حیدرآباد، دکن

حیدر آباد، دکن

حیدرآباد بھارت کی ریاست تلنگانہ کا دار الحکومت اور صوبہ کا سب سے بڑا شہر ہے۔ جنوبی ہند کے سطح مرتفع دکن علاقہ دریائے موسی کے کنارے واقع اس شہر کا کل رقبہ 650 مربع کلومیٹر (250 مربع میل) ہے۔ سطح سمندر سے 542 میٹر 1778 فٹ) کی اونچائی پر واقع یہ شہر کئی پہاڑوں اور مصنوعی تالابوں سے مالا مال ہے۔ شہر کا مشہور حسین ساگر حیدرآباد کی تاسیس سے بھی پرانا ہے۔ مردم شماری، 2011ء کے مطابق حیدرآباد آبادی کے لحاظ سے چو تھا بڑا شہر ہے۔ اس کی کل آبادی 6.9 ملین نفوس پر مشتمل ہے۔ اگر میٹروپولیٹن علاقہ کی بات کریں تو اس کی کل آبادی 9.7 ملین ہے اور اس لحاظ سے یہ بھارت کا چھٹا بڑا میٹروپولیٹن شہر ہے۔ اس کی معیشت کی کل مالیت 74 بلین امریکی ڈالر ہے اور اس لحاظ سے یہ بھارت کی پانچوں بڑی شہری معیشت ہے۔

میٹروپولس
300px
اوپر سے دائیں جانب: رمضان کی ایک شب چار مینار کا بازار، گنبدان قطب شاہی، حسین ساگر پر مجسمۂ بدھا ، فلک نما محل، گاچی باولی کا طائرانہ نظارہ، بیرلہ مندر
حیدرآباد
بلدیہ حیدرآباد کا نشان
نقشہ
حیدرآباد کا نقشہ
تلنگانہ، بھارت میں حیدرآباد کی منظر کشی
تلنگانہ، بھارت میں حیدرآباد کی منظر کشی
حیدرآباد
تلنگانہ، بھارت میں حیدرآباد کی منظر کشی
تلنگانہ، بھارت میں حیدرآباد کی منظر کشی
حیدرآباد
تلنگانہ، بھارت میں حیدرآباد کی منظر کشی
تلنگانہ، بھارت میں حیدرآباد کی منظر کشی
حیدرآباد
تلنگانہ، بھارت میں حیدرآباد کی منظر کشی
تلنگانہ، بھارت میں حیدرآباد کی منظر کشی
حیدرآباد
نقشہ ہائے حیدرآباد
متناسقات: 17°21′42″N 78°28′29″E / 17.36167°N 78.47472°E / 17.36167; 78.47472
ملک بھارت
ریاستفائل:Government of Telangana Logo.png تلنگانہ
ضلع
قیام1591
قائم ازمحمد قلی قطب شاہ
حکومت
 • قسمبلدیہ
 • مجلسعظیم تر بلدیہ حیدرآباد،
حیدرآباد میٹروپولیٹن ڈیولپمنٹ اتھارٹی
 • عظیم تر بلدیہ حیدرآبادGadwal Vijayalakshmi (TRS)
 • رکن پارلیماناسد الدین اویسی (کل ہند مجلس اتحاد المسلمین)
رقبہ
 • اصل شہر650 کلومیٹر2 (250 میل مربع)
 • میٹرو7,257 کلومیٹر2 (2,802 میل مربع)
بلندی542 میل (1,778 فٹ)
آبادی (2011)[1]
 • اصل شہر6,809,970 (نفوس)
 • تخمینہ (2018)[2]9,482,000
 • کثافت10,477/کلومیٹر2 (27,140/میل مربع)
 • شہری[3]7,749,334 (شہری آبادی)
 • میٹرو[4]9.7 ملین (آبادی)
نام آبادیحیدرآباد
منطقۂ وقتبھارتی معیاری وقت (UTC+5:30)
ڈاک اشاریہ رمز500xxx, 501xxx, 502xxx
گاڑی کی نمبر پلیٹTS-07 سے TS-15
(سابقہ AP-09 سے AP-14 اور AP-28, AP-29)
Metro GDP (مساوی قوت خرید)امریکی ڈالر40–امریکی ڈالر74 بلین[5]
سرکاری زبانیں
ویب سائٹwww.ghmc.gov.in

1591ء میں محمد قلی قطب شاہ نے اپنے پایہ تخت کو گولکنڈہ کے باہر وسعت دی۔ گولکنڈہ ایک قلعہ بند شہر تھا۔ 1687ء میں مغلیہ سلطنت نے حیدراباد کو سلطنت مغلیہ کا حصہ بنا دیا۔ 1724ء میں مغل وائسرائے نظام الملک آصف جاہ اول نے مغل سلطنت سے بغاوت کی اور اپنی خود مختاری کا اعلان کر دیا اور مملکت اصفیہ کی بنیاد ڈالی۔ مملکت آصفیہ کو نظام حیدرآباد کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ 1769ء تا 1948ء حیدراباد مملکت آصفیہ کا پایہ تخت رہا۔ برطانوی دور میں قانون آزادی ہند 1947ء تک یہ نوابی ریاست برطانوی ریزیڈنسی، حیدرآباد کہلائی۔ 1948ء میں بھارت ڈومینین نے حیدراباد کو بھارت میں شامل کرلیا اور شہر حیدراباد ریاست حیدرآباد کا پایہ تخت بنا رہا۔ 1956ء میں تنظیم نو ایکٹ کے تحت ایک نئے صوبہ آندھرا پردیش کا دار الحکومت بنا۔ 2014ء میں آندھرا پردیش کے دو حصے ہوئے اور تلنگانہ کی شکل میں نیا صوبہ بنا اور 2024ء تک حیدراباد کو مشترکہ طور پر دونوں صوبوں کا دار الحکومت بنایا گیا۔ 1956ء سے حیدراباد صدر بھارت کا موسم سرما کا دفتر رہا ہے۔ شہر میں قطب شاہی اور نظام شاہی سلطنتوں کے باقیات جا بجا ملتے ہیں۔ چار مینار حیدراباد کی پہچان ہے۔ عہد جدید کے اواخر میں جب مغل سلطنت زوال پزیر ہونے لگی تب نظام حیدراباد نے اپنا دور شباب دیکھا اور حیدراباد کو دنیا بھر میں ایک پہچان مل گئی۔ یہاں کی ثقافت، زیورات، ادب، مصوری، دکنی لہجہ اور ملبوسات اپنی انفرادیت کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ حیدرآبادی پکوان کی وجہ سے یہ شہر یونیسکو کے سٹی آف گیسٹرانومی میں شامل ہے۔ شہر میں واقع تیلگو سنیما بھارت کا دوسرا بڑا سنیما ہے۔ 19ویں صدی تک حیدراباد دنیا بھر میں اپنے ہیروں کی وجہ سے مشہور تھا اور اسے “سٹی آف پلرس“ (ہیروں کا شہر) کہا جاتا تھا۔ دنیا بھر میں گولکنڈہ کے ہیروں کی تجارت ہوتی تھی۔ شہر کے کئی روایتی بازار اب بھی موجود ہیں۔ حیدراباد سطح مرتفع دكن اور مغربی گھاٹ کے درمیان میں واقع ہے اور اسی وجہ سے 20ویں صدی میں یہ تحقیق، تعمیر، تعلیم و ادب اور معیشت کا مرکز بن گیا اور یہاں کئی تعلیمی ادارے قائم ہوئے۔ 1990ء کی دہائی میں یہ شہر ادویات اور بایوٹیکنالوجی میں ترقی کرنے لگا اور یہاں خصوصی معیشتی علاقہ (ہائی ٹیک سٹی) ترقی پزیر ہوا جہاں کئی بین الاقوامی کمپنیاں اور صنعت موجود ہیں۔ ابھی اس وقت فی الحال آندھرا پردیش کا بھی دار الحکومت ہے

تاریخ

ترمیم

مکان نامی

ترمیم

حیدراباد کے معنی “حیدر کا شہر“ کے آتے ہیں۔ حیدر بمعنی شیراور آباد بمعنی شہر یا آبادی۔ حیدر دراصل خلیفہ راشد رابع علی ابن ابی طالب کا ایک نام ہے اور انہی کے نام پر اس شہر کا نام رکھا گیا ہے۔[6] پہلے اس شہر کا نام “باغ نگر“ (باغوں کا شہر) تھا جسے بعد میں حیدراباد کر دیا گیا۔[7][8] یورپی سیاح وون پوسر اور ثیونوٹ کے مطابق 17ویں صدی میں دونوں نام زیر استعمال تھے۔[9][10] ایک روایت کے مطابق شہر کے بانی محمد قلی قطب شاہ نے اس شہر کا نام بھاگ متی کے نام پر “بھاگیہ نگر“ رکھا۔ وہ ایک مشہور رقاصہ تھی۔ قلی قطب شاہ نے بھاگ متی سے شادی کرلی اور بھاگ متی نے اسلام قبول کر کے اپنا نام حیدر محل رکھ لیا۔ ان کے اعزاز میں یہ شہر حیدراباد کہلانے لگا۔[11]

ابتدائی تاریخ اور عہد وسطی

ترمیم
 
A 17th century Deccani School miniature of قطب شاہی سلطنت ruler ابو الحسن قطب شاہ with Sufi singers in the Mehfil-(“gathering to entertain or praise someone”)۔
 
The گنبدان قطب شاہی at Ibrahim Bagh are the tombs of the seven Qutb Shahi rulers.

1851ء میں عہد نظام شاہی میں مضافات حیدرآباد میں فلپ میڈوز ٹیلر نے ماقبل تاریخ کے کچھ نصب کردہ پتھر دریافت کیے تھے۔ فلپ نظام شاہی سلطنت میں ایک پولیمیتھ تھے۔ فلپ نے ان پتھروں سے نتیجہ نکالا کہ یہ شہر سنگی دور سے آباد ہے۔[12][13] ماہرین آثار قدیمہ کو کھدائی کے دوران میں حیدرآباد کے نزدیک آہنی دور کے کچھ آثار ملے تھے جو تقریباً 500 عام زمانہ کے ہو سکتے ہیں۔[14] یہ پورا علاقہ اور جدید حیدراباد میں شامل ہے اور اور اس کے آس پاس 624ء تا 1075ء چالوکیہ خاندان کی حکومت تھی۔[15] 11ویں صدی میں چالوکیہ سلطنت چار ریاستوں میں منقسم ہو گئی اور گولکنڈہ کی ریاست کیکٹیا خاندان کے حصہ میں آئی۔ انھوں نے 1158ء میں گولکنڈہ کی حکومت سنبھالی اور ان کا پایہ تخت موجودہ حیدراباد سے 148 کلومیٹر (92 میل) شمال مشرق میں آباد وارنگل تھا۔[16] کیکٹیا کے راجا گنپتی دیوا نے پہاڑ کی چوٹی پر ایک قلعہ تعمیر کیا جسے اب قلعہ گولکنڈہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔[13]

1310ء میں دہلی سلطنت کے خلجی خاندان کے حکمران علا الدین خلجی نے کیکٹیا کو شکست دی اور ان کی حکومت محدود کردی۔ 1321ء میں علاءالدین کے سپہ سالار ملک کافور نے کیکٹیا حکومت کو دہلی سلطنت میں شامل کر لیا۔[17] اسی حملہ کے دوران میں خلجی کو مشہور کوہ نور ہاتھ لگا جسے وہ دہلی لے گیا۔ کوہ نور کو گولکنڈہ کے کلور کی کان سے نکالا گیا تھا۔[18] 1325ء میں دہلی سلطنت خلجییوں کے ہاتھوں سے نکل کر تغلق خاندان کے ہاتھ میں آگئی اور وارنگل کو دہلی سلطنت میں شامل کر لیا گیا۔ ملک مقبول تیلاغانی وارنگل کے جنرل مقرر ہوئے۔ 1333ء میں منصوری نایک نے سلطنت کے خلاف بغاوت کر دی اور وارنگل کو اپنی ماتحتی میں لے لیا اور اپنی ریاست کی دارالخلافت کو یہاں منتقل کر دیا۔[19] اس کے بعد تغلق کے ایک گورنر علا الدین بہمن شاہ نے بھی دہلی سلطنت کے خلاف بغاوت کر دی اور سطح مرتفع دكن میں اپنی حکومت قائم کی اور موجودہ حیدرآباد سے 200 کلومیٹر (124 میل) مغرب میں واقع گلبرگہ کو دار الحکومت بنایا۔ وارانگل کے منصور اور گلبرگہ کے بہمنیوں کے درمیان میں 1364-65ء تک خوب جنگیں ہوئیں اور بالآخر ایک معاہدہ پر دستخط ہوئے اور منصوری نے گولکنڈہ کو بہمن کے حوالہ کر دیا۔ بہمن کے گولکنڈہ پر 1518ء تک حکومت کی اور وہ دکن پر پہلے مسلم آزاد حکمران بن گئے۔ [20][21][22] 1496ء میں قلی قطب الملک کو تیلنگانہ علاقہ کا نیا گورنر بنایا گیا۔ انھوں نے پرانے گولکنڈہ کی قلعہ بندی کی۔ شہر کے حصار کو بڑھایا اور نئی دیواریں بھی تعمیر کیں اور نئے شہر کا نام محمد نگر رکھا۔ 1518ء میں قلی قبط الملک بہمنی سلطنت کے خلاف بغاوت کر دی اور قطب شاہی سلطنت کی بنیاد ڈالی۔[16][23][24] قطب شاہی سلطنت کے 5ویں حکمران محمد قلی قطب شاہ نے گولکنڈہ میں پانی کی قلت کی وجہ سے[25] 1591ء میں موسی ندی کے کنارے حیدرآباد کو بسایا۔[26][27] قلی قطب شاہ نے اپنے دور حکومت میں چار مینار اور مکہ مسجد کو تعمیر کیا۔[28] 21 ستمبر 1687ء کو ایک سال تک گولکنڈہ کا محاصرہ کرنے کے بعد اسے فتح کر لیا۔[29][30] انھوں نے گولکنڈہ کو مغلیہ سلطنت کا ایک صوبہ قرار دیا اور حیدرآباد کو دارالجہاد کا نام دیا اور یہاں سے 550 کلومیٹر (342 میل) شمال مغرب میں واقع اورنگ آباد، مہاراشٹر کو گولکنڈہ کا دار الحکومت بنایا۔[31][32][33]

