گناہ کے کئی معنی ہیں

  1. خطا، قصور، لغزش۔
  2. ایسا فعل جس کا کرنے والا مستحق سزا ہو، جرم، ناپسندیدہ فعل، فعل ممنوعہ، بری بات۔
  3. شریعت - ایسا فعل کرنا جو شرعا ممنوع ہو اور کرنے والا عذاب کا مستوجب ہو، اوامر اور نواہی کی خلاف ورزی کرنا، نافرمانی کرنا۔
  4. طریقت - اپنے آپ کو دنیا میں منہمک رکھنا اور خلق سے غافل ہونا۔[1]

مذاہب میں غیر اخلاقی کام انجام دینے کو گناہ کہا جاتا ہے۔ قدیم مذاہب میں گناہ کا تصور نہیں تھا اس لیے کہ اچھائی اور برائی اور پھر اس دنیا کے بعد کی بھی کوئی واضح تصویر ذہنوں میں قائم نہیں ہوئی تھی۔ ان مذاہب میں جہاں خدا کا تصور ہے اور اس کی بندگی افضل ہے مثلاْ یہودیت مسیحیت یا اسلام ان میں گناہ کا تصور واضح ہے۔ خدا کے احکام کی ذرا سے سرتابی یا عدول حکمی گناہ کا سبب بنتی ہے، لیکن ایسے مذاہب جن میں خدا کا تصور نہیں ہے مثلاْ بدھ مذہب وغیرہ وہاں گناہ کا کوئی تصور نہیں ہے۔ یہودی مذہب کے ابتدائی دور میں شخصی گناہ کے علاوہ اجتماعی یا قومی گناہ بھی ہوتے تھے۔ مثلاْ اگر قوم بت پرستی کا شکار ہوجاتی تو پوری قوم کو کفارہ ادا کرنا ہوتا اور اسے پاک کیا جاتا۔ چند آدمیوں کے جرائم کا عذاب پوری قوم پر نازل ہو سکتا تھا لیکن مجرموں کو سزا دے کر اس سے بچا جا سکتا تھا۔ مسیحیت اور اسلام میں اجتماعی گناہ کا کوئی تصور نہیں ہے۔ اسلام میں گناہ کے بارے میں واضح تصورات اور احکامات موجود ہیں لیکن مسیحیوں میں اس پر کافی اختلافات ہیں۔ بعض مسیحی انسانی اعمال کی تقسیم اس طرح کرتے ہیں۔ نیک، نیک نہ بد، بد۔ بعض کا خیال ہے کہ وہ تمام اعمال جو نیکی کی تعریف میں نہیں آتے لازم نہیں کہ وہ برے ہوں۔ مثلاْ جوئے کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ یہ اس وقت تک برا نہیں ہے جب تک کوئی فرض متاثر نہ ہو لیکن بعض دوسرے جوئے کو بذات خود برا سمجھتے ہیں۔ مسیحی سینٹ کا یہ عقیدہ ہے کہ ان باتوں سے بھی پرہیز کرنا چاہیے جو نیکی یا بدی کے زمرے میں نہیں آتیں اس لیے کہ خدا اس سے خوش ہوتا ہے۔ مغربی دینیات میں وہ گناہ، گناہ کبیرہ ہے جو جان بوجھ کر اور اردہ کے ساتھ کیا جائے۔ رومن کیتھولک کے نزدیک سات گناہ کبیرہ ہیں: غرور، لالچ، پیٹوپن، ہوس، غصہ، حسد اور کاہلی اور وہ گناہ جو قہر الہیٰ کی دعوت دیتے ہیں وہ ہیں جان بوجھ کر قتل، امردپرستی، غریبوں پر ظلم، محنت کش کو اجرت ادا کرنے میں فریب کرنا۔ ابلیس کا سب سے بڑا گناہ اس کا غرور تھا۔[2]

گناہ کی اقسام ترمیم

غرور ترمیم

اپنی طاقت، دولت اور عہدے، کی وجہ سے خود کو دوسروں سے بڑا سمجھنا اور دوسرے لوگوں کو خود سے کم تر اور حقیر سمجھنا یا خود کو خدا سمجھنا کہ وہ اپنی طاقت اور دولت سے کچھ بھی کر سکتے ہیں اور کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا غرور کہلاتا ہے۔ یا آپ اس بات کو اس طرح بھی بیان کر سکتے ہیں کہ غرور ایک ایسی انسانی حالت کا نام ہے جس میں انسان خود کو دوسروں سے فوقیت اور فضیلت دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ غرور اور تکبر کو ناپسند فرماتا ہے۔ غرور کا گناہ سب سے پہلے شیطان نے کیا تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے تمام فرشتوں کو اور شیطان (ابلیس) کو حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تو شیطان نے یہ کہہ کر سجدہ کرنے سے انکار کر دیا کہ حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے بنایا گیا ہے اور میں آگ سے بنا ہوں تو اللہ تعالیٰ نے شیطان کے اس غرور کو سخت ناپسند فرمایا اور شیطان کو قیامت تک مہلت دے کر اپنی بارگاہ سے نکال دیا۔ اس دنیا میں لوگ اپنی طاقت دولت اور عہدے کے نشے میں اپنے اندر اس قدر غرور اور تکبر پیدا کرلیتے ہیں کہ خود کو خدا سمجھنے لگتے ہیں دنیا میں اس کی مثالیں نمرود، شداد اور فرعون کی ہیں جو اپنی دولت اور طاقت کی وجہ سے اس قدر غرور میں مبتلا ہو گئے کہ خود کو خدا کہلوانے لگے اور وہ لوگوں پر اپنے غرور کی وجہ سے ظلم کے پہاڑ توڑتے تھے لیکن اللہ نے ان کے نام نشان بھی دنیا سے مٹا دیے اور انھیں دنیا کے لوگوں کے لیے عبرت بنا دیا۔ بڑائی صرف اللہ کے لیے ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں عاجزی کو پسند فرماتا ہے وہ انسان میں غرور جیسے کبیرہ گناہ کی بالکل اجازت نہیں دیتا لیکن لوگ ایسے بھی ہیں جو ذرا سی دولت، طاقت اور عہدہ حاصل کرتے ہیں تو ان میں غرور جیسا کبیرہ گناہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اور وہ دوسرے لوگوں کو کم تر اور اپنے سے حقیر سمجھنا شروع کردیتے ہیں اور عاجزی چھوڑ دیتے ہیں ان کے لہجے، چال ڈھال، رہن سہن میں غرور نمایاں نظر آنا شروع ہوجاتا ہے اور وہ اپنی طاقت، دولت اور عہدے کو استعمال کرتے ہوئے کمزوروں کو ظلم و ستم کا نشانہ بناتے ہیں۔

شرک ترمیم

شرک کے معنی ہیں حصہ یا ساجھا اور شریک کے معنی ہیں حصہ دار یا ساجھی دار۔شرک داراصل کسی کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹہرانا یا اللہ جیسا سمجھنا یا اللہ کومانتے ہوئے کسی اور کو اللہ ماننا۔ہے۔ اللہ ایک ہے اور اس کی خدائی میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے یعنی وہ واحدہ لا شریک ہے۔ اسلامی نکتہ نظر سے شرک کبیرہ گناہ ہے اور شرک کے متعلق اسلامی نکتہ نظر ہے کہ اللہ اور گناہ تو معاف فرما دے گا لیکن شرک کا گناہ معاف نہیں فرمائے گا۔خدا کو کسی کا شریک یا خدا کے برابر ماننے کی کچھ صورتیں ہیں۔ جیسے مسیحیوں کا تثلیث کا عقیدہ کہ اللہ تین میں کا ایک ہے یعنی حضرت عیسی علیہ السلام اور بی بی مریم علیہ السلام یہ خدا کی خدائی میں شراکت رکھتے ہیں یا کسی کو خدا کا ہم جنس اور اس کے برابر مانا جائے جیسے مسیحی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا مان کر شرک کا گناہ کرتے ہیں اور یہودی حضرت عزیز علیہ السلام کو خدا کا بیٹا مان کر شرک کا گناہ کرتے ہیں اور اسی طرح مشرکین عرب فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں مان کر شرک کا گناہ کرتے تھے۔اولاد باپ کی ملک نہیں ہوتی بلکہ ہم جنس اور مساوی ہوتی ہے اس لیے خدا کی اولاد ماننے والا شرک جیسے عظیم گناہ کا مرتکب ہوگا۔ اسی طرح غیر خدا کو خدا کے برابر ماننا بھی شرک ہے جیسے مشرکین عرب لات، منات اور عزٰیٰ کو خدا کے برابر کا درجہ دیتے تھے اور ان کو اللہ کا شریک ٹہراتے تھے۔ اسی طرح ہندو گائے کو خدا کا درجہ دیتے ہیں اور خدا کا شریک ٹہراتے ہیں۔ ہندو دیوی، دیوتائوں کو خدا کے برابر مانتے ہیں اور شرک کا گناہ کرتے ہیں۔ اسی طرح پارسی، مجوسی اور دیگر بہت سے مذاہب کے لوگ غیر خدائوں کو اللہ کا شریک ٹہراتے ہیں اور شرک جیسا عظیم گناہ کرتے ہیں شرک کرنے والوں کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خود اکیلا ساری کائنات کے نظام کو نہیں چلا سکتا (ںعوذو باللہ) اسی لیے وہ خدا کے شریک بناتے ہیں اور شرک کرتے ہیں۔ جبکہ اگر اللہ ایک نہ ہوتا اور اس کے شریک ہوتے تو ان میں آپس میں جھگڑا ہوتا اور ساری کائنات کا نظام درہم برہم ہوجاتا۔ اس لیے اللہ واحداہ لاشریک ہے اور ساری کائنات اس کے قبضہ قدرت میں ہے۔ شرک گناہ عظیم ہے جس کی کوئی معافی نہیں ہے۔

بت پرستی ترمیم

بت پرستی بہت ہی بڑا اور عطیم گناہ ہے۔ بت پرستی کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی ظاہری شکل و صورت کو اللہ کا درجہ دنیا، اللہ کے برابر ماننا، اسے اپنا خدا ماننا۔ بت پرستی میں عام طور پر پتھر، لکڑی یا دھات کی ہاتھوں سے بنائی ہوئی شبیہ کو پوجا جاتا ہے۔ قوم نوح علیہ السلام میں بت پرستی عام تھی اور اس کی وجہ سے قوم نوح پر اللہ کی طرف سے پانی کا عذاب نازل ہوا پوری قوم نوح علیہ السلام سوائے چند لوگوں کے اللہ کے اس عذاب میں ختم ہو گئی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں بتوں کی پوجا کی جاتی تھی ۔ ایک روز جب قوم کے لوگ میلے میں گئے ہوئے تھے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کے سارے بتوں کو توڑ دیا اور بڑے بت کے گلے میں کلہاڑا ڈال دیا اس زمانے میں نمرود بادشاہ تھا جس نے خود خدائی کا دعویٰ کر رکھا تھا۔اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پوچھا کیا تم نے ان بتوں کو توڑا ہے؟ تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا خود ان بتوں سے پوچھ لو اس نے کہا کہ یہ بول نہیں سکتے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ جو بول نہیں سکتے، دیکھ نہیں سکتے، سن نہیں سکتے اور خود کو بچا نہیں سکتے وہ خدا کیسے ہو سکتے ہیں۔ نمرود لاجواب ہو گیا لیکن اس نے طاقت اور غرور کے نشہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینکنے کا حکم دیا لیکن اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بچا لیا اور آگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے گلزار بن گئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب کوہ طور پر اللہ سے احکامات خداوندی لینے کے لیے گئے تو لوگوں نے سونے کا بچھڑا بنا لیا اور اس کی پوجا شروع کر دی اور عظیم گناہ کے مرتکب ہوئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب واپس آئے تو قوم کو بچھڑے کی پوجا کرتے ہوئے پایا جس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام قوم سے ان کے اس گناہ پر بہت سخت ناراض ہوئے۔ جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث ہوئے تو عرب میں بت پرستی یعنی بتوں کی پوجا عام تھی خانہ کعبہ میں 360 بت تھے۔ لات، منات اور عزیٰ کی پوجا کی جاتی تھی اس کے علاوہ ہر قوم اور قبیلے کا اپنا الگ بت تھا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کفار عرب اور مشرکین عرب کو کہا کہ اللہ ایک ہے اور یہ بت کسی کو کوئی فائدہ نہیں دے سکتے کیونکہ یہ نہ دیکھ سکتے ہیں، نہ بول سکتے ہیں، نہ ہی سن سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی جگہ سے خود حرکت کرسکتے ہیں۔ تو کافر اور مشرکین آپ کے دشمن ہو گئے۔ جب مکہ فتح ہوا تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی علیہ السلام نے خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کیا، اس طرح سرزمین عرب سے بت پرستی جیسے عظیم گناہ کا خاتمہ ہوا اور لوگ اللہ کو ایک مان کر اس کی عبادت کرنے لگے۔ ہندو دنیا کا تیسرا بڑا مذہب ہے جس میں بتوں کی آج بھی پوجا کی جاتی ہے اور بت پرستی کا گناہ کیا جاتا ہے۔ ہندوئوں میں دیوی، دیوتائوں کے بتوں کی پوجا عام کی جاتی ہے اس کے علاوہ مختلف جانوروں کے بت بھی بائے جاتے ہیں جن کی عام پوجا کی جاتی ہے اور بت پرستی جیسا گناہ عام کیا جاتا ہے۔ ہندوئوں کے مندروں میں بت عام نظر آتے ہیں جن پر چڑھاوے چڑھائے جاتے ہیں۔ محمود غزنوی نے جب سومنات کا مندر فتح کیا تو وہاں موجود بتوں کو گرایا اور مندر سے بتوں کو ختم کیا۔ لیکن ہندوستان میں آج بھی بتوں کی پوجا کی جاتی ہے اور بت پرستی کا گناہ کیا جاتا ہے۔

