیگر واقعات پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے جن میں حالیہ کچھ ماہ کے دوران نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
ایک روز قبل شمالی وزیرستان کے مرکزی قصبے میران شاہ سے ملحق گائوں شہزاد کوٹ میں دو متحارب گروہوں میں ہونے والے تصادم میں کم از کم 11 افراد زخمی ہوئے تھے۔
تصادم میں دونوں جانب سے چاقووں، ڈنڈوں اور پتھروں کا استعمال کیا گیا تھا۔ چند روز قبل بھی اسی قبائلی علاقے کے ایک اور گائوں ہمزونی میں متحارب فریقین کے درمیان ہونے والے تصادم میں 17 افراد زخمی ہوگئے تھے۔
نہ صرف شمالی وزیرستان بلکہ تمام قبائلی علاقوں میں عدالتیں اور مناسب انتظامی عمل داری نہ ہونے کی وجہ سے زمین اور جائیداد سے متعلق تنازعات کی بہتات ہے۔
عرصۂ دراز سے جاری ان تنازعات کے نتیجے میں ہونے والے مسلح تصادم میں ہر سال درجنوں قیمتی جانیں ضائع ہوتی رہی ہیں۔
لیکن گزشتہ کئی برسوں سے جاری فوجی کاروائیوں کے دوران سکیورٹی فورسز نے نہ صرف عام قبائلیوں سے ان کا اسلحہ لے لیا ہے بلکہ ریاستی عمل داری کے قائم ہونے کے بعد اسلحہ لے کر چلنے پھرنے اور اسلحے کی نمائش پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے۔ ان علاقوں میں اس پابندی کے مثبت اور منفی، دونوں نتائج برآمد ہوئے ہیں۔
انسانی حقوق کمیشن کے خیبر پختونخوا میں عہدیدار شیر محمد خان ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ مثبت اثرات تو خوش آئندہیں مگر منفی اثرات کے خاتمے کے لیے حکومت کو اقدامات کرنا چاہئیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں شیر محمد خان نے کہا کہ منفی عوامل باالخصوص ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کی وارداتوں کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ حکومتی اداروں کو تمام تر قبائلی علاقوں میں مؤثر بنایا جائے۔
شمالی وزیرستان سے تعلق ر کھنے والے ایک سینئر صحافی نور بہرام وزیر نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسلحہ لے کر چلنے پھرنے پر اور نمائش پر پابندی اور فوجی کاروائیوں کے دوران ہتھیار جمع کرنے سے قبائلی علاقوں میں خون ریز واقعات میں کافی کمی آئی ہے مگر اس سے مقامی قبائلیوں میں عدم تحفظ کا احساس بھی پیدا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ مقامی قبائلیوں کو اپنی جان و مال کی حفاظت کے لیے اسلحہ رکھنے کی اجازت دے۔
شمالی وزیرستان ہی سے تعلق رکھنے والے ایک مقامی شاعر اور سیاسی کارکن حافظ شاہین اسلام نے کہا ہے کہ تنازعات کے حل کے لیے حکومت کو کردار ادا کرنا ہوگا،
انہوں نے اس سلسلے میں روایتی جرگوں کو فعال بنانے اور ان جرگوں کے ذریعے متحارب فریقین کے درمیان بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرانے پر زور دیا۔
یاد رہے کہ گزشتہ دو مہینوں سے شمالی وزیرستان کے مختلف علاقوں میں تشدد اور دہشت گردی کے واقعات بالخصوص گھات لگا کر قتل کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
رواں ہفتے ہی شمالی وزیرستان کے مرکزی قصبے میران شاہ میں پاکستانی فوج کی تعمیر کردہ تجارتی مارکیٹ سے ایک دکاندار کو نامعلوم افراد نے اغوا کرنے کے بعد کچھ فاصلے پر لے جا کر گولیاں مار کر قتل کردیا تھا۔
Tribalnews (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 03:45، 2 جون 2018ء (م ع و)
فاروق بندیال کو پی ٹی آئی سے نکالنے پر عمران خان کی شکرگزار ہوں، اداکارہ شبنم
ترمیماداکارہ شبنم نے اپنے ساتھ زیادتی کے مجرم کو پی ٹی آئی سے نکالنے کے بعد عمران خان کے اس فیصلے کو سراہا ہے (فوٹو: فائل)
تحریک انصاف نے مجرمانہ ریکارڈ ثابت ہونے پر فاروق بندیال کو پارٹی سے نکال دیا جس پر اداکارہ شبنم نے عمران خان کا شکریہ ادا کیا ہے۔
کچھ دنوں قبل فاروق بندیال نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے ساتھ ان کی تصاویر سوشل میڈیا پر پوسٹ ہوئی تھیں جس پر ٹوئٹر پر صارفین نے فاروق بندیال کے بارے میں بتایا کہ 1970ء کے عشرے میں وہ ماضی کی معروف اداکارہ شبنم کے گھر ڈکیتی اور ان سے زیادتی کے واقعے میں ملوث تھا۔
ٹوئٹر پر صارفین نے اس جرم کے بارے میں بے شمار کمنٹس پوسٹ کیے یہاں تک کہ فاروق بندیال نامی ہیش ٹیگ اب بھی ٹوئٹر پر مقبول ہے۔
سوشل میڈیا پرعوام کی جانب سے شدید تنقید کے بعد عمران خان نے نعیم الحق کو معاملے کی چھان بین کے احکامات دیئے اور فاروق بندیال کے جرم کی تصدیق کے بعد عمران خان نے انہیں فوری طور پر پارٹی سے نکال دیا ۔ واضح رہے کہ یہ معاملہ ’شبنم ڈکیتی‘ کیس کے نام سے بہت مقبول ہوا تھا۔
اس ضمن میں سوشل میڈیا پر اکتوبر 1979ء کے ایک اخبار کا تراشا بھی زیر گردش ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ فوجی عدالت نے شبنم ڈکیتی کیس کے پانچ مجرموں کو سزائے موت سنائی تھی۔ ان مجرموں میں فاروق بندیال، یعقوب بٹ، عابد، تنویر اور جمشید اکبر شامل تھے، اس کے علاوہ ایک مجرم کو 10 سال قید اور ساتواں مجرم مفرور قرار دیا گیا تھا، ان مجرموں کو کوٹ لکھپت جیل میں رکھا گیا تھا۔
عمران خان کے اس فوری فیصلے کو اداکارہ شبنم نے سراہتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا اور اپنی ٹویٹ میں لکھا ، ’ میں جنسی زیادتی کے ایک مجرم کو پارٹی سے نکالنے پر عمران خان کے عمل کو سراہتی ہوں ساتھ ہی میں پاکستانی عوام کی بھی مشکور ہوں جو ایک ریپسٹ کے خلاف کھڑے ہوئے، جیتے رہیں۔‘
فاروق بندیال کو پی ٹی آئی سے نکالنے پر عمران خان کی شکرگزار ہوں، اداکارہ شبنم Tribalnews (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 03:49، 2 جون 2018ء (م ع و)
’’ایک ہفتہ کی مہلت دیتا ہوں کہ اس شخص کو گرفتار کر کے لائو‘‘ چیف جسٹس
ترمیم‘‘ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کس کی گرفتاری کا حکم جاری کر دیا
اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) سپریم کورٹ نے ملزم محسن ورائچ کو این آئی سی ایل کیس میںگرفتار کرنے کا حکم جاری کیا ہے ۔ خبر کی تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے ایف آئی حکام کو ایک ہفتہ کی مہلت دیتے ہوئے ملزم کو گرفتار کر کے پیش کرنے کا حکم جاری کیا ہے ۔جبکہ ایف آئی اے حکام کا کہنا تھا کہ ملز م کی گرفتاری کے لئے تمام تکنیکی ذرائع استعمال کر رہے ہیںجس پر عدالت نے ریماکس دیئے کہ مجھے آپ سے زیادہ پتہ ہے کہ ملزم کو گرفتار کیوں نہیں
