تحریکِ نسواں، پاکستان میں خواتین کی ایک تنظیم ہے۔ تحریکِ نسواں کا قیام 1979ء میں [1] کراچی، سندھ میں شیما کرمانی نے کیا تھا جو کتھک اور بھرت ناٹیم کی ماہر ہیں۔[2][3][4][5] تحریک نسواں کی بنیاد 1979 میں پرفارمنگ آرٹس کو محنت کش طبقے کی خواتین اور پسماندہ طبقات کو حقوق کے پیغامات دینے کے لیے ایک ذریعہ کے طور پر استعمال کرنے کے لیے رکھی گئی تھی۔[6]اس تنظیم کے قیام کے فوراً بعد، 1980 میں، ضیاءالحق کی حکومت نے، رقص پرفارمنس پر پابندی لگا دی۔[7] تحریک، پرفارمنس کو خواتین کے لیے امن، مساوات اور ہم آہنگی کے پیغام کو پھیلانے کے لیے ایک ذریعہ کے طور پر استعمال کرتی تھی۔[8] شیما کرمانی نے تحریکِ نسواں کے تحت کئی کانفرنسوں کا انعقاد کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ ادب و ثقافت کی ترویج اور خواتین تک اس کی رسائی بڑھانے کے لیے بجٹ کا ایک فیصد حصہ مختص کیا جائے۔[9]

تحریک کی ابتدائی توجہ خواتین کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے، سیمیناراور ورکشاپوں کے انعقاد پر تھی اور اپنے پیغام کو پہنچانے کے لیے تھیٹر اور رقص جیسی ثقافتی اور تخلیقی سرگرمیوں کا اہتمام کرتی ہے۔ تحریک نسواں نے بہت سے سیاسی ڈرامے پیش کیے۔[10] تنظیم کے کارکنان نے ادبی تقریبات،[11] تھیٹر تقریبات،[12][13] کانفرنسوں،[14] مزاروں[15] حتیٰ کہ ہسپتالوں میں بھی تھیٹر کا مظاہرہ کیا۔[16][17] تحریک معاشرے میں امن کے فروغ کے لیے رقص کی تقریبات کا انعقاد کرتی تھی۔[18][19][20] تحریکں نسواں کی بدولت شیما کرمانی نے نانصافیوں کے خلاف جنگ اور مظلوم خواتین کو بااختیار بنانے کا مقصد اپنایا۔[21]

انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو[22]، عورت کا سوال ہو،[23]، جبری گمشدگیاں ہوں،[24]، وبائی امراض ہوں[25]، خواتین کی خود مختاری ہو[26][27]، زمینی جبری بے دخلی ہو[28]، تحریکِ نسواں آواز اٹھانے میں پیش پیش رہی ہے۔ تھیٹر اداکارہ مہوش فاروقی بھی تحریکِ نسواں کا سرگرم رکن رہی تھیں۔[29] ویمن ایکشن فورم کے بننے میں بھی تحریکِ نسواں کے ارکان نے اہم کردار ادا کیا تھا۔[30]

2018ء سے جاری عورت مارچ کی تحریک سے بھی تحریکِ نسواں نے یکجہتی کا اظہار کیا اور اس کے انعقاد کے لیے بھرپور کوشش کی۔ تحریک کی سربراہ شیما کرمانی نے عورت مارچ کے دوران خواتین ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات اور خواتین میں آگاہی کے لیے کوشش کی۔[31]

قابل ذکر کام

ترمیم
  • سٹیج تھیٹر، سانگ آف موھن جو داڑو[32][33]
  • کرچی کرچی کراچی[34]
  • منٹو میرا دوست اور جنیں لاہور نہیں ویکھیا[35]
  • رقص کرو،برجیس طاہر کا "کمبہ"، اس بے وفا کے شہر میں [36]
  • عزت ہی نہیں انسان ہیں ہم[37]
  • جمیلہ ہاشمی کے افسانے’شیریں‘ پہ مبنی سٹیج ڈراما[38]
  • امر جلیل کے افسانے "مجھ میں تو موجود" پہ تھیٹر[39]
  • بچوں کے لیے ایک خصوصی کھیل ’’ جنگل جنگل زندہ باد[40]
  • عصمت چغتائی کی بین المذاہب ہم آہنگی بارے کہانی ”کافر“ پہ مبنی تھیٹر[41]