قتل ترمیم

کس کو غیر قانونی یا ناجائز طور پر ہلاک کردینے، جان سے مار دینے کے عمل کو قتل کہتے ہیں۔ دنیا میں سب سے پہلا قتل قابیل نے ہابیل کا کیا۔قتل کرنا دنیا کے ہر مذہب میں ناجائز اور گناہ تصور کیا جاتا ہے۔ اسلام میں قتل کو گناہ عطیم تصور کیا جاتا ہے اور اس کی سزا دنیا میں بھی دی جاتی ہے اور آخرت میں اس کی سزا جہنم ہے۔ قتل انفرادی بھی ہوتا ہے اور اجتماعی طور پر بھی قتل ہوتے ہیں۔ انفرادی طور پر کسی دشمنی کی بنا پر یا کسی سے رقم لے کر کسی کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ اجتماعی طور پر کچھ لوگ مل کر اپنے دشمنوں سے بدلہ لینے کے لیے اپنے دشمنوں کے قتل کا گناہ کرتے ہیں۔ یا بعض اوقات دو گروہوں میں آپس میں کوئی جھگڑا یا تنازع پیدا ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے دونوں اطراف کے لوگ ایک دوسرے کا قتل کردیتے ہیں اور قتل کا گناہ کرتے ہیں۔ اقتدار اور حکمرانی کی ہوس ایسی بری چیز ہے جس کے حصول کے لیے اس دنیا میں بے شمار قتل ہوئے ہیں۔ لوگوں کو علم ہے کہ قتل گناہ عظیم ہے لیکن پھر بھی ایک دوسرے کا قتل کرتے ہیں اور آج کل تو وہ دور آگیا ہے کہ قاتل کو علم نہیں ہوتا کہ اس نے کیوں قتل کیا اور نہ ہی مقتول جانتا ہے کہ اسے کس جرم میں قتل کیا گیا۔ دہشت گردی کے نتیجہ میں پوری دنیا میں لاکھوں افراد قتل ہو چکے ہیں اور اس کا سب سے زیادہ نشانہ پاکستان بنا ہے۔ غیرت کے نام پر قتل کا گناہ علحیدہ ہوتا ہے اور اس کی تعداد بھی پاکستان میں بہت زیادہ ہے۔ انسان غصہ کی حالت میں بھی قتل کا گناہ کرتا ہے اور بعد میں پشیمان ہوتا ہے۔ قتل کا گناہ مختلف طریقوں سے کیا جاتا ہے۔ کہیں گولی مار کر قتل کا گناہ کیا جاتا ہے تو کسی کو گلا گھونٹ کر مار دیا جاتا ہے تو کوکسی کو تیز دھار آلے، چھری، چاقو،گنڈاسے اور کلہاڑی کے وار سے قتل کر دیا جاتا ہے تو کسی کو زہر دے کر موت کی نیند سلا دیا جاتاہے۔ دنیا میں بڑے بڑے سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کا قتل کیا گیا ہے۔ قتل کا گناہ اکثر اپنے ذاتی فائدے کے لیے کیا جاتا ہے۔ پولیس بھی اکثر ملزموں کو عدالت میں پیش کیے بغیر قتل کا گناہ کرتی ہے۔ چھوٹے بچوں اور بچیوں کو اغوا کیا جاتا اور ان کو زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل جیسے گھناونے گناہ کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔ قتل کا گناہ ایسا گناہ ہے جس میں قاتل اور مقتول دونوں کا نقصان ہوتا ہے اس گناہ میں انسان دنیا میں بھی نقصان اٹھاتا ہے اور آخرت میں بھی نقصان ہی اٹھائے گا۔

جھوٹ ترمیم

کسی بات کو حقیقت کے خلاف بیان کرنا جھوٹ کہلاتا ہے یا یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ کسی بات کو اپنے مطلب کے حصول کے لیے غلط بیان کرنا جھوٹ کے زمرے میں آتا ہے اس کی مثال اس طرح دی جا سکتی ہے کہ امتحان میں بچے کے نمبر کم آتے ہیں لیکن گھر والے انھیں زیادہ بتاتے ہیں یعنی غلط بیانی سے کام لیتے ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں تاکہ ان کا بچہ لوگوں کی نظر میں اچھا سمجھا جائے۔ جھوٹ کبیرہ گناہ ہے اس کی مثال اس طرح دی جا سکتی ہے کہ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ میں بہت سی برائیاں ہیں اور میں سب برائیاں چھوڑ نہیں سکتا تو آپ فرمائیں میں ایک برائی چھوڑ دوں آپ نے فرمایا جھوٹ بولنا چھوڑ دو اس نے وعدہ کیا کہ وہ جھوٹ بولنا چھوڑ دے گا اور آئندہ اس گناہ کا ارتکاب نہیں کرے گا جب وہ واپس گیا اور اس نے دوسری برائیاں کرنا چاہیں تو اس نے سوچا کہ اللہ کے رسول نے پوچھا کہ تم نے یہ برائی کی ہے تو میں کیا جواب دوں گا جھوٹ بول نہیں سکتا اس طرح اس نے سب برائیاں چھوڑ دیں اس نے نبی کریم کو بتایا کے جھوٹ چھوڑنے کی وجہ سے اس کی سب برائیاں ختم ہوگئیں آپ بہت خوش ہوئے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جھوٹ کتنا بڑا گناہ ہے۔ لوگ جانتے ہیں کہ جھوٹ کبیرہ گناہ ہے لیکن جھوٹ بولتے سب ہی ہیں خواہ وہ کم بولیں یا زیادہ، سیاستدان سے لے کر عام عوام سب ہی جھوٹ کو دھڑلے سے بولتے نظر آتے ہیں اور اب تو وہ دور آگیا ہے کہ یہ گناہ ثواب سمجھ کر کیا جاتا ہے اور انسان کوئی شرمندگی محسوس نہیں کرتا، کہیں ٹی وی پر تبصروں میں جھوٹ کا گناہ ہوتاہے تو کہیں عدالتوں میں جھوٹ بولا جاتا ہے اور گناہ کیا جاتا ہے تو کہیں پارلیمنٹ میں جھوٹ کا گناہ نظر آتاہے۔ تو کہیں ڈاکٹر مریضوں سے زیادہ فیس کے لالچ میں مرض کی شدت زیادہ بتا کر جھوٹ بولنے کا گناہ کر رہے ہوتے ہیں تو کہیں باپ گھر میں رہ کر بیٹے سے کہہ رہا ہوتا کہ درواز ے پر آئے ہوئے شخص کو کہہ دو کہ ابو گھر پر نہیں ہیں تو کہیں امتحان میں بچے کے نمبر کم ہوتے ہیں لیکن گھر والے ان نمبروں کو زیادہ بتا کر جھوٹ کا گناہ کرتے نظر آتے ہیں، کہیں ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی کی جارہی ہوتی ہے اور پکڑے جانے پر جھوٹ بولا جاتا ہے کہ ہم نے تو ملاوٹ نہیں کی۔ ہر سیاسی پارٹی کہہ رہی ہوتی ہے کہ پاکستان کے بیس کڑور لوگ اس کے ساتھ ہیں لیکن کوئی احساس اور ندامت نہیں ہوتی کہ کبیرہ گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ہر ٹی وی چینل دعویٰ کررہا ہوتا ہے کہ یہ خبر سب سے پہلے اس نے نشر کی ہے لیکن کوئی ضمیر نہیں جاگتا کہ جھوٹ کا گناہ کیا ہے۔ جھوٹ ہے تو کبیرہ گناہ لیکن اس گناہ کو ہر جگہ اور ہر مقام پر کیا جاتا ہے کوئی شرمندگی، کوئی ندامت اور کوئی احساس نہیں کہ کتنا عظیم گناہ ہورہا ہے۔اس دنیا میں ایسے بھی لوگ ہیں جو جھوٹ نہیں بولتے لیکن یہ ایک کڑوی سچائی اور تلخ حقیقت ہے کہ ان کی تعداد انگلیوں پر گننی جا سکتی ہے۔ جب سے دنیا بنی ہے جھوٹ کا گناہ ہو رہا ہے اور شاید ہوتا رہے گا اللہ سب کو ہدایت دے۔

بقول شاعر

بازار میں جھوٹ کے خریدار تو بہت تھے

افسوس سچ کا خریدار کوئی نہ تھا

ظلم ترمیم

کسی فرد یا گروہ پر ناجائز طور پر اسے اپنے سے کمزور پاکر تشدد کرنا، قتل کردینا، اس جائداد ہتیا لینا، برہنہ کرکے سڑکوں پر گھمانا، چھوٹی بچیوں سے اور خواتین سے اجتماعی یا انفرادی زیادتی کرنا ظلم کہلاتاہے۔ ظلم بھی بہت بڑا گناہ ہے حضرت علی علیہ السلام کا قول ہے کہ کفر پر تو حکومت قائم رہ سکتی ہے لیکن ظلم پر حکومت قائم نہیں رہ سکتی۔ اس کی مثال اس طرح ہے کہ فرعون نے طاقت کے نشہ میں بنی اسرائیل پر اتنے ظلم کے پہاڑ توڑے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ظلم کے خاتمے کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا اور اس کے ظلم کا انجام اس طرح ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اس کی فوج سمیت سمندر میں غرق کر دیا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ظلم کتنا بڑا گناہ ہے۔ بعض حکمران اور حکومتیں طاقت کے نشہ میں عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑتی ہیں اور عوام میں جو لوگ کمزور ہوتے ہیں وہ حکمرانوں اور حکومتوں کے ظلم کو سہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ طاقت کے نشہ چور حکمران یہ نہیں سوچتے کہ وہ ظلم کا گناہ کر رہے ہیں۔ حضرت امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں پر کربلا میں یزید نے ظلم کی انتہا کر دی ان کا پانی بند کر دیا اور ان کو اور ان کے ساتھیوں کو ظلم سے شہید کر دیا اور گناہ عظیم کیا۔ ہندوستان کے حکمران اور فوج مقبوضہ کشمیر میں عوام پر ظلم کا گناہ کر رہے ہیں وہاں نوجوانوں کو قتل(شہید) کیا جا رہا ہے، خواتین کی عزتیں لوٹ لی جاتی ہیں۔ فلسطین میں اسرائیل فلسطینی عوام پر ظلم ستم کے پہاڑ توڑ کر ظلم کے گناہ کا مرتکب ہو رہا ہے۔دہشت گردوں نے آرمی پبلک اسکول پشاور میں معصوم بچوں کو قتل (شہید) کر کے ظلم عظیم کا گناہ کیا۔ بلدیہ ٹائون کراچی میں 250 افراد کو زندہ جلا دیا گیا یہ ظلم کا گناہ نہیں تو اور کیا تھا۔ ماڈل ٹائون لاہور میں 14 افراد کو گولیوں کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا گیا اور ظلم کا گناہ کیا گیا۔ چھوٹے بچوں اور بچیوں کو اغوا کر کے ان کو زیادتی کا نشانہ بنا کر اور تشدد کر کے قتل کر دیا جاتا ہے یہ ظلم کا گناہ ہی تو ہے۔ طاقتور لوگ اپنے سے کمزور لوگوں کی جائیدادوں پر قبضہ کر کے ظلم کا گناہ کرتے ہیں۔ خواتین کو سرعام سڑکوں پر برہنہ کر کے ظلم کا گناہ گیا جاتا۔ زمیندار کمزور افراد پر کتے چھوڑ دیتے ہیں اور ظلم کا گناہ کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے ظالم کی رسی دراز ہوتی ہے لیکن جب اللہ تعالیٰ ظالم کی رسی کو کھینچتا ہے تو ظالم کو اپنے ایک ایک ظلم کا حساب اس دنیا میں بھی دینا پڑتا ہے اور آخرت میں بھی اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔

رشوت ترمیم

کسی سے نقد رقم یا تحفے وصول کر کے اس کے جائز اور ناجائز کام کو کردینا رشوت کہلاتا ہے۔ یہ بد عنوانی کی ایک قسم ہے۔ رشوت کو دنیا کے ہر معاشرے میں برا سمجھا جاتا ہے۔ اسلام میں رشوت لینے والے اور دینے والے دونوں کو جہنم کی وعید سنائی گئی ہے اور اسے گناہ عظیم تصور کیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حدیث ہے کہ الراشی والمرتشی فی النار ( رشوت لینے والا اور رشوت دینے والا دونوں جہنمی ہیں)۔ اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ رشوت کتنا بڑا گناہ اور جرم ہے۔ دنیا میں لوگوں کو علم ہے کہ رشوت لینا اور رشوت دینا دونوں گناہ اور جرم ہیں لیکن اس کے باوجود دنیا میں رشوت لینے اور دینے کا گناہ اور جرم کیا جاتا اور کسی قسم کی کوئی شرمندگی نہیں ہوتی۔ہاں یہ ضرور ہے کہ کہیں رشوت کم ہے تو کہیں بہت زیادہ۔ جو جتنے بڑے عہدے پر ہوتا ہے اتنی ہی بڑی رشوت لینے کا گناہ کرتا ہے یا یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ بڑا آدمی بڑی رشوت لیتا اور دیتا ہے اور چھوٹا آدمی چھوتی رشوت لیتا اور دیتا ہے بس ہاتھ پڑے کی دیر ہے اور رشوت کا گناہ شروع ہوجاتا ہے۔سیاستدان ہوں یا سرکاری اہلکار، ڈاکٹرز ہوں یا وکلا، عدالتیں ہوں یا تھانے، استاد ہو یا بینکار غرض کوئی شخص، ادارہ یا محکمہ رشوت کے گناہ سے محفوظ نہیں ہے۔ رشوت کا گناہ خاص طور پر ان ممالک میں بہت زیادہ کیا جاتا ہے جہاں قانون کو پیر کی جوتی اور گھر کی لونڈی سمجھا جاتا ہے۔ لوگ بڑے بڑے منصوبوں میں کمیشن (رشوت کی ایک قسم) حاصل کرتے ہیں اور اس رقم سے بیرون ممالک میں اربوں روپے اور ڈالروں کی جائدادیں خریدتے ہیں۔ جوں جوں انسان رشوت لینے اور دینے کا گناہ کرتا ہے اس کی ہوس بڑھتی جاتی ہے اور وہ اور زیادہ رشوت لینے اور دینے کا گناہ کرتا ہے اور اس گناہ کی دلدل میں ایسا اترتا ہے کہ اس کا پھر باہر نکلنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ سیاست دان کڑوروں روپے الیکشن پر خرچ کرتے ہیں اور پھر منتخب ہو کر رشوت کے گناہ کا بازار گرم کرتے ہیں اور الیکشن میں خرچ کی گئی رقم سود کے ساتھ وصول کرتے ہیں۔ پولیس قیدیوں کو رشوت لے کر جیلوں میں ہونے والے ناروا سلوک سے بچاتی ہے۔ بہت سے ملکوں میں رشوت کے لیے تھانے بکتے ہیں اور رشوت کا گناہ دھڑلے سے کیا جاتا ہے۔ بہت سے ممالک میں یہ تصور عام ہے کہ ان کا کوئی بھی کام رشوت کے بغیر ہو نہیں سکتا۔ اگر محکموں میں فائل کو پر لگانے ہوں تو رشوت کے گناہ کی ہڈی بھینک دی جاتی اور فائل تیزی کے ساتھ حرکت کرتی ہے اور اس گناہ کے طفیل کام جلدی ہوجاتا ہے۔ ورنہ فائل کہیں کسی الماری میں دبی رہتی ہے۔۔ قانون میں ابہام اس وجہ سے رکھا جاتا ہے کے رشوت کے گناہ کا راستہ کھل سکے۔ انسان کی جرات پر حیرانی ہے کہ رشوت جرم اور گناہ ہونے کے باوجود لی اور دی جاتی ہے اسلام نے رشوت لینے اور دینے والے کے لیے جہنم کی وعید سنائی ہے لیکن لوگ پھر بھی رشوت لیتے اور دیتے ہیں۔