جدید تاریخ

ترمیم
 
تصویر میں ایل مل ہے جس کا نالہ حیسن ساگر تک جاتا ہے۔ 1880ء میں ریلوے آنے کے بعد حسین ساگر کے ارد گرد اس طرح کی صنعتیں قائم کی گئی تھیں۔

1713ء میں مغل شہزادہ فرخ سیر نے مبریز خان کو حیدراباد کا گورنر نامزد کیا تھا۔ انھوں نے شہر کو قلعہ بند کیا اور اندوری معاملات درست کیے اور بیرونی طاقتوں سے بھی نبرد آزما ہو کر انھیں قابو میں کیا۔[31] 1714ء میں فرخ سیر نے نظام الملک آصف جاہ اول کو دکن کا وائسارئے (مغل کے چھ صوبوں کا منتظم اعلیٰ) نامزد کیا۔ انھیں ‘نظام الملک‘ کا خطاب دیا گیا۔ 1721ء میں وہ مغلیہ سلطنت کے وزیر اعظم نامزد ہوئے۔[34] مغلیہ سلطنت سے اختلافات کی بنا پر انھوں نے 1723ء میں تمام عہدوں سے استعفی دے دیا اور دکن واپس آگئے۔[35][36] ادھر مغل بادشاہ محمد شاہ نے مبریز خان کو آصف جاہ کو روکنے کا حکم دیا جس کے نتیجہ میں شکر کھیڑا کی لڑائی ہوئی۔[35]:93–94 آصف جاہ نے مبریز خان کو شکست دی اور سطح مرتفع دكن میں ایک خود مختار ریاست قائم جس کا نام ریاست حیدراباد رکھا گیا۔ بعد میں اس کا نام مملکت آصفیہ رکھ دیا گیا۔ بعد سے حمکرانوں نے نظام الملک کا خطاب برقرار رکھا اور آصف جاہہ نظام یا نظام حیدرآباد کہلائے۔[31][32] 1748ء میں آصف جاہ اول کی وفات کے بعد سلطنت میں سیاسی افراتفری پھیل گئی اور بعد کے حکمرانوں - ناصر جنگ (1748ء - 1750ء)، محی الدین مظفر جنگ ہدایت (1750ء - 1751ء) اور صلابت خان (1751ء - 1762ء) کا عہد حکمرانی پڑوسی ریاستوں سے نبرد آزمائی اور لالچی اور موقع پرستوں کی مدد سے آنے والی کولونیل طاقتوں کو کچلنے میں نکل گیا۔ 1762ء میں آسف جاہ ثانی نے تخت سنبھالا اور انھوں نے ریاست میں سیاسی استحکام قائم کیا۔ وہ 1803ء تک حکمران رہے۔ 1768ء میں انھوں نے برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ مسولی پٹنم معاہدہ پر دستظط کیے جس کے رو سے ریاست کے تمام ساحلی علاقے کمپنی کو سونپ دیے گئے۔ بدلے میں کمپنی نے ریاست کو ایک مخصوص سالانہ کرایہ دیا۔[37] 1769ء میں حیدراباد آصف جاہی نظام کا باقاعدہ دار الحکومت قرار پایا۔[31][32] چونکہ نظام کو میسور کے دلوائی حیدر علی، مرہٹہ سلطنت کے پیشوا باجی راؤ اول اور فرانسیسی ہندوستانی جنرل مارقویس دی بوسی کے تعاون سے آصف جاہ اول کے بھائی بصالت خان سے برار خطرہ رہتا تھا، لہذا نظام حیدراباد نے 1798ء میں برطانوی ہندی فوج کے ساتھ ایک ماتحت اتحاد قائم کیا اور بدلے میں نظام نے برطانیہ کو سالانہ معاوضہ ادا کرنے کا وعدہ کیا۔ معاہدہ کی رو سے برطانوی ہندی فوج نے بولارم (موجودہ سکندراباد) میں نظام سلطنت کی حفاظت کے لیے ایک فوجی چھاونی قائم کی۔[37] 1874ء میں حیدراباد میں کوئی صنعت نہیں تھی اور کارخانوے ناپید تھے۔ 1880ء کی دہائی ریل گاڑی کی آمد کے بعد حسین ساگر کے جنوب اور مشرق میں کارخانے قائم کیے گئے۔[38] 20ویں صدی میں جدید مواصلاتی نظام، زیر زمین آبی نکاسی، میٹھے پانی کے نالے، بجلی، ٹیلی مواصلاتی نظام، صنعتیں اور کارخانے اور بیگم پیٹ ہوائی اڈا کے قیام سے حیدراباد کو جدید شہر میں تبدیل کر دیا گیا۔[31][32]

تقسیم کے بعد بھارت ڈومینین یا نومولود پاکستان ڈومنین کے ساتھ جانے کی بجائے خود مختار رہنے کا فیصلہ کیا۔[37] مگر 1948ء میں انڈین نیشنل کانگریس اور بھارتیہ کمیونسٹ پارٹی کی مدد سے حیدراباد اسٹیٹ کانگریس نے نظام سابع میر عثمان علی خان کے خلاف محاذ کھول دیا۔ اسی سال 17 ستمبر کو بھارتی فوج نے ریاست حیدراباد پر قبضہ کر لیا اور اس عمل کو ‘آپریشن پولو‘ (سقوط حیدرآباد) کا نام دیا گیا۔ نظام کو بھارتی فوج نے حراست میں لے لیا اور ریاست حکومت کو ہند کو سونپنی پڑی۔ حکومت نے انھیں راج پرمکھ بنایا مگر 31 اکتوبر 1956ء کو ان سے یہ عہدہ چھین لیا گیا۔[32][39]

ما بعد آزادی

ترمیم

1946ء اور 1951ء کے دوران میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے تلنگانہ میں علاقہ کے جاگیرداروں کے خلاف عوام کو بھڑکایا اور تیلانگانہ بغاوت کو ہوا دی۔[40] 26 جنوری 1950ء آئین ہند نافذ ہوا جس کی رو سے حیدڑاباد اسٹیٹ کو بھارت کا ایک صوبہ تسلیم کیا گیا اور حیدرآباد شہر بدستور دار الحکومت برقررار رہا۔[41] اس وقت کے آین ہند کے ڈرافٹ کمیٹی کے صدر نشین بھیم راؤ رام جی امبیڈکر نے اپنی 1955ء کی رپورٹ تھاٹس اون لنگوسٹک اسٹیٹس میں حیدرآباد کو اس کی سہولیات اور جغرافیائی اہمیت کی بنا پر بھارت کی کدوسری راجدھانی بنانے کی وکالت کی۔[42] 1 نومبر 1956ء کو بھارت کی ریاستوں کو بلحاظ زبان تقسیم کیا گیا۔ ریاست حیدرآباد کو پڑوسی مہاراشٹرا، کرناٹک اور آندھرا پردیش میں تقسیم کر دیا گیا۔ حیدرآباد کے تیلگو زبان اور اردو بولنے والے 9 ضلعوں کو ریاست آندھرا میں شامل کر کے آندھرا پردیش بنایا گیا اور حیدرآباد کو اس کا دارالخلافت بنایا۔[43][44][45] اس کے خلاف کئی مظاہرے ہوئے اور تلنگانہ تحریک کی ابتدا ہوئی۔ اس تحریک کے ذریعے تیلگو ضلعوں کو آندھرا پردیش میں ضم کے خلاف مظاہرے ہوئے اور ایک نئی ریاست بنام تیلنگانہ بنائے جانے کی مانگ اٹھنے لگی۔ 1969ء اور 1972ء میں کئی بڑے واقعات رونما ہوئے اور پھر 2010ء میں بھی اس مظاہرہ نے زور پکڑ لیا۔[46] شہر میں کئی دھماکے بھی ہوئے جن میں 2002ء میں دل سکھ نگر میں ایک بڑا دھاکہ ہوا جس میں 2 لوگوں کی جان بھی گئی۔[47] 2007ء میں بھارت میں مذہبی تشدد نے زور پکڑا اور مئی اور اگست میں کئی بم دھماکے ہوئے۔[48] اس کے بعد 2013ء حیدرآباد بم دھماکے ہوئے۔[49] 30 جولائی 2013ء کو حکومت ہند نے اعلان کیا کہ آندھرا پردیش کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے گا اور دوسری ریاست تیلنگانہ کہلائے گی۔ حیدرآدباد تیلنگانہ کا حصہ رہے گا اور دس برسوں کو یہ دونوں ریاستوں کا دار الحکومت بنا رہے گا۔ 13 اکتوبر 2013ء کو حکومت نے یہ پیشکش منظور کرلی۔[50] اور فروری 2014ء میں بھارتی پارلیمان کے دونوں ایوانوں نے آندھرا پردیش تنظیم نو ایکٹ، 2014ء کو منظور کر لیا۔ 2 جون 2014ء کو تیلنگانہ ایک مستقل ریاست بن گیا۔[51]

جغرافیہ

ترمیم
 
حسین ساگر کی تعمیر قطب شاہی سلطنت کے زمانے میں ہوئی۔ اس زمانہ میں یہ شہر کی آبی کمی کو پورا کرتا تھا۔

حیدرآدباد دہلی سے 1,566 کلومیٹر (5,138,000 فٹ) جنوب، ممبئی سے 699 کلومیٹر (2,293,000 فٹ) جنوب مشرق اور بنگلور سے 570 کلومیٹر (1,870,000 فٹ) شمال میں واقع ہے۔[52] حیدرآباد جنوبی ہند کے سطح مرتفع دكن میں دریائے کرشنا کی ذیلی ندی دریائے موسی کے ساحل پر واقع ہے۔ یہ تیلنگانہ کے جنوبہ حصہ میں ہے۔ یہ پورا علاقہ جنوبی ہند کا حصہ ہے۔[53][54][55][56] عظیم تر حیدرآباد کا کل رقبہ 650 کلومیٹر2 (250 مربع میل) ہے اور یہ بھارت کے سب سے بڑے بلدیہ میں سے ایک ہے۔[57] اس کی اوسط اونچائی 650 کلومیٹر2 (250 مربع میل)۔ حیدرآباد سرمئی اور گلابی گرینائٹ کے دھلوانی زمین پر بسا ہوا ہے جہاں جا بجا چھوٹی پہاڑیاں ہیں۔ سب سے اونچی پہاڑی بنجارا ہلز ہے جس کی اونچائی 672 میٹر (2,205 فٹ) ہے۔[56][58] حیدرآباد میں کئی تالاب ہیں جنھیں یہاں ساگر کہا جاتا ہے۔ ان میں سے کچھ موسی ندی پر باندھ بناکر بنایا گیا ہے جیسے شہر کے مرکز 1562ء میں تعمیر شدہ حسین ساگر، عثمان ساگر اور حمایت ساگر وغیرہ۔[56][59] بمطابق 1996ء، حیدرآباد میں 140 بڑی جھیلیں اور 834 چھوٹے تالاب ہیں۔[60]

آب و ہوا

ترمیم

حیدرآباد کی آب ہوا کوپن موسمی زمرہ بندی کے تحت آتی ہے۔[61] سالانی اوسب درجہ حرارت 26.6 °C (79.9 °F) ہے اور ماہانہ اوسط درجہ حرارت; 21–33 °C (70–91 °F) ہے۔[62] موسم گرما (مارچ تا جون) گرم اور نم رہتا ہے۔ درجہ حرارت اوسطا 30 ڈگری سیلسیس کے قریب رہتا ہے۔[63] اپریل اور جون کے درمیان میں درجہ حرارت 40 ڈگری تک پہنچ جاتا ہے۔<[62] سرد مہینے دسمبر اور جنوری ہیں، اس دوران میں درجہ حرارت 10 °C (50 °F) تک گر جاتا ہے۔ مئی کا مہینہ سب سے گرم رہتا ہے، اس دوران میں اوسط درجہ حرارت 26–39 °C (79–102 °F) تک رہتا ہے۔[63] جون اور اکتوبر کے درمیان میں مانسون رہتا ہے اور اس دوران موسلادھار بارش ہوتی ہے۔ اسی دوران میں سال بھر کی زیادہ تر بارش ہو جاتی ہے۔[63] 1891ء سے بارش کا ریکارڈ رکھنا شروع ہوا ہے اور تب سے 24 اگست 2000ء کو 24 گھنٹے میں سب سے زیادہ بارش ریکارڈ کی گئی تھی۔ اس دن کل 241.5 mm بارش ہوئی تھی۔ جو اب تک سب سے زیادہ ہے۔ 2 جون 1966ء کو اب تک کا سب زیادہ گرم دن آنکا گیا ہے۔ اس دن کا درجہ حرارت 45.5 °C (114 °F) اور سب سے کم درجہ حرارت 6.1 °C (43 °F) 8 جنوری 1946ء کو تھا۔[64] شہر پورے سال تقریباً 2,731 گھنٹے تک سورج کی روشنی حاصل کرتا ہے۔ سب سے زیادہ فروری کا مہینہ سورج کی تپش میں رہتا ہے۔[65]

