تزک بابری
بابر کی سوانح تزک بابری ایک تاریخی دستاویز ہے۔ یہ سولہویں صدی کے وسط ایشیاء اور فارس کے بارے میں معلومات دیتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جدید دور کے افغانستان، بھارت اور پاکستان میں شامل علاقوں کے بارے میں بھی کئی بامعنی باتیں بتاتی ہے۔
تزک بابری | |
---|---|
(نامعلوم میں: بابر نامہ) | |
مصنف | ظہیر الدین محمد بابر |
اصل زبان | چغتائی ، فارسی |
موضوع | ظہیر الدین محمد بابر |
ادبی صنف | خود نوشت |
تاریخ اشاعت | 16ویں صدی |
درستی - ترمیم |
پس منظر
ترمیمبابر نے اس کتاب کواپنی مادری زبان ترکی میں لکھا تھا۔ اس کا ایک نسخہ ”المنسکی“نے 1857ء میں شائع کیا جبکہ مسز”اے ایس بیورج"“نے ایک نسخہ حیدرآباد، دکن سے حاصل کیا اور 1905ء میں شائع کیا۔[1]
یہ کتاب بابر کی زندگی کے حالات و واقعات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کو چغتائی ترکی زبان میں لکھا گیا ہے۔ اور اس کا ترجمہ فارسی زبان میں اکبر کے زندگی میں ہی ایک مغل درباری اور بیرم خان کے بیٹے عبدالرحیم خان خاناں نے کیا تھا۔
فارسی کی اصل کتاب دو سو چھیالیس صفحات پر مشتمل ہے۔سادگی تحریر کے باعث ایک یگانہ روزگار تصنیف ہے اور یہی وہ کتاب ہے جس کی بنا پر بابر کو ایک عظیم مصنف قرار دیا گیا ہے۔[2]
نگار خانہ
ترمیممزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ تزک بابری اور ترکی
- ↑ تزک بابری ص 6