اغوا ترمیم

اغوا ایک ایسا گناہ ہے جس میں کوئی انسان یا کچھ افراد کسی بھی شخص کو زبردستی اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ اغوا کا گناہ اسے لیے کیا جاتا ہے جس فرد کو اغوا کیا جاتا ہے اس سے بہت بڑی رقم تاوان کے طور پر وصول کی جائے۔ اغوا کا گناہ سیاسی مقاصد کے لیے بھی کیا جاتا ہے کہ کسی نامور شخسیت کو اغوا کر لیا جاتا ہے اور پھر حکومتوں سے اپنے افراد کی رہائی کے لیے اپنے مطالبات پیش کیے جاتے ہیں یا اغوا کیے گئے فرد کی رہائی کے عوض اور دوسرے مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں۔ خواتین کے اغوا کا گناہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ اجتماعی یا انفرادی زیادتی کی جاتی ہے اور بعض اوقات پہلے انھیں اغوا کیا جاتا ہے اس کے بعدانہیں زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور پھر قتل کر دیا جاتا ہے۔ بعض صورتوں میں اپنے دشمن کی بیٹی، بیوی، بہن یا ماں کو اغوا کر لیا جاتا ہے اور پھر انھیں آگے فروخت کر دیا جاتا ہے اور ان سے غلط کام کروایا جاتا ہے۔ کم سن بچوں اور بچیوں کو بھی اغوا کرنے کا گناہ کیا جاتا ہے اور ان سے زیادتی کی جاتی ہے انھیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا اور انھیں اکثر اوقات قتل بھی کر دیا جاتا ان کی ویڈیو بنائی جاتی ہے اور انھیں بلیک میل کیا جاتا ہے۔ اغوا کے گناہ کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ کسی جہاز کو اغوا کر لیا جاتا ہے اور اپنے مطالبات منوانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کچھ بھی سہی اغوا ایک گنٓاہ ہے اور گناہ ہی رہے گا اس کی سزا اس دنیا میں بھی ملتی ہے اور آخرت میں بھی ملے گی۔

ناپ تول میں کمی ترمیم

ناپ تول میں کمی کا مطلب ہے چیزوں کو کم ناپنا اور کم تولنا جیسے دودھ، گندم چاول، چینی، گڑھ وغیرہ انسان تھوڑے سے فائدے کے لیے ناپ تول میں کمی کا گناہ کرتا ہے وہ اپنے گاہکوں کو کم ناپ کر اور کم تول کردیتا ہے جس سے اس کا منافع بڑھ جاتا اور گاہک کا نقصان ہوتا ہے۔ حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کے افراد ناپ تول میں کمی کا گناہ کرتے تھے جس کی وجہ سے ان پر اللہ تعالیٰ کا سخت عذاب نازل ہوا۔ابن ماجہ میں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ہے کہ جب بھی وہ ناپ تول میں کمی کرتے ہیں ان کو قحط سالی، روز گار کی تنگی اور بادشاہ کے ظلم کے ذریعے سزا دی جاتی ہے [3]

ْقرآن مجید کی سورۃ المطففین میں ناپ تول میں کمی کے بارے میں چھ آیات نازل ہوئی ہیں۔

1- وَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِينَ ﴿١﴾ الَّذِينَ إِذَا اكْتَالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ ﴿٢﴾ وَإِذَا كَالُوهُمْ أَو وَّزَنُوهُمْ يُخْسِرُ‌ونَ ﴿٣﴾ أَلَا يَظُنُّ أُولَـٰئِكَ أَنَّهُم مَّبْعُوثُونَ ﴿٤﴾ لِيَوْمٍ عَظِيمٍ ﴿٥﴾ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَ‌بِّ الْعَالَمِينَ ﴿٦﴾

ناپ اور تول میں کمی کرنے والوں کے لیے خرابی ہے (1)جو لوگوں سے ناپ کر لیں تو پورا لیں (2)اور جب ان کو ناپ کر یا تول کر دیں تو کم کر دیں (3)کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ اٹھائے بھی جائیں گے (4) (یعنی) ایک بڑے (سخت) دن میں (5)جس دن (تمام) لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے (6) ٰ[4]

رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث اور قرآن مجید کی سورۃ المطففین کی آیات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کی ناپ تول میں کمی بہت بڑا گناہ ہے اور اللہ تعالیٰ روز قیامت ناپ تول میں کمی کرنے والوں کو سخت سزا دے گا۔

منافقت ترمیم

منافقت ایسے طرز عمل کا نام ہے جس میں دل میں کچھ ہو اور زبان پر کچھ ہو۔ یہ ایسا گناہ ہے جس سے انسان کو بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے منافقت کا گناہ کرنے والے کے لیے جہنم کا سب سے نچلا درجہ مقرر کیا ہے۔ سورۃ النساء کی آیت ہے۔ إِنَّ الْمُنَافِقِینَ فِی الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ ترجمہ: یقینأ منافقین جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے [5] قرآن مجید کی اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ منافقت ایسا گناہ ہے جس کا ٹھکانہ جہنم کا سب سے نچلا درجہ ہے۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ہے۔ ا ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِیهِ فَهُوَ مُنَافِقٌ، وَإِنْ صَامَ وَصَلَّى وَ حَجَ وَ أعتمَرَ وَقَالَ إنی مُسْلِمٌ: مَنْ إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ ترجمہ: جس میں تین (خصلتیں، صفات، نشانیاں) ہوں تو وہ منافق ہے۔ خواہ وہ نماز (بھی) پڑھتا ہو اور روزہ (بھی) رکھتا ہو اور حج (بھی) کرتا ہو اور عمرہ (بھی) کرتا ہو اور یہ (بھی) کہتا ہو کہ میں مسلمان ہوں۔ (یہ وہ شخص ہے) جو (1)بات کرے تو جھوٹ بولے (2) وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے (3) جب اسے امانت دار بنایا جائے تو خیانت کرے۔[6] اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ منفاقت کرنے والا صرف ایک منافقت کا ہی گناہ نہیں کرتا بلکہ وہ جھوٹ بولنے، عہد شکنی اور امانت میں خیانت کا گناہ بھی کرتا ہے۔

منافقت ایسا گناہ ہے جو شاید ہی کسی معاشرے، مذہب، قوم اور ملک میں قابل قبول ہو اسے ہر معاشرے، مذہب، قوم اور ملک میں بہت ہی برا سمجھا جاتا ہے لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت اور کڑوی سچائی ہے کہ لوگ اس گناہ کو دیدہ دلیری سے کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔ کسی بھی شخص کے قول و فعل میں تضاد منافقت کی سب سے بڑی نشانی ہے۔ جس کا مظاہرہ ٹیلی ویژن سکرین سے لے کر دنیا کے معاشروں، حکمرانوں، ملکوں، سیاست دانوں اور خواص و عوام میں نظر آتا ہے لیکن کوئی یہ نہیں سوچتا کہ منافقت کا گناہ دیدہ دلیری سے ہو رہا ہے۔ جس کا ٹھکانا جہنم کا سب سے نچلا درجہ ہے۔ اللہ سب کو ہدایت دے اور منافقت کے گناہ سے محفوظ رکھے۔

زنا ترمیم

شادی شدہ مرد یا عورت اپنی بیوی یا شوہر کے علاوہ یا نکاح کے بغیر مرد یا عورت اپنے اختیار یا مفاہمت اور مرضی سے جماع (جماع) کرے زنا کہلاتا ہے۔ زنا کے لیے ضروری ہے کہ مرد کا آلہ تناسل (Penis) عورت کی اندام نہانی میں داخل ہو۔ زنا ایک کبیرہ گناہ ہے اوراسلام میں اس کی سخت ترین سزا سو کوڑے، سنگسار کرنا رجم مقرر ہے۔

اللہ تعلیٰ کافرمان ہے:

وَلاَ تَقْرَبُواْ الزِّنَى إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاء سَبِيلاً
زنا کے قریب بھی نہ جاؤ یہ بے حیائی اور برا راستہ ہے [7]

الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِئَةَ جَلْدَةٍ
زانیہ اور زانی، کوڑے مارو ہر ایک کو ان دونوں میں، سوسو کوڑے [8]

ْْقرآن مجید کی ان آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ زنا کتنا بڑ ا جرم اور گناہ ہے کہ اس کی سزا سو کوڑے ہے۔ زنا کے گناہ کی سزا رجم یا سنگسار کرنے کا ذکر احادیث میں آتا ہے قرآں میں اس کا کوئی ذکر نہیں ملتا ہے۔ رجم یا سنگسار کی سزا کے لیے ضروری کہ کہ چار صالح اور مقتدر گواہ ہوں جو زنا کے واقع کا مفصل اور آنکھوں دیکھا حال بیان کر کے اس کی شہادت دے سکتے ہوں اس کے علاوہ ادخال کا دیکھنا رجم یا سکنسار کی گواہی کی لازمی شرط ہے اور اگر کسی بھی گواہ کی گواہی غلط ثابت ہو جائے تو خود گواہ پر سخت سزا عائد ہوتی ہے۔ مسلم دنیا میں آج بھی زجم یا سنگسار کرنے پر متنازع افکار پائے جاتے ہیں۔ سنگسار کرنے یعنی پتھروں سے مارنے کی سزا (رجم) کا ذکر مسلم دنیا کے علاوہ غیر مسلموں، قدیم یونانی، یہودی اور مسیحی دستویزات میں بھی ملتا ہے۔ اسلام میں زنا شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ تصور کیا جاتا ہے اور اسلام میں زنا کے مرتکب کے لیے سخت ترین سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔

رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زنا کے بارے میں حدیث۔

کان نبی اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اذا انزل علیہ کرب لذلک وتربد لہ وجہہ قال فانزل علیہ ذات یوم فلقی کذلک فلما سری عنہ قال خذوا عنی فقد جعل اللّٰہ لہن سبیلًا: الثیب بالثیب والبکر بالبکر، الثیب جلد ماءۃ ثم رجم بالحجارۃ، والبکر جلد ماءۃ ثم نفی سنۃ.[9]

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی نازل ہوتی تو آپ کو تکلیف ہوتی اور اس کی شدت سے آپ کا چہرہ کسی قدر سیاہ ہو جاتا۔ ایک دن آپ پر وحی نازل ہوئی اور یہی کیفیت آپ پر طاری ہو گئی۔ جب یہ کیفیت ختم ہوئی تو آپ نے فرمایا مجھ سے لے لو۔ اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں کے لیے راہ پیدا کر دی ہے۔ شادی شدہ زانی شادی شدہ زانیہ کے ساتھ ہے اور کنوارا زانی کنواری زانیہ کے ساتھ۔ شادی شدہ کو سو کوڑے مارنے کے بعد سنگسار کیا جائے، جبکہ کنوارے کو سو کوڑے مارنے کے بعد ایک سال کے لیے جلا وطن کر دیا جائے۔‘‘

زنا کے گناہ کے بارے میں مسلم علماء کے کچھ اور بھی نظریات ہیں جن کے مطابق ایسا فعل جس سے جنسی تسکین حاصل ہو زنا کے گناہ میں شمار کیا جاتا ہے، اسی طرح جنس مخالف کو چھونا بھی زنا کے گناہ میں شمار ہوتا ہے اسے چھونے کا گناہ سمجھا جاتا ہے۔جنسی خیالات رکھتے ہوئے جنس مخالف کی طرف بری نظر سے دیکھنا آنکھوں کے زنا کا گناہ کہلاتا ہے۔ایسا لباس پہنا جس سے جنسی مخالف کو جنسی تسکین کی ترغیب ملے یا جنس مخالف کے لیے کشش پیدا ہو تو یہ بھی زنا کے گناہ میں شمار ہوتا ہے۔ زنا کے ان گناہوں پر عام حالات میں کوئی سزا مقرر نہیں ہے۔اس قسم کے زنا کے گناہوں میں انسانی نیت کا بھی بہت بڑا عمل دخل ہے کہ انسان کی نیت کیا ہے۔