کے موسمی تغیرات حیدرآباد، دکن (بیگم پیٹ ہوائی اڈا) 1981–2010، extremes 1951–2012)
مہینا جنوری فروری مارچ اپریل مئی جون جولائی اگست ستمبر اکتوبر نومبر دسمبر سال
بلند ترین °س (°ف) 35.9
(96.6)
39.1
(102.4)
42.2
(108)
43.3
(109.9)
44.5
(112.1)
45.5
(113.9)
37.4
(99.3)
36.2
(97.2)
36.1
(97)
36.7
(98.1)
34.0
(93.2)
34.2
(93.6)
45.5
(113.9)
اوسط بلند °س (°ف) 29.3
(84.7)
32.4
(90.3)
35.9
(96.6)
38.1
(100.6)
39.4
(102.9)
34.9
(94.8)
31.3
(88.3)
30.1
(86.2)
31.1
(88)
31.0
(87.8)
29.6
(85.3)
28.7
(83.7)
32.7
(90.9)
یومیہ اوسط °س (°ف) 22.7
(72.9)
25.3
(77.5)
28.6
(83.5)
31.3
(88.3)
33.0
(91.4)
29.7
(85.5)
27.0
(80.6)
26.2
(79.2)
26.7
(80.1)
25.8
(78.4)
23.7
(74.7)
21.9
(71.4)
26.8
(80.2)
اوسط کم °س (°ف) 15.9
(60.6)
18.3
(64.9)
21.5
(70.7)
24.4
(75.9)
26.3
(79.3)
24.2
(75.6)
22.8
(73)
22.2
(72)
22.3
(72.1)
20.6
(69.1)
17.4
(63.3)
15.1
(59.2)
20.9
(69.6)
ریکارڈ کم °س (°ف) 6.1
(43)
8.9
(48)
13.2
(55.8)
16.0
(60.8)
16.7
(62.1)
17.8
(64)
18.6
(65.5)
18.7
(65.7)
17.8
(64)
11.7
(53.1)
7.4
(45.3)
7.1
(44.8)
6.1
(43)
اوسط بارش مم (انچ) 9.3
(0.366)
9.2
(0.362)
17.8
(0.701)
21.7
(0.854)
31.7
(1.248)
111.2
(4.378)
179.2
(7.055)
207.0
(8.15)
132.9
(5.232)
103.6
(4.079)
26.1
(1.028)
4.9
(0.193)
854.6
(33.646)
اوسط بارش ایام 0.6 0.5 1.1 1.8 2.4 6.9 10.0 11.5 7.6 5.5 1.6 0.4 49.9
اوسط اضافی رطوبت (%) (at 17:30 بھارتی معیاری وقت) 40 32 28 28 30 51 64 69 65 56 48 43 46
ماہانہ اوسط دھوپ ساعات 272.8 265.6 272.8 276.0 279.0 180.0 136.4 133.3 162.0 226.3 243.0 251.1 2,698.3
اوسط روزانہ دھوپ ساعات 8.8 9.4 8.8 9.2 9.0 6.0 4.4 4.3 5.4 7.3 8.1 8.1 7.4
ماخذ#1: India Meteorological Department (sun 1971–2000)[66][67][68]
ماخذ #2: Tokyo Climate Center (mean temperatures 1981–2010)[69]


تحفظ

ترمیم
 
کالے ہرن مہاویر ہرینا ونستھلی نیشنل پارک میں گھاس چرتے ہوئے

حیدرآدباد میں تالابوں اور جھیلوں کی بہتات ہے اور یہاں کی پہاڑی اور ڈھلوانی زمین کی وجہ سے حیوانات اور نباتات کے پھلنے پھولنے کا اچھا موقع ملتا ہے۔ 1996ء میں حیدرآباد کی زمین کا کل 2.7% حصہ درختوں پر مشتمل تھا مگر بمطابق 2016 یہ تناسب گھٹ کر 1.7% رہ گیا ہے۔[70] شہر کے مضافات کے جنگلات خاصے اہمیت کے حامل ہیں اور حکومت نے انھیں مختلف شکلوں میں محفوظ کر رکھا ہے مثلاً قومی باغستان، چڑیا گھر، چھوٹے چڑیا گھر، جنگلی حیات کی پناہ گاہ وغیرہ۔ نہرو چڑیا گھر (شہر کا سب سے بڑا چڑیا گھر) ملک کا پہلا چڑیا گھر تھا جس میں شیر اور ببر شیر کا سفاری پارک تھا۔ حیدرآباد میں 3 نیشنل پارک ہیں؛ موروگوانی نیشنل پارک، مہاویر ہرینا ونستھلی نیشنل پارک اور کاسو برہانندا ریڈی نیشنل پارک۔ ان کے علاوہ منجیرا وائلڈ لائف سینکچری شہر کے تقریباً 50 کلومیٹر (31 میل) کی مسافت پر واقع ہے۔ حیدرآباد میں کوٹلہ وجے بھاسکر ویڈی بوٹانیکل گارڈن، امین پور لیک، شامیرپیٹ لیک، حیسن ساگر، فوکس ساگر لیک، میر عالم ٹینک اور پتنچیرو لیک موجود ہیں جو شہر کی آب ہوا کو متناسب رکھنے کے ساتھ ساتھ یہاں کے اہم سیاحتی مقامات میں شامل ہیں۔ بالصوص شامیرپیٹ لیک اور پتنچیرو لیک مختلف ملکوں سے آئے مہاجری پرندوں کی آماجگاہ ہیں۔[71] ریاست کی کئی تنظیمیں شہر کی حیواناتی اور نباتاتی تناسب کو برقرار رکھنے اور انھیں منظم کرنے کے لیے وقف ہیں مثلاً تیلنگانا محمکہ جنگلات[72] ، انڈین کونسل آف فاریسٹری ریسرچ اینڈ ایجوکیشن، دی انٹرنیشنل کروپس ریسرچ انسٹیٹیوٹ فار دی سیمی ایریڈ ٹراپکس، دی انیمل ویل فیئر بورڈ آف انڈیا، دی بلیو کراس آف حیدرآباد اور دی یونیرسٹی آف حیدرآباد[71]

نظم و نسق

ترمیم

مشترکہ دار الحکومت

ترمیم

آندھرا پردیش تنظیم نو ایکٹ، 2014ء کے حصہ 2 سیکشن 5[73] میں درج ہے: “(1) - تنظیم نو کے بعد کے دن سے حیدرآباد موجودہ آندھرا پردیش اور تیلنگانہ کا آئندہ دس برسوں تک مشترکہ دار الحکومت ہوگا۔ (2) - سیکشن (1) کے مطابق دس سال کی مدت ختم ہونے کے بعد حیدرآباد تیلنگانہ کا دار الحکومت برقرار رہے گا اور آندھرا پردیش کا نیا دار الحکومت ہوگا۔ “ اسی سیکشن میں یہ بھی درج ہے کہ حیدرآباد میونسپل ایکٹ 1955ء کے تحت قائم کردہ موجودہ دار الحکومت میں عظیم تر بلدیہ حیدرآباد بھی مشترکہ دار الحکومت میں شامل ہے۔

علاقائی حکومت

ترمیم
 
The GHMC is divided into six municipal zones

عظیم تر بلدیہ حیدرآباد (جی ایچ ایک سی) شہر کے بنیادی ڈھانچے کا ذمہ دار ہے۔ جی ایچ ایم سی کو کل 6 خطوں میں تقسیم کیا گیا ہے:

ان 6 خطوں میں کل 30 ذیلی خطے ہیں اور کل 150 میونسپل وارڈ ہیں۔ ہر وارڈ کا ایک کارپوریٹر ہوتا ہے جسے انتخابات میں ووٹ کے ذریعہ منتخب کیا جاتا ہے۔ 2020ء میں کل 7,400,000 ووٹر ہیں جن میں 3,850,000 مرد اور 3,500,000 خواتین ہیں۔[74] سارے کارپوریٹر مل کر ناظم شہر کو منتخب کرتے ہیں کو جی ایچ ایم سی کا سربراہ اعلیٰ بھی ہوتا ہے۔ حالانکہ عاملہ کا اختیار میونسپل کمشنر کے پاس ہوتا ہے جسے ریاستی حکومت نامزد کرتی ہے۔ جی ایچ ایم سی شہر کے بنیادی ڈھانچوں کی دیکھ ریکھ اور مرمت کرتی ہے مثلاً سڑکوں کی تعمیر اور مرمت، آبی نکاسی کی مرمت اور تعمیر، شہری منصوبہ بندی، جیسے تعمیری منصوبہ بندی، میونسپل کے بازار اور باغات کی دیکھ ریکھ، کوڑا کرکٹ کو ٹھکانے لگانا، پیدائش اور وفات کی سند جاری کرنا، تجارتی اجازت نامہ جاری کرنا، املاک کا ٹیکس جمع کرنا اور سماجی فلاح و بہبود کے کام کرنا جیسے زچہ بچہ فلاح و بہبود اور ماقبل اسکول تعلیم وغیرہ۔[75] اپریل 2007ء میں عظیم تر بلدیہ حیدرآباد اور دیگر 12 میونسپلٹیوں کو ملا کر جی ایچ ایم سی کو قائم کیا گیا تھا۔ ان میں: حیدرآباد ضلع، بھارت، رنگا ریڈی ضلع اور میدک ضلع شامل ہیں جن کا رقبہ 650 کلومیٹر2 (250 مربع میل) ہے۔[57]:3

صاف صفائی اور دیگر سہولیات

ترمیم
 
جی ایچ ایم سی کی ایک ملازمہ ٹینک بنڈ روڈ کی صفائی کرتی ہوئی

حیدرآباد میٹروپولیٹن واٹر سپلائی اینڈ سیویج بورڈ (ایچ ایم ڈبلیو ایس ایس بی) بارش کے پانی کی نکاسی، گندے پانی کی نکاسی اور پانی کی فراہمی کا ذمہ دار پے۔ شہر میں پانی کی کی بڑھتی کمی کو دیکھتے ہوئے 2005ء میں ایچ ایم ڈبلیو ایس ایس بی نے ناگارجن ساگر ڈیم سے حیدرآباد تک کے لیے 116 کلومیٹر-long (72 میل) طویل پائپ لائن کا آغاز کیا۔[76][77] تیلانگانا سدرن پاور ڈسٹریبیوشن لیمیٹیڈ بجلی کی فراہمی کو یقینی بناتا ہے۔[78] بمطابق 2014 شہر میں کل 15 آگ بجھانے کے اسٹیشن ہیں۔[79] شہر میں حکومت کے پانچ بھارتی ڈاک کے مرکزی دفاتر ہیں اور متعدد ذیلی ڈاکخانے ہیں جہاں کورئر کی سہولت موجود ہے۔[56]

آلودگی پر قابو

ترمیم

حیدرآباد روزانہ تقریباً 4500 ٹن کوڑا جمع ہوتا ہے۔ تمام کوڑا یوسفگودا اور ٹینک بنڈ سے اکٹھا کر کے جواہر نگر میں جمع کیا جاتا ہے۔[80] تمام کوڑا کرکٹ کے نظم و نسق کا ذمہ سولڈ ویسٹ مینیجمینٹ پروجیکٹ کا ہے جسے 2020ء میں جی ایچ ایم سی نے شروع کیا تھا۔[81] فضائی آلودگی، شور کی آلودگی اور آبی آلودگی کی ذمہ داری تیلانگانہ آلودگی کنٹرول بورڈ (ٹی پی سی بی) کی ہے۔[82][83] شہر میں بڑھتی آبادی اور صنعت کی وجہ سے ان الودگیوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ بمطابق 2006ء، 20 تا 50% فیصد آلودگی گاڑیوں سے، 40 تا 70 فہصد آلودگی سڑک کی دھول سے۔۔ 10 تا 30 فیصد کارخانوں سے اور 3 تا 10 فیصد گھریلو دھواں سے فضائی آلودگی ہوتی ہے۔[84] فضائی آلودگی کی وجہ ہر سال تقریباً 1700 تا 3000 اموات ہوتی ہیں۔[85] شہر کے وی آئی پی علاقوں، اسمبلی کے دفاتر، سکریٹری عمارت اور تیلانگانا کے وزارت اعکی کے دفاتر کے علاقوں میں فضائی آلودگی کا اوسط نسبتاً زیادہ خراب ہے۔ ان علاقوں کا ہوا کے معیار کا انڈیکس پی ایم 2۔5 ہے۔[86] حیدرآباد میں زمین کا پانی ہی پینے کے پانی کا اہم ذریعہ ہے مگر اس پانی کی سختی 1000 پی پی ایم ہے جو اوسط سختی سے 3 گنا زیادہ ہے۔[87] بڑھتی آبادی کی وجہ سے پانی کی مانگ میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور زمینی پانی کے ساتھ ساتھ تالابوں اور ندیوں کے پانی کا لیول بھی نیچے گرتا جا رہا ہے۔[88][89] اس کے ساتھ شہر کے کارخانوں کا آلودہ پانی اچھے پانی کو مزید آلودہ کررہا ہے جو مستقبل کے لیے زیادہ خطرناک ہے اور پینے کے پانی میں مزید قلت کا سبب ہے۔[90]

