اٹھارھویں صدی میں فرانس دنیا کا سب سے مہذب، متمدن اور ترقی یافتہ ملک تھا۔ تہذیب و اخلاقیات، تعلیم، حقوق انسانی، سیاسیات، غرض کہ ہر موضوع پر اس کے ممتاز مفکرین اور ادیبوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر اپنی رائے کا اظہار کیا۔ چونکہ عام طور پر یہ خیال پیدا ہو گیا تھا کہ سیاسی اصلاح احوال سے سب کچھ درست و صحیح ہو جائے گا۔ لہٰذا جب انقلاب عمل میں آیا تو اس کے سماجی، اخلاقی اور انسانی پہلو تو نظر سے اوجھل ہو گئے اور نگاہیں سیاسی کارفرماؤں پر مرکوز ہوگئیں اور خیالات و جذبات کے لیے ربط سیل کے سامنے بادشاہ، ملکہ، شاہی خاندان، امرا اور وہ سب اشخاص اور ادارے جو سیاسی زندگی سے متعلق تھے یا اس کے آئینہ دار تھے کچل دیے گئے۔ جب یہ سیل سبک سیر تھما اور پیرس کا مطلع صاف ہوا تو اس کے افق پر وہ شخصیت نمودار ہوئی جو اپنے آپ کو مرد بخت آور (انگریزی: Man of destiny) کہتی تھی۔ اسے انقلاب فرانس کے رجحانات یا نظریات سے کوئی دلچسپی نہیں تھی وہ قسمت کا کھلاڑی تھا اوراُسے محض اپنی ذات سے غرض تھی۔

عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ انقلاب فرانس (انگریزی: French Revolution) (1789ء تا 1794ء) کا باعث اقتصادی بدحالی تھی مگر کارلائل اوردوسرے مورخین اس نظریے سے اتفاق نہیں رکھتے اُن کا خیال ہے کہ فرانس کے باشندوں کی مالی حالت دوسرے ممالک کے باشندوں سے کسی طرح بری نہ تھی۔ گو اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ جنگ آزادی امریکا میں امریکا کی اعانت کرنے سے حکومت فرانس کا اپنا خزانہ خالی ہو گیا تھا۔ اسی طرح یہ نظریہ بھی قطعاً غلط ہے کہ انقلاب اس لیے برپا ہوا کہ بادشاہ فرانس لوئی شانز دہم اپنے ملک اور رعایا کا بہی خواہ نہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ لوئی پانز دہم سے کہیں بہتر حکمران تھا۔ مؤرخین کی رائے کے مطابق عوام کا خیال تھا کہ لوئی کے عہد میں فرانس کو پھر وہ رعب و دبدبہ حاصل ہوگا جو رشلویا لوئی چہارم کے ادوار میں حاصل تھا۔

مگر اُن کی یہ خواہش آئندہ توقعات بہت جلد مایوسی میں تبدیل ہوگئیں۔ لوئی اور اس کی حکومت سرکاری خزانے کے دیوالیہ پن کو دور کرنے سے قاصر رہی۔ بلکہ جنگ آزادی امریکا نے فرانس کی مالی حالت اور بھی ابتر کردی۔ اس جنگ کا ایک اور اثر یہ بھی ہوا کہ امریکا سے واپس آئے ہوئے فرانسیسی سپاہیوں نے جمہوریت، مساوات وغیرہ کے نظریات سے دیہی طبقے کو روشناس کرایا۔ شہری طبقہ روسو اور والیٹر جیسے ادیبوں اور مفکروں کی بدولت ان نظریات سے پہلے ہی متعارف تھا اس لیے 1787ء میں ذمے دارحکومت کے حق میں تحریک کا چل نکلنا غیر قدرتی نہ تھا۔ چنانچہ جب 5 مئی 1789ء کو لوئی نے Estates Journal کا اجلاس طلب کیا کہ نئے ٹیکسوں کے ذریعے سرکاری خزانے کو پر کیا جائے تو پارلیمان کے اراکین نے فوری اور اشد ضروری مالی مشکلات کو حل کرنے کی بجائے نظریاتی مباحث کھڑے کر دیے اور ذمے دار حکومت کے قیام کا مطالبہ شروع کر دیا۔ 24 جون 1789ء کو پارلیمان نے اپنے آپ کو مجلس دستور ساز (نیشنل اسمبلی) قرار دے کر ملکی دستور کی تخلیق کا کام اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ اس کے بعد یہ لوگ دو برس تک یعنی 7 جون 1791ء تک ایسے مباحثات میں پھنسے رہے جن کا حالات موجودہ یا پیش آمدہ مصائب سے دور کا بھی تعلق نہ تھا۔ اسی اثنا میں 14 جولائی 1789ء کا وہ واقعہ بھی پیش آیا جس میں اہل پیرس نے باستیل کے جیل خانے کو منہدم کر دیا۔