امرد پرستی، ہم جنس پرستی ترمیم

امرد پرستی ایسا گناہ ہے جس میں ایک جوان مرد ایک لڑکے (جو بلوغت کی عمر کو پہچنے والا ہو ) کے درمیان ہم جنس پرستانہ تعلق قائم کیا جاتا ہے۔ اس گناہ کو ہم جنس پرستی بھی کہا جاتا ہے۔ حضرت لوط علیہ السلام( حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے) کی قوم اس قبحیح گناہ میں شدید طور پر مبتلا تھی۔ حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کو اس گناہ سے منع کیا لیکن قوم نے ان کی بات نہ مانی تو اللہ تعالیٰ نے قوم لوط پر اس گناہ کی پاداش میں سخت عذاب نازل کیاجس کے نتیجے میں یہ قوم ہلاک ہو گئی۔ دنیا کے تقریناٌ ہر مذہب میں اس گناہ کو برا سمجھا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود دنیا میں یہ گناہ ہو رہا ہے۔ ہاں یہ بات ضرور کہی جا سکتی ہے کہ کہیں یہ گناہ بہت زیادہ ہے اور کہیں کم ہے۔ بہت سے یورپی ممالک، امریکا اور دنیا کے دیگر خطوں میں امرد پرستی (ہم جنس پرستی) کو قانونی طور پر جائز قرار دینے کے لیے مظاہرے کیے گئے اور تحریکیں چلائی گئیں جس کے نتیجے میں آئی ایل جی اے (International Lesbian, Gay, Bisexual, Trans and Inter-sex) [10] کی رپورٹ کے مطابق امرد پرستی (ہم جنس پرستی) کے گناہ کو جرمنی میں 1968 میں قانونی قرار دیا گیا، امریکا، انڈورہ، آرمینیا، 2003 میں، یونان 1951 میں، آئس لینڈ میں 1948 میں، آئر لینڈ میں 1993 میں، آسٹریلیا اور ہنگری میں 1862 میں،اٹلی میں 1990 میں، لٹویا میں 1992 میں، کوسوو میں 1994 میں،انڈونیشیا اور اسرائیل میں 1988 میں،لیتھوینا 1993 میں،لگسمبرگ، بلجیم 1795 میں، برکینا 2004 میں، چاڈ، کانگو، آئیوری کوسٹ، گنی 1931 میں،گبون گنی بسائو 1993 میں، مڈاگاسکر، مالی نائیجیریا، روانڈا، جنوبی افریقا 1998 میں، کمبوڈیا، چین 1997 میں، مشرقی تیمور 1976 میں، بھارت 2009 میں، جاپان 1882 میں، اردن 1951 میں، قازکستان، کرغستان، تاجکستان، بوسنیا، سائپرس، 1998 میں، لائوس، منگولیا 1987 میں، نیپال 2007 میں، شمالی کوریا، جنوبی کوریا، فلپائن، تائیوان، 1896، میں تھائی لینڈ 1957 میں، ترکی 1858 میں، ویتنام، البانیہ، فلسطین 1995 میں، آسٹریا 1971 میں، آذربائیجان، جارجیا 2000 میں، بلغاریہ 1968 میں، کروشیا 1977 میں، چیک ریپبلک 1962، میں، ڈنمارک 1933 میں، اسٹوینا 1992 میں، فن لینڈ 1971 میں، فرانس 1791 میں، میکوڈینیا 1996 میں، مالدیپ 1995 میں، مناکو، 1793 میں، مالٹا 1973 میں، مانٹیگرو 1977 میں، نیدر لینڈ 1811 میں، ناروے، 1972 میں، پولینڈ 1932 میں، پرتگال 1983 میں، رومانیہ 1996 میں، روس 1993 میں، سان مارنیو 1865 میں، سربیا 1994 میں، سلاوکیہ 1962 میں، سلوانیا 1979 میں، سوئزرلینڈ 1942 میں، یوکرائن، باہاماس 1991 میں، برطانیہ، ویٹی کن سٹی 1929 میں، ارجنٹائن 1887 میں، بلوویا، برازیل 1831 میں، کوسٹ ریکا 1971 میں، چلی 1999 میں، کولمبیا 1981 میں، کیوبا 1979 میں، ایکا ڈور 1997 میں، سلوا ڈور، گوئٹے مالا، ہیٹی، ہنڈراس 1899 میں، میکسیکو 1872 میں، نکارا گوا، پانامہ 2008 میں، پیرا گوئے 1880 میں، پیرو 1836 میں، سورینام 1869 میں، اوگرائے 1934 میں، وینزویلا، فیجی 2010 میں، مارشل آئی لینڈ 2005 میں، نیوزی لینڈ 1986 میں امرد پرستی (ہم جنس پرستی)کے گناہ کو قانونی قرار دے دیا گیا یعنی اتنا گناہ کرو کے وہ قانون بن جائے۔

آئی ایل جی اے (International Lesbian, Gay, Bisexual, Trans and Inter-sex)[10] ہم جنس پستوں کی عالمی تنظیم کی رپورٹ کے مطابق ایران، سعودی عرب، ماریطانیہ، یمن، پاکستان، سوڈان، الجیریا، انگولا، بوسٹوانہ، بورونڈی، کیمرون، کوموروس، مصر، ایریٹیریا، ایتھوپیا، گیمبیا، کینیا، لائبیریا، لیبیا، ملاوی، مراکش، موزمبیق، نائجیریا، سینیگال، سیرالیون، صومالیہ، تنزانیہ، یوگنڈا، زمبابوے، افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، برونائی، برما، کویت، لبنان، ملیشیا، عمان، قطر، سنگاپور، سری لنکا، شام، ترکمانستان، متحدہ عرب امارات، ازبکستان، برمودہ اور جمیکا وغیرہ سمیت تقریباٌ 76 ممالک ایسے ہیں جہاں امردپرستی (ہم جنس پرستیٰ) کے گناہ کو جرم سمجھا جاتا ہے اور اس کی سزا قید سے لے کر موت ہے۔ ایران میں 1979 کے بعد تقریباٌ 4000 امرد پرستوں(ہم جنس پرستوں) کو پھانسی کی سزا دی گئی۔ برطانیہ میں ہم جنس پرستی کو جرم قرار دیا جاتا تھا لیکن آج کل اسے قانونی تحفظ حاصل ہے۔ عیسائیوں کے مذہبی پیشوا پوپ بینیڈکٹ نے ہم جنس شادیوں کی شدید مذمت کی ہے۔ بارہویں صدی کے آخر میں یورپ کے مذہبی اور سیکولر اداروں میں امرد پرستی (ہم جنس پرستی) کو قابل نفرت سمجھا جاتا تھا، مسیحی مذہبی رہنما ایکونیاس سینٹ اور دیگر نے اپنی تحریروں میں ہم جنس پرستی کو غیر فطری قرار دیا اور اس کی مذمت کی۔ انیسویں صدی تک امرد پرستی (ہم جنس پرستی) کو فطرت کے خلاف بغاوت تصور کیا جاتا تھا۔ قانون کی نظر میں یہ گناہ نہ صرف قابل سزا تھا بلکہ اس جرم میں موت تک کی سزا دی جاتی تھی۔دین اسلام امرد پرستی (ہم جنس پرستی) کو گناہ اور حرام قرار دیتا ہے اور اس کے مرتکب کے لیے دنیا اور آخرت میں سخت تریں سزا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ہے۔

تم جسے بھی قوم لوط کا عمل کرتے ہوئے پائو تو کرنے والے اور جس کے ساتھ کیا گیا ہو(اگر وہ اس فعل پر راضی ہو) دونوں کو قتل کردو۔[11]

ائمہ فقہ، امام شافعی، امام مالک، امام احمد کا کہنا ہے کہ امرد پرستوں(ہم جنس پرستوں کو رجم کی حد لگائی جائے خواہ وہ کنوارا ہو یا شادی شدہ ہو۔

دنیا میں انسان جوں جوں ترقی کی منزلیں سر کررہا ہے شیطان کے چنگل میں پھنس کر اتنے ہی گناہ کرتاچلا جارہا ہے۔ ان گناہوں میں سے ایک گناہ امرد پرستی (ہم جنس پرستی) کا بھی ہے جس میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ بے شمار ممالک میں ہم جنس پرستی کو قانونی حیثت دے دی گئی ہے اور کئی ممالک میں ہم جنس پرستوں کو شادی کی بھی اجازت ہے۔ گناہوں میں لتھڑے ہوئے لوگ یہ موقف رکھتے ہیں کہ اتنے گناہ کرو کہ وہ قانون بن جائیں۔

غصہ ترمیم

غصہ کا آنا انسانی طبیعت کا فطری حصہ ہے۔ جب ہمارے سامنے ہماری خواہش اور توقعات کے خلاف کوئی بات ہو جائے تو غصہ آتا ہے۔ دنیا میں کون سا انسان ہو گا جسے غصہ نہ آتا ہوگا۔ غصہ کے بارے میں یہ باریک سا فرق بھی سمجھنا ضروری ہے اگر انسان میں غصہ نہ ہو تو وہ غیرت مند اور خودار بھی نہ ہو اس کی مثال اس طرح دی جا سکتی ہے کہ انگور ایک اچھااور فائدہ مند پھل ہے لیکن اس سے شراب بنالی جائے اور اسے استعمال کیا جائے تو وہ شراب حرام ہو گی۔ اسی طرح والدین بچوں کے غلط اور برے کاموں پر ناراض ہو کر انھیں غصے میں غلط اور بری باتوں سے روکتے ہیں تو وہ ان کی اصلاح کے لیے انھیں روکتے ہیں لیکن اگر والدین بچوں کو برے کاموں سے روکنے کے لیے تشدد پر اتر آئیں اور ان کو ماریں اور پیٹیں تو یہ گناہ اور حرام بن جاتا ہے یا اساتذہ بچوں کو نہ پڑھنے یا آپس میں لڑائی جھگڑا کرنے پر غصہ میں ناراض ہوتے ہیں تو وہ بچوں میں اصلاح چاہتے ہیں لیکن اگر یہی اساتذہ بچوں پر غصہ میں تشدد پر اتر آئیں اور مار مار کر لہو لہان کر دیں تو یہ حرام اور گناہ بن جائے گا، وہ غصہ جو اپنے گھر والوں اور اہل عیال کو لوگوں کے شر سے تحفظ دلانے کے لیے استعمال ہو تو وہ غلط نہ ہو گا لیکن غیرت کے نام پر غصہ میں کیے جانے والے قتل کو گناہ اور حرام قرار دیا جائے گا۔اسی طرح کچھ لوگوں کو معاشرتی رویے اور اخلاق کی پامالی، دنیا میں قتل غارت گری، انصاف کی پامالی کو دیکھ کر غصہ آتا ہے لیکن وہ کاغذ قلم اٹھاتے ہیں اور ان مسائل کا حل سوچتے ہیں اور ان پر لکھنا شروع کردیتے ہیں تو غصے کی سمت (Direction) تبدیل ہوجاتی ہے اور معاشرے کو ایک اچھا اصلاحی پیغام بھی پہنچ جاتا ہے۔ غصہ کی صفت اللہ تعالیٰ نے انسان میں کچھ سوچ سمجھ کر ہی رکھی ہے۔ غصہ بذات خود برا نہیں ہے اس کا غلط استعمال اسے اچھا یا برا بناتا ہے۔ جیسے روپیہ پیسہ بذات خود برا نہیں ہے لیکن اسے کیسے استعمال کیا جاتا ہے یا کن جگہوں پر استعمال کیا جاتا ہے اسے اچھا یا برا بناتا ہے۔

غصہ کا بہت زیادہ آنا(خواہ وہ صحیح معاملات پر ہی کیوں نہ ہو)صحیح نہیں ہے انسان کو ہر حال میں معتدل مزاج رہنا چاہیے غصہ کے بارے میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے۔

پہلوان وہ نہیں جو مقابل کو گرا دے بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصے کے وقت خود کو قابو میں رکھے۔[12] اسلام میں غصہ کو حرام قرار دیا گیا ہے اور غصہ کو پی جانے کا حکم ہے۔ رومن کیتھولک مسیحیت میں غصہ سات کبیرہ گناہوں میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے۔

حضرت امام حسن علیہ السلام کا واقع ہے کی ان کی ایک باندی تھی اور وہ آپ کو گرم پانی سے وضو کرارہی تھی کہ اچانک لوٹا باندی کے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور وہ آپ کے سر ہر گرا جس سے آپ کا سر زخمی ہو گیا۔ حضرت امام حسن علیہ السلام نے خشمگیں نگاہوں سے باندی کی طرف دیکھاتو باندی نے موقع محل کی نزاکت سمجھتے ہوئے آیت کریمہ کا ایک ٹکڑا تلاوت کیا والکاظمین الغیظ، حضرت امام حسن علیہ السلام نے فرمایا میں نے اپنا غصہ پی لیا۔ باندی نے دوسرا ٹکڑا تلاوت کیا والعافین عن الناس، حضرت امام حسن علیہ السلام نے فرمایا مین نے تجھ کو معاف کر دیا، باندی نے آخری ٹکڑا تلاوت کیا واللہ یحب المحسنین، حضرت امام حسن علیہ السلام نے فرمایا جائو میں نے تمھیں اللہ کے لیےآزاد کیا۔

غصہ کی افراط ایک ایسا گناہ اور جرم ہے جس کی کوکھ سے اور دوسرے گناہ اور جرم جنم لیتے ہیں۔ مثلاٌ انسان حالت غصہ میں لڑائی جھگڑا کرتا ہے اور نوبت مار پیٹ سے ہوتی ہوئی قتل تک پہنچ جاتی ہے، حالت غصہ میں غیرت کے نام پر قتل ہوتے ہیں۔ لڑکیوں کو اپنی پسند کی شادی کرنے پر حالت غصہ میں قتل کر دیا جاتا ہے۔عورتوں کو حالت غصہ میں طلاق دے دی جاتی ہے۔ عورتوں کو ذرا سی بات پر سڑکوں پر حالت غصہ میں برہنہ پھرایا جاتا ہے۔ طاقت ور لوگ حالت غصہ میں کمزور لوگوں پر کتے چھوڑ دیتے ہیں۔ ماں باپ اپنی اولاد کو ذرا ذرا سی بات پر حالت غصہ میں شدید تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ اساتذہ اپنے شاگردوں پر مدارس اور اسکولوں میں حالت غصہ میں شدید ترین تشدد کرتے ہیں۔ امیر لوگ غصہ کی حالت میں گھریلو ملازمین بچوں اور بچیوں پر شدید تشدد کرتے ہیں۔ حالت غصہ میں قرض سے واپسی کے تقاضا پر مار پیٹ اور قتل ہوجاتے ہیں۔ میاں بیوی کے آپس کے جھگڑوں میں غصہ کی حالت میں قتل ہوجاتے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ غصہ کی حالت میں انسان ایک تو غصہ کا گناہ اور جرم کرتا ہے اور دوسرے اس کے علاوہ مارپیٹ، لڑائی جھگڑا،تشدد اور قتل جیسے ہولناک گناہوں اور جرائم کا بھی مرتکب ہوجاتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جب زیادہ غصہ آئے تو اس غصہ کو پی لیا جائے تاکہ غصہ کی زیادتی کے گناہ اور جرم سے بچا جاسکے۔ دانا لوگوں کا قول ہے کہ غصہ سے بچو کیونکہ یہ سرخ موت کی طرح ہوتا ہے۔