حوالہ جات

ترمیم
  1. Saadia Qamar (3 July 2011)۔ "Tehrik-e-Niswan: Passage to India"۔ دی ایکسپریس ٹریبیون۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 دسمبر 2012 
  2. "دو خوفناک مناظر اور شیماکرمانی کی 'تحریک نسواں'"۔ urdu.geo.tv 
  3. "Sheema Kirmani raises voice for TikToker Ayesha's assault"۔ 24 News HD (بزبان انگریزی)۔ 20 August 2021 
  4. Asad Farooq (9 January 2012)۔ "The Song of Mohen-jo-Daro' presented at Alliance Francaise"۔ Daily Times (Pakistan)۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 دسمبر 2012 
  5. "Women march for rights, gender parity – Social Track – People's right to wellness" 
  6. https://www.qaumiawaz.com/society/it-is-capitalist-media-which-decides-what-to-be-shown-and-how-more-money-could-be-earned-says-sheema-kirmani
  7. "'I will dance and no one can stop me' says Sheema Kermani"۔ MM News TV۔ 30 May 2020 
  8. "A song for women"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)۔ 10 March 2015 
  9. https://jang.com.pk/news/401454-todays-print
  10. Magazine Youlin۔ "Islamabad Literature Festival - Day I - - Youlin Magazine"۔ www.youlinmagazine.com (بزبان انگریزی) 
  11. "Greater efforts sought to inculcate values of tolerance in society"۔ Daily Times۔ 26 February 2018۔ 26 فروری 2023 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 مارچ 2022 
  12. "آرکائیو کاپی"۔ 26 دسمبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 مارچ 2022 
  13. "Tehreek-e-Niswan organise two-day "Community Theater Festival"" 
  14. "Arts Council hosts 4th Women's Peace Table Conference"۔ The Express Tribune (بزبان انگریزی)۔ 28 October 2018 
  15. "Tehrik-e-Niswan plans Dhamaal, discussion to remember victims"۔ www.thenews.com.pk (بزبان انگریزی) 
  16. Elizabeth Kramer۔ "Exploring feminist issues in Pakistan through arts"۔ The Courier-Journal 
  17. Elizabeth Kramer۔ "Pakistani artists, journalists give voice to issues government is reluctant to face"۔ The Courier-Journal 
  18. "Tehrik-e-Niswan"۔ Peace Insight (بزبان انگریزی) 
  19. "Theatre festival puts gender issues on stage"۔ The Express Tribune (بزبان انگریزی)۔ 28 February 2022 
  20. "Tehreek-e-Niswan for raising voice to eliminate violence against women"۔ www.thenews.com.pk (بزبان انگریزی) 
  21. "آرکائیو کاپی"۔ 10 نومبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 مارچ 2022 
  22. https://www.independenturdu.com/node/38626
  23. https://mmnews.tv/urdu/the-aurat-march-will-be-bigger-than-last-time-sheema-kermani/
  24. https://www.bbc.com/urdu/pakistan-38685360
  25. https://jang.com.pk/news/770227
  26. https://www.dawnnews.tv/news/1070454/
  27. https://www.samaa.tv/life-style/2019/12/1776427/
  28. "آرکائیو کاپی"۔ 14 جون 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 مارچ 2022 
  29. https://www.dawnnews.tv/news/1080281/
  30. https://www.dawnnews.tv/news/68478
  31. "آرکائیو کاپی"۔ 22 مئی 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 مارچ 2022 
  32. https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2010/03/100320_kar_lietrary_festival
  33. Huma Yusuf (30 April 2009)۔ "KARACHI: Dance drama enthrals audience"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی) 
  34. Shazia Hasan (3 March 2015)۔ "Tehreek-i-Niswan plans Tlism festival to mark 35th anniversary"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی) 
  35. Buraq Shabbir۔ ""It is very difficult for us to find sponsors" – Sheema Kirmani"۔ www.thenews.com.pk (بزبان انگریزی) 
  36. https://www.bbc.com/urdu/entertainment/story/2009/03/090308_tlism_festival_fz
  37. https://urdu.geo.tv/latest/135619-latest-news
  38. https://adbimiras.com/jameela-hashmi-ki-adbi-khidmat-saba-anjum/
  39. https://www.mukaalma.com/110886/
  40. https://jang.com.pk/news/1030440
  41. https://dailypakistan.com.pk/01-Mar-2020/1100237