تخت بابری
تخت بابری کلرکہار تخت بابری، موروں کی بہتات اور نمکین پانی والی جھیل کے باعث مشہور ہے۔
مغل شہنشاہ ظہیر الدین بابر (پیدائش: 1483ء - وفات: 1530ء) کابل سے دلی تک حکومت کی کلرکہار میں قیام کے دوران میں فوج سے خطاب کرنے کے لیے ایک چٹان تراش کر بابر کے لیے تخت بنایا تھا جواب بھی تخت بابری کے نام سے موجود ہے۔
ایک اور روایت کے مطابق
باغ صفا کے وسط میں ایک بڑے بھاری پتھر کو تراش کرایک تخت بنایاگیا ،جس پر بیٹھ کربابرحکومتی احکام جاری کیا کرتا ۔ اس لیے تخت کو’’ تخت بابری‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے
کلر کہار میں اپنے قیام کے دوران میں شہنشاہ بابر نے ایک باغ بھی لگوایا جو ابھی تک قائم ہے جسے باغ صفا کہتے ہیں۔ اپنی تصنیف تزک بابری میں شہنشاہ بابر نے کلر کہار کو دلکش مقام مع تازہ ہوا اور قدرتی خوبصورتی سے متصف جگہ کے طور پر بیان کیا ہے۔
ایک روایت کے مطابق کلر کہار جھیل کے قریب ایک بڑا سا پتھر ہے جس پر بابر نے فتوحات کی تھکان اتارنے کے لیے آرام کیا تھا۔ یہ پتھر تخت بابری کے نام سے مشہور ہے۔ بابر نے یہاں دو چار روز قیام بھی کیا تھا اور اپنی خود نوشت میں اس علاقے اور یہاں کے لوگوں کا ذکر بھی کیا تھا۔ اس نے تعجب کے ساتھ لکھا کہ یہاں لوگ اناج کے ساتھ اناج کھاتے ہیں۔ یعنی روٹی اور دال۔[1]
چکوال کے سابق ڈی سی ڈاکٹر لیاقت نیازی نے بابر بادشاہ کے تخت بابری کی دوبارہ تزئین و آرائش کی، اب تخت بابری کے نیچے ایک عجائب گھر تعمیر ہو چکا ہے۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 11 نومبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 دسمبر 2016
پیش نظر صفحہ پاکستان کی عمارات و ساخات سے متعلق موضوع پر ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں مزید اضافہ کرکے ویکیپیڈیا کی مدد کرسکتے ہیں۔ |
پیش نظر صفحہ پنجاب، پنجاب جغرافیہ سے متعلق موضوع پر ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں مزید اضافہ کرکے ویکیپیڈیا کی مدد کرسکتے ہیں۔ |