حسد ترمیم

اللہ تعالیٰ کی طرف سے دوسروں کو عطا کی گئی نعمتوں کو دیکھ کر یہ آرزو کرنا کہ یہ نعمت اس سے چھن جائے حسد کہلاتا ہے یعنی بالفاظ دیگر دوسروں کو عطا کردہ نعمتوں کے زوال کو حسد کہتے ہیں۔ حسد مذہب اسلام میں اور مسیحیت میں کبیرہ گناہ تصور کیا جاتا ہے، دوسرے مذاہب اور معاشروں میں بھی حسد کو گناہ اور جرم تصور کیا جاتا ہے یا اسے اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا لیکن اس کے باوجود بھی حسد کا گناہ ہوتا ہے۔ یہاں حسد کوسمجھنے کے لیے رشک کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ معنی کے لحاظ سے حسد اور رشک ایک دوسرے کے بہت ہی قریب ہیں حسد میں انسان کسی کے پاس نعمت دیکھ کر اس کے چھن جانے کی خواہش رکھتا ہے جبکہ رشک میں انسان کسی کو اعلیٰ عہدے پر دیکھ کر یا کسی کی خوبصورتی کو دیکھ کر یا کسی کی علمی خوبیوں کو دیکھ کر یا کسی کو مال دار دیکھ کر یا کسی کی خوبصورت گاڑی کو دیکھ کر صرف یہ خواہش رکھتا ہے کہ کاش وہ بھی ایسا ہوتا یا یہ چیز بھی اس کے پاس ہوتی۔ رشک میں انسان اپنی محنت اور قابلیت سے جائز طریقے سے کسی کو نقصان پہنچائے بغیر اس مقام تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے جو کسی دوسرے کو ملا ہے۔ انسان خود اپنی محنت اور لگن سے دوسرے شخص کی قابلیت کو سراہتے ہوئے اور اس شخص سے محبت رکھتے ہوئے جس کو اللہ نے کوئی نعمت عطا کی ہے اپنے بل بوتے اور اپنی قابلیت سے دوسرے شخص سے نعمت چھن جانے کی خواہش رکھے بغیر اور اس کو نْقصان پہنچائے بغیر اس مقام تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے جو دوسرے کے پاس ہے تو یہ رشک ہے اور رشک ایک پسنددیدہ فعل ہے اور گناہ نہیں ہے۔

رشک کے بارے میں حدیث

علی بن ابراہیم، روح، شیبہ، سلیمان، ذکوان، حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ حسد (رشک) صرف دو شخصوں پر جائز ہے، ایک اس شخص پر جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن دیا ہے اور وہ اسے دن رات پڑھتا ہے اور اس کا پڑوسی اسے سن کر کہتا ہے کہ کاش مجھے بھی اس طرح پڑھنا نصیب ہوتا تو میں بھی اسی طرح عمل کرتا، دوسرے اس شخص پر جسے اللہ تعالیٰ نے دولت دی ہو اور وہ اسے راہ حق میں خرچ کرتا ہو، پھر کوئی اس پر رشک کرتے ہوئے کہے ہے کاش مجھے بھی یہ مال و دولت میسر آتا تو میں بھی اسے اسی طرح صرف کرتا۔[13]

ْقرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

”اور (میں پناہ مانگتا ہوں رب کی)حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرے“۔[14] اہل کتاب کے دل میں جو حسد ہے، وہ چاہتے ہیں کہ مومینین بھی اس کفر کو اختیار کریں۔[15]

حسد کے بارے میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آحادیث۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا،”حسد سے بچو کیونکہ یہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ، لکڑی یا خشک گھاس کو کھا جاتی ہے“۔[16] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے، ”اللہ کی قسم مجھے یہ ڈر نہیں کہ تم میرے بعد شرک کرنے لگو، بلکہ مجھے یہ ڈر ہے کہ تم دنیا کے لالچ میں آکر ایک دوسرے سے حسد کرنے لگو“۔[17]

حسد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ حسد وہ پہلا گناہ ہے جس کو آسمان پر ابلیس اور زمین پر قابیل نے کیا۔ انسان کسی شخص کی عزت یا شہرت دیکھ کر حسد کا گناہ کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ یہ عزت اور شہرت اس شخص کے پاس کیوں ہے یہ اس کے پاس سے کسی طریقے سے چلی جائے اور مجھے مل جائے اور انسان اس کے لیے سازشیں اور کوشش کرتا ہے، انسان حسد کا گناہ اس وقت بھی کرتا ہے کہ جب وہ دیکھتا ہے کہ کسی طالب علم کے امتحان میں بہت اچھے نمبر آئے ہیں یا وہ امتحان میں اول آیا ہے اور حسد کرنے والا خود امتحان میں فیل ہو گیا ہے یا اس کے کم نمبر آئے ہیں یا وہ اول کی بجائے دوسرے نمبر پر آیا ہے تو اس میں حسد پیدا ہوتا ہے کہ اس کے بہتر نمبر آتے اس دوسرے شخص سے یا وہ فیل نہ ہوتا اور اول آتا تو وہ حسد کی آگ میں جل بھن کر اپنے نمبر زیادہ بتاتا ہے اور حسد کا گناہ کرتا ہے اور دوسرے شخص کو مختلف طریقوں سے لوگوں کی نظروں میں گرانے کی کوشش کرتا ہے۔ حسد کا گناہ اس وقت بھی کیا جاتا ہے کہ جب کوئی کسی کو بڑے عہدے پر دیکھتا ہے اور خواہش کرتا کہ یہ عہدہ اس سے چھن جائے اور مجھے مل جائے اور اس شخص کے عہدے کو حاصل کرنے کے لیے کوشش کرتا ہے اور سازش کرتا ہے۔ حسد کا گناہ اس وقت بھی ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص کسی کی خوبصورتی کو دیکھ کو حسد کرتا ہے یا اس سے جلتا کہ یہ خوبصورت کیوں ہے میں خوبصورت کیوں نہیں ہوں کاش اس کی خوبصورتی اس سے چھن جائے اور مجھے مل جائے یا اس پر میں تیزاب پھینک کر اس کی خوبصورتی ختم کردوں۔ حسد کا گناہ انسان اس وقت بھی کرتا ہے کہ وہ کسی کی عالیشان جائداد دیکھتا اور خواہش کرتا ہے اس کی یہ جائداد کسی طریقے سے اس سے چھن جائے اور مجھے مل جائے اس جائداد کو کم قیمت پر حاصل کرنے کے لیے مختلف طریقے اختیار کرتا ہے۔ حسد کا گناہ انسان اس وقت بھی کرتا ہے جب وہ کسی کی خوبصورت بیوی کو دیکھتا ہے اور خواہش کرتا ہے کہ اس کی یہ بیوی اس سے چھن جائے اور مجھے مل جائے اور اس کے لیے کوشش بھی کرتا ہے اور سازش بھی کرتا ہے، حسد کا گناہ انسان اس وقت بھی کرتا ہے جب وہ کسی کے پاس خوبصورت گاڑی دیکھتا ہے اور خواہش کرتا ہے کہ یہ گاڑی اس سے چھن جائے اور مجھے مل جائے اور اس کے لیے کوشش اور سازش کرتا ہے۔ غرض یہ کہ حسد ایک ایسا گناہ ہے جس کی آگ میں انسان خود ہی جلتا اور کڑھتا رہتا ہے۔

شراب ترمیم

ایسا خمیر کیا ہوا مشروب جس کے پینے سے انسان کو نشہ اور سرور ہوجائے شراب کہلاتا ہے۔ شراب کو عام طور پر انگور کے عرق سے تیار کیا جاتا ہے۔ دنیا کے بہت سے مذاہب میں شراب پینا گناہ ہے اور اس کے پینے سے منع کیا گیا ہے۔ اسلام میں شراب پینا حرام قرار دیا گیا ہے اور اسے بڑا گناہ تصور کیا جاتا ہے۔

شراب کے گناہ کے بارے میں قرآن مجید میں اللہ تعالی کے ارشادات:

يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ ۖ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِن نَّفْعِهِمَا ۗ

لوگ آپ سے شراب اور جوئے کا مسئلہ پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجیئے ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کو اس سے دنیاوی فائدہ بھی ہوتا ہے، لیکن ان کا گناہ ان کے نفع سے بہت زیادہ ہے۔[18]

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنتُمْ سُكَارَىٰ

اے لوگوں جو ایمان لائے ہو، جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جائو۔[19]

شراب کی حرمت پر احادیث:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ شَفِیْعُ الْمُذْنِبِیْن،اَنِیْسُ الْغَرِیْبِیْن صلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَـــیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمان ہے کہ ’’زانی زنا کرتا ہے تو وہ مومن نہیں ہوتا، چور چوری کرتا ہے تو وہ مومن نہیں ہوتا اور شرابی شراب پیتا ہے تو وہ مومن نہیں ہوتا۔‘‘[20]

حسن اخلاق کے پیکر، محبوب رب اکبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ عزوجل نے شراب پر، اس کے پینے والے، پلانے والے، خریدنے والے، بیچنے والے، بنانے والے بنوانے والے، اٹھانے والے اور اٹھوانے والے پر لعنت فرمائی ہے۔‘‘ [21]

شراب کے گناہ کے بارے میں بائبل کا موقف:

’’اور شراب کے متوالے نہ بنو کیونکہ اس سے بد چلنی واقع ہوتی ہے، بلکہ روح سے معمور ہوتے جائو‘‘[22]

بائبل میں شراب کو لعنت اور بری چیز کہا گیا ہے۔ خدا ایک شرابی پر اپنی برکات ظاہر نہیں کرتا اور نہ ہی اسے اپنی بادشاہی میں داخل ہونے دے گا۔ خدا کے کلام میں لکھا ہے کہ کیسے ایک شرابی خدا کی برکات سے محروم رہے گا۔ یہ پیغام ان مسیحیوں کے لیے ہے کو جو خدا کے کلام کے الٹ کام کرتے ہوئے شراب پیتے ہیں اور گناہ کرتے ہیں۔ وہ نئے مسیحیوں اور دوسرے ایمان رکھنے والے مسیحیوں کے لیے بری مثال پیش کر رہے ہیں۔‘‘

شراب ایسا گناہ ہے جس کے کرنے سے انسان اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھتا ہے، اپنے آپے میں نہیں رہتا اور اس کی وجہ سے انسان شدید غصے کی حالت میں اپنے گھر والوں اور دیگر لوگوں سے جھگڑا کرتا ہے، تشدد، مار پیٹ پر اتر آتا ہے اور بعض صورتوں میں قتل تک بات پہنچ جاتی ہے۔ شراب کا گناہ ایسا گناہ ہے کہ کوئی شخص شراب پینے کے بعد اپنے حواس اس طرح کھو بیٹھتا ہے کہ اول فول بکنے لگتا ہے، گالیاں دیتا نظر آتا ہے، شراب کا گناہ ایسا گناہ ہے جس کے کرنے کے بعد انسان اپنے سیکرٹ راز لوگوں پر افشاں کردیتا ہے۔ اکثر عشق میں ناکام لوگ اور غم کے مارے لوگ شراب کے گناہ کا سہارا لیتے ہیں اور شراب میں ڈوب کر اپنا غم غلط کرتے ہیں لیکن وہ اس گناہ کے کرنے سے اپنی صحت تباہ کر لیتے ہیں اور آخرکار موت کی وادی میں اتر جاتے ہیں۔ شراب کا گناہ ایسا گناہ ہے جس کے کرنے کے بعد انسان اپنے ہوش حواس اس طرح کھو بیٹھتا ہے کہ وہ گاڑی چلا کر ایکسیڈنٹ کروا بیٹھتا ہے اور اپنا اور دوسرے لوگوں کا نقصان کرتا ہے اسی لیے اکثر ممالک میں شراب پی کر گاڑی چلانا جرم ہے۔ شراب کا گناہ ایسا گناہ ہے جس کے کرنے سے انسان کی صحت بہت زیادہ متاثر ہوتی ہے اور زیادہ شراب نوشی کی وجہ سے انسان موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔ اسلام میں شراب کو حرام قرار دیا گیا ہے اس وجہ سے اسلامی ممالک میں شراب کا گناہ کم ہے اور یہ گناہ چھپ کر کیا جاتا ہے لیکن امریکا، یورپ اور دیگر غیر اسلامی ممالک میں یہ گناہ سرعام کیا جاتا ہے جگہ جگہ شراب پینے کے کلب قائم ہیں اور لوگوں کو شراب آسانی سے میسر ہے اگر چہ مسیحی مذہب میں بھی شراب کی سخت مذمت کی جاتی ہے اور اسے گناہ قرار دیا جاتا ہے لیکن عیسائی ممالک میں یہ گناہ ثواب سمجھ کر کیا جاتا ہے اور کسی کو کوئی احساس نہیں ہوتا کہ یہ گناہ کوئی گناہ ہے بلکہ عیسائی مذہب رکھنے والے ممالک میں شراب کا گناہ ان کی ثقافت کا حصہ بن چکا ہے۔ شراب کے گناہ کے اثرات تیزی سے اسلامی ممالک کی طرف بڑھ رہے ہیں اور شراب کا گناہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔ شراب ایک ایسا گناہ ہے جس کے فائدے بہت ہی کم ہیں (شراب کا جو کم سے کم فائدہ ہے وہ یہ ہے کہ کچھ لوگوں کا روزگار اس سے وابستہ ہوجاتا ہے) لیکن نقصانات بہت ہی زیادہ ہیں۔