انہدام باستیل سے پیرس کا باثروت طبقہ ڈر گیا اور اس نے بادشاہ سے اجازت لیے بغیر اپنی حکومت قائم کر لی۔ ان کی حکومت کے قیام کی خبر جب دیہی طبقے کے کانوں میں پڑی اور انھیں یہ بھی معلوم ہوا کہ باستیل کو منہدم کر دیا گیا ہے۔ تو ان کے دلوں سے قانون کا احترام اٹھ گیا۔ اور انھوں نے 4 اگست 1789ء کو بغاوت کر دی۔ سیاسی لیڈروں نے مزارعین کو وہ مراعات دینے کا وعدہ کیا جو اس بغاوت سے پیشتر انھیں دینے سے گریزاں تھے۔ اس طرح اسمبلی نے دستور سازی کی شکل میں جو سیاسی طوفان پیدا کیا تھا۔ اس کا پانی اب ان کے اپنے سروں سے گذر گیا اور سیاسی انقلاب کے ساتھ اقتصادی، سماجی اور مذہبی انقلاب بھی آگیا۔ نیشنل اسمبلی کے انقلاب انگیز مشیروں بالخصوص بادشاہ کے بھائیوں اور ملکہ نے بادشاہ کو ملک سے بھاگنے کی ترغیب دی۔ بادشاہ اور ملکہ کو پکڑ کر پیرس واپس لایا گیا۔ یہ واقعہ 20۔ 25 جون 1791ء کو پیش آیا۔ لوئی کی گرفتاری سے ملک کے طول و عرض میں سنسنی پھیل گئی اور اس طرح حکومت وقت کا رہا سہا اقتدار بھی ختم ہو گیا ستمبر 1791ء تک بادشاہ نظر بند رہا۔ اس کے بعد نئے دستور کا نفاذ ہوا اور بادشاہ کو اس کے منصب پر بحال کر دیا گیا۔ درباریوں کو ملک کے مستقبل اور بادشاہ کی جان کی فکر لاحق ہوئی۔ مگراب کیا ہو سکتا تھا۔ انھوں نے غیر ممالک سے ساز باز کی مگر کچھ نہ بن سکا۔ 20 جون اور 10 اگست 1792ء کو عوام نے شاہی محل پر حملہ کر دیا۔ اور بادشاہ اور ملکہ کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔ بادشاہ اور ملکہ کو پھر قید کر لیاگیا۔ 21 جنوری 1793ء کو شاہ فرانس کو سزائے موت دے دی گئی۔ 16 اکتوبر 1793ء کو ملکہ فرانس کو بھی عوامی عدالتی کارروائی کے بعد موت کی سزا دے دی گئی۔ 10 نومبر 1793ء کو خدائی عبادت کے خلاف قانون منظور ہوا۔ دریں اثنا فرانس میں کسی کی گردن محفوظ نہ تھی۔ 1793۔ 1794 کے درمیان ہزاروں افراد کوموت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ 8 جون 1795ء کو ولی عہد فرانس کو بھی قتل کر دیا گیا۔ آخر مئی 1804ء میں نپولین بونا پارٹ بر سر اقتدار آیا اور فرانس کی تاریخ کا نیا باب شروع ہوا۔

مزید دیکھیے

ترمیم