کیا جا رہا؟چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جیسے راؤانوار کو گرفتار کرایا وہی طریقہ اپنانا پڑے گا، مقدمے کی ایک دن کی تاخیر بھی برداشت نہیں کر سکتے۔سپریم کورٹ نے ایف آئی حکام کو ملزم محسن ورائچ کو گرفتار کر کے ایک ہفتہ میں پیش کرنے کی مہلت دے دی۔عدالت نے این آئی سی ایل کیس کی سماعت ایک ہفتے کے لئے ملتوی کر دی۔جبکہ دوسری جانب چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ٹیکس گزار رو رہا ہےاور وزیرڈھائی ڈھائی کروڑ روپےکی گاڑیاں استعمال کررہے ہیں۔سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں لگژری گاڑیوں کے استعمال سے متعلق ازخودنوٹس کیس کی سماعت ہوئی جس سلسلے میں سابق وزیر قانون زاہد حامد عدالتی حکم پر عدالت میں پیش ہوئے۔چیف جسٹس نے زاہد حامد سے استفسار کیا کہ آپ 3 لگژری گاڑیاں کس حیثیت سے استعمال کررہے تھے؟زاہد حامد نےبتایا کہ ان کے زیر استعمال ایک گاڑی تھی اور کابینہ ڈویژن کی منظوری سےگاڑی استعمال کی۔جسٹس ثاقب نثار نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیاکہ وزرا کتنے سی سی گاڑی رکھنےکا استحقاق رکھتے ہیں؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزراء 1800 سی سی گاڑی استعمال کرنے کا استحقاق رکھتے ہیں۔جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ ٹیکس گزار رو رہا ہےاور وزیرڈھائی ڈھائی کروڑ روپےکی گاڑیاں استعمال کررہے ہیں، وزرا کھاتے پیتے لوگ ہیں اپنے پاس سے گاڑیاں کیوں نہیں رکھتے؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ استحقاق کے بغیر دی گئی 30 گاڑیاں واپس لے لی گئی ہیں۔بعدا ازاں عدالت نے درخواست پر مزید سماعت کل تک کے لیے ملتوی کر دی۔ Tribalnews (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 03:52، 2 جون 2018ء (م ع و)
وفاقی کابینہ کا اجلاس، صدر نیشنل بینک کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ
ترمیماسلام آباد:(28 اگست 2018) وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں صدر نیشنل بینک کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کا اہم اجلاس ہوا جس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ کابینہ کے اجلاس میں بنیادی ایجنڈا پی ٹی ائی کے 100 دن کے پلان کےعملدرآمد کا جائزہ لینا تھا جبکہ نیب کے قانون کو مؤثر بنانے کیلئے ترامیم کا فیصلہ کیا گیا ہے اور ان ترامیم کیلئے وزیرقانون فروغ نسیم کی سربراہی میں ٹاسک فورس بنادی گئی ہے۔ فواد چوہدری نے کہا کہ اجلاس میں سی پیک کا ریویو کیا گیا، سی پیک کے 28 ارب کے پراجیکٹ جاری ہیں جبکہ سول قانون میں ترمیم کیلئے ٹاسک فورس قائم کی گئی ہے اور ایک کروڑ نوکریاں اورپچاس لاکھ گھروں کیلئے بھی ٹاسک فورس بنادی ہے جس کیلئے 90 دن کا ٹائم مقرر کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ تمام پراجیکٹس کیلئے ایک ایک کمیٹی بنائی گئی ہے۔وزیراطلاعات نے کہا کہ چیئرمین نیشنل بینک کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا کیوں کہ وہ سابق وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے ساتھ منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں جبکہ جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کے لیے کمیٹی قائم کردی گئی ہے جس میں شاہ محمود قریشی اور خسر بختیار شامل ہیں، کمیٹی (ن) لیگ اور دیگرسے رابطہ کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ کابینہ اجلاس میں خواتین کا وراثت میں حصہ یقینی بنانے کیلئے قانون میں ترامیم کا فیصلہ کیا گیا۔فواد چوہدری نے کہا کہ وزیر اعظم کی جانب سے ہیلی کاپٹر کا استعمال وی آئی پی کلچر نہیں، سیکیورٹی کے ساتھ وزیراعظم کے بنی گالا جانے سے عوام کو مشکلات ہوں گی، وی آئی پی کلچر اور سیکیورٹی میں فرق کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم ہر 15 دن بعد تمام ٹاسک فورسزسے پیشرفت رپورٹ لیں گے جبکہ گورننس کے حوالے سے بھی ریفارمز کی جائیں گی۔وزیراطلاعات نے مزید کہا کہ فاٹا کے انضمام کےعمل کو تیز کرنےکیلئے کمیٹی بنادی ہے جس میں گورنر، وزیراعلیٰ، وزیر دفاع اور مشیراسٹیبلشمنٹ کو شامل کیا گیا ہے جبکہ احتساب کے معاملے پرکوئی سمجھوتا نہیں کریں گے۔ دوسری جانب وزیراعظم کےمشیر برائے موسمیاتی تبدیلی امین اسلم کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں 10 ارب درخت لگانے کا منصوبہ فوری شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، دو ستمبرکو ملک بھرمیں 15 لاکھ پودے لگائے جائیں گے اور اس دن پلانٹ فارپاکستان ڈے منایا جائے گا Tribalnews (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 16:20، 28 اگست 2018ء (م ع و)
سردار عثمان خان بزدار کون ہے جو تخت لاہور پر براجمان ہو
ترمیملاہور — پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ، وزیر اعظم عمران خان نے جنوبی پنجاب کے پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والے رُکن اسمبلی، سردار عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ پنجاب نامزد کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اُنھوں نے یہ باضابطہ اعلان ایک وڈیو پیغام میں کیا، جو جمعے کے روز جاری کیا گیا۔
پی ٹی آئی کی جانب سے نامزد پنجاب کے سردار عثمان بزدار کا تعلق جنوبی پنجاب کے شہر تونسہ شریف سے ہے۔ وہ مختلف جماعتوں میں رہ چکے ہیں۔ حالیہ الیکشن پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر لڑے اور کامیاب قرار پائے۔
پاکستان کے صوبہٴ پنجاب کے جنوبی ضلع ڈیرہ غازی خان کی پسماندہ تحصیل تونسہ شریف سے تعلق رکھنے والے، عثمان بزدار پولیٹیکل سائنس میں ایم اے ہیں۔
پیشے کے اعتبار سے اُن کا زمیندار گھرانے سے تعلق ہے۔