محمکہ صحت

ترمیم
 
حسین ساگر کے احاطہ میں بنا این ٹی آر باغات عوام کے لیے سیر و تفریح کا اہم مقام ہے۔

شہر میں صحت اور خاندانی بہبود کا محکمہ موجود ہے جسے ہیلتھ اینڈ فیملی ویلفیئر کمشنریٹ کہا جاتا ہے۔[91][92] بمطابق 2010–11 شہر میں 52 سرکاری اسپتال،[93] ، 300 نجی اسپتال اور 194 نرسنگ ہوم تھے جن میں کل 12000 بستر ہیں۔ مگر یہ ضرورت سے نصف سے بھی کم ہیں۔[94] شہر میں 10،000 لوگوں کے لیے 17.6 بستر ہیں، [95] 9 خصوصی ڈاکٹر، 14 نرسیں اور 6 فزیشین ہیں۔[94] شہر میں تقریباً 4،000 کلینک ہیں۔[96] سرکاری اسپتالوں کی دوری، خراب دیکھ بھال اور لمبے وقفہ انتظار کی وجہ سے زیادہ تر لوگ نجی کلینک کا رخ کرتے ہیں۔ 2005ء کے قومی فیملی صحی سروے کے مطابق شہر کی زرخیزی کی شرح 1.8 ہے جو کل شرح سے کم ہے۔[97]:47 61 محض 60 فیصد بچوں کو تمام بنیادی ٹیکے لگے ہیں۔ ان میں بی سی جی، خسرہ کا ٹیکا اور مکمل پولیو کا ٹیکا اور ڈی ٹی پی کی شرح میرٹھ سے بھی کم ہے۔[97]:98 نومولود کی شرح اموات 35 فی 1000 ہے اور 5 سال بچوں کی شرح اموات 41 فی 1000 ہے۔[97]:97 سروے میں یہ بھی پایا گیا کہ خواتین میں تہائی اور مرد میں چوتھائی آبادی موٹاپے کا شکار ہے۔ 5 سال یا کم کے عمر کے بچوں میں 49 فیصد فقر الدم کا شکار ہیں اور 20 فیصد بچوں کا وزن کم ہے۔[97]:44, 55–56۔ 2 فیصد خواتین اور 3 فیصد مرد کو ذیابطیس ہے۔[97]:57

شماریات

ترمیم
تاریخی آبادی
سالآبادی±%
1951 1,085,722—    
1961 1,118,553+3.0%
1971 1,796,000+60.6%
1981 2,546,000+41.8%
1991 3,059,262+20.2%
2001 3,637,483+18.9%
2011 6,809,970+87.2%

2007ء میں عظیم تر بلدیہ حیدرآباد کی تشکیل کے بعد بلدیہ کے رقبہ اور آبادی دونوں میں اضافہ ہوا ہے۔ جہاں رقبہ 175 کلومیٹر2 (68 مربع میل) سے بڑھ کر 650 کلومیٹر2 (250 مربع میل) ہو گیا [57][100] وہیں آبادی میں 87 فیصد اضافہ ہوا اور 2001ء کی مردم شماری میں آبادی 3,637,483 سے بڑھ کر 2011ء میں 6,809,970 ہو گئی۔ البتہ اس میں کچھ مہاجرین کی تعداد بھی شامل ہے۔[101]:2۔ بلحاظ آبادی حیدراباد بھارت کا چوتھا بڑا شہر ہے۔[1][3] 2011ء کے مطابق حیدراباد کی کثافت 18,480/کلو میٹر2 (47,900/مربع میل) ہے[102] 7,749,334کی آبادی کے ساتھ بھارت کے دس لاکھ سے زیادہ آبادی والے شہروں کی فہرست میں حیدراباد کا چھٹھا مقام ہے۔[3] اگر جنسی تناسب کی بات کریں تو کل 3,500,802 مرد اور 3,309,168 خواتین ہیں یعنی 1000 مرد کے لیے 945 خواتین اور یہ تناسب قومی جنسی تناسب 926 خواتین 1000 مردوں کے لیے، سے کہیں بہتر ہے۔[103][104] 0-6 سال کے بچوں میں 373,794 لڑکے اور352,022 لڑکیاں ہیں اور یہ تناسب 1000 لڑکوں میں 945 لڑکیوں کا بنتا ہے۔ حیدراباد کی شرح خواندگی 83% ہے جس میں مرد کا فیصد 86% اور خواتین کا 80% اور یہ تناسب بھی قومی شرح خواندگی 74.04% سے بہتر ہے۔[103][105] شہر میں 20 فیصد اعلیٰ طبق، 50 فیصد درمیانی طبقہ اور 30 فیصد مزدور طبقہ ہے۔[106]

نسلیت

ترمیم

حیدرآباد میں اکثریت تیلگو قوم اور دکنی زبان بولنے والوں کی ہے۔ اقلیت اقوام میں بنگالی، سندھی لوگ، کنڈ لوگ، میمن لوگ، نوایاتھی لوگ، [[ملیالی، مراٹھی قوم، گجراتی قوم، مارواڑی لوگ، اڈیہ قوم، پنجابی قوم، تمل لوگ اور اتر پردیش کے کچھ لوگ شامل ہیں۔[107] حیدرآبادی مسلمان ایک مخصوص قوم ہے جو اپنی تاریخ، ثقافت، پکوان کے لیے مشہور ہے۔ انھی لوگوں نے گذشتہ عرصہ میں حیدرآباد پر حکومت کی ہے۔ ان کے علاوہ حضرمی عرب، ارمینیائی لوگ، حبشی، ایرانی لوگ، پٹھان قوم اور ترکی قوم کے قبائل بھی حیدرآباد میں پائے جاتے ہیں۔ ان میں ضرمی عرب سب سے زیادہ ہیں۔ مگر جب سے ریاست حیدرآباد بھارت یونین کا حصہ بنا ہے ان کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔[107]

مذہب

ترمیم
عظیم تر حیدرآباد میں مذہب (2011)[108]
ہندو مت
  
64.93%
اسلام
  
30.13%
مسیحیت
  
2.75%
دیگر
  
2.19%

ہندو اکثریت میں ہیں۔ مسلمان سب سے بڑی اقلیت ہے۔ قدیم شہر میں مسلمانوں کی خاصی تعداد رہتی ہے ان کا جلوہ دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کے علاوہ مسیحی، سکھ، جین، بدھ اور آتش پرست یہاں آباد ہیں۔ یہاں کئی علامتی مساجد، مندر اور گرجا گھر موجود ہیں۔[109] بھارت میں مردم شماری، 2011ء کے مطابق شہر میں (64.9%) ہندو، (30.1%) مسلمان، (2.8%) مسیحی، (0.3%) جین، (0.3%) سکھ، (0.1%) بدھ مت کے ماننے والے ہیں۔ 1.5% لوگوں نے اپنے مذاہب کا اعلان نہیں کیا ہے۔[110]

زبان

ترمیم



 

حیدرآباد کی زبانیں (2011)[111]

  تیلگو زبان (58.23%)
  اردو (29.47%)
  ہندی زبان (4.89%)
  تمل زبان (1.09%)
  دیگر (4.78%)

تیلگو زبان اور اردو حیدرآباد کی دو بڑی زبانیں ہیں اور دونوں کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ زیادہ تر حیدرآبادی دونوں زبانوں کو جانتے ہیں۔[112] حیدرآباد میں تیلگو زبان کا جو لہجہ زیر استعمال ہے اسے تیلگو منڈلیکا کہا جاتا ہے۔ اور اردو کا جو لہجہ بولا جاتا ہے اسے دکنی کہتے ہیں۔[113]:1869–70[114] انگریزی زبان کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ یہ زبان زیادہ تر تجارت اور انتظامیہ میں استعمال ہوتی ہے۔ میڈیا اور تعلیم میں بھی زیادہ تر انگریزی کا ہی استعمال ہوتا ہے۔[115] ان لے علاوہ ہندی زبان، بنگالی زبان، کنڑ زبان، مراٹھی زبان، پنجابی زبان، مارواڑی زبان، اڈیہ زبان اور تمل زبان کے بولنے والے بھی یہاں موجود ہیں۔[107]

جھگی جھونپڑیاں

ترمیم

عظیم تر حیدرآباد میں 13 فیصد لوگ خط غریبی کے نیچے رہتے ہیں۔[116] 2012ء میں عظیم تر بلدیہ حیدرآباد نے عالمی بینک کو ایک رپورٹ میں بتایا کہ شہر میں کل 1476 جھونپڑیاں ہیں جن میں 17 لاکھ لوگ رہتے ہیں۔ ان میں 66 فیصد 985 ان جھونپڑیوں میں رہتے ہیں جو شہر کے مرکزی علاقوں میں واقع ہیں۔ باقی 34 فیصد شہر کے مضافاتہ علاقوں میں آباد ہیں۔[117] ان میں تقریباً 22 فیصد لوگ 20ویں صدی کے آخری دہائی میں ملک کے دیگر حصوں ہجرت کر یہاں آباد ہوگیے۔ 63% لوگوں کا دعوی ہے کہ وہ یہاں دس سال سے زیادہ عرصہ سے یہاں اباد ہیں۔[101]:55 ان لوگوں کی مجموعی شرح خواندگی 60 تا 80 فیصد ہے۔ ایک تہائی لوگوں کے پاس بنیادی سہولیات موجود ہیں اور باقی لوگ حکومت کی جانب سے فراہم کردہ سہولیات پر قناعت پزیر ہیں۔ ان میں 405 سرکاری اسکول، 267 حکومتی تعاون کے اسکول، 175 نجی اسکول اور 528 کیونٹی ہال موجود ہیں۔[118]:70 2008ء میں حکومت نے ایک سروے کیا جس کے مطابق جھونپڑیوں میں 87.6% جوہری خاندان، 18 فیصد جہایت غریب ہیں جن کی سالانہ آمدنی 20,000 (امریکی $280) تک محدود ہے۔ 73 فیصد خط غریبی کے نیچے رہتے ہیں۔ (24,000 (امریکی $340) سالانہ سے کم کمانے والے خط غریبی کے نیچے مانے جاتے ہیں)۔ 5 سال کی عمر تک کے 3.7% بچے اسکول نہیں جاتے ہیں۔ ان میں سے 3.2% بچہ مزدوری کرتے ہیں جن میں 64 فیصد لڑکے اور 36 فیصد لڑکیاں ہیں۔ ان میں زیادہ تر تعمیری کاموں اور دوکانوں میں کام کرتے ہیں۔ 35 فیصد بچے انتہائی خطرناک کاموں میں ملوث ہیں۔[101]:59