منشیات کا استعمال ترمیم

ایسی ادویات یا ڈرگز جن کو استعمال کرنے سے نشہ ہوتا ہے منشیات کہلاتی ہیں ان میں شراب، چرس، گانجا، ہیروئن، کوکین، حشیش، بھنگ اور افیون وغیرہ شامل ہیں اسلام اور دوسرے معاشروں میں منشیات کو گناہ اور جرم قرار دیا جاتا ہے۔ منشیات کا استعمال معاشروں کو تباہ کردیتا ہے۔ منشیات کا گناہ ایسا گناہ ہے جس نے اس وقت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور منشیات کا گناہ جس تیز رفتاری سے پھیل رہا ہے اس سے دنیا کے تمام معاشرے خوفزدہ ہیں اور اس کی روک تھام کے لیے سخت سے سخت قوانین بنائے جا رہے ہیں لیکن تکلیفوں اور دکھوں کا مارا ہوا انسان اپنے درد کو کم کرنے کے لیے منشیات کے گناہ کا سہارا لیتا ہے لیکن اس گناہ کے بعد اس کی پوری زندگی عذاب بن جاتی ہے اور وہ معاشرے کا ناسور بن جاتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی ضروری ہے جہاں منشیات کا استعمال انتہائی مہلک اور ہلاکت خیز ہے وہیں یہ ایک مخصوص مقدار میں ادویات میں شامل کر کے فائدے کا سبب بھی بنتی ہیں۔ ایسی منشیات جو ادویات میں استعمال کی جاتی ہیں انھیں قانونی تحفظ حاصل ہوتا ہے، اس قسم کی منشیات ایک مخصوص اور انتہائی معمولی مقدار میں ادویات میں استعمال کی جاتی ہیں۔

منشیات کا گناہ ایسا خوفناک گناہ ہے جس کو کرنے سے انسان کی پوری زندگی تباہ ہوجاتی ہے۔ منشیات کے استعمال کا گناہ کرنے والا شخص نہ گھر کا رہتا ہے نہ گھاٹ کا رہتا ہے، عالمی ادارہ صحت W.H.O نے منشیات کا گناہ کرنے والے افراد کے بارے میں ایک جائزے مین بتایا کہ 80 ممالک جن میں امریکا، برطانیہ، مغربی جرمنی، روس اور جاپان وغیرہ شامل ہیں میں نفسیاتی، ذہنی اور اعصابی امراض کے ہونے کا سب سے بڑا سبب منشیات کا استعمال ہے۔ منشیات سے متعلق ریسرچ کرنے والی ایک بین الاقوامی تنظیم کے مطابق منشیات کے استعمال اور گناہ سے قوت حافظہ میں 22 فیصد کمی واقع ہوتی ہے، حساسیت میں 92 فیصد اضافہ ہو جاتا ہے، انسان 80 فیصد اختلال کا شکار ہوجاتا ہے۔ 61 فیصد پریشانی اور بے چینی میں اضافہ ہوجاتا ہے، 88 فیصد منشیات کا عادی سب سے الگ سوچ رکھنے والا ہوجاتا ہے، اس کے علاوہ منشیات کے استعمال سے ہاضمہ کی خرابی، جگر کی بیماری، بلڈ پریشر، خون کی کمی، یادداشت میں کمی اور کینسر جیسے مہلک امراض لاحق ہو جاتے ہیں۔

انسان چرس استعمال کر کے منشیات کا گناہ کرے یا شراب پی کر نشے میں دھت ہو جائے یا حشیش کے استعمال کا گناہ کرے یا گانجا استعمال کر کے گناہ کرے یا ہیروئن کے خوفناک نشے کو اپنی رگوں میں اتار کر گناہ کرے یا کوکین، بھنگ اور افیون کا استعمال کرے اور گناہ کرے ہر صورت میں نقصان انسان کا ہی ہوتا ہے۔ انسان ان منشیات کے استعمال سے نہ صرف معاشی طور پر تباہ حال ہوجاتا ہے بلکہ وہ اپنی صحت تباہ کر کے سڑک پر آجاتا ہے اور بالاخر وہ موت کی وادی میں اتر جاتا ہے۔

جوا ترمیم

جوا کے گناہ میں ایک قسم کی شرط لگائی جاتی ہے جس میں کھلاڑی کسی واقع کے نتیجہ پر شرط لگاتا ہے اور یہ شرط عام طور پر نقد رقم کی صورت میں ہوتی ہے، شرط اور اس پر لگائی گئی رقم کا فیصلہ اس واقع کے وقوع پزیر ہونے سے پہلے ہی طے کر لیا جاتا ہے۔اسلام میں جوئے کو بہت بڑا گناہ تصور کیا جاتا ہے اور اسے شیطانی کام قرار دیا گیا ہے۔

جوا کے بارے میں قرآنی آیات:

يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ ۖ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِن نَّفْعِهِمَا ۗ

لوگ آپ سے شراب اور جوئے کا مسئلہ پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجیئے ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کو اس سے دنیاوی فائدہ بھی ہوتا ہے، لیکن ان کا گناہ ان کے نفع سے بہت زیادہ ہے۔[23]

شیطان یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمھارے درمیان عداوت اور کینہ ڈلوا دے اور تمھیں اللہ کے ذکر سے اور نماز سے روک دے۔ کیا تم (ان شرانگیز باتوں سے) باز آؤ گے۔[24]

جوا احادیث کی روشنی میں:

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے، نہی عن الخمر والمیسر والکوبۃ والغبیراء: شراب، جوا، نرد کھیلنے اور خرید و فروخت میں دھوکا سے منع فرمایا ہے۔[25]

جس نے چوسر کھیلا گویا اس نے اپنا ہاتھ خنزیر کے گوشت اور خون میں سان لیا[26]

جوا کے گناہ کے بارے میں مسیحی نقطہ نظر:

کلامِ پاک خاص طور سے جوئے بازی، بازی لگانے یا لاٹری کو جرم قرار نہیں دیتا۔ اس کے عوض میں کلامِ پاک کس طرح ہم کو خبردار کرتا ہے کہ ہم دولت کو پیار کرنے سے دُور رہیں (1 تیموتھیس 6:10؛ عبرانیوں 13:5)۔ کلامِ پاک اس بات کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ ’’بہت جلد دولتمند بننے‘‘ کی آزمائش سے دُور رہیں (امثال 13:11؛ 23:5؛ واعظ 5:10)۔ جوئے بازی سب سے زیادہ یقینی طور سے دولت کی چاہت پر دھیان لے جاتا اور بغیر کسی انکاری کے لوگوں کو بہت جلد اور آسانی سے امیر بننے کے وعدہ کے لیے آزماتا ہے۔[27]

جبکہ کلامِ پاک واضح طور سے جُوئے بازی کا بیان نہیں کرتا مگر ’’خوش نصیبی‘‘ یا ’’موقع‘‘ کے واقعات کا ضرور بیان کرتا ہے۔ احبار کی کتاب میں بنی اسرائیل جب بکروں کی قربانی ادا کرتے تھے بکروں کے انتخاب کے لیے قُرعہ کا استعمال کرتے تھے۔ کچھ خاص بکرے جن میں کوئی علت نہ پائی جائے انھیں الگ کرکے اُن میں کس کی قربانی دینی ہے اس کے لیے قُرعہ ڈالا جاتا تھا۔ اُن میں جو جانور بچ نکلتے تھے انھیں دوسرے سال تک نشان لگا کر الگ رکھا جاتا تھا۔ حضرت موسیٰ کی موت کے بعد یشوع نے بارہ قبیلوں میں زمین کے بٹوارے کے لیے قرعہ کا استعمال کیا۔ نحمیاہ نے جب یروشلیم کی ٹوٹی دیواروں کی مرمت کا بیڑا اٹھایا تو یہ فیصلہ کرنے کے لے کہ کون شہر پناہ کی دیوار کے اندر یا باہر رہ کر کام کرے گا قرعہ کا استعمال کیا۔ یہودا اسکریوتی نے خداوند یسوع کو دھوکا سے پکڑوانے کے بعد جب اس نے خود کو خطاکار محسوس کیا تو پھانسی لگا کر خودکشی کرلی تھی اور بارہ شاگردوں میں سے ایک کی کمی رہ گئی تھی۔ اُسے پورا کرنے کے لیے شاگردوں نے دو لوگوں کے بیچ قرعہ ڈالا تھا۔ امثال کی کتاب (16:33) میں سلیمان کہتا ہے ’’قرعہ گود میں ڈالا تو جاتا ہے پر اس کے نکلنے کا سارا انتظام خداوند کی طرف سے ہے۔‘‘[27]

کلام پاک جوا گھروں اور لاٹریوں کے اڈوں کی بابت کیا کہے گا؟ جُوا گھر ہر طرح کی مارکیٹنگ اور پینترے اپناتے ہیں تاکہ وہ جواریوں سے زیادہ سے زیادہ رقم اینٹھ سکیں۔ وہ جواریوں کو سستی شراب مفت بانٹتے ہیں تاکہ نشہ میں دُھت جواری سہی فیصلہ یا چُناؤ نہ کر پائیں۔ ہر جوا گھر کی مشینیں اس طرح سے خراب کی گئی ہوتی ہیں کہ جواریوں سے زیادہ سے زیادہ رقم اینٹھی جاسکے۔ اور جوئے میں کھوکھلی خوشی کے علاوہ انھیں کچھ نہ ملے۔ لاٹریاں معاشرتی اور تعلیمی اداروں کو بڑے پیمانے پر چندہ دینے کا دعویٰ کرتی ہیں۔ کسی طرح تحقیقات بتاتی ہیں کہ لاٹری میں شرکت کرنے والے عام طور سے وہ لوگ ہوتے ہیں جو لاٹری کے ٹکٹوں میں سب سے کم خرچہ برداشت کرنے والے ہوں۔ بہت جلد امیر بننے کا لالچ ایک بہت بڑی آزمائش ہے اُن کے لیے جو مایوس ہیں لاٹری میں جیتنے کے موقعے نہ کے برابر نظر آتے ہیں۔ مگر پھر بھی اپنی قسمت آزمانے میں پیچھے نہیں ہٹتے اور اپنے آپ کو روک نہیں پاتے۔ نتیجہ بطور بہت سے لوگوں کی زندگیاں برباد ہو جاتی ہیں۔[27]

لوگ کرکٹ کے کھیل کے علاوہ مختلف کھیلوں پر جوا کھیلتے ہیں اور جوا کھیلنے کا گناہ کرتے ہیں، بہت سے ممالک میں جوا کھلانے کے کلب قائم ہیں جہاں مختلف طریقوں سے جوا کھیلا جاتا ہے اور گناہ کیا جاتا ہے کچھ ممالک میں یہ کلب آزادی سے کام کر رہے ہیں اور کچھ ممالک میں یہ کلب خفیہ طور پر کام کرتے ہیں۔ بعض گھروں میں دوست یار اکھٹے ہوتے ہیں اور تاش پر جوا کھیلنے کا گناہ کرتے ہیں۔ گھوڑوں کی ریس پر جوا کھیلنے کا گناہ کیا جاتا ہے اور بہت سے ممالک میں گھوڑوں کی ریس کے جوا کو قانونی تحفظ حاصل ہے،

جوا کھیلنے کے بے شمار نقصانات ہیں یہ ایک ایسی لت ہے جو ایک بار کسی کو لگ جائے تو بہت ہی مشکل سے چھوٹتی ہے۔ لوگ بعض اوقات جوا کھیل کر کچھ رقم تو حاصل کرلیتے ہیں لیکن جوئے کی لت کی وجہ سے دوبارہ جوئے میں جیتی ہوئی رقم ہار جاتے ہیں، جوئے کے گناہ کی وجہ سے بہت سے گھر برباد ہوجاتے ہیں ایسے لوگ جو بہت امیر ہوتے ہیں جوئے کے گناہ اور اس کی لت کی وجہ سے کنگال ہو کر سڑک پر آجاتے ہیں۔ جوا کھیلنے کا گناہ کرنے پر اکثر لڑائی جھگڑا ہوتا ہے اور نوبت قتل تک پہنچ جاتی ہے۔ جوا کا گناہ کرنے کی وجہ سے انسان کا سکون غارت ہوجاتا ہے۔ بعض اقات جوا کھیلنے کی وجہ سے انسان اتنی پستی میں گر جاتا ہے کہ وہ جوا کھیلتا ہے اور اس میں اپنی بیوی کو بھی جوئے میں ہار جاتا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جوا کھیلنے کا گناہ انسان کے لیے کتنا مہلک اور نقصان دہ ہے اللہ جوا کھیلنے والے کو ہدایت دے آمین۔

چوری ترمیم

کسی بھی شخص کا مال اس کی اجازت کے بغیر حاصل کرنا چوری کہلاتا ہے اور اس عمل کو کرنے والے کو چور کہا جاتا ہے، دنیا کے ہر معاشرے اور مذہب میں چوری کو جرم یا گناہ تصور کیا جاتا ہے، اسلام میں چوری کرنا گناہ کبیرہ ہے اور چوری کرنے کی بہت ہی سخت سزا ہاتھ کاٹ دینا ہے۔

قرآن کی روشنی میں چوری کے گناہ کی سزا:

والسارق والسارقة فاقعطو اایدیھما جزآء بما کسبا نکالا من اللہ واللہ عزیز حکیم(آیت 38)

فمن تاب من بعد ظلمه واصلح فان اللہ یتوب علیه ان اللہ غفور الرحیم (آیت 39)

ترجمہ: ″اور چور خواہ وہ مرد ہو یا عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو، یہ ان کی کمائی کا بدلہ ہے اور اللہ کی طرف سے عبرت ناک سزا۔ اللہ کی قدرت سب پر غالب ہے اور وہ دانا اور بینا ہے اور پھر جو ظلم کرنے کے بعد توبہ کرلے اور اپنی اصلاح کرلے تو اللہ کی نظر عنایت اس پر پھر مائل ہو جائے گی اور اللہ تعالیٰ بہت درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے″۔[28]

حدیث کی روشنی میں چوری کا گناہ:

اخبرنا محمد بن منصور، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ حدثنا سفيان، ‏‏‏‏‏‏عن ايوب بن موسى، ‏‏‏‏‏‏عن الزهري، ‏‏‏‏‏‏عن عروة، ‏‏‏‏‏‏عن عائشة، ‏‏‏‏‏‏ان امراة سرقت فاتي بها النبي صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏فقالوا:‏‏‏‏ من يجترئ على رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا ان يكون اسامة،‏‏‏‏ فكلموا اسامة فكلمه، ‏‏‏‏‏‏فقال:‏‏‏‏ النبي صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ "يا اسامة،‏‏‏‏ إنما هلكت بنو إسرائيل حين كانوا إذا اصاب الشريف فيهم الحد تركوه ولم يقيموا عليه، ‏‏‏‏‏‏وإذا اصاب الوضيع اقاموا عليه لو كانت فاطمة بنت محمد لقطعتها".

