خِردافروزی اٹھارھویں صدی کی مشہور عقلیاتی تحریک کا عنوان ہے جو ہالینڈ اور فرانس سے شروع ہوئی اور مقبول ہوکر تمام مغربی ممالک میں پھیل گئی۔

مقاصد ترمیم

اس تحریک کو شروع کرنے والے فلاسفہ کے پیش نظر دو مقاصد تھے:

  1. عقلیت
  2. انسان دوستی

اس تحریک کو شروع کرنے والے فلاسفہ اُس عقلیاتی ہیجان کے وارث تھے جو احیاء العلوم کے دوران یورپ میں اُٹھا تھا۔ اُن کی اولیات یہ ہیں کہ انھوں نے فکر و تدبر کی روشنی کو دنیا بھر میں پھیلایا۔ علما اور ماہرین کی بجائے تمام عورتوں اور مردوں کو مخاطب کیا اور اعلان کیا کہ تہذیب و تمدن اور علوم و فنون تمام بنی نوع انسان کی مشترکہ میراث ہیں۔ انھوں نے فکر انسانی میں امید کی روح پھونک دی۔ وہ فلاسفہ انسان کو فطرتاً نیک مانتے تھے اور انھیں توقع تھی کہ مستقبل میں نیکی ہی فتح یاب ہوگی۔ اُن کی انسان دوستی حقیقی اور گہرے جذبے پر مبنی تھی جس نے اُن میں بے پناہ جوش و خروش پیدا کیا۔ وہ مذہب سے بدظن تھے لیکن انسان پر کامل ایمان رکھتے تھے۔ اُن کے اس اعتماد کا اظہار ایام دہشت میں ہوا جب شریف النفس کندورسے نے اپنی پناہ گاہ میں جہاں سے وہ مر کر ہی نکلا اپنی تاریخ ساز کتاب”ذہن انسانی کی ترقی کا خاکہ“ لکھی جس کے آخری باب میں اُس نے پیش گوئی کی کہ مستقبل میں فتح عقل و خرد ہی کی ہوگی۔

تحریک کو پروان چڑھانے والے فلاسفہ ترمیم

کندورسے کے علاوہ والٹیر، دیدرو، دالبر، کبانے، دالباخ اور ماں تسکو نے عقلیت کی اس تحریک کو پروان چڑھایا۔ ان فلاسفہ نے مل کر قاموس العلوم (انسائیکلو پیڈیا) مرتب کیا، جس میں عقلیاتی اور تحقیقی نقطہ نظر سے مضامین لکھے۔ قاموسیوں نے اُمراء کے استحصال اور پادریوں کی دین فروشی کے پردے بڑی بے رحمی سے چاک کیے۔ وحی اور الہام کے تصور کو رد کر دیا اور مادیت پسندی کی اشاعت کی۔ اُن کی تحریروں کے باعث عقل و خرد کا احترام اور انسانی حقوق کی پاسداری کا احساس ہر جگہ مقبول ہو گئے۔ انسانی مساوات و اخوت جیسی تراکیب زبان زد عوام ہو گئیں۔ قاموسیوں ہی نے انقلاب فرانس کے لیے راہ ہموار کی تھی۔ اس تحریک سے جدید دور کے اشتراکی انقلابیوں نے بہت استفادہ کیا ہے۔[1]

تحریک خردافروزی، پاکستان ترمیم

مغربی ممالک میں اٹھارویں صدی کے دوران استبصار (enlightenment) کی جو تحریک برپا ہوئی اس کا ترجمہ سید علی عباس جلالپوری نے تحریک خرد افروزی سے کیا ہے۔ مغرب میں کلیسا اس تحریک کو کچلنے میں ناکام رہا اور ہر جگہ سائنسی علوم کی روشنی میں معاشرے کو مدون کرنے کے رجحانات رواج پا گئے۔ مشرقی ممالک میں عقلیت پسندی اور خرد افروزی کو درخور اعتنا سمجھنے کی بجائے علم کلام کے نام پر تقلید جامد کا دامن مضبوطی سے تھاما گیا اور سائنسی انکشافات کو ذھنی طور پر قبول نہیں کیا گیا۔ علی عباس جلالپوری نے خرد افروزی کے عناصر ترکیبی یہ بتائے ہیں۔

  1. سائنس اور فلسفہ کو مذہبی تحکم سے نجات دلانے کی کوشش کرنا
  2. انقلابیت، عقلیت پسندی یا سائنسی علوم کی روشنی میں معاشرے کو از سر نو مرتب کرنے کی کوشش کرنا
  3. مذہبی منافرت اور جنون کا انسداد
  4. انسان دوستی کا فروغ

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. خردنامہ جلالپوری