بلند ترین عمارتیں

ترمیم
گچی باولی آئی ٹی علاقہ۔

مضافات

ترمیم

محمد قلی قطب شاہ نے موسی ندی کے جنوبی کنارے پر حیدرآباد کا تاریخی شہر قائم کیا، جسے آج قدیم شہر کہا جاتا ہے، جبکہ "نیا شہر" ندی کے شمالی کنارے پر واقع جدید شہری علاقہ ہے۔ ان دونوں کو کئیی پلوں کے ذریعے جوڑا گیا ہے، جن میں سب سے قدیم پرانا پل ہے، جو 1578ء میں تعمیر ہوا۔ حیدرآباد اور سکندر آباد جڑواں شہر ہیں، جو حسین ساگر کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔[119] جنوبی حیدرآباد میں کئیی تاریخی اور ثقافتی مقامات موجود ہیں، جیسے چارمینار، مکہ مسجد، سالار جنگ میوزیم، نظام میوزیم، تلنگانہ ہائی کورٹ، فلک نما محل، چومحلہ محل اور تجارتی مراکز جیسے موتی بازار، لاڈ بازار اور مدینہ چوک۔[120] شمالی کنارے پر کاروباری اور تعلیمی مراکز جیسے بیگم بازار، کوٹھی، عابد روڈ اور سلطان بازار واقع ہیں، جن کے ساتھ انتظامی ادارے جیسے تلنگانہ سیکرٹریٹ اور تلنگانہ اسمبلی بھی موجود ہیں۔[121] حیدرآباد کے جنوب وسطی علاقے میں کئی تاریخی اور ثقافتی ورثے کی حامل عمارتیں واقع ہیں، جن میں چارمینار، مکہ مسجد، حیدرآباد، سالار جنگ میوزیم، نظام میوزیم، تلنگانہ ہائی کورٹ، فلک نما محل، چومحلہ محل اور روایتی خریداری کے مراکز جیسے پرل مارکیٹ، لاڈ بازار اور مدینہ، حیدرآباد شامل ہیں۔ دریائے موسیٰ کے شمال میں اسپتال، کالج، بڑی ریلوے اسٹیشنیں اور کاروباری علاقے جیسے بیگم بازار، کوٹھی، حیدرآباد، عابد روڈ، سلطان بازار اور معظم جاہی مارکیٹ واقع ہیں، علاوہ ازیں یہاں انتظامی اور تفریحی ادارے جیسے ریزرو بینک آف انڈیا، تلنگانہ سیکرٹریٹ، بھارتی حکومتی ٹکسال، تلنگانہ قانون ساز اسمبلی، باغ عامہ، حیدرآباد، شاہی مسجد، نظام کلب، رویندرا بھارتی، تلنگانہ ریاستی آثار قدیمہ عجائب گھر، برلا مندر، حیدرآباد اور برلا پلانیٹوریم بھی موجود ہیں۔[122][123][124] مرکزی حیدرآباد کے شمال میں حسین ساگر، ٹینک بند روڈ، رانی گنج اور سکندرآباد جنکشن ریلوے اسٹیشن واقع ہیں۔[122] شہر کے زیادہ تر پارک اور تفریحی مراکز اسی علاقے میں واقع ہیں، جن میں سنجیویا پارک، اندراء پارک، لمبنی پارک، این ٹی آر باغات اور حسین ساگر شامل ہیں۔[125] شہر کے شمال مغرب میں اعلیٰ درجے کے رہائشی اور تجارتی علاقے جیسے بنجارا ہلز, جوبلی ہلز, بیگم پیٹ, خیریت آباد, ٹولی چوکی, جگن ناتھ مندر، حیدرآباد اور میاپور واقع ہیں۔[126] شہر کے شمالی سرے پر صنعتی علاقے جیسے کوکاڑ پالی, صنعت نگر, موسی پیٹ, بالا نگر، میدچل ضلع, پتنچیرو اور چندا نگر واقع ہیں، جبکہ شمال مشرقی علاقے میں رہائشی علاقے جیسے ملکاجگری, نیردمیت, اے۔ ایس۔ راؤ نگر اور اپل کلاں موجود ہیں۔[122][123][124] شہر کے مشرقی حصے میں فوجی تحقیقاتی مراکز کی فہرست، حیدرآباد اور راموجی فلم سٹی واقع ہیں۔ "سائبرآباد" علاقہ جو شہر کے جنوب مغرب اور مغرب میں واقع ہے، جس میں مدھاپور اور گچی باؤلی شامل ہیں، 1990 کی دہائی سے تیزی سے ترقی پزیر ہے۔ یہاں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور حیاتیاتی-ادویاتی کمپنیاں قائم ہیں اور نمایاں مقامات جیسے حیدرآباد بین الاقوامی ہوائی اڈہ، عثمان ساگر، حمایت ساگر اور کاسو برہمنند ریڈی نیشنل پارک واقع ہیں۔[127][128]

تاریخی عمارتیں

ترمیم

حیدرآباد، بھارت میں قطب شاہی سلطنت اور مملکت آصفیہ کے ادوار میں تعمیر کی گئی تاریخی عمارات ہند اسلامی طرز تعمیر کی عکاسی کرتی ہیں جو قرون وسطیٰ کا طرز تعمیر، مغلیہ طرز تعمیر اور یورپی فنون کے اثرات کی آمیزش ہے۔[7][129] 1908ء کے سیلاب موسی ندی کے بعد شہر کو وسعت دی گئی اور شہری یادگاریں تعمیر کی گئیں، خاص طور پر میر عثمان علی خان کے دور میں جنھیں فن تعمیر کے فروغ پر "جدید حیدرآباد کا معمار" کہا جاتا ہے۔[130][131] 2012ء میں حکومت ہند نے حیدرآباد کو "بھارت کا بہترین ورثہ شہر" قرار دیا۔[132] 16ویں اور اوائل 17ویں صدی کی قطب شاہی طرز تعمیر میں ایرانی فن تعمیر کے عناصر نمایاں تھے جن میں گنبد اور بڑے بڑے محراب شامل تھے۔[133]

قلعہ گلکنڈہ جو 16ویں صدی میں تعمیر ہوا، حیدرآباد کی سب سے قدیم قطب شاہی عمارتوں میں شامل ہے۔ بیشتر تاریخی بازار، جو اب بھی قائم ہیں، چارمینار سے قلعہ کی جانب جانے والی شاہراہ کے شمال میں قائم کیے گئے تھے۔ چارمینار، جو پرانے شہر کے وسط میں واقع ہے، شہر کی پہچان بن چکا ہے۔ یہ مربع شکل کی عمارت ہے جس کی ہر سمت 20 میٹر (66 فٹ) لمبی ہے اور ہر طرف ایک شاندار محراب ہے۔ چاروں کونوں پر 56 میٹر (184 فٹ) بلند مینار واقع ہیں۔ چارمینار، قلعہ گلکنڈہ اور گنبدان قطب شاہی کو قومی اہمیت کی یادگاریں قرار دیا گیا ہے؛ 2010ء میں بھارتی حکومت نے ان یادگاروں کو یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ میں شامل کرنے کی تجویز دی۔[130][134][135]:11–18[136]

چومحلہ محل آصف جاہی دور کی قدیم ترین عمارتوں میں شامل ہے جو دربار کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔ اس کی طرز تعمیر میں باروک زنان خانہ سے لے کر نوکلاسیکی دربار تک متنوع اسالیب شامل ہیں۔ دیگر اہم محلات میں فلک نما محل (جو آندریا پالاڈیو کے انداز سے متاثر ہے)، پُرانی حویلی، کنگ کوٹھی اور بیلا وسٹا محل شامل ہیں جو 19ویں صدی میں آصفیہ دور کے عروج پر تعمیر کیے گئے۔ میر عثمان علی خان کے عہد میں یورپی اور ہند اسلامی اسالیب کے امتزاج سے انڈو سارسینک طرز تعمیر کو فروغ ملا، جو شہر کی کئی شہری عمارات میں نظر آتا ہے، جیسے کہ تلنگانہ ہائی کورٹ، عثمانیہ جنرل اسپتال، سٹی کالج، حیدرآباد اور کچیگُوڈہ ریلوے اسٹیشن جنھیں وینسینٹ ایچ نے ڈیزائن کیا۔[137] اسی دور میں تعمیر ہونے والی دیگر اہم عمارات میں کتب خانہ آصفیہ، تلنگانہ اسمبلی، ریاستی آثار قدیمہ عجائب گھر، جوبلی ہال، حیدرآباد اور حیدرآباد دکن نامپلی ریلوے اسٹیشن شامل ہیں۔[130][133][138][139]

دیگر اہم یادگاروں میں پیگاہ محل، آسمان گڑھ محل، بشیر باغ محل، ایرم منزل اور جامع مسجد ایوان بیگم پیٹ شامل ہیں جو خاندان پیگاہ کے افراد نے تعمیر کروائیں۔[135]:16–17[140][141]

چومحلہ محل — آصف جاہی خاندان کا مرکزی محل، جسے صلابت جنگ نے 1750ء میں تعمیر کروایا۔

معیشت

ترمیم
 
ہائی ٹیک سٹی، معلوماتی ٹیکنالوجی کمپنیوں کا مرکز
 
اپل کلاں کے علاقے میں درمیانہ طبقہ کے اپارٹمنٹس — حیدرآباد شہر کے دیہی-شہری سرحد پر واقع

حیدرآباد کے میٹروپولیٹن علاقے کی معیشت کی حالیہ تخمینہ جاتی مالیت امریکی ڈالر40 سے امریکی ڈالر74 ارب مساوی قوت خرید خام ملکی پیداوار کے درمیان رہی ہے اور اسے فہرست شہر بلحاظ خام ملکی پیداوار میں شمار کیا گیا ہے۔[5] حیدرآباد تلنگانہ کی خام ملکی پیداوار، ٹیکس اور دیگر آمدنیوں میں سب سے بڑا حصہ دار ہے اور ریزرو بینک آف انڈیا کے مطابق جون 2012 میں یہ قومی سطح پر چھٹا سب سے بڑا ڈپازٹ مرکز اور چوتھا سب سے بڑا کریڈٹ مرکز تھا۔[142] سنہ 2011 میں شہر کی فی کس سالانہ آمدنی 44,300 (امریکی $620) تھی۔ بمطابق 2006، شہر میں سب سے بڑے آجر ریاستی حکومت (1,13,098 ملازمین) اور مرکزی حکومت (85,155 ملازمین) تھے۔[143] ایک 2005 کے سروے کے مطابق، شہر میں 77% مرد اور 19% خواتین برسرِ روزگار تھیں۔[144] خدماتی صنعت شہر میں غالب ہے اور 90% افرادی قوت اس شعبے میں کام کرتی ہے۔[145]

حیدرآباد کی موتیوں کی تجارت میں کردار کی وجہ سے اسے "شہرِ موتی" کہا جاتا ہے اور 18ویں صدی تک یہ گولکنڈہ کے ہیرے کے لیے دنیا کا واحد تجارتی مرکز تھا۔[30][146] انیسویں صدی کے آخر میں نظام کے دور میں صنعتی ترقی کا آغاز ہوا، جسے بندرگاہوں سے ریل کے ذریعے شہر کا رابطہ ملنے سے مدد ملی۔[147][148] 1950 سے 1970 کے دوران متعدد سرکاری اور نیم سرکاری ادارے قائم ہوئے، جیسے بی ایچ ای ایل، نیوکلئیر فیول کمپلیکس، نیشنل منرل ڈیولپمنٹ کارپوریشن، بھارت الیکٹرانکس، ای سی آئی ایل، ڈی آر ڈی او، ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ، سی سی ایم بی، سی ڈی ایف ڈی، اسٹیٹ بینک آف حیدرآباد اور آندھرا بینک۔[123][149] حیدرآباد سیکیورٹیز (سابقہ حیدرآباد اسٹاک ایکسچینج) کا صدر دفتر یہیں ہے اور سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج بورڈ آف انڈیا (SEBI) کا علاقائی دفتر بھی موجود ہے۔[150] 2013 میں، بمبئی اسٹاک ایکسچینج (BSE) نے اپنے حیدرآباد مرکز سے ممبئی کو خدمات فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔[151] 1990 کی دہائی کے بعد سے، انفارمیشن ٹیکنالوجی (IT), IT-فعال خدمات (ITES)، بیمہ اور مالیاتی اداروں کے فروغ سے خدماتی شعبے میں تیزی آئی ہے، جس کے ساتھ ساتھ تجارت، نقل و حمل، ذخیرہ، مواصلات، جائداد اور خوردہ کے شعبوں میں بھی ترقی ہوئی ہے۔[148] بمطابق 2021, حیدرآباد کی IT برآمدات 1,45,522 کروڑ (امریکی ڈالر19.66 ارب) تھیں اور یہاں 1500 IT و ITES کمپنیاں موجود ہیں جو 6,28,615 ملازمتیں فراہم کرتی ہیں۔[152]

 
لاڈ بازار میں دلہن کے ملبوسات کی دکانیں، چار مینار کے قریب

1961ء میں انڈین ڈرگس اینڈ فارماسیوٹیکلز لمیٹڈ (IDPL) کے قیام کے بعد، کئی قومی اور بین الاقوامی کمپنیوں نے شہر میں اپنی پیداواری اور تحقیقی تنصیبات قائم کیں۔[153] بمطابق 2010, شہر میں بھارت کی ایک تہائی بلک ڈرگز اور 16 فیصد حیاتی ٹیکنالوجی مصنوعات تیار کی جاتی تھیں،[154][155] جس کی وجہ سے شہر کو "بھارت کا دواسازی دار الحکومت" اور "جینوم ویلی آف انڈیا" کہا جاتا ہے۔[156] حیدرآباد دنیا بھر میں اطلاعاتی ٹیکنالوجی کا مرکز سمجھا جاتا ہے، جسے سائبرآباد کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔[127][128] بمطابق 2013, بھارت کی آئی ٹی اور آئی ٹی ای ایس برآمدات میں شہر کا حصہ 15 فیصد اور ریاست آندھرا پردیش کی برآمدات میں 98 فیصد تھا۔[157] نَسکوم کے کل ارکان میں سے 22 فیصد کا تعلق بھی اسی شہر سے ہے۔[158] ہائی ٹیک سٹی کی ترقی نے کئی بین الاقوامی کمپنیوں کو شہر میں دفاتر کھولنے پر مجبور کیا۔ شہر میں 1300 سے زائد آئی ٹی و آئی ٹی ای ایس کمپنیاں موجود ہیں جو 4 لاکھ 7 ہزار سے زائد افراد کو روزگار فراہم کرتی ہیں۔ بین الاقوامی اداروں میں مائیکروسافٹ, ایپل, ایمیزون, گوگل, آئی بی ایم, یاہو!, اوریکل, ڈیل, فیس بک, سسکو شامل ہیں۔[101]:3

بھارتی کمپنیوں میں ٹیک مہندرا, انفوسیس, ٹی سی ایس, پولارس, سائینٹ اور وپرو قابل ذکر ہیں۔[101]:3 ورلڈ بینک نے 2009ء میں شہر کو بھارت میں بہترین کاروباری ماحول والے شہروں میں شمار کیا۔[159] شہر اور اس کے نواحی علاقوں میں بھارت کے کسی بھی شہر سے زیادہ خصوصی اقتصادی زونز ہیں۔[158] حیدرآباد میں خودروی صنعت ابھرتی ہوئی ہے جو اسے ایک خودروی مرکز بناتی ہے۔[160] ہنڈائی, حیدرآباد الون, پرگا ٹولز, ایچ ایم ٹی بیئرنگز, آرڈیننس فیکٹری میدک, ڈکن آٹو، مہندرا اینڈ مہندرا جیسے اداروں کی تنصیبات یہاں موجود ہیں۔[161] فیئٹ کرائسلر, ماروتی سوزوکی اور ٹریٹن انرجی بھی شہر میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔[162]