انہوں نے سیاست کا آغاز بلدیاتی سطح پر کیا۔ مشرف دور میں 2002ء سے 2008ء تک مسلم لیگ ق سے وابستہ رہے۔ تحصیل ناظم ٹرائیبل ایریا تونسہ بھی منتخب ہوئے۔ 2013ء میں ن لیگ کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑا۔ لیکن پیپلز پارٹی کے امیدوار سے شکست کھائی۔
سردار عثمان بوزدار پنجاب کے وزیر اعلیٰ نامزد
width px height px فیس بک پر شیئر کیجئیے ٹوئٹر پر شیئر کیجئیے No media source currently available
0:00 سردار عثمان احمد خان بزدار حالیہ الیکشن میں ’جنوبی پنجاب صوبہ محاذ‘ کے ساتھ ملکر پی ٹی آئی میں شامل ہوئے اور پی پی 286 ڈیرہ غازی خان کے علاقے تونسہ سے صوبائی نشست پر الیکشن بھی پی ٹی آئی کی نشست پر لڑا اور آزاد امیدوار خواجہ نظام المحمود کو شکست دیکر کامیاب ہوئے۔ انہوں نے 26 ہزار 8 سو 97 ووٹ حاصل کئے۔
الیکشن سے قبل ’جنوبی پنجاب صوبہٴ محاذ‘ کے ساتھ ملکر پی ٹی آئی میں جنوبی پنجاب الگ صوبہ بنانے کے تحریری معاہدے کے تحت شامل ہوئے انتخابات میں جنوبی پنجاب سے پی ٹی آئی کو صوبائی اور قومی اسمبلی کی سب سے زیادہ نشستیں ملیں۔
’جنوبی پنجاب صوبہٴ محاذ‘ نے اسی علاقے سے وزیر اعلیٰ بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔
پی ٹی آئی رہنما جہانگیر ترین اور ملتان سے رکن قومی اسمبلی عامر ڈوگر کی موجودگی میں عثمان احمد بزدار نے عمران خان سے ملاقات کی، جس پر عمران خان نے انہیں وزارت اعلیٰ کا امیدوار نامزد کرنے کی خوشخبری سنائی۔
پی ٹی آئی کی جانب سے نامزد وزیر اعلٰی پنجاب سردار عثمان بزدار تمن دار ہیں اور بزدار قبیلے کے سردار ہیں۔
سردار عثمان کے دادا سردار دوست محمد بزدار جماعت اسلامی کے سرگرم رکن رہے، جبکہ نامزد وزیر اعلٰی کے والد سردار فتح محمد بزدار تین مرتبہ رکن پنجاب اسمبلی رہ چکے ہیں۔ سردار فتح محمد دو مرتبہ مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے، جبکہ ایک مرتبہ مسلم لیگ ق کی ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں
عثمان خان بزدار کا وزیر اعلی پنجاب منتخب ہونے پر ہنگاموں عمران خان کا جواب
ترمیمکیا عثمان بزدار کی جگہ کسی اور کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنا رہے ہیں؟سوشل میڈیا پر ہنگامے کے بعد عمران خان نے اعلان کر دیا
اسلام آباد(ٹرائیبل نیوز آن لائن)وزیر اعظم عمران خان نے اپنی جانب سے نامزد ہونے والے وزیر اعلیٰ پنجاب کے امیدوار عثمان بزدار کی حمایت کا اعلان کر دیا ۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے نامزدوزیراعلیٰ عثمان بزدارکیساتھ کھڑا ہوں،دو ہفتے تحقیق کے بعد بھی میں نے عثمان بزدارکو ایماندارپایا ہے،عثمان بزدارمیرے نئے پاکستان کی آئیڈیالوجی پرپورہ اترتے ہیں،عثمان بزدار کاتعلق پنجاب کےپسماندہ علاقے ڈی جی خان سے ہے،اس علاقے میں بجلی نہیں،پانی نہیں،ڈی جی خان ڈویڑن کےاس پسماندہ علاقے میں دولاکھ لوگوں کیلیے ایک ڈاکٹرہے،عثمان بزداراس علاقے کی پسماندگی کوجانتے ہیں، عثمان بزداربطوروزیراعلیٰ پنجاب ان علاقوں کی پسماندگی دورکرسکیں گے،پہلی مرتبہ پنجاب کوایک نظراندازعلاقے سے وزیراعلٰی ملا ہے۔ واضح رہے عمران خان کی جانب سے گزشتہ رات عثمان بزدار کی وزرات اعلیٰ کی نامزدگی کے بعد سوشل میڈیا پر ان کے خلاف ہنگامہ کھڑا کر دیا گیا تھا جس میں کہا گیا کہ وہ نیب زدہ ہیں اور ان کی جائیداد اور قتل کے منصوبے کے بارے میں تفصیلات سامنے آئی ہیں Tribalnews (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 16:42، 28 اگست 2018ء (م ع و)
بزدار قبائل اور اسکی تاریخ
ترمیمبوزدار یا بُزدار ایک بلوچ قبیلہ ہے جو ایک چرواہے سے نسبی تعلق رکھتے ہیں جسے رِند نامی شخص کے پوتے شو علی کی بیوہ سے شادی کی تھی۔ یہ دُولانی میں منقسم ہیں۔ ان کے ذیلی قبائل میں لدوانی، غُلامانی، چاکرانی، سیہانی، شاہوانی، جلالانی، جورانی اور روستمانی قبائل ہیں۔ یہ لوگ دیگر کئی قبائل کے مقابلے مہذب ہیں اور عمل پیرا مسلمان ہیں۔ کئی دیگر بلوچ قبائل کے برعکس یہ لوگ توڑے دار بندوق سے تلوار کی بجائے لڑتے ہیں۔ یہ لوگ چرواہے ہیں۔ سمجھا جاتا ہے کہ بوزدار کا نام فارسی لفظ بُز سے ماخوذ ہے۔ ان کی سندھی میں بھی بڑی آبادیاں ہیں اوربلوچستان میں بھی یہ بلوچ قبیلہ کثیرتعداد میں آباد ہے یہ بلوچی ،سندھی اورسرائیکی زبان بولتے ہیں ان کی بلوچ قومی شناخت کے لیے جدوجہدکی تاریخ میں کردار لازوال ہے ان کی اکثریت ڈی جی خان اورراجن پور کی بلوچستان میں شمولیت کی حامی ہے سردارعثمان بزدار تحریک انصاف کے نامزد وزیراعلی اسی قبیلے کے سردار فتح محمدبزدار کےبیٹے ہیں گوکہ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻗﺒﯿﻠﮧ ﺑﻠﻮﭺ ﻗﻮﻡ ﭘﺮﺳﺘﯽمیں ﭘﯿﺶ ﭘﯿﺶ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﮈﯼ ﺟﯽ ﺧﺎﻥ ،ﺭﺍﺟﻦ ﭘﻮﺭ،ﺗﻮﻧﺴﮧ ﺍﻭﺭ ﺟﯿﮑﯿﺐ ﺁﺑﺎﺩ ﮐﯽ ﺑﻠﻮﭼﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺷﻤﻮﻟﯿﺖ ﮐﮯ ﺧﻮﺍﮨﺎﮞ ﮨﯿﮟ ﻭﺍﺿﺢ ﺭﮨﮯ سردارعثمان بزدار پر ﺟﻨﻮﺑﯽ ﭘﻨﺠﺎﺏ ﻣﺤﺎﺫکی حمایت کی بناپر ﺳﺮﺍﺋﯿﮑﯽ ﺻﻮﺑﮯ کی ﮈﯼ ﺟﯽ ﺧﺎﻥ ﺍﻭﺭﺭﺍﺟﻦ ﭘﻮﺭ ﮐﯽ ﺷﻤﻮﻟﯿﺖ ﮐﯽ ﺣﻤﺎﯾﺖ ﭘﺮ ﺗﻨﻘﯿﺪ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ﻭﺍﺿﺢ ﺭﮨﮯ ﻭﮦ ۲۰۱۲ ﻣﯿﮟ ﮈﯼ ﺟﯽ ﺧﺎﻥ ﺍﻭﺭﺭﺍﺟﻦ ﭘﻮﺭ ﮐﯽ ﺑﻠﻮﭼﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺷﻤﻮﻟﯿﺖ ﮐﮯ ﺣﺎﻣﯽ ﺗﮭﮯ ﻣﮕﺮﻣﺨﺘﻠﻒ ﺳﯿﺎﺳﯽ ﻭﺟﻮﮨﺎﺕ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻣﺨﺎﺻﻤﺖ ﮐﯽ ﻣﮕﺮﺑﻌﺪﺍﺯﺍﮞ ﻗﻮﻡ ﺳﮯ ﻣﻌﺬﺭﺕ ﺑﮭﯽ ﻣﺎﻧﮕﯽ ﺍﻭﺭﺍﺗﺤﺎﺩ ﭘﯽ ﭨﯽ ﺁﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﻮﮔﯽ عثمان بزدار کو 17 اگست کو عمران خان نے وزیراعلی پنجاب نامزد کیا ان کاتعلق اسی قبیلے سے ہیں وہ 19 اگست پنجاب کے نئے وزیراعلی منتخب ہوئے Tribalnews (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 10:09، 1 جنوری 2019ء (م ع و)
وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان خان بزدار کون مزید دیکھیں