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک عورت نے چوری کی چنانچہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائی گئی، لوگوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسامہ کے سوا کون (اس کی سفارش سے متعلق گفتگو کرنے کی) ہمت کر سکتا ہے؟ چنانچہ اسامہ رضی اللہ عنہ سے لوگوں نے کہا تو انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں بات چیت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسامہ! بنی اسرائیل صرف اس وجہ سے ہلاک و برباد ہوئے کہ جب ان میں سے کوئی اونچے طبقے کا آدمی کسی حد کا مستحق ہوتا تو اسے چھوڑ دیتے اور اس پر حد نافذ نہیں کرتے اور جب کوئی نچلے طبقے کا آدمی کسی حد کا مستحق ہوتا تو اسے نافذ کرتے، اگر (اس جگہ) فاطمہ بنت محمد بھی ہوتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا“۔[29]

چوری کے بارے میں مسیحی نقطہ نظر:

کیونکہ شریعت کے یہ حکم ″زنا نہ کرو، قتل نہ کرو، چوری نہ کرو لالچ نہ کرو″ اور ان کے علاوہ جتنے بھی حکم ہیں ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ ″اپنے پڑوسی سے اسی طرح محبت کرو جس طرح تم اپنے آپ سے کرتے ہو″[30]

″چور آئندہ چوری نہ کرے بلکہ اپنے ہاتھوں سے محنت کرے اور اچھا کام کرے تاکہ ضرورت مندوں کی مدد کر سکے″ [31]

دنیا کا کوئی بھی مذہب یا معاشرہ ہو اس میں چوری کو گناہ اور جرم تصور کیا جاتا ہے اور ان مذاہب اور معاشروں کے قوانین کے حساب سے چوری کرنے کی سزا بھی مقرر ہے۔ سب جانتے ہیں کہ چوری کرنا جرم اور گناہ ہے لیکن چوری لوگ کرتے ہیں اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بڑا آدمی بڑی چوری کرتا نظر آتا ہے اور چھوٹا آدمی چھوٹی چوری کرتا نظر آتا ہے بس ہاتھ پڑنے کی دیر ہے چوری کا گناہ شروع ہوجاتا ہے سیاست دان ملک کے اربوں روپے چوری کرتے ہیں اور بیرون ممالک میں منتقل کرتے ہیں اور جائدادیں بناتے ہیں اور چوری کا گناہ کرتے ہیں۔ گاڑیاں اور موٹر سائکلیں چوری کر لی جاتی ہیں اور گناہ کیا جاتا ہے، گھروں میں چوری کی جاتی ہے اور گناہ کیا جاتا ہے، پرس چوری کر لیے جاتے ہیں اور چوری کا گناہ ہوتا ہے، دکانوں میں چوری کی جاتی ہے اور چوری کا گناہ کیا جاتا ہے۔ جتنا جدید دور آگیا گیا ہے چوری کے گناہ کے طریقوں میں بھی جدت پیدا ہو گئی ہے۔ چوری کے گناہ ایک وجہ بے روزگاری بھی ہے لوگوں کو آسانی سے روزگار نہیں ملتا تو لوگ چوری کے گناہ کی طرف مائل ہوتے ہیں آخر پیٹ کے دوزخ کو بھی تو بھرنا ہوتا ہے۔

لوٹ مار ترمیم

کسی بھی شخص، گروہ، قوم یا ملک کی دولت کو کوئی شخص، خاندان یاگروہ مختلف ہتھکنڈوں، طاقت، اسلحے کے زرو پر یا چلاکی سے ہتھیالے اسے لوٹ مار کہا جاتا ہے۔ لوٹ مار ایک گھناونا جرم اور گناہ ہے۔ لوٹ مار کا گناہ قدیم دور میں اس وقت ہوتا تھا جب کوئی بادشاہ کسی علاقے، شہر یا ملک کو فتح کرتا تھاتو اس علاقے، شہر یا ملک میں لوٹ مار کے گناہ کا بازار گرم ہو جاتا تھا اور اس علاقے، شہر یا ملک کے شکست خوردہ لوگوں کو لوٹ لیا جاتا تھا ان کے گھروں میں گھس کر ان کا مال دولت لوٹ لیا جاتا تھا اور لوگ یہ گناہ کرتے تھے، 1947 میں جب پاکستان بنا تو ہندوئوں نے مسلمانوں کا نہ صرف قتل عام کیا بلکہ ان کے مال دولت کو لوٹ کر لوٹ مار کا گناہ کیا، اس طرح حالیہ عراق جنگ میں جب امریکا نے عراق پر قبضہ کیا تو وہاں خوب لوٹ مار کا گناہ ہوا اور بینکوں کو لوٹا گیا لوگوں کے گھروں میں گھس کر ان کا قیمتی سامان اور اور ان کی دولت کو لوٹا گیا۔ کسی بھی قسم کے فسادات کی صورت میں ذہنی طور پر پسماندہ اور اخلاقی طور پر دیوالیہ لوگ لوٹ مار کا گناہ کرتے ہیں وہ فسادات کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور مخالفین کے گھروں گھس کر ان کو لوٹ لیتے ہیں حرص و ہوس اور لالچ ان کو لوٹ مار کے اس گناہ پر مجبور کرتا ہے وہ ذرا نہیں سوچتے کہ وہ کتنا بڑا گناہ کر رہے ہیں۔ اسی طری لوگ اسلحے کے زور پر لوگوں کے گھروں میں داخل ہوجاتے ہیں اور انھیں لوٹ لیتے ہیں۔ سڑیٹ کرائم میں لوگ لوگوں کو اسلحہ دکھا کر ان سے نقدی اور موبائل لوٹ لیتے ہیں اور لوٹ مار کا گناہ کرتے ہیں۔ سیاست دان اپنی چلاکی سے ملکی دولت لوٹ لیتے ہیں اور لوٹ مار کا گناہ کرتے ہیں۔ لوگوں کی گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں اسلحہ دکھا کر لوٹ لی جاتی ہیں اور لوٹ مار کا گناہ کیا جاتا ہے، بینکوں میں لوگ اسلحے کے زور پر داخل ہوتے ہیں اور بینکوں کو لوٹ کر لوٹ مار کا گناہ کرتے ہیں، لوگ اسلحے کے زور پر پیڑول پمپوں اور دکانوں کو لوٹ لیتے ہیں اور لوٹ مار کا گناہ کرتے ہیں۔ لوٹ مار کا گناہ عموماٌ فسادات میں بہت زیادہ ہوتا ہے۔ لوٹ مار کے گناہ کی وجہ سے انسان کو وقتی فائدہ ہوتا ہے لوٹی ہوئی دولت جلد ہی ختم ہوجاتی ہے اور انسان لوٹ مار کے گناہ کی وجہ سے جیل کی ہوا بھی کھاتے ہیں لیکن اس کے باوجود لوگ اس کے نتائج سے بے خبر اس گناہ کو کرتے ہیں وہ یہ بالکل نہیں سوچتے کے اس گناہ کی پاداش میں ان کو روز قیامت سخت ترین سزا ملے گی۔

فساد فی الارض ترمیم

کوئی بھی ایسا عمل جس سے معاشرے کا توازن بگڑ جائے اور اس کی وجہ سے معاشرے کے نظام میں خرابی اور خلل پیدا ہو فساد فی الارض کہلاتا ہے فساد فی الارض کا گناہ بہت بڑا گناہ ہے اس کی وجہ سے معاشرے پر بہت ہی برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ فساد فی الارض کا گناہ کسی بھی معاشرے میں فتنے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے یعنی فساد اور فتنے کا چولی دامن کا ساتھ ہے جہاں فساد ہو گا وہان فتنہ بھی ہوگا۔

فساد فی الارض قرآن کی روشنی میں:

قرآن مجید میں فساد اور اس کے مشتقات تقریباٌ پچاس سے زائد مقامات پر وارد ہوئے ہیں، جن میں 80 فیصد کے ساتھ ارض کا لفظ بھی آیا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ فساد کا سرزمین سے بہت ہی گہرا تعلق ہے اور اکثر فساد فی الارض کے گناہ اسی سرزمین پر واقع ہوتے ہیں۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

” وَمِنْهُمْ مَنْ يُؤْمِنُ بِهِ وَمِنْهُمْ مَنْ لَا يُؤْمِنُ بِهِ وَرَبُّكَ أَعْلَمُ بِالْمُفْسِدِينَ”

اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو اس پر ایمان لے آئیں گے اور بعض ایسے ہیں کہ اس پر ایمان نہ لائیں گے۔ اور آپ کا رب فساد کرنے والوں کو خوب جانتا ہے.[32]

” وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَكِنْ لَا يَشْعُرُونَ”

اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں خبردار ہو یقیناً یہی لوگ فساد کرنے والے ہیں لیکن شعور (سمجھ) نہیں رکھتے.[33]

فساد فی الارض حدیث کی روشنی میں:

1- عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «اللهم بارك لنا في شامنا، اللهم بارك لنا في يمننا»، قالوا: “يا رسول الله، وفي نجدنا؟” فأظنه قال في الثالثة: «هناك الزلازل والفتن وبها يطلع قرن الشيطان»۔

ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ[رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا]: (یا اللہ! ہمارے شام اور یمن میں برکت فرما) صحابہ کرام نے عرض کیا: “اور ہمارے نجد میں بھی؟” تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یا اللہ! ہمارے شام اور یمن میں برکت فرما)، صحابہ کرام نے عرض کیا: “اورہمارے نجد میں بھی؟” تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (وہاں زلزلے، فتنے ہوں گے اور وہیں سے شیطان کا سینگ رونما ہوگا)[34]

فساد کے بارے میں عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہا کی رائے:

فمن قتل وافسد فی الارض وحارب اللّٰہ ورسولہ ثم لحق بالکفار قبل ان یقدر علیہ لم یمنعہ ذلک ان یقام فیہ الحد الذی اصاب.

’’جو مسلمان قتل کرے، زمین میں فساد مچائے اور اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کرے، پھر اپنے اوپر قدرت پائے جانے سے پہلے کفار کے ساتھ جا ملے، (توبہ کرنے کی صورت میں) اس پر اس کے جرائم کی سزا نافذ کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔‘‘[35]

انسان فساد فی الارض کا گناہ عقدی طور پر کرتا ہیں یعنی وہ کفر و شرک کا راستہ اختیار کرتا ہے جس سے معاشرے کا توازن بگڑ جاتا ہے اور انسان کا اگر عقیدہ ہی خراب ہو جائے تو اس کا اثر پورے معاشرے پر پڑتا ہے، عقدی فساد سے مراد یہ ہے کہ انسان کا عقیدہ الہیات و نبوت اور ایمانیت کے باب میں کتاب و سنت کے منافی ہوجائے۔اسی طرح انبیا و رسل کی تکذیب ان سے عداوت و دشمنی ان کی مخالفت اور حق کو ٹھکرانا یہ سب عقدی فساد کے نمونے ہیں۔اسی طرح انسان اخلاقی اور سلوکی فساد کا گناہ کرتا ہے، وہ ظلم، عداوت، سرکشی، بغض، حسد، غرور و تکبراور گھمنڈ اور طعن و تشنع کر کے کے معاشرے میں اخلاقی اور سلوکی فساد کا گناہ کرتا ہے۔انسان جنسی بے راہ روی اختیار کر کے معاشرے میں فساد کا سبب بنتا ہے اور فساد فی الارض کا گناہ کرتا ہے۔ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم نے جنسی بے راہ روی اختیار کی جس کی وجہ سے معاشرے میں فساد فی الارض پیدا ہوا اور اللہ تعالیٰ نے قوم لوط پر عذاب نازل کیا۔انسان حرام کی کمائی اور سود خوری، ناپ تول میں کمی کرکے اور خرید و فروخت میں دھوکا دہی کر کے مالی فساد فی الارض کا گناہ کرتا ہے۔انسان معاشرے میں دہشت گردی پھیلا کر، لوگوں کو اپنی طاقت کی وجہ سے ڈرا دھمکا کر، قتل و غارت گری کر کے چوری ڈاکا زنی اور لوٹ مار کر کے فساد فی الارض کا گناہ کرتا ہے۔ غرض فساد فی الارض کا گناہ ایسا گناہ ہے جس کی وجہ سے معاشرے اور قومیں تباہ و برباد ہو جاتی ہیں۔ قوم لوط علیہ السلام اور قوم شعیب (قوم شعیب علیہ السلام ناپ تول میں کمی کرتی تھی) فساد فی الارض کے گناہ کی وجہ سے اللہ کے عذاب کا شکار ہوئیں۔

قومی دولت کو لوٹنا ترمیم

عوام جو رقم حکومت کو ٹیکس کی صورت میں ادا کرتی ہے وہ قومی دولت کہلاتی یہ دولت عوام کی فلاح اور ملک و قوم کی ترقی کے لیے استعمال کی جاتی ہے لیکن دنیا کے ہر خطے اور ملک میں قومی دولت لوٹنے کا جرم اور گناہ کیا جاتا ہے۔ یہ جرم اور گناہ کہیں کم ہوتا ہے اور کہیں بہت ہی زیادہ ہوتا ہے۔ چھوٹا آدمی چھوٹا ہاتھ مارتا ہے اور بڑا آدمی بڑا ہاتھ مارتا ہے۔ جس کا جتنا اور جہاں بس چلتا ہے وہ قومی دولت لوٹنے کا گناہ کرتا ہے اگر کوئی سوال کرے تو کہا جاتا ہے ہم پر الزام ہے۔ خاص طور پر کسی بھی ملک کا حکمران طبقہ قومی دولت لوٹنے کا گناہ کرتا ہے۔

جمہوری ملکوں میں الیکشن ہوتے ہیں پارلیمنٹ کا رکن بننے کے لیے پہلے کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں پھر الیکشن میں کامیابی کے بعد یہ خرچ کیے ہوئے روپے قومی دولت لوٹنے کا گناہ کر کے سود سمیت وصول کیے جاتے ہیں۔ جہاں بادشاہت اور آمریت کا طرز حکمرانی ہے ویاں بادشاہ اور آمر کے حواری قومی دولت لوٹنے کا گناہ کرتے ہیں اور خوب ہاتھ رنگتے ہیں۔ قومی دولت لوٹنے کے گناہ اور جرم کا طریقہ کار کچھ اس طرح ہے کہ ملک کے اداروں میں اپنے وفادار لوگ لگائے جاتے ہیں اور ان کے ذریعے اداروں کوکھلا اور کمزور کیا جاتا ہے اور اپنے لگائے گئے ان وفادار افسران کے ذریعے وزراء اور حکمران طبقہ قومی دولت کو لوٹنے کا جرم اور گناہ کرتا ہے افسران اور بیوروکریٹس بھی قومی دولت لوٹنے کے گناہ میں برابر کا حصہ وصول کرتے ہیں۔ اس قسم کے منصوبے بنائے جاتے ہیں جن سے کمیشن اور کک بیکس حاصل ہوں من پسندافراد کو ٹھیکے دیے جاتے ہیں اور ان بڑے بڑے منصوبوں میں اربوں روپے کی کمیشن اور کک بیکس وصول کی جاتی ہیں اور یہ لوٹی ہوئی رقم منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ممالک میں منتقل کی جاتی ہے اور وہاں آفشور کمپنیاں بنائی جاتی ہیں ان میں رقم کو چھپایا جاتا ہے اور بے نامی جائدادیں خریدی جاتی ہیں اور اس طرح قومی دولت لوٹنے کا جرم اور گناہ کیا جاتا ہے۔ لوٹی ہوئی قومی دولت کا کچھ حصہ اس لیے رکھا جاتا ہے کہ اگر قومی دولت لوٹنے کا گناہ اور جرم منظر عام پر آجائے تو کروڑوں روپے کے بڑے بڑے وکیل کر کے عدالتوں سے بری ہوا جائے۔ کیونکہ خود حکومت میں ہوتے ہیں اس وجہ سے اس جرم سے بچ نکلتے ہیں۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ قومی دولت لوٹنے کے گناہ (وائٹ کالرکرائم) کو ثابت کرنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔ اداروں میں بیٹھے ہوئے اپنے لوگوں کے ذریعے کیس کو کمزور کرادیا جاتا ہے اور کیونکہ کیس کمزور ہوتا ہے اس وجہ سے عدالتیں ناکافی ثبوت ہونے اور قانون میں پائے جانے والے ابہام کی وجہ سے قومی دولت لوٹنے والے مجرموں کو بری کرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔جو قومی دولت لوٹی جاتی ہے وہ حوالہ ہنڈی کے ذریعے یا جعلی بینک اکائونٹ کھول کر بیرونی ممالک میں منتقل کر دی جاتی ہے۔ اگرچہ کچھ ممالک میں قومی دولت لوٹنے والوں کو پھانسی تک کی بھی سزا دی گئی ہے لیکن اس کے باوجود یہ گناہ ہو رہا ہے۔

قومی دولت لوٹنے کا گناہ اوپر سے سفر کرتا ہوا نیچے کی طرف آتا ہے۔ کیونکہ ادارے کمزور کر دیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے مختلف اداروں میں حکومت کی طرف سے جو فنڈز فراہم کیے جاتے ہیں ان پر اپنا اپنا حصہ وصول کیا جاتا ہے اور قومی دولت کو لوٹنے کا گناہ کیا جاتا ہے کوئی بھی محکمہ قومی دولت لوٹنے کے گناہ اور جرم سے پاک نہیں ہے یا یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ اس حمام میں سب ننگے نظر آتے ہیں۔ قومی دولت لوٹنے کے گناہ کی وجہ سے ممالک قرضوں کے بوجھ میں دب جاتے ہیں اوراب تک کچھ ممالک دیوالیہ ہو چکے ہیں اور کچھ دیوالیہ ہونے کے قریب ہیں۔ ہاں یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ جن ممالک میں ادارے مظبوط ہیں اور قانون کی حکمرانی ہے وہاں قومی دولت لوٹنے گناہ کم ہوتا ہے۔ قومی دولت لوٹنے کا جرم اور گناہ خودغرضی، لالچ اور زیادہ سے زیادہ روپیہ حاصل کرنے کی ہوس کی وجہ سے یا ملک کے اقتدار پر قابض رہنے کی خواہش کی وجہ سے ہوتا ہے تاکہ ان کی شان و شوکت قائم رہے۔

دہشت گردی ترمیم

دہشت گردی ایسا گناہ ہے جس میں لوگوں میں خوف و ہراس اور دہشت پھیلائی جاتی ہے۔ دہشت گردی کا گناہ خودکش حملہ کی صورت میں کیا جاتا ہے اس گناہ میں دہشت گرد خود بھی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور دوسرے بے گناہوں کی بھی جان لے لیتا ہے اس قسم کی دہشت گردی میں لوگوں کو جنت کا لالچ دے کر یا پیسے کا لالچ دے کر انھیں اس دہشت گردی کے گناہ پر آمادہ کیا جاتا ہے۔ دہشت گردی کے گناہ کی ایک اور قسم ریاستی دہشت گردی ہے جس میں ریاستیں کسی کمزور طبقہ پر دہشت گردی کرتی ہیں تاکہ اس کمزور اور مظلوم طبقہ کی آواز کو دبایا جاسکے اس کی مثال کشمیر اور فلسطین کے مظلوم عوام ہیں جہاں بھارت کشمیر میں مظلوم کشمیریوں کی آواز کو دبانے کے لیے کشمیویوں شہید کر کے ان کی عزتوں کو پامال کر کے ان کے حقوق سلب کر کے دہشت گردی کا گناہ کررہا ہے۔ اسی طرح اسرائیل آئے دن مظلوم فلسطینیوں پر بمباری کر کے انھیں شہید کرتا رہتا ہے اس کی فوجیں فلسطینی عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتی رہتی ہیں لیکن عالمی برادری ان دونوں ممالک کی ریاستی دہشت گردی کے اس گناہ پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے رکھتی ہے اور دہشت گردی کے اس گناہ میں شریک ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ مال کے حصول کے لیے بھی دہشت گردی کا گناہ کیا جاتا ہے کسی بھی بڑی یا مال دار شخصیت کو اغوا کر کے دہشت گردی کا گناہ کیا جاتا ہے۔ اور اس شخص کی رہائی کے عوض بہت بڑی رقم وصول کی جاتی ہے یا کسی بڑے آدمی کو اغوا کرنے کا مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ اس شخص کی رہائی کے عوض اپنے افراد کو جو قید میں ہوتے ہیں رہا کرایا جاسکے۔ سیاسی مقاصد کے حصول اور اپنے سیاسی مخالفین کی آواز کو دبانے کے لیے بھی دہشت گردی کا گناہ کیا جاتا ہے کراچی میں ملنے والی بوری بند لاشیں دہشت گردی کے اس گناہ کی بہت بڑی مثال ہیں۔ دہشت گردی کے اس گناہ میں بچوں اور خواتین کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ دہشت پھیلے اور دہشت گردوں کو ان کے ناپاک مقاصد حاصل ہوسکیں آرمی پبلک اسکول پشاور کی دہشت گردی اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ جہازوں کو اغوا کر کے بھی دہشت گردی کا گناہ کیا جاتا ہے۔ کسی عمارت پر قبضہ کر کے بھی دہشت گردی کا گناہ کیا جاتا ہے اس کی سب سے بڑی مثال خانہ کعبہ پر کچھ لوگوں کے قبضہ کی ہے جس میں سے ایک شخص نے امام مہدی ہونے کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا۔

دہشت گردی کے گناہ کا ناسور اس طرح پھیل چکا ہے کہ یہ گناہ دنیا کے تقریباٌ ہر ملک میں کس نہ کسی صورت میں ہوریا ہے امریکا ہو یا فرانس، انگلینڈ ہو یا ترکی، جرمن ہو یا اٹلی پاکستان ہو یا عراق، شام ہو یا مصر، سعودی عرب ہو یا مصر ایران ہو یا افغانستان، انڈونیشیا ہو یا ملیشیا، انڈیا ہو یا برما، غرض دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں ہو گا گا جہاں دہشت گردی نہ ہوئی ہو یا وہ دہشت گردی کا شکار نہ ہوا ہو کہیں ریاستیں عوام کی آواز کو دبانے کے لیے دہشت گردی کر رہی ہوتی ہیں تو کہیں قتل غارت گری کرکے دیشت گردی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے تو کہیں خود کش بمبار پھٹتے ہیں اوو خود بھی لقمہ اجل بنتے ہیں اور بے گناہ لوگوں کی جانیں لیتے ہیں تو کہیں بوری بند لاشیں ملتی ہیں اور لوگوں میں دہشت کی لہر پھیلائی جاتی ہر تو کہیں جہاز اغوا کرلئے جاتے ہیں اور دہشت گردی پھیلائی جاتی ہے تو کہیں لوگوں کو اغوا کر کے دہشت پھیلائی جارہی ہوتی ہے۔ تو کہیں مساجد، امام بارگاہوں، عبادت گاہوں، گرجا گھروں اور مندروں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جارہا ہوتاہے۔ صبح آدمی جب گھر سے نکلتا ہے تو وہ سارا دن اس خوف میں مبتلا ہوتا ہے کہ کہیں وہ کسی انجانی گولی کا شکار ہو کر کسی دہشت گرد کا نشانہ نہ بن جائے۔ باہر کی تو کیا بات کی جائے لوگ گھروں میں محفوظ نہیں ہوتے وہاں دہشت گردی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ گاڑی میں جاتا ہوا آدمی ہو یا موٹر سائیکل پر سوار کہیں سے آتی ہو ئی گولی کا نشانہ بن جاتا ہے اور اسے اس بات کی مہلت بھی نہیں ملتی کہ وہ یہ سوچ سکے کہ اسے کس جرم میں ہلاک کیا گیااس کو مارنے والا دہشت گرد کون تھا۔ان تمام عوامل کو دیکھتے ہوئے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ دہشت گردی کا گناہ دنیا میں پھیلتا ہی چلا جارہا ہے اور کسی بھی صورت میں کم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے

پاکستان، افغانستان ، عراق، وہ ممالک ہیں جو سب سے زیادہ دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں خاص طور پر پاکستان وہ ملک ہے جہاں سب سے زیادہ دہشت گردی ہوئی اور اب تک تقریباٌ ستر ہزار افراد دہشت دہشت گردی کا شکار ہوئے اور اربوں روپے کا مالی نقصان علحیدہ ہوا لیکن اس سب دہشت گردوں کے آگے پاکستانی قوم سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑی ہو گئی اور پاکستانی افواج نے آپریشن ضرب عضب اور آپریشن رد الفساد کے ذریعے دہشت گردی کے گناہ پر بہت حد تک قابو پالیا ہے لیکن اس کے لیے پاکستان کی بہادر افواج کو ہزاروں قیمتی جانوں کو نذرانہ پیش کرنا پڑا تب کہیں جاکر دہشت گردوں کا مقابلہ کیا جاسکا پاکستانی قوم نے بھی دہشت گردوں سے ہار نہیں مانی اور یہ قوم ہزاروں جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے باوجود آج بھی دہشت گردی کے گناہ کے خلاف ڈٹی ہوئی ہے اور اس کا بہادی اور دلیری کے ساتھ مقابلہ کررہی ہے اللہ تعالی دہشت گردی کرنے والے گناہ گاروں کو ہدایت دے آمین۔

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. "اردو_لغت"۔ 12 مئی 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اگست 2015 
  2. "اردو دائرۃ معارف العلوم"۔ 22 جون 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اگست 2015 
  3. (رواہ ابن ماجة فی الفتن، رقم الحدیث: 4091،اٴبو نعیم فی الحلیة، ج3، صفحہ320، رواہ الطبرانی فی معجم الاوسط، ج1، صفحہ 287، مسند الشامین، ج2، رقم الحدیث: 1558، الصحیحة للاٴلبانی، رقم: 106، قال البوصیری: رواہ الحاکم اٴبو عبد اللہ الحافظ فی کتابہ المستدرک فی آخر کتاب الفتن مطولا من طریق عطاء بن ابی رباح، وصححہ البوصیری، ولہ شواھد کثیرة۔۔۔)
  4. سورۃالمطففین
  5. (سُورت النِساء (4)/آیت145)
  6. (صحیح الجامع الصغیر /حدیث 3043)
  7. قرآن؛ سورت 17 آیت 32
  8. قرآن؛ سورت 24 آیات 1 تا 2
  9. (مسلم، رقم 3200)
  10. ^ ا ب International Lesbian, Gay, Bisexual, Trans and Inter-sex
  11. ترمذی شریف
  12. بخاری شریف
  13. صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 18 حدیث مرفوع مکررات 3
  14. سورہ الفلق 5:113
  15. [[سورہ بقرہ]] آیت 9:10
  16. سنن ابی دائود 4905
  17. صحیح بخاری 1344
  18. قرآن، سورت البقرۃ، آیت نمبر 219​
  19. قرآن، سورت النساء، آیت نمبر 43​
  20. صحیح مسلم،کتاب الایمان، باب بیان نقصان الایمان بالمعاصی…الخ، الحدیث:202،ص690۔
  21. …سنن ابی داود، کتاب الاشربۃ، باب العصیر للخمر، الحدیث:3674،ص1495۔
  22. افسیوں 5 باب 18 آیت:
  23. قرآن، سورت البقرۃ، آیت نمبر 219​
  24. قرآن: سورۃ المائدہ آیت نمبر 91
  25. سنن ابی دائود رقم الحدیث 3685
  26. مسلم شریف
  27. ^ ا ب پ https://www.gotquestions.org/Urdu/Urdu-gambling-sin.html
  28. سورۃ المائدہ آیت نمبر (38:29)
  29. سنن نسائی حدیث نمبر(4899)
  30. رومیوں (9:13)
  31. افسیوں (28:4)
  32. سورۃ یونس آیت 20
  33. سورۃالبقرۃ آیت 11:12
  34. (أخرجه البخاري [1037])
  35. (نسائی، رقم 3978)