شہر میں غیر رسمی معیشت بھی خاصی بڑی ہے، جس میں 30 فیصد افرادی قوت شامل ہے۔[118]:71 2007ء کے ایک سروے کے مطابق شہر میں 40 سے 50 ہزار گلی فروش موجود تھے اور ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔[163]:9 ان میں سے 84 فیصد مرد اور 16 فیصد خواتین تھیں،[164]:12 اور پانچ میں سے چار "مستقل فروش" تھے جو اپنی جگہ یا سٹال پر کام کرتے ہیں۔[164]:15–16 ان میں زیادہ تر افراد اپنی ذاتی بچت سے کاروبار چلاتے ہیں؛ صرف 8 فیصد قرض لیتے ہیں۔[164]:19 ان کی آمدنی یومیہ 50 (70¢ امریکی) سے 800 (امریکی $11) روپے کے درمیان ہے۔[163]:25 دیگر غیر منظم شعبوں میں دودھ، مرغی پالنا، اینٹوں کی تیاری، غیر مستقل مزدوری اور گھریلو مددگار شامل ہیں۔ یہی طبقہ شہری غریبوں کی بڑی تعداد پر مشتمل ہے۔[118]:71[165]

2024ء میں ورلڈ اکنامک فورم نے شہر میں چوتھے صنعتی انقلاب کے مرکز (C4IR) کا قیام عمل میں لایا، جس کا مقصد صحت اور حیاتیاتی علوم کے شعبوں میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ہے۔[166]

ثقافت

ترمیم
 
مکہ مسجد (حیدرآباد دکن) جو اعوانی اور مغلیہ سلطنت کے دور میں حیدرآباد میں تعمیر کی گئی

حیدرآباد مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد بھارت کا ایک اہم ثقافتی مرکز بن گیا۔ محاصرہ دہلی کے بعد، خاص طور پر شمالی اور مغربی برصغیر سے فنون کے ماہرین کی ہجرت نے نزام کے سرپرستی میں شہر کی ثقافتی فضاء کو مالا مال کیا۔[167][168] اس ہجرت کے نتیجے میں شمالی اور جنوبی ہندوستان کی زبانوں، ثقافتوں اور مذاہب کا امتزاج ہوا، جس کے نتیجے میں گنگا جمنی تہذیب کا جنم ہوا، جس کے لیے شہر مشہور ہے۔[169][170]:viii اس شمال-جنوب کے امتزاج کا ایک اور نتیجہ یہ ہے کہ تیلگو زبان اور اردو ریاست تلنگانہ کی سرکاری زبانیں ہیں۔[171] مذاہب کے امتزاج کے نتیجے میں حیدرآباد میں کئی تہوار منائے جاتے ہیں جیسے گنیش چترتھی, دیوالی اور بونالو ہندو روایات سے اور عید الفطر اور عید الاضحی مسلمانوں کی طرف سے۔[172]

حیدرآبادی روایتی لباس میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے اثرات کا امتزاج نظر آتا ہے، جہاں مرد شیروانی اور کرتاپاجاما پہنتے ہیں اور خواتین خارا دوپٹہ اور شلوار قمیض پہنتی ہیں۔[173][174][175] زیادہ تر مسلمان خواتین برقع اور حجاب (اسلام) پہنتی ہیں۔[176] روایتی ہندو اور مسلم لباس کے علاوہ مغربی ثقافتوں کا بڑھتا ہوا اثر نوجوانوں میں مغربی طرز کے لباس کے پہننے میں اضافہ کر رہا ہے۔[177]

ماضی میں اعوانی حکمرانوں اور مملکت آصفیہ نے مختلف حصوں سے آرٹسٹوں، معماروں اور ادیبوں کو اپنی سرپرستی میں لایا۔ اس کے نتیجے میں ثقافتی تقریبات جیسے مشاعرہ (شاعری کے اجتماعات)، قوالی (عبادی نغمے) اور ڈھولک کے گیت (روایتی عوامی گانے) مشہور ہوئے۔[178][179][180] قتب شاہی خاندان نے خاص طور پر دکنی ادب کی ترقی کی حوصلہ افزائی کی جس کے نتیجے میں دکنی مثنوی اور دیوان (شاعری) جیسے کام سامنے آئے، جو اردو کے ابتدائی دستیاب نسخوں میں شامل ہیں۔[181] لذت النساء جو 15ویں صدی میں قتب شاہی دربار میں مرتب کیا گیا تھا، میں جنسی فنون کی قدیم مشرقی شکلوں کے لیے محرکات اور خفیہ ادویات کے ساتھ تصاویر شامل ہیں۔[182] مملکت آصفیہ کے دور میں کئی ادبی اصلاحات ہوئیں اور اردو کو عدالت، انتظامیہ اور تعلیم کی زبان کے طور پر متعارف کرایا گیا۔[183] 1824 میں، اردو کی غزلوں کا مجموعہ گلابزار مہلقہ، جو مہلقہ بائی کے قلم سے تھا — جو پہلی خاتون اردو شاعرہ تھیں جنھوں نے دیوان مرتب کیا — حیدرآباد میں شائع ہوا۔[184] حیدرآباد نے ان روایات کو 2010 سے اپنی سالانہ حیدرآبادی ادبی میلہ کے ذریعے جاری رکھا ہے، جو شہر کی ادبی اور ثقافتی تخلیقی صلاحیتوں کو پیش کرتا ہے۔[185] اس شہر میں کئی شاعروں، ادیبوں اور نثرنگاروں نے جنم لیا ہے جن میں سید مودودی, علامہ اقبال, میرزا غالب اور غلام عباس جیسے مشہور نام شامل ہیں۔[186][187]

موسیقی اور فلمیں

ترمیم
 
رابندر ناتھ ٹیگور کے نام پر رکھا گیا ایک آڈیٹوریم، رویندر بھارتی

جنوبی ہندوستانی موسیقی اور رقص جیسے کہ کچھپوڑی اور بھرت ناٹیم کے انداز دکن کے علاقے میں مقبول ہیں۔ ان کی ثقافتی پالیسیوں کے نتیجے میں، ہندوستانی کلاسیکی موسیقی اور رقص مغلوں اور نظاموں کے دور میں مقبولیت حاصل کر گئے،[188] اور اسی دور میں اشرافیہ کے لیے طوائف (رقاصاؤں) کے ساتھ وابستگی ایک روایت بن گئی۔ ان طوائف کو آداب اور ثقافت کے اعلیٰ نمونوں کے طور پر سمجھا جاتا تھا اور انھیں اشرافیہ کے بچوں کو گانا، شاعری اور کلاسیکی رقص سکھانے کے لیے مقرر کیا جاتا تھا۔[189] اس سے درباری موسیقی، رقص اور شاعری کے کچھ مخصوص انداز وجود میں آئے۔ مغربی اور ہندوستانی مقبول موسیقی کے علاوہ جیسے کہ فلمی موسیقی، حیدرآباد کے رہائشی شہر پر مبنی مرفہ موسیقی، ڈھولک کے گیت (مقامی لوک کہانی پر مبنی گھریلو گیت) اور قوالی خاص طور پر شادیوں، تہواروں اور دیگر خوشی کے مواقع پر بجاتے ہیں۔[190][191] ریاستی حکومت موسیقی کے فروغ کے لیے گولکنڈہ موسیقی و رقص فیسٹیول، ترمتی موسیقی فیسٹیول اور پریموتی رقص فیسٹیول کا اہتمام کرتی ہے۔[192]

اگرچہ شہر خاص طور پر تھیٹر اور ڈرامے کے لیے مشہور نہیں ہے،[193] ریاستی حکومت متعدد پروگراموں اور تہواروں کے ذریعے تھیٹر کو فروغ دیتی ہے[194][195] جیسے کہ رویندر بھارتی، شلپاکلا ویدیکا، للتھاکلا تھورنام اور لمکاں جیسے مقامات پر۔ اگرچہ نمائش مصنوعات ملکی خالصتاً موسیقی کا ایونٹ نہیں ہے، لیکن یہ مقامی اور قومی صارفین کی مصنوعات کی ایک مقبول سالانہ نمائش ہے، جس میں کچھ موسیقی کے پروگرام بھی شامل ہوتے ہیں۔[196]

شہر تیلگو فلم انڈسٹری کا گھر ہے، جو عام طور پر تیلگو سنیما کے نام سے جانی جاتی ہے—بمطابق 2021 یہ سب سے زیادہ کمائی کرنے والی بھارتی فلموں کی فہرست میں شامل ہے۔[197] 1970 کی دہائی میں، عالمی سطح پر مشہور شیام بینیگل کی دکنی حقیقت پسندانہ فلموں نے عمر رسیدگی کی فنی فلمیں کی ایک تحریک شروع کی، جسے متوازی سنیما کے نام سے جانا جاتا ہے۔[198] دکنی فلم انڈسٹری ("ڈولی ووڈ") مقامی حیدرآبادی لہجے میں فلمیں بناتی ہے، جو 2005 سے علاقائی سطح پر مقبول ہوئی ہیں۔[199] شہر نے بین الاقوامی فلم فیسٹیولز کی میزبانی کی ہے جیسے کہ انٹرنیشنل چلڈرن فلم فیسٹیول انڈیا اور حیدرآباد انٹرنیشنل فلم فیسٹیول۔[200] 2005 میں، گنیز ورلڈ ریکارڈز نے راموجی فلم سٹی کو دنیا کا سب سے بڑا فلم اسٹوڈیو قرار دیا۔[201]

فنون اور دستکاری

ترمیم
 
18ویں صدی کا بیدری ویئر، حقہ (آلہ) کا واٹر پائپ بیس، لاس اینجلس کاؤنٹی میوزیم آف آرٹ میں نمائش کے لیے

یہ علاقہ اپنے گولکنڈہ اور حیدرآباد پینٹنگ اسٹائلز کے لیے مشہور ہے جو دکنی پینٹنگ کی شاخیں ہیں۔[202] 16ویں صدی میں تیار ہونے والا گولکنڈہ اسٹائل ایک مقامی انداز ہے جو غیر ملکی تکنیکوں کو ملاتا ہے اور پڑوسی میسور کے وجے نگر پینٹنگز سے کچھ مشابہت رکھتا ہے۔ گولکنڈہ اسٹائل میں عام طور پر چمکدار سونے اور سفید رنگوں کا نمایاں استعمال ہوتا ہے۔[203] حیدرآباد اسٹائل 17ویں صدی میں نظاموں کے دور میں شروع ہوا۔ مغل فن مصوری سے بہت زیادہ متاثر، اس اسٹائل میں روشن رنگوں کا استعمال ہوتا ہے اور زیادہ تر علاقائی مناظر، ثقافت، لباس اور زیورات کو دکھایا جاتا ہے۔[202]

اگرچہ خود دستکاری کا مرکز نہیں ہے، لیکن مغلوں اور نظاموں کی فنون کی سرپرستی نے علاقے کے کاریگروں کو حیدرآباد کی طرف راغب کیا۔ ایسی دستکاریوں میں شامل ہیں: ووٹز اسٹیل، فلغری کام، بیدری ویئر، جو پڑوسی کرناٹک سے تعلق رکھنے والی دھاتی دستکاری ہے، جو 18ویں صدی میں مقبول ہوئی اور اسے عالمی تجارتی ادارہ کے قانون کے تحت جغرافیائی اشارہ (GI) ٹیگ دیا گیا ہے؛[130][204] اور زری اور زردوزی، جو ٹیکسٹائل پر کڑھائی کے کام ہیں جن میں سونے، چاندی اور دیگر دھاتی دھاگوں سے پیچیدہ ڈیزائن بنائے جاتے ہیں۔[205] چنٹز—ایک چمکدار کیلیکو ٹیکسٹائل 16ویں صدی میں گولکنڈہ میں شروع ہوا۔[206][207] اور ایک اور دستکاری جو حیدرآباد کی طرف راغب ہوئی وہ ہے قلم کاری، ایک ہاتھ سے پینٹ کیا گیا یا بلاک پرنٹ کیا گیا کپاس کا ٹیکسٹائل جو آندھرا پردیش کے شہروں سے آتا ہے۔ یہ دستکاری دو اندازوں میں ممتاز ہے: ایک ہندو انداز، جسے شری کالاہستی کہا جاتا ہے اور مکمل طور پر ہاتھ سے کیا جاتا ہے اور ایک اسلامی انداز، جسے مچھلی پٹنم کہا جاتا ہے جو ہاتھ اور بلاک دونوں تکنیکوں کا استعمال کرتا ہے۔[208] حیدرآباد کے فنون اور دستکاری کے نمونے مختلف عجائب گھروں میں رکھے گئے ہیں جن میں سالار جنگ میوزیم (جو "دنیا کے سب سے بڑے ایک شخص کے مجموعوں میں سے ایک" کی میزبانی کرتا ہے[209]تلنگانہ اسٹیٹ آثار قدیمہ میوزیم، نظام میوزیم، سٹی میوزیم اور برلا سائنس میوزیم شامل ہیں۔[210]

