بابر کی سوانح تزک بابری ایک تاریخی دستاویز ہے۔ یہ سولہویں صدی کے وسط ایشیاء اور فارس کے بارے میں معلومات دیتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جدید دور کے افغانستان، بھارت اور پاکستان میں شامل علاقوں کے بارے میں بھی کئی بامعنی باتیں بتاتی ہے۔

تزک بابری
(نامعلوم میں: بابر نامہ ویکی ڈیٹا پر (P1476) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
KhusrauBabur.jpg
 

مصنف ظہیر الدین محمد بابر  ویکی ڈیٹا پر (P50) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اصل زبان چغتائی،  فارسی  ویکی ڈیٹا پر (P407) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
موضوع ظہیر الدین محمد بابر  ویکی ڈیٹا پر (P921) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ادبی صنف خود نوشت  ویکی ڈیٹا پر (P136) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کتاب کی ایک تصویر

پس منظرترميم

بابر نے اس کتاب کواپنی مادری زبان ترکی میں لکھا تھا۔ اس کا ایک نسخہ 'المنسکی' نے 1857ء میں شائع کیا جبکہ مسز"اے ایس بیورج" نے ایک نسخہ حیدرآباد، دکن سے حاصل کیا اور 1905ء میں شائع کیا۔[1]

یہ کتاب کی زندگی کے حالات و واقعات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کو چغتائی ترکی زبان میں لکھا گیا ہے۔ اور اس کا ترجمہ فارسی زبان میں اکبر کے زندگی میں ہی ایک مغل درباری اور بیرم خان کے بیٹے عبدالرحیم خان خاناں نے کیا تھا۔

فارسی کی اصل کتاب دو سو چھیالیس صفحات پر مشتمل ہے، سادگی تحریر کے باعث ایک و یگانہ روزگار تصنیف ہے اور یہی ۔ وہ کتاب ہے جس کی بنا پر بابر کو ایک عظیم مصنف قرار دیا گیا ہے۔[2]

نگار خانہترميم

مزید دیکھیےترميم

حوالہ جاتترميم

  1. تزک بابری اور ترکی
  2. تزک بابری ص 6