ترمیمپاکستان تحریکِ انصاف کی جانب سے وزیرِ اعلٰی کے عہدے کے لیے عثمان احمد خان بزدار کو نامزد کیے جانے کے ساتھ ہی ان کے خلاف مبینہ طور پر کرپشن اور مجرمانہ سرگرمیوں کی خبریں مقامی ذرائع ابلاغ پر نشر ہونا شروع ہو گئیں۔ پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی کی تحصیل تونسہ سے تعلق رکھنے والے عثمان احمد خان بزدار کے بارے میں مقامی ذرائع ابلاغ میں بتایا گیا کہ وہ سنہ 1998 میں قتل کے ایک مقدمے میں ادیت ادا کرنے پر بری ہوئے تھے جبکہ میڈیا کے بعض حلقوں میں ان پر مبینہ طور پر کریشن کے الزامات سامنے آئے تھے۔ مقامی میڈیا میں ان کے بارے میں متنازع خبروں پر وزیراعظم عمران خان کو مداخلت کرنا پڑی اور انھوں نے ٹویٹر پر ایک پیغام میں عثمان احمد خان بزدار کی نامزدگی کا دفاع کرتے ہوئے واضح کیا کہ وہ عثمان بزدار کے ساتھ کھڑے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے بقول ’گذشتہ دو ہفتوں میں میں نے تمام ضروری چھان پھٹک مکمل کر لی ہے اور انھیں ایک دیانت دار شخص پایا ہے۔ وہ ایک باوقار آدمی ہیں جو نئے پاکستان کے حوالے سے میرے نظریے اور ویژن کے ساتھ کھڑے ہیں‘۔ اس بارے میں مزید پڑھیے ’قیامت سے قیادت تک‘ نئے پاکستان کے پہلے سو دن کیسے ہوں گے؟ تحریک انصاف کے عثمان بزدار وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ’پنجاب کے وزیرِاعلیٰ سے تو وزیرِاعظم بھی ڈرتا ہے‘ عثمان بزدار اتوار کو پنجاب اسمبلی سے 186 ووٹ حاصل کر کے آبادی کے لحاظ سے اور سیاسی طور پر سب سے اہم صوبے کے وزیراعلیٰ منتخب ہو گئے ہیں۔ انھوں نے صوبائی اسمبلی کی نشست پی پی 286 ڈیرہ غازی خان سے حالیہ انتخابات میں پاکستان تحریکِ انصاف کے ٹکٹ پر حصہ لیا اور کامیاب ہو کر پہلی مرتبہ پنجاب اسمبلی پہنچے۔ عثمان بزدار تونسہ اور بلوچستان کے قبائلی علاقے میں آباد بزدار قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا خاندان کئی دہائیوں سے صوبہ پنجاب کی سیاست میں متحرک ہے اور مختلف ادوار میں کئی سیاسی جماعتوں کے ساتھ منسلک رہ چکا ہے۔ ان کے والد سردار فتح محمد خان بزدار قبیلے کے سردار ہیں اور تین مرتبہ پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہو چکے ہیں۔ عثمان بزدار نے پہلی مرتبہ سنہ 2013 میں پاکستان مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیا تھا تاہم وہ کامیاب نہیں ہو پائے تھے۔ انھوں نےحالیہ انتخابات میں اپنی سیاسی وابستگی تبدیل کی اور پاکستان تحریکِ انصاف کے ٹکٹ سے انتخابات میں حصہ لے کر وہ لگ بھگ چھ ہزار ووٹوں کی برتری سے کامیاب ہوئے۔ اس سے قبل سردار عثمان خان بزدار بلدیات کی سطح پر تحصیل ناظم رہ چکے ہیں۔ صحافی اور تجزیہ نگار سہیل وڑائچ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سردار عثمان بزدار سیاسیات میں ایم اے کی ڈگری رکھتے ہیں اور ان کا خاندان روشن خیال تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم ان کا خاندان مالی اعتبار سے ضلع ڈیر غازی خان میں مقیم دوسرے بڑے قبائل کے مقابلے میں زیادہ مضبوط نہیں ہے۔ سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ان کے نامزدگی کی پیچھے ایک منطق یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ’پاکستان تحریکِ انصاف ضلع ڈیرہ غازی خان، راجن پور اور ملحقہ علاقوں سے کافی بھاری برتری سے کامیاب ہوئی ہے تو اس علاقے کو کچھ ملنا بھی تھا‘۔ تاہم ان کے خیال میں ’یہ ایک عارضی بندوبست بھی ہو سکتا ہے جس میں بعد میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ پی ٹی آئی کے دعوے کے مطابق جنوبی صوبہ پنجاب کا علیحدہ صوبہ بھی بننا ہے تو اس وقت بھی تبدیلی ہو سکتی ہے۔‘ جنوبی پنجاب کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے صحافی صفدر کلاسرا نے عثمان بزدار کی نامزدگی پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ ’علاقے کی کئی دیگر سیاسی شخصیات اور زیادہ بڑے قبائل کے مقابلے میں عثمان بزدار یا ان کے خاندان کے اثرو رسوخ کا دائرہ زیادہ وسیع نہیں تھا‘۔ وہ بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ممکنہ طور پر ’اس انتظام میں بعد ازاں تبدیلی لائی جا سکتی ہے‘۔ بزدار بلوچ قبیلہ ہے اور اس کی اکثریت قبائلی علاقے کی پہاڑیوں میں آباد ہے۔ ڈیرہ غازی خان اور ملحقہ اضلاع میں آباد بڑے قبائل میں لغاری، مزاری، دریشک، کھوسہ اور دیگر قبائل شامل ہیں تاہم ان قبائل کو اثر و رسوخ اور مالی حیثیت میں زیادہ بڑا تصور کیا جاتا ہے۔ Tribalnews (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 10:12، 1 جنوری 2019ء (م ع و)
چنگوانی قوم کہاں اور کس ٹرایب سے تعلق رکھتے ہیں
ترمیمچنگوانی بلوچ قبیلہ رند بلوچ قبیلہ کی ایک مضبوط شاخ ہے۔ قوی تحقیق ہے کہ بلوچ قوم کا تعلق شام کے علاقہ حلب کی وادی بلوص سے ہے۔ مزید تحقیق سے پتہ چلتا ہے۔ کہ ایران۔ پاکستان میں آباد بلوچوں کے ہزاروں پاڑے حلب میں اپنی فطری خصلت یعنی لڑنے اور آگے بڑھنے کے پیش نظر نقل مکانی کرکے وادی بلوص میں آباد ھوئے تھے۔ ایران کے صوبہ بلوچستان اور پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں آباد قبائل میں بہت سی چیزیں مشترک ہیں۔ پاکستان میں آباد بلوچ قبائل کو دو بڑے گروپوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
سلیمانی مکرانی ۔ کوہ سلیمان کے مغربی اور مشرقی جانب آباد قبائل میر شہلک خان رند کے دور سے پہلے آباد تھے۔ ان میں بگٹی لاشاری رند اور اس کی ذیلی شاخیں شامل ہیں۔ میر چاکر خان رند کی تیس سالہ جنگ جو لاشاریوں کے ساتھ لڑی گئی تھی انتشار کا باعث بنی۔ مزید براں آمدپنجاب میں دودائیوں اور غیر بلوچ اقوام کے ساتھ جنگ نے بلوچوں کے بڑے 44 قبائل کی تنظیم کو منتشر کر دیا تھا۔ میر چاکر خان رند جب پنجاب پر راج کرنے آیا تو جو رندوں کے مشہور پاڑے مختلف امور کی انجام دھی کے لیے ساتھ آے تھے ان میں سرفہرست رند۔ مندانی۔ دستی گورشیانی۔ اندرا۔ دریشک۔ لنڈ۔ بزدار۔ لغاری۔ نتکانی۔ چنگوانی۔ میرانی۔گبول۔گدائی۔ عالیانی۔ رمدانی۔ روانی۔گورمانی۔ برمانی۔ قیصرانی۔ مزاری۔ کچھیلا۔ غزلانی۔ جتوئی۔ پتافی۔ شر۔گوپانگ احمدانی۔ ناھر۔ وغیرہ وغیرہ شامل تھے۔ رندوں کا ایک قبیلہ روانی بعد ازاں میر چاکر خان رند اور میر بجار خان رند کی اندرونی لڑائی میں دوسرے بہت سے پاڑوں کی طرح تقسیم ھو گیا تھا۔ ایک گروہ 1510ء تک میر بجار خان رند کے ساتھ اندرون سندھ جنوبی پنجاب اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں اپنی عملداری قائم کرتا ھوا واپس مکران چلا گیاتھا۔ جبکہ دوسرا گروہ میر چاکر خان رند کے ساتھ اپر پنجاب تک گیا۔ یہی وجہ ہے کہ روانی قبیلہ پنجاب اور بلوچستان میں بکھر کر رہے گیا ہے۔ کچھ ضلع خانیوال اور ضلع ملتان اور کچھ ضلع راجن پور میں آباد ہیں۔ ضلع راجن پور میں 1610ء میں یہ قبیلہ اپنے دیگر ساتھی قبائل کے ساتھ کوہ سلیمان کے دامن میں آباد ھوا تھا۔ پھر حصول روزگار کے لیے قدیمی قصبہ نواں شہر 1865ء میں سردار اللہ دھایا خان روانی نے ایک قطعہ خرید کیا اور یہی آباد ھو گیاتھا۔ سردار اللہ ودھایا خان روانی کے تین فرزند رسول بخش خان۔ عبد الرحمان خان۔ اور حسین بخش خان تھے۔ سردار اللہ ودھایا خان کا دوسرا بیٹا عبد الرحمن خان کو پڑھائی کے شوق نے قصبہ نواں شہر سے دیوبند (حالیہ بھارت) پہنچا دیا۔ 1913ء میں ملتان پھر لاہور اور پھر ایک قافلہ کے ساتھ دھلی اور پھر مدرسہ دیوبند میں اپنی دینی دنیاوی اور خاص کر طب کی تعلیم حاصل کی۔ واپس آکر راجنپور شہر میں آباد ھوکر مشہور و معاروف حاذق الحکیم حکیم عبد الرحمن خان رحمانی اپنے نام کی نسبت سے رحمانی کے لقب سے تادم مرگ عوام کی خدمت کرتے رھے۔ حکیم صاحب راجنپور کی وہ واحد شخصیت تھے جنہوں نے طب جراحی اور اخبار بینی کو متعارف کرایا تھا۔ آج بھی یہی بلوچ خاندان اپنے نسبتی لقب "رحمانی" کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے۔ حکیم بشیر احمد خان رحمانی، حکیم سعید احمد خان رحمانی حکیم روف احمد خان رحمانی ڈاکٹر گلزار احمد خان رحمانی۔ ڈاکٹر انعام الحق خان رحمانی۔ ڈاکٹر خرم گلزار خان رحمانی۔ ڈاکٹر طلحہ گوھر خان رحمانی۔ احسان الحق خان رحمانی روانی بلوچ ایڈووکیٹ ہائی کورٹ نزیر احمد خان رحمانی خالد منظور خان رحمانی ایسی قبیلہ روانی کے چشم وچراغ ہیں رندوں میں بچھڑنے والے بزدار قبائل کی اکثریت ڈی جی خان کے دامن کوہ میں آباد ہوئے کچھ بچھڑ کر بلوچستان کے مکران میں ہوتے والا ایران میں مقیمی آبادی اختیار کی جب سکھ نے ان علاقوں پر چڑھائ کیا تو بزدار قبائل لڑتے لڑتے اندر پہاڑ میں بسیرا ڈالا بزدار اقوم میں بہت سے بڑے پاڑے پائے جاتے ہیں اس میں چاکرانی دلانی شہوانی غلامانی روستمانی جلالانی سیاہانی کے ساتھ اور بھی چھوٹے بڑے پھلی بزدار قوم کے زیلی شاخ ہیں ان میں بڑے جلالانی قبائل کے جو کہ ایک جنگریز اور اقوام کے لسٹ میں آتا ہے سیاہانی جو اسوقت سب سے ٹھنڈے اور اونچے پہاڑوں پر آباد ہیں غلامانی اور روستمانی بہت بڑے قبائل ہے بزدار قوم کے سب سے بڑے قوم دلانی ہے جس کے سر پر آج تک بزدار قوم تاج سنا ہوا ہے جس کا ھیڈکواٹر بارتھی اندر پہاڑ واقع جس کا نام سردار دوست محمد خان بزدار ہے جو ایک قوم پرست محب وطن قوم پرستوں اور جنوبی پنجاب کے سرداروں میں سب سے اعلی اور پاورفل رہنما تصور کیا جاتا ہے شدید دشوار اور مسائل جڑے کوہ سلیمان میں بزدار قبائل غربت بھوک افلاس اور زاتی دشمنیوں کے باعث پہاڑوں سے نکل کر شہروں کے رخ کرنے پر مجبور ہیں جس میں شادن لنڈ کے رہائشی سیاہانی جنگوانی کوٹ ادو کے جنگوانی سندھ میں چاکرانی جنگوانی اور چوٹی میں بسے جنگوانی کا تعلق اسکا آباؤ اجداد کا تعلق کوہ سلیمان سے ہے جس کا سردار سردار دوست محمد ہے
جسٹس آصف سعید کھوسہ اور اسکی تاریخ
ترمیمجسٹس آصف سعید کھوسہ 21 دسمبر 1954 کو صوبہ پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئے، وہ اپنی تعلیمی قابلیت اور سب سے زیادہ فیصلے تحریر کرنے کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں۔
انہیں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف توہین عدالت کے مقدمے سے شہرت ملی جبکہ سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف پاناما کیس کا فیصلہ سنایا تو جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں نواز شریف کو نااہل قرار دینے کی سفارش کی تھی۔
انہوں نے 1969 میں میٹرک کے امتحان میں ملتان بورڈ سے پانچویں جبکہ 1971 میں انٹرمیڈیٹ میں لاہور بورڈ اور 1973 میں پنجاب یونیورسٹی سے پہلی پوزیشنز حاصل کیں، اسی یونیورسٹی سے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے 1975 میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی، ان کی قابلیت کی وجہ سے انہیں 3 مرتبہ نیشنل ٹیلنٹ اسکالرشپ سے نوازا گیا۔
ماسٹرز ڈگری کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے برطانیہ کا رخ کیا، جہاں کیمبرج یونیورسٹی سے 1977 اور 1978 میں انہوں نے قانون کی 2 ڈگریاں حاصل کیں، برطانیہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ 1979 میں وطن واپس آئے اور لاہور ہائیکورٹ سے وکالت کا آغاز کیا اور 1985 میں سپریم کورٹ کے وکیل بن گئے۔
20 سال تک وکالت جاری رکھنے کے بعد جسٹس آصف سعید کھوسہ 21 مئی 1998 میں لاہور ہائیکورٹ جبکہ 2010 میں سپریم کورٹ کے جج منتخب ہوئے۔
مئی 1998 میں آصف سعید کھوسہ لاہور ہائی کورٹ میں جج مقرر ہوئے اور جب سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے 7 نومبر 2007 کو ملک میں ایمرجنسی نافذ کرکے آئین معطل کیا تو جسٹس آصف سعید کھوسہ بھی ان ججز میں شامل تھے جنہوں نے 'پی سی او' کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کیا۔
اگست 2008 میں وکلا کی تحریک کے بعد وہ لاہور ہائی کورٹ میں جج کی حیثیت سے بحال ہوئے۔
علاوہ ازیں جسٹس آصف سعید کھوسہ 4 کتابوں کے مصنف بھی ہیں جن میں، ہیڈنگ دی کانسٹیٹیوشن، کانسٹیٹیوشنل اپولوگس، ججنگ ود پیشن اور بریکنگ نیو گراونڈ شامل ہیں۔ Tribalnews (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 11:45، 19 جنوری 2019ء (م ع و)
سی ٹی ڈی پولیس کیا ہے
ترمیمکاؤنٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ کے ضرور کچھ اچھے کام بھی ہوں گے لیکن ان کا ایک دوسرا افسوس ناک رخ بھی ہے سی ٹی ڈی کا ساہیوال میں یہ کوئی پہلا ظلم نہیں ہے ،سینکڑوں کی تعداد میں بے گناہ نوجوانوں کو دہشت گرد قرار دے کر مارنا اس ’’ریاستی بندے مار‘‘ادارے کا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔کسی بھی شخص کا تعلق دہشت گرد تنظیم سے جوڑ کر اسے جان سے مارنے کی دھمکی دے کر لاکھوں روپے بٹورنا اس ادارے کے افسران کا من پسند مشغلہ ہے ،اگر کسی شخص کا ماضی میں کسی کالعدم تنظیم جسے اُس دور میں ’’ریاستی سرپرستی ‘‘ حاصل تھی سے کوئی تعلق رہا ہو تو ایسا شخص سی ٹی ڈی کے نزدیک ’’سونے کا انڈہ دینے والی مرغی‘‘ قرار پاتی ہے ۔سی ٹی ڈی کے افسران اور اہلکار ایسے افراد کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنا اپنا حق سمجھتی ہے ۔درجنوں ایسے افراد بھی شہر میں موجود ہیں جو سی ٹی ڈی کے بھیانک ظلم کا شکار ہو کر ذہنی توازن کھو بیٹھے ہیں ۔کئی افراد ایسے بھی ہیں جو اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی دینے کی بجائے سی ٹی ڈی کے کرپٹ افسران کی ناجائز اور بلاجواز فرمائشوں کو پورا کرنے کے لئے مارے مارے پھرتے ہیں کہ اگر سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کو ’’حرام ‘‘ نہ کھلایا تو اسے کسی بھی وقت کسی کالعدم تنظیم کا دہشت گرد قرار دے کر شہر کے کسی ویرانے میں مار دیا جائے گا ۔اگر سی ٹی ڈی میں آپ کے کسی ’’بندے مار ‘‘ افسر کے ساتھ قریبی تعلقات اور بے تکلفی ہو تو پھر وہ آپ کو بے گناہ بندوں کو دہشت گرد قرار دے کر مارنے کےایسے ایسے واقعات سنائے گا کہ آپ کی روح کانپ جائے گی۔سی ٹی ڈی کی بندے مار کارروائیوں میں اب تک سینکڑوں افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ،سی ٹی ڈی کے مقابلوں کی تمام تفصیلات نکال کر دیکھ لیں آپ کو کوئی ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ملے گا جس میں کوئی اصل مقابلہ ہوا ہو ۔اگر آپ حقیقی معنوں میں دہشت گرد تنظیم سے تعلق رکھتے ہیں اور ملک میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث بھی ہیں لیکن ’’حرام ‘‘ کھلانے کے لئے آپ کے پاس وافر مقدار میں پیسے موجود ہیں تو پھر ’’ستے ای خیراں ہیں ‘‘سی ٹی ڈی کو ’’حرام ‘‘ کھلاتے رہیں اور ملک میں اودھم مچاتے رہیں ،یہ ریاستی ادارہ آپ کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھے گا ۔سی ٹی ڈی کے ’’کارناموں‘‘ کی بڑی لمبی فہرست موجود ہے ،آپ ماضی یا حال میں کسی دہشت گردی کی واردات میں ملوث نہیں رہے اور نہ ہی کبھی دہشت گردوں کی سہولت کاری کا فریضہ سرانجام دیا ہے لیکن اب کالعدم قرار پانے والی کسی کالعدم تنظیم سے تعلق رہا ہے تو سی ٹی ڈی والے سونگھتے ہوئے آپ کے پاس پہنچ جائیں گے ،اگر ماضی کے اس’’سنگین جرم‘‘ میں آپ کو حراست میں لے لیا گیا ہے تو پھر سی ٹی ڈی افسران آپ کے ساتھ بار گیننگ کرتے ہیں ،اگر تو آپ ’’بھاری معاوضہ ‘‘دینے کی سکت رکھتے ہیں تو پھر تو کام ایک ماہ کی نظر بندی سے ہی چل جائے گا ،تھوڑے پیسوں کی صورت میں کم از کم ایسا مقدمہ بنایا جائے گا کہ جس میں دہشت گردی کی عدالت آپ کو تین سال سے لیکر 5 سال کی سزا سنائے گی اور اگر آپ سی ٹی ڈی کو حرام کھلانے کی پوزیشن میں بالکل بھی نہیں ہیں تو پھر اتنی مقدار میں بارودی مواد آپ کے کھاتے میں ڈالا جائے گا کہ عدالت آپ کو 15 سے لیکر 20 سال کی قید سنا دے گی ،یہ اب آپ پر منحصر ہے کہ آپ جیل کی اذیت سے بچنے کے لئےاپنا گھر بار بیچتے ہیں یا بیوی بچوں کو دربدر بھیک مانگنے کے لئے چھوڑ کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے اپنے مقدر پر آنسو بہاتے ہیں ۔میں نے کئی ایسی فیملیز بھی دیکھ رکھی ہیں کہ جن کے مرد ماضی میں کسی مذہبی جماعت کا حصہ رہے تھے لیکن ایک مدت سے وہ اب اپنے بیوی بچوں کو پالنے کے لئے محنت مزدوری کا سہارا لئے ہوئے تھے ،مذہبی بیک گراؤنڈ ہونے کی وجہ سے ان کی بیویاں بھی با پردہ تھیں لیکن جیسے ہی سی ٹی ڈی نے انہیں اپنا ’’مہمان‘‘ بنایا ان کی با پردہ بیویاں سی ٹی ڈی کے وحشی افسران کی ہوس کا نشانہ بن گئیں اور آج دربدر رلنے پر مجبور ہیں ۔سی ٹی ڈی کے کسی بے تکلف افسر یا اہلکار کے پاس بیٹھیں تو ایسی ’’رنگین کہانیاں ‘‘ بھی آپ کو بڑی تعداد میں سننے کو ملیں گی ۔
تونسہ شریف میں بلیک میل کرنے والے درندہ صفت انسان
ترمیممعصوم بچوں سے ذیادتی کرنے والے جنسی درندے کے خلاف تھانہ سٹی تونسہ میں مقدمہ درج ملزم آسلام آباد رپوش۔ ملزم عدنان ظفر منگڑوٹھہ شرقی کا رہائشی جس نے متعدد بچوں کا مستقبل تباہ کیا اب تک ذیادتی کی پانچ کے قریب ویڈیوز وائرل ہوئیں ملزم ویڈیوز بنا کر خاندانوں کو بلیک میل کرکے رقم بٹورتا تھا۔ ملزم ممکنہ کاروائی کے ڈر سے اسلام آباد فرار ۔ تفصیل کے مطابق منگروٹھہ شرقی کے رہائشی محمد اشرف نے تھانہ سٹی تونسہ میں درخواست دی کہ چند روز قبل مجھے معلوم ہوا کہ میرے پوتے کی نازیبا ویڈیوز وائرل ہوئی ہیں جن میں ملزم عدنان ظفر خلاف شرعی کام کررہاہے اور بچوں کو ویڈیوز بنا کر بلیک میل کر رہا ہے ۔ متاثرہ بچے سے استفسار پر اس نے بتایا کہ ملزم انہیں ایک عرصے سے بلیک میل کرتا اور خلاف شرعی کام کرتا رہا ہے جبکہ معلوم ہوا ہے کہ ملزم ہیڈ کانسٹیبل کے بیٹے عدنان ظفر بزدار سکول اور کالج کے بچوں کے ساتھ ذیادتی کرکے ان کی ویڈیوز انٹرنیٹ پر ڈارک ویب پر بھی فروخت کردیتا اور متاثرہ بچوں کے خاندانوں کو بلیک میل بھی کرتا تھا اب تک جنسی درندہ درجنوں بچوں کا مستقبل برباد کر چکا ہے جس کی وجہ سے بچے سکول اور کالج چھوڑ چکے ہیں اب تک پانچ بچوں کی ویڈیوز منظر عام پر آئی ہیں جن میں ملزم بچوں کو ذیادتی کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ تشدد بھی کرتا نظر آتا ہے ملزم عدنان ممکنہ کاروائی کے ڈر سے اسلام آباد ہوگیا ہے جبکہ ملزم کے ورثا کی جانب سے سیاسی پشت پناہی کی وجہ سے بچوں کے ورثا پر کاروائی نہ کرنے کے لیے دباو بھی ڈالا جا رہا ہے ۔ ویڈیوز وائرل ہونے سے تونسہ کے بچوں اور ان کے والدین میں شدید غم وغصہ پایا جاتا ہے اہلیان تونسہ کی جانب سے وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار سے اس جنسی بھڑئیے کو سخت سے سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے ایسے درندے کے خلاف مقدمہ درج کرکے اسکو سرعام پھانسی دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے تاکہ معصوم بچے ایسے درندوں سے محفوظ رہے سکیں ۔ اس سلسلے میں ڈی ایس پی تونسہ سعادت علی اور ایس ایچ او تونسہ تھانہ سٹی رانا محمد اقبال نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پولیس نے مقدمہ درج کرلیا ہے اور ملزم کی گرفتاری کے لیے ٹیمیں تشکیل دے کر چھاپے مارے جارہے جلد ملزم کو گرفتار کر لیں گے کوئی کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہو اس کیس کو میرٹ اور کے ساتھ انجام تک پہنچائیں گے
رند و لاشار
ترمیمسردار میر چاکر خان رند بن سردار امیر شہک رند بن سردار امیر اسحاق رند بن سردار امیر کا لو رند بن سردار امیر رند بن سردار امیر جلال خان رند بلوچ۔ میر چاکر رند یا چاکر اعظم صرف ایک نام یا ایک شخصیت نہیں بلکہ بلوچوں کی تہذیب و ثقافت، تاریخ و تمدن، معیشت و معاشرت، اخلاق و عادات، بہادری و جوانمردی، جوش و جذبہ، گفتار و کردار، ایثار م قربانی، ایفائے عہد اور انتقام کا نام ہے۔ سردار میر چاکر رند خود بھی بہادر تھے اور بہادر دوستوں ہی کی نہیں بلکہ دشمنوں کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور بقول میر چاکر "بہادروں کا انتقام بھی مجھے پیارا ہے جو میرے اونچے قلعوں پر حملہ کرنے کی ہمت رکھتے ہیں" میر چاکر خان مکران کے قیام کے دوران اپنی ابھرتی جوانی میں ہی قوم میں مقبول ہو گئے تھے۔ قلات پر حملے کے دوران بہادری کے وہ جوہر دکھائے کہ لوگ انگشت بدنداں رہ گئے۔ میر شہک کے انتقال کے بعد پورے رند علاقوں کا حکمران انکا بیٹا میر چاکر تھا اور رندوں کی تاریخ کا سنہری دور تھا لیکن اس دور کا اختتام اتنا تاریک اور عبرت انگیز ہے کہ میر چاکر کے آخری دور میں نہ صرف رند بلکہ پوری بلوچ قوم اس طرح منتشر ہوئی کہ آج تک دوبارہ اکھٹی نہ ہو سکی میر چاکر کا دور بلوچوں کا عروج اور خوشحالی کا دور تھا اور آج بھی بلوچ قوم کا اجتماعی طور پر ہیرو میر چاکر رند ہے اور آج بھی میر چاکر کا نام عزت و احترام سے لیتے ہیں بقول میر چاکر "مرد کا قول اس کے سر کے ساتھ بندھا ہے" اور میرچاکر اپنے قول کا دھنی تھا اپنے قول کے مطابق ایک مالدار عورت "گوھر" کو امان دی اور اس کی حفاظت کف لیے جان کی بازی لگا دی اور اپنے ہی بھائیوں لاشاریوں سے جنگ کی جو تیس سالہ کشت و خون میں بدل گئی اور یہی جنگ کئی نامور رند اور لاشاریوں کو خاک و خون میں نہلا گئی جن میں میر چاکر کے دو نوجوان بھائیوں کے علاوہ میرھان، ھمل، جاڑو، چناور، ھلیر، سپر،جیند، بیبگر، پیرو شاہ اور دیگر سینکڑوں بہادر بلوچ شامل تھے بلوچوں کی معاشرتی زندگی میں وعدہ خلافی کے علاوہ جھوٹ بولنا معیوب سمجھا جاتا ہے خاص کر اگر وہ رند بلوچ ھو بقول چاکر خان رند کے "سچ بولنا بلوچوں کا شیوہ ہے اور جھوٹ ایمان کی کمزوری کی نشانی ہے" بلوچ معاشرے میں جو کوئی جھوٹ بولے اور وعدہ خلافی کرے تو ان کے معاشرے میں کوئی مقام و عزت نہیں ہوتی اور ان کی نظر میں وہ شخص زندہ نہیں بلکہ مردہ ہے اور رندوں کی ایک کہاوت ہے کہ"مرے ہوۓرند کو کوئی راستہ نہیں ملتا دونوں طرف سے انکی زندگی اسیر ہے" بلوچ لوگ بالخصوص رند بلوچ لوگ عورتوں اور بچوں پر کبھی ہاتھ نہیں اٹھاتے، مہمان اور مہمان نوازی بلوچ معاشرے کا ایک لازمی حصہ ہے اور مہمانوں کو خدا کا نعمت سمجھتے ہیں سردار چاکر خان رند کی تاریخ پیدائش کا مختلف روایات ہیں ان میں سب سے زیادہ معتبر 1486ء اور قلات کو 1486ءفتح کیا کہ در آن وقت سردار چاکر کی عمر صرف 16 سال تھی اور سال 1488ء میں سبھی پر قبضہ کیا اور اسی سال میر شہک وفات پا گئے اور رند اور لاشار کی تیس سالہ جنگ کا آغاز سال 1489ءمیں شروع ھوا جو 1519ءمیں اختتام پزیر ہوا 1520ء میں میر چاکر ملتان کی روانہ ہوئے اور 1523ء میں مستقل طور پر ستگھڑہ میں قیام کیا اور 1555ءمیں ہمایوں کے ساتھ دہلی پر حملہ آور ہوئے اور شیر شاہ سوری کے جانشینوں کو شکست دے کر دہلی فتح کیا اور 1565ءمیں یہ عظیم قائد اس دنیاے فانی کو چھوڑکر خالق حقیقی سے جا ملے اور بمقام ستگھڑ اوکاڑہ میں دفن ہوئے۔
رند و لاشار کا واقعہ
بلوچ اپنے سردار میر جلال خان کی سر کردگی میں کرمان کے مختلف اضلاع میں رہتے تھے مگر سیاسی انتشار کی وجہ سے وہ قافلہ در قافلہ کرمان چھوڑ کر سیستان چلے آئے۔ جب یہاں بھی چین نہ ملا تو وہ اپنے سردار امیر جلال خان کی قیادت میں واپس کرمان گئے اور ضلع بام پور میں آباد ہوئے۔ پھر سردار جلال خان اپنے چوالیس قبیلوں (پاڑوں) کو لے کر مکران کی طرف بڑھا اور یوں مکران کو بلوچستان کا نام دیا۔ اس کی آمد سے پہلے مکران پر مغول حکومت کرتے تھے۔ بلوچ سردار نے انہیں شکست دی جس سے مقامی آبادی کی وفاداریاں بھی انہیں آسانی سے میّسر آگئیں۔ کیونکہ مقامی لوگ مغول کے ظلم و ستم سے تنگ آچکے تھے۔ یہ مسلمہ ام رہے کہ امیر جلال خان کی آمد سے پہلے مکران میں بلوچ آباد تھے۔ جو خانہ بدوش تھے بھیڑ بکریاں پال کر گزارہ کرتے تھے سردار کے ساتھ جو بلوچ مکران پہنچے وہ شہسوار تھے اور بہت منظم بھی۔ سردار جلال خان نے حکومت قائم کرکے ا نہیں قومیت کا احساس دیا اور قبائلی نظام کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا۔
پندرھوں صدی عیسویں میں بلوچوں کے دو قبیلوں رندو لاشار ساتھ ساتھ وسطی بلوچستان کی طرف بڑھے۔ جو لوگ ان کے مقابلے پر تھے یا وہ قتل کردیے گئے یا انہوں نے اطاعت قبول کر لی۔ آخر میر چاکر خان رند کے عہد میں سارا بلوچستان بلوچوں کے قبضے میں آگیا Tribalnews (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 05:21، 4 فروری 2019ء (م ع و)
صحت کارڈ حاصل کرنیکا طریقہ اور اسکے خدو خال
ترمیم- صحت کارڈ کیا ہے یہ آپکو کہاں سے ملے گا اور آپ نے اسکو کیسے استعمال کرنا ہے*صحت سہولت پروگرام میں شمولیت کیلیے نیشنل پاورٹی سروے میں32.5سےنیچےریٹنگ والے تمام خاندانوں کویہ کارڈآٹومیٹک سسٹم کےذریعےدئیےجائیں گےصحت کارڈ فی کارڈ انشورنس سات سے نو لاکھ تک ہے ،اب یہ کارڈ ہے کیا یہ آپکو کہاں سے ملے گا اور آپ نے اسے استعمال کیسے کر ناہے
سب سے پہلی بات کہ یہ حکومت کا بہت ہی زبردست اقدام ہے اور اس کا زیادہ تر فائدہ پاکستان کے غریب طبقے کو ہے جو بمشکل اپنے گھر کے اخراجات چلا رہے ہوتے ہیں اور جب کبھی گھر کا فرد بیمار ہو جائے اور علاج کے لیئے کسی اچھے ہسپتال جانا پڑ جائے تو پورے مہینے کا بجٹ درہم برہم ہو جاتا ہے،اور کئی کئی مہینوں تک ان کو قرضوں کے بوجھ تلے رہنا پڑتا ہےاس سے پہلے یہ پروگرام امریکہ کے صدر باراک اوباما نے شروع کیا تھا لیکن صدر ٹرمپ نے آتے ہی ان منصوبے کو ختم کر دیا جس کی وجہ سے آج کل اسے تنقید کا سامنا کرنا پڑھ رہا ہےاب اسطرح کے فلاحی کام پاکستانی حکومت اپنے نچلے طبقے کے لیئے متعارف کروا رہی ہے اس منصوبے سے پاکستان کے ڈیڑھ کروڑ خاندان یعنی اگر ایک گھر کے چھ افراد اوسط نکالی جائے تو یہ کارڈ نو کروڑ افراد کے لیئے کارآمد ثابت ہو سکتا ہے اس کارڈ کی انشورنس سات لاکھ سے نو لاکھ تک ہو گی مطلب ایک خاندان یعنی چھ افراد ایک سال میں سات سے نو لاکھ تک کا فری علاج نہ صرف سرکاری بلکہ ڈیڑھ سو سے زیادہ پرائیویٹ ہسپتالوں سے بھی کروا سکتے ہیں اب میں آپکو بتاتا ہوں کہ یہ کارڈ آپکو کیسے ملے گابات یہ ہے کہ اس کے لیئے آپکو کسی قسم کی رجسٹریشن کروانے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی کسی سفارش کی ضرورت ہے این ایس سی آر کی ٹیمیں سروے کر رہی ہیں پہلے یہ سروے 2012 میں ہوا تھا اب وہی ٹیمیں دوبارہ سروے کر رہی ہیںاسکا باقاعدہ سروے شروع ہو چکا ہے آپ نے کوئی کچھ نہیں کرنا اگر تو آپ کے گھر کا سروے ہو گیا تو ٹھیک نہیں تو جلد ہی سروے ٹیم آپ کے گھر آئے گی آپ سے آپ کے گھر کے مالی حالات جانے گی اور بعد میں آپکو کارڈ کا اجرا کر دیا جائے گا ہو سکتا ہے کارڈ آپکے گھر ڈیلیور کر دیا جائے اور اگر ڈیلیور نہیں ہوا تو چھوٹے چھوٹے قصبوں اور شہروں میں سہولیاتی سنٹر کھولے جائیں گے جہاں سے آپ اپنا کارڈ لے سکتے ہیںایک بات آپ نے یاد رکھنی ہے کہ آجکل فراڈ بہت ہے آپ نے صرف این ایس سی آر کی ٹیم ان کے سوال کے جائز جواب دینے ہیں ،اس سکیم میں کسی قسم کی کوئی سیاسی سفارش،یا اگر کوئی سرکاری ملازم آپ کو کہتا ہے کہ پیسے دیکر میں کروا سکتا ہوں تو وہ سب جھوٹ ہو گایہ کارڈ بالکل مفت ہوں گے کسی قسم کی کوئی فیس نہیں ہو گیانصاف صحت کارڈ انشورنس کیا ہے اس سے فائدہ کیسے اٹھانا ہے،طریقہ کار یہ ہے کہ حکومت پاکستان آپکے خاندان کے نام انشورنس کے دوہزار روپے بو جمع کرواتی ہے اس سے ایک سال کے اندر سیکنڈری کیئرsecondary care جس سے آپ کی جان کو خطرہ نہ ہو لیکن آپ بیمار ہوں جیسے بخار،وغیرہ تو اس کے لیئے آپکی انشورنس ساٹھ ہزار سے ایک لاکھ بیس ہزار تک ہوگی2:دوسری بات کہ اللہ نہ کرے آپکو ایسی بیماری لاحق ہے جس سے آپکی جان کو خطرہ ہے،جیسے دل کے امراض،ٹی بی،شوگر ،گردے،دماغ کا آپریشن،اور روڈ ایکسیڈینٹ کے علاوہ،کینسر ،ہیپاٹائیٹس سی ہوں تو اس کے لیئے حکومت پاکستان نے آپ کے لیئے تین سے چھ لاکھ روپے سالانہ کی انشورنس جمع کروائی ہے ایک بات آپ نے یاد رکھنی ہے کہ یہ نہیں سوچنا کہ اگر آپ یہ کارڈ استعمال نہیں کریں گے تو سال کے بعد رقم آپکو بطور کیش مل جائے گی ایسا ہر گز نہیں ہے ،جب کبھی اللہ نہ کرے آپ بیمار ہوتے ہیں تو اپنے قریبی اچھے سرکاری یا پرائیویٹ ہسپتال جائیں گے جہاں یہ کارڈ کارآمد ہو گا تو وہاں اس سکیم کا ایک نمائیندہ بیٹھا ہو گا جو آپکا کارڈ دیکھ کر آپکا شناختی کارڈ چیک کرے گا اور وہاں جو علاج معالجے کا خرچہ ہو گا وہ اس کارڈ کے ذریعے ادا کیا جائے گا اگر ہیلتھ کارڈ سروے کی ٹیم آپ کے گھر نہیں آئی تو ان کے نمبر080026477 پر آپ کال کر کے معلومات لے سکتے ہیں اس سکیم کا آغاز سب سے پہلے اسلام آباد سے ہو گا پھر فاٹا اور اس کے بعد ملک بھر میں اس کارڈ کا اجرا کیا جائے گا اس سے پہلے یہ سکیم خیبر پختونخواہ میں پچھلے تین سال سے بہت کامیابی سے چل رہی ہے اور اب انشاءاللہ پورے پاکستان میں متعارف کروائی جائے گی تو اگر آپ خود یا آپکے جاننے والے جو حقدار ہیں اس ہیلپ لائن نمبر پہ کال کریں اور سروے ٹیم سے کنفرم کریں کہ کیا ہماری رجسٹریشن ہو گئی ہے یا کب ہو گی
بلوچستان جعفر آباد کے قومی شاہراہ پر کسٹم پوسٹوں کے باوجود سمگلنگ جاری
ترمیمجعفرآباد(گل رند)
این اے 65 سند ھ بلوچستان کی قومی شاہراہ پر کسٹم کی دو چیک پوسٹیں ہونے کے باوجود کروڑوں روپے کاایرانی ڈیزل چھالیہ غیر ملکی پان پراگ ویگر غیر قانونی کابلی گاڑیوں کی سملنگ عروج پر پہنچ گئی ہے حکومت کو ماہانہ کروڑوں روپے ٹیکس میں خسارہ کسٹم اہلکاروں کی چاندی ہو گئی سرکاری منظور شدہ پیڑول پمپ مالکان کا دیوالیہ نکل گیا ڈی آئی جی نصیرآباد کی چھاپہ مار ٹیم کی جانب سے کروڑوں روپے کی چھالیہ غیر قانونی پان پراگ ایرانی ڈیزل کی بر آمدکرنے کے بعد کسٹم بلوچستان کی تحقیقاتی ٹیم نصیرآباد جعفر آباد پہنچ گئی کسٹم اہلکاروں کی دوڑیں لگ گئیں بڑے پیمانے پر اہلکاروں کی معطلی کا امکان تفصیلات کے مطابق کسٹم بلوچستان نے این اے 65 کچھی نصیرآباد جعفر آباد پر غیر قانونی ایرانی ڈیزل غیرملکی چھالیہ پان پراگ کابلی گاڑیوں کی اندورن ملک سملنگ کی روک تھام کیلئے کروڑوں روپے سے بولان کے علاقے کولپور اور نصیرآباد کے علاقے نوتال میں چیک پوسٹیں قائم کی گئیں ہیں اس کے باوجود سملگلرز سیلمانی ٹوپی پہن کر سمگلرز دو نوں کسٹم کی چیک پوسٹیں پار کرنے لگے ہیں جبکہ گزشتہ روز ڈی آئی جی پولیس نصیرآباد منیراحمد ضیاء راو کی ٹیم نے قومی شاہراہ پر چھاپہ مارکر نصیرآباد اور ڈیرہ اللہ یار میں کروڑوں روپے کی چھالیہ اندورن ملک سملنگ کرنے کوشیش کو ناکام بنا دیا تھا جس پر این اے 65پر سملنگ کی عدم روک تھام کیلئے کسٹم بلوچستان کے اعلی حکام ٰ کو تحریری خط ارسال کیا تھاجس کی روشنی میں کسٹم بلوچستان کی سنیئر آفیسروں پر مشتمل تحقیقاتی ٹیم نصیرآباد جعفر آباد کچھی پہنچ گئی ہے جس سے کولپور اور نوتال کسٹم چیک پوسٹ کے اہلکاروں میں کھلبلی مچ گئی ہے زرائع کے مطابق تحقیقاتی ٹیم کے دورے کے بعد بڑے پیمانے پر کسٹم اہلکاروں کی معطلی اور تبالے کا امکان ہے کچھی نصیرآبادجعفر آباد اور صحبت پور میں دو ہزار سے زائد غیر قانونی منی پیڑول پمپوں کو ایرانی ڈیزل اور پیڑول کی ترسیل جاری ہے جس سے حکومت بلوچستان کو ماہانہ ٹیکس کی مد میں کروڑوں روپے نقصان پہنچ رہا ہے۔ Tribalnews (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 10:28، 11 اپریل 2019ء (م ع و)