پکوان

ترمیم
 
حیدرآبادی بریانی کے ساتھ دیگر حیدرآبادی پکوان

حیدرآبادی پکوان میں چاول، گندم اور بھیڑ کا گوشت کے پکوانوں کا ایک وسیع ذخیرہ شامل ہے، جس میں مختلف مصالحوں کا ہنرمندانہ استعمال ہوتا ہے۔[211] حیدرآباد کو یونیسکو نے تخلیقی شہر برائے پکوان کے طور پر درج کیا ہے۔[212][213] حیدرآبادی بریانی اور حیدرآبادی حلیم، جو مغلائی پکوان اور عرب پکوان کے امتزاج کے ساتھ ہیں،[214] قومی جغرافیائی اشارہ ٹیگ رکھتے ہیں۔[215] حیدرآبادی پکوان کچھ حد تک فرانسیسی سے متاثر ہیں،[216] لیکن زیادہ تر عربی، ترک پکوان، ایرانی اور مقامی تیلگو اور مراٹھواڑا پکوانوں سے متاثر ہیں۔[175][214] مقبول مقامی پکوانوں میں نہاری، چکنا، بگھارا بینگن اور میٹھوں میں خوبانی کا میٹھا، شاہی ٹکڑے اور کدو کی کھیر (کدو سے بنائی گئی میٹھی کھیر) شامل ہیں۔[175][217]

میڈیا

ترمیم

حیدرآباد کے ابتدائی اخبارات میں سے ایک، دی ڈیکن ٹائمز، 1780 کی دہائی میں قائم ہوا۔[218] حیدرآباد میں شائع ہونے والے اہم تیلگو روزناموں میں ایک نڈو، ساکشی اور نمستے تلنگانہ شامل ہیں، جبکہ اہم انگریزی اخبارات میں دی ٹائمز آف انڈیا، دی ہندو اور دکن کرانیکل شامل ہیں۔ اہم اردو اخبارات میں سیاست (اخبار)، روزنامہ منصف اور انڈین اعتماد شامل ہیں۔[219][220] سکندرآباد کینٹونمنٹ بورڈ نے 1919 کے آس پاس حیدرآباد ریاست میں پہلا ریڈیو اسٹیشن قائم کیا۔ ڈیکن ریڈیو شہر کا پہلا عوامی ریڈیو نشریاتی اسٹیشن تھا جو 3 فروری 1935 کو شروع ہوا،[221] جبکہ ایف ایم نشریات 2000 میں شروع ہوئیں۔[222] حیدرآباد میں доступ چینلز میں آکاش وانی (ریڈیو ناشر), ریڈیو مرچی, ریڈیو سٹی, ریڈ ایف ایم, بگ ایف ایم اور فیور ایف ایم شامل ہیں۔[223]

حیدرآباد میں ٹیلی ویژن نشریات 1974 میں دوردرشن کے آغاز کے ساتھ شروع ہوئیں، جو حکومت ہند کا عوامی خدمت نشریاتی ادارہ ہے،[224] جو دو مفت نشریاتی زمینی ٹیلی ویژن چینلز اور ایک سیٹلائٹ چینل نشر کرتا ہے۔ نجی سیٹلائٹ چینلز جولائی 1992 میں اسٹار انڈیا کے آغاز کے ساتھ شروع ہوئے۔[225] سیٹلائٹ ٹی وی چینلز کیبل سبسکرپشن، براہ راست نشریاتی سیٹلائٹ خدمات یا انٹرنیٹ پر مبنی ٹیلی ویژن کے ذریعے قابل رسائی ہیں۔[222][226] حیدرآباد میں پہلی ڈائل اپ انٹرنیٹ رسائی 1990 کی دہائی کے اوائل میں доступ ہوئی اور یہ سافٹ ویئر ڈیولپمنٹ کمپنیوں تک محدود تھی۔[227] پہلی عوامی انٹرنیٹ رسائی سروس 1995 میں شروع ہوئی، جبکہ پہلا نجی شعبے کا انٹرنیٹ خدمت فراہم کنندہ (ISP) 1998 میں آپریشنز شروع کر گیا۔[228] 2015 میں، شہر کے کچھ حصوں میں تیز رفتار عوامی وائی فائی متعارف کرایا گیا۔[229]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پ "Cities having population 1 lakh and above, census 2011" (PDF)۔ Government of India۔ 2011۔ ص 11۔ 2012-05-07 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا (PDF)۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-12-10
  2. "The World's Cities in 2018" (PDF)۔ United Nations Department of Economic and Social Affairs۔ 2018۔ 2021-03-15 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا (PDF)۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-07-11
  3. ^ ا ب پ "Urban agglomerations/cities having population 1 lakh and above" (PDF)۔ Government of India۔ 2011-11-13 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا (PDF)۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-10-17
  4. "Time to put metropolitan planning committee in place"۔ دی ٹائمز آف انڈیا۔ Hyderabad۔ 28 جولائی 2014۔ 2021-03-14 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-03-22
  5. ^ ا ب "Global city GDP 2014"۔ Brookings Institution۔ 22 جنوری 2015۔ 2017-05-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2017-03-04
  6. John Everett-Heath (2005)۔ Concise dictionary of world place names۔ اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس۔ ص 223۔ ISBN:978-0-19-860537-9
  7. ^ ا ب Andrew Petersen (1996)۔ Dictionary of Islamic architecture۔ روٹلیج۔ ص 112۔ ISBN:978-0-415-06084-4۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-06-28
  8. John Norman Holister (1953)۔ The Shia of India (PDF)۔ Luzac and company limited۔ ص 120–125۔ 2018-10-10 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا (PDF)۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-07-15
  9. Donald F Lach؛ Edwin J. Van Kley (1993)۔ Asia in the Making of Europe۔ University Of Chicago Press۔ ج 3۔ ص ?۔ ISBN:978-0-226-46768-9۔ 2018-03-03 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا
  10. Serish Nanisetti (7 اکتوبر 2016)۔ "The city of love: Hyderabad"۔ دی ہندو۔ 2020-12-07 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-10-09
  11. Michael W. McCann (1994)۔ Rights at work: pay equity reform and the politics of legal mobilization۔ University of Chicago Press۔ ص 6۔ ISBN:978-0-226-55571-3
  12. "Prehistoric and megalithic cairns vanish from capital's landscape"۔ The Times of India۔ 21 جولائی 2017۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-09-19
  13. ^ ا ب Ababu Minda Yimene (2004)۔ An African Indian community in Hyderabad۔ Cuvillier Verlag۔ ص 2۔ ISBN:978-3-86537-206-2۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-09-19
  14. K. Venkateshwarlu (10 ستمبر 2008)۔ "Iron Age burial site discovered"۔ دی ہندو۔ 2013-11-10 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-06-07
  15. Suryanarayana Kolluru (1993)۔ Inscriptions of the minor Chalukya dynasties of Andhra Pradesh۔ Mittal Publications۔ ص 1۔ ISBN:978-81-7099-216-5
  16. ^ ا ب (Sardar, Golconda through Time 2007، صفحہ 19–41)
  17. Iqtidar Alam Khan (2008)۔ Historical dictionary of medieval India۔ The Scarecrow Press۔ ص 85 and 141۔ ISBN:978-0-8108-5503-8
  18. Archana Khare Ghose (29 فروری 2012)۔ "Heritage Golconda diamond up for auction at Sotheby's"۔ دی ٹائمز آف انڈیا۔ 2013-05-10 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-03-01
  19. R. C. Majumdar (1967)۔ "Muhammad Bin Tughluq"۔ The Delhi Sultanate۔ Bharatiya Vidya Bhavan۔ ص 61–89۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-03-05
  20. Prasad, History of the Andhras 1988، صفحہ 172
  21. Sardar, Golconda through Time 2007، صفحہ 20
  22. Mainak Ghosh (2020)۔ Perception, Design and Ecology of the Built Environment: A Focus on the Global South۔ Springer Nature۔ ص 504۔ ISBN:978-3-030-25879-5۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-10-13
  23. M.A Nayeem (28 مئی 2002)۔ "Hyderabad through the ages"۔ The Hindu۔ 2009-06-04 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-12-18
  24. Ara Matsuo (22 نومبر 2005)۔ "Golconda"۔ جامعہ ٹوکیو۔ 2013-06-13 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-12-18
  25. Shamim Aleem؛ M. Aabdul Aleem، مدیران (1984)۔ Developments in administration under H.E.H. the Nizam VII۔ Osmania University Press۔ ص 243۔ 2020-12-16 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-06-15
  26. James Stuart Olson؛ Robert Shadle (1996)۔ Historical dictionary of the British empire۔ Greenwood Press۔ ص 544۔ ISBN:978-0-313-27917-1
  27. "Opinion A Hyderabadi conundrum"۔ 15 نومبر 2018۔ 2018-11-15 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-11-15
  28. Sunita Pant Bansal (2005)۔ Encyclopedia of India۔ Smriti Books۔ ص 61۔ ISBN:978-81-87967-71-2
  29. J. F. Richards (1975)۔ "The Hyderabad Karnatik, 1687–1707"۔ Modern Asian Studies۔ ج 9 شمارہ 2: 241–260۔ DOI:10.1017/S0026749X00004996۔ ISSN:0026-749X
  30. ^ ا ب Waldemar Hansen (1972)۔ The Peacock throne: the drama of Mogul India۔ Motilal Banarsidass۔ ص 168 and 471۔ ISBN:978-81-208-0225-4
  31. ^ ا ب پ ت ٹ John.F. Richards (1993)۔ The Mughal Empire, Part 1۔ کیمبرج یونیورسٹی پریس۔ ج 5۔ ص 279–281۔ ISBN:978-0-521-56603-2۔ 2016-05-29 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-06-29
  32. ^ ا ب پ ت ٹ S. M. Ikram (1964)۔ "A century of political decline: 1707–1803"۔ در Ainslie T Embree (مدیر)۔ Muslim civilization in India۔ کولمبیا یونیورسٹی۔ ISBN:978-0-231-02580-5۔ 2012-03-06 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-10-08
  33. Serish Nanisetti (13 دسمبر 2017)۔ "Living Hyderabad: drum house on the hillock"۔ The Hindu۔ 2021-02-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2017-12-19
  34. Jaswant Lal Mehta (2005)۔ Advanced Study in the History of Modern India: 1707–1813۔ Sterling Publishing۔ ص 143۔ ISBN:978-1-932705-54-6
  35. ^ ا ب Jaswant Lal Mehta (2005)۔ Advanced Study in the History of Modern India: 1707–1813۔ Sterling Publishing۔ ص 143۔ ISBN:978-1-932705-54-6
  36. Olivier Roy (2011)۔ Holy Ignorance: When Religion and Culture Part Ways۔ Columbia University Press۔ ص 95۔ ISBN:978-0-231-80042-6
  37. ^ ا ب پ Sarojini Regani (1988)۔ Nizam-British relations, 1724–1857۔ Concept Publishing۔ ص 130–150۔ ISBN:978-81-7022-195-1
    • Salma Ahmed Farooqui (2011)۔ A comprehensive history of medieval India۔ Dorling Kindersley۔ ص 346۔ ISBN:978-81-317-3202-1
    • George Bruce Malleson (2005)۔ An historical sketch of the native states of India in subsidiary alliance with the British government۔ Asian Education Services۔ ص 280–292۔ ISBN:978-81-206-1971-5
    • Meredith Townsend (2010)۔ The annals of Indian administration, Volume 14۔ BiblioBazaar۔ ص 467۔ ISBN:978-1-145-42314-5
  38. Deen Dayal (2013)۔ "The mills, Hyderabad."۔ Europeana۔ 2016-01-01 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-10-31
  39. K Venkateshwarlu (17 ستمبر 2004)۔ "Momentous day for lovers of freedom, democracy"۔ دی ہندو۔ 2012-08-17 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-05-23
  40. P.V. Sathees؛ Michel Pimbert؛ The DDS Community Media Trust (2008)۔ Affirming life and diversity۔ Pragati Offset۔ ص 1–10۔ ISBN:978-1-84369-674-2
  41. "Demand for states along linguistic lines gained momentum in the '50s"۔ The Times of India۔ 10 جنوری 2011۔ 2015-09-10 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-07-31
  42. Mahesh Ambedkar (2005)۔ The Architect of Modern India Dr Bhimrao Ambedkar۔ Diamond Pocket Books۔ ص 132–133۔ ISBN:978-81-288-0954-5
  43. Mark-Anthony Falzon (2009)۔ Multi-sited ethnography: theory, praxis and locality in contemporary research۔ Ashgate Publishing۔ ص 165–166۔ ISBN:978-0-7546-9144-0
  44. M.B Chande (1997)۔ The Police in India۔ Atlantic Publishers۔ ص 142۔ ISBN:978-81-7156-628-0
  45. Ramachandra Guha (30 جنوری 2013)۔ "Living together, separately"۔ The Hindu۔ 2013-09-21 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-08-05
  46. "How Telangana movement has sparked political turf war in Andhra"۔ Rediff.com۔ 5 اکتوبر 2011۔ 2012-01-23 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-02-19
  47. "Timeline:history of blasts in Hyderabad"۔ فرسٹ پوسٹ۔ 22 فروری 2013۔ 2013-02-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-02-22
  48. "At least 13 killed in bombing, riots at mosque in India"۔ CBC News۔ 18 مئی 2007۔ 2013-09-23 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-09-21
  49. "At least 13 killed in bombing, riots at mosque in India"۔ CBC News۔ 18 مئی 2007۔ 2013-09-23 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-09-21
  50. Aurangzeb Naqshbandi (31 جولائی 2013)۔ "Telangana at last: India gets a new state, demand for other states gets a boost"۔ ہندوستان ٹائمز۔ 2014-01-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-07-31
  51. "what you need to know about India's newest state-Telangana"۔ Daily News and Analysis۔ 2 جون 2014۔ 2014-12-05 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2014-11-29
  52. گوگل (6 جنوری 2013)۔ "حیدرآباد، دکن" (Map)۔ گوگل نقشہ جات۔ گوگل {{حوالہ نقشہ}}: |mapurl= میں بیرونی روابط (معاونتالوسيط |access-date بحاجة لـ |مسار= (معاونت)، ونامعلوم پیرامیٹر |mapurl= مجوزہ استعمال رد |مسار الخريطة= (معاونت)
  53. Umar farooque Momin؛ Prasad.S Kulkarni؛ Sirajuddin M Horaginamani؛ Ravichandran M؛ Adamsab M Patel؛ Hina Kousar (2011)۔ "Consecutive days maximum rainfall analysis by gumbel's extreme value distributions for southern Telangana" (PDF)۔ Indian Journal of Natural Sciences۔ ج 2 شمارہ 7: 411۔ ISSN:0976-0997۔ 2015-06-08 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-02-11
  54. "New geographical map of Hyderabad released"۔ 17 دسمبر 2014۔ 2016-03-03 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-04-12
  55. "Greater Hyderabad Municipal Corporation"۔ www.ghmc.gov.in۔ 2016-01-01 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-12-23
  56. ^ ا ب پ ت "Physical Feature" (PDF)۔ AP Government۔ 2002۔ 2012-04-16 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-04-04
  57. ^ ا ب پ C Ramachandraia (2009)۔ "Drinking water: issues in access and equity" (PDF)۔ jointactionforwater.org۔ 2013-11-10 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-11-18
  58. "Hyderabad geography"۔ JNTU۔ 2013-11-11 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-05-04
  59. "Water sources and water supply" (PDF)۔ rainwaterharvesting.org۔ 2005۔ ص 2۔ 2012-01-11 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا (PDF)۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-01-20
  60. Sreoshi Singh (2010)۔ "Water security in peri-urban south Asia" (PDF)۔ South Asia Consortium for Interdisciplinary Water Resources Studies۔ 2012-01-16 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-05-18
  61. Climate and food security۔ International Rice Research Institute۔ 1987۔ ص 348۔ ISBN:978-971-10-4210-3
    • Michael John Thornley Norman؛ C.J Pearson؛ P.G.E Searle (1995)۔ The ecology of tropical food crops۔ Cambridge University Press۔ ص 249–251۔ ISBN:978-0-521-41062-5
  62. ^ ا ب "Weatherbase entry for Hyderabad"۔ Canty and Associates LLC۔ 2013-10-30 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-06-13
  63. ^ ا ب پ "Hyderabad"۔ India Meteorological Department۔ 2013-11-10 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-06-13
  64. "Extreme weather events Overall"۔ Meteorological Centre, Hyderabad۔ دسمبر 2013۔ 2015-04-02 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-03-06
  65. "Historical weather for Hyderabad, India"۔ Weatherbase۔ 2011-12-04 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2008-10-03
  66. "Station: Hyderabad (A) Climatological Table 1981–2010" (PDF)۔ Climatological Normals 1981–2010۔ India Meteorological Department۔ جنوری 2015۔ ص 331–332۔ 2020-02-05 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-02-13
  67. "Extremes of Temperature & Rainfall for Indian Stations (Up to 2012)" (PDF)۔ India Meteorological Department۔ دسمبر 2016۔ ص M9۔ 2020-02-05 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-02-13
  68. "Table 3 Monthly mean duration of Sun Shine (hours) at different locations in India" (PDF)۔ Daily Normals of Global & Diffuse Radiation (1971–2000)۔ India Meteorological Department۔ دسمبر 2016۔ ص M-3۔ 2020-02-05 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-02-13
  69. "Normals Data: Hyderabad Airport – India Latitude: 17.45°N Longitude: 78.47°E Height: 530 (m)"۔ Japan Meteorological Agency۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-02-29
  70. Siddharth Tadepalli (17 اگست 2016)۔ "Bats seen in the day? Experts blame habitat loss"۔ Times of India۔ 2016-08-17 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-08-17
  71. ^ ا ب "Annual administration report 2011–2012" (PDF)۔ Andhra Pradesh Forest Department۔ ص 78۔ 2016-01-01 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-10-31
  72. "T'gana forest dept to develop 10 nature parks around Hy'bad"۔ Business Standard۔ 8 اکتوبر 2014۔ 2015-02-19 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-02-19
  73. "AP Reorganisation Bill, 2014" (PDF)۔ prsindia.org۔ 2014۔ 2014-03-27 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2014-07-29
  74. "Live Results: Greater Hyderabad Municipal Elections 2020"۔ Network18 Group۔ 2020۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-09-13
  75. "Citizen's charter" (PDF)۔ GHMC۔ 2013-07-17 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-07-31
  76. "Profile"۔ Hyderabad Metropolitan Water Supply and Sewerage Board۔ 2016-01-01 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-10-31
  77. Anon (2011)۔ "Hyderabad" (PDF)۔ Excreta Matters۔ Centre for Science and Environment: 331–341۔ 2016-03-04 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-02-20
  78. "About TSSPDCL"۔ Telangana Southern Power Distribution Company Limited۔ 2015-02-20 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-02-20
  79. Yunus Y Lasania (20 اکتوبر 2014)۔ "Telangana has fewer fire stations than A.P."۔ The Hindu۔ 2016-01-01 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-02-18
  80. "Twin festivals pile more garbage load on GHMC"۔ The Hindu۔ 3 ستمبر 2011۔ 2012-09-17 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-04-18
  81. "Waste management project gets nod"۔ The Times of India۔ 18 جنوری 2010۔ 2015-09-11 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-04-17
  82. Sarath Guttikunda (مارچ 2008)۔ "Co-benefits analysis of air pollution and GHG emissions for Hyderabad, India" (PDF)۔ Integrated Environmental Strategies Program۔ 2015-02-20 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا (PDF)۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-02-20
  83. "Pollution up in Hyderabad post Pollution Control Board split"۔ The Deccan Chronicle۔ 17 نومبر 2014۔ 2015-02-20 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-02-20
  84. Bhola R. Gurjar؛ Luisa T. Molina؛ Chandra S.P. Ojha، مدیران (2010)۔ Air pollution:health and environmental impacts۔ Taylor and Francis۔ ص 90۔ ISBN:978-1-4398-0963-1
  85. "50 research scholars to study pollution"۔ CNN-IBN۔ 3 جنوری 2012۔ 2012-01-11 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-04-18
  86. Prabeerkumar Sikdar (15 دسمبر 2016)۔ "Gasping for breath in VIP areas, blame it on toxic cloud in the air"۔ The Times of India۔ 2018-06-16 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-05-27
  87. "Ground water in city unfit for use"۔ The Deccan Chronicle۔ 30 اگست 2011۔ 2011-12-14 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-04-18
  88. "If Singur, Manjira dry up, there's Krishna"۔ The Times of India۔ 11 فروری 2005۔ 2015-09-11 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-04-21
  89. "City stares at water scarcity"۔ The Times of India۔ 13 جنوری 2012۔ 2015-09-10 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-04-21
  90. Mridula Chunduri (29 نومبر 2003)۔ "Manjira faces pollution threat"۔ The Times of India۔ 2015-09-11 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-04-21
  91. "Welcome to Commissionerate of Health and Family Welfare"۔ Government of Telangana state۔ 2015-05-01 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-02-18
  92. Loraine Kennedy؛ Ravi Duggal؛ Stephanie Tawa Lama-Rewal (2009)۔ "7: Assessing urban governance through the prism of healthcare services in Delhi, Hyderabad and Mumbai"۔ در Joel Ruet؛ Stephanie Tawa Lama-Rewal (مدیران)۔ Governing India's metropolises: case studies of four cities۔ Routledge۔ ISBN:978-0-415-55148-9
  93. "Government hospitals"۔ GHMC۔ 2011۔ 2012-08-02 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-05-09
  94. ^ ا ب "Hyderabad hospital report"۔ Northbridge Capital۔ مئی 2010۔ ص 8۔ 2010-08-15 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-05-10
  95. بمطابق 2011، the census city population was 6,809,970 and there were 12,000 available hospital beds, giving the derived rate.
  96. M.Sai Gopal (18 جنوری 2012)۔ "Healthcare sector takes a leap in city"۔ The Hindu۔ 2012-05-08 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-05-06
  97. ^ ا ب پ ت ٹ
  98. K.N Gopi (1978)۔ Process of urban fringe development: A model۔ Concept Publishing Company۔ ص 25۔ 2021-06-28 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-08-06
  99. Neelakantan Krishna Iyer؛ Sumati Kulkarni؛ V. Raghavaswam (13 جون 2007)۔ "Economy, population and urban sprawl a comparative study of urban agglomerations of Banglore and Hyderabad, India using remote sensing and GIS techniques" (PDF)۔ circed.org۔ ص 21۔ 2012-05-19 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا (PDF)۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-12-10
  100. "Corporation History"۔ عظیم تر بلدیہ حیدرآباد۔ 2021-05-22 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-03-13
  101. ^ ا ب پ ت ٹ
  102. "Sex ratio goes up in state"۔ The Times of India۔ 1 اپریل 2011۔ 2015-09-10 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-04-16
  103. ^ ا ب "Cities having population 1 lakh and above, Census 2011" (PDF)۔ censusindia.gov.in۔ 2011۔ ص 11۔ 2022-10-09 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا (PDF)۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-09-13
  104. "Urban sex ratio below national mark"۔ The Times of India۔ 21 ستمبر 2011۔ 2015-09-10 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-04-16
  105. Nikhila Henry (23 مئی 2011)۔ "AP slips further in national literacy ratings"۔ The Times of India۔ 2015-09-10 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-02-18
  106. Rakhi Dandona؛ Anil Kumar؛ Md Abdul Ameer؛ G Mushtaq Ahmed؛ Lalit Dandona (16 نومبر 2009)۔ "Incidence and burden of road traffic injuries in urban India"۔ Injury Prevention۔ ج 14 شمارہ 6: 354–359۔ DOI:10.1136/ip.2008.019620۔ PMC:2777413۔ PMID:19074239
  107. ^ ا ب پ Sabrina Krank (2007)۔ "Cultural, spatial and socio-economic fragmentation in the Indian megacity Hyderabad" (PDF)۔ Irmgard Coninx Foundation۔ 2015-02-23 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-04-17
  108. "C-01 Population By Religious Community: Andhra Pradesh"۔ Census of India
  109. Masood Ali Khan (31 اگست 2004)۔ "Muslim population in AP"۔ ملی گزٹ۔ 2012-04-20 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-05-23
  110. "C-1 Population By Religious Community"۔ Government of India, Ministry of Home Affairs۔ 2015-09-13 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-02-22 On this page, select "Andhra Pradesh" from the download menu. Data for "GHMC (M Corp. + OG)" is at row 11 of the downloaded excel file.
  111. "Table C-16 Population by Mother Tongue: Andhra Pradesh (Urban)"۔ بھارت میں مردم شماری۔ Registrar General and Census Commissioner of India
  112. "Urdu is now first language in Indian state of Telangana"۔ گریٹر کشمیر۔ 2016-05-14 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-04-24
  113. James Minahan (2002)۔ Encyclopedia of the stateless nations: ethnic and national groups around the world۔ Greenwood Publishing Group۔ ج 4۔ ISBN:978-0-313-32384-3
  114. Peter K Austin (2008)۔ 1000 languages: living, endangered, and lost۔ University of California Press۔ ص 120۔ ISBN:978-0-520-25560-9
  115. "MCH plans citizens' charter in Telugu, Urdu"۔ The Times of India۔ 1 مئی 2002۔ 2015-09-11 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-10-25
  116. "Poverty reduction at city level: strategy development for Hyderabad" (PDF)۔ Center for Good Governance, Hyderabad۔ 2012-06-29 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-05-17
  117. "World bank team visits Hyderabad slums"۔ The Times of India۔ 12 جون 2012۔ 2015-09-11 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-06-12
  118. ^ ا ب پ "Basic services to the urban poor" (PDF)۔ City development plan۔ Greater Hyderabad Municipal Corporation۔ 2009-02-06 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-04-17
  119. https://www.britannica.com/place/Hyderabad
  120. https://www.lonelyplanet.com/india/hyderabad
  121. https://timesofindia.indiatimes.com/city/hyderabad
  122. ^ ا ب پ
  123. ^ ا ب پ Nirmala Rao (2007)۔ Cities in transition۔ Routledge۔ ص 117–140۔ ISBN:978-0-203-39115-0
  124. ^ ا ب K.N Gopi (1978)۔ Process of urban fringe development:a model۔ Concept Publishