ترک اولیٰ کا معنی کسی اچھے کام کو انجام دیتے ہوئے کسی دوسرے زیادہ اچھے کو ترک کرنا ہے۔ علمائے جمہور ترک اولیٰ کو گناہ شمار نہیں کرتے اور ائمہؑ و انبیا کی جانب سے اس کے ارتکاب کو ممکن سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک پیغمر وں علیہم السلام اور آئمہ سے منقول استغفار کا سبب ترک اولیٰ ہی ہے۔ قرآن کی بعض آیات میں پیغمبروںؑ کی طرف کچھ لغزشوں کی نسبت دی گئی ہے۔ ان کے بارے میں مفسرین کا عقیدہ ہے کہ پیغمبروںؑ کے معصوم ہونے کی وجہ سے یہ فقہی گناہ نہیں تھے بلکہ درحقیقت یہ ترک اولیٰ تھے؛ جو ان سے سرزد ہوئے۔

البتہ یہ لفظ قرآن اور صحابہ کرام کی روایات میں استعمال نہیں ہوا اور علمائے مسلمین کی وضع کردہ اصطلاحات میں سے ہے۔

گناہ اور ترک اولیٰ میں فرق

ترمیم

گناہ اور ترک اولیٰ میں فرق کے بیان میں کہا گیا ہے کہ گناہوہ فعل ہے جس کا ارتکاب ہر ایک کی نسبت سے نامطلوب ہو اور اس کا مرتکب شخص عقاب اور سزا کا مستحق ٹھہرے لیکن ترک اولیٰ میں فرد جو انجام دیتا ہے، وہ بذات خود غلط نہیں ہے تاہم فرد کے منصب اور مقام کو دیکھتے ہوئے اسے شائستہ عمل نہیں سمجھا جاتا۔مثلاً اگر کوئی مالدار مومن کسی غریب کی بہت کم مدد کرے ، تو اگرچہ یہ امداد کم ہے اور کوئی حرام کام نہیں ہے بلکہ مستحب ہے، لیکن جو شخص بھی اس کو سنے گا وہ اس طرح مذمت کرے گا جیسے اس نے کوئی برا کام کیا ہو، کیونکہ ایسے مالدار اور باایمان شخص سے اس سے کہیں زیادہ امید تھی۔

قرآن میں ترک اولیٰ کے نمونے

ترمیم

قرآن میں بعض پیغمبروں کے حوالے سے ’’عصیان‘‘ اور ’’ظلم‘‘ جیسے کلمات ذکر کیے گئے ہیں اور ان کے استغفاراور خدا کی بخشش کا ذکر ہے جس کی مفسرین نے تفسیر ’’ترک اولیٰ‘‘ کیساتھ کی ہے۔ اس حوالے سے قرآن کی بعض آیات اور مفسرین کی تشریحات درج ذیل ہیں:

  • حضرت موسٰیؑ کے ہاتھوں مصری کا قتل

(موسی) نے کہا: خدایا! میں نے اپنے نفس پر ستم کیا، مجھے بخش دے پس خدا نے انھیں بخش دیا۔ (سورہ قصص، آیہ 16)۔ اس آیت میں حضرت موسیٰ ایک شخص کو مارنے کے سبب استغفار کرتے ہیں اور قرآن کی نقل کے مطابق خدا انھیں معاف فرما دیتا ہے۔ تفسیر نمونہ میں ہے کہ جو شخص موسیٰ کے ہاتھوں قتل ہوا تھا وہ ظالم اور فرعون کا ساتھی تھا اور قتل ہونے کا مستحق تھا۔ اس کتاب کے بقول وہ بنی اسرائیل کے ایک شخص کے سامنے سینہ زوری کر رہا تھا اور حضرت موسیٰ نے اسے صرف ایک گھونسہ جڑا جبکہ اسے قتل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ اس لیے آپ نے کوئی گناہ نہیں کیا تھا۔ البتہ آپ کا یہ عمل ترک اولیٰ تھا کیونکہ ان حالات میں یہ کام خلاف احتیاط تھا اور اس کی وجہ سے آپ بلاوجہ پریشانی کا شکار ہوئے۔

  • حضرت یونسؑ کا فريضہ رسالت کو چھوڑنا

’’ذوالنون‘‘ یونس کو یاد کرو کہ جب وہ غصے میں آکر (اپنی قوم میں سے) چلے گئے اور یہ خیال کیا کہ ہم ان کو تنگی میں نہیں ڈالیں گے (مگر جب مچھلی نے نگل لیا) تو ان تاریکیوں میں جا کر فریاد بلند کی کہ پروردگار! تیرے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے تو پاک و بے نیاز ہے اور میں اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں میں سے تھا۔ (سورہ انبیا، آیہ 87) یہ آیت حضرت یونسؑ کی داستان کی طرف اشارہ کر رہی ہے جس میں حضرت یونسؑ نے اپنی نافرمان قوم کو چھوڑ دیا اور پھر اپنے اس فعل پر پشیمان ہو گئے، اپنے عمل کو ظلم قرار دیا اور توبہ کی۔ سید محمد حسین طباطبائی نے لکھا ہے کہ حضرت یونسؑ کا عمل درحقیقت ظلم و گناہ نہیں تھا اور خدا نے ان کو اس وجہ سے تنبیہ کی تاکہ ان کی تربیت ہو اور وہ ظلم و گناہ کے مشابہہ اعمال کو بھی انجام نہ دیں۔ تفسیر نمونہ میں بھی حضرت یونسؑ کے عمل کو ترک اولیٰ قرار دیا گیا ہے۔

  • حضرت آدمؑ کا ممنوعہ پھل کھانا

آدم نے اپنے پروردگار کا عصیان کیا اور (اپنے مطلوب سے) بے راہ ہو گئے۔ (سورہ طہ، آیہ 121) مجمع البیان نے مذکورہ بالا آیت کی تفسیر میں لکھا ہے: عصیان لغت میں خدا کی اطاعت سے ہر قسم کے خروج کے معنوں میں ہے۔ اس بنا پر صرف ترک واجبات کو ہی شامل نہیں ہے بلکہ مستحب امور کے ترک کو بھی شامل ہے۔ پس حضرت آدمؑکا عصیان لازما گناہ کرنے کے معنی میں نہیں ہے۔ تفسیر نمونہ میں بھی کہا گیا ہے کہ امر و نہی بعض اوقات ارشادی جنبے کا حامل ہوتا ہے؛ جیسے جب معالج اپنے بیمار کو دوا کھانے کا حکم دیتا ہے۔ ایسے موارد میں اگر بیمار معالج کی نصیحت پر عمل نہ کرے تو صرف اپنا ہی نقصان کرتا ہے۔ خدا نے پھل کھانے سے جو منع کیا تو یہ ممانعت بھی گناہ کے معنوں میں نہیں تھی کیونکہ اس وقت ابھی خدا نے تکلیف کو وضع ہی نہیں کیا تھا۔ اس کا معنی یہ تھا کہ پھل کھانا موجب ہو سکتا تھا کہ آدم بہشت سے نکل جائیں اور زمین پر دکھ درد کا شکار ہوں۔

حوالہ جات

ترمیم

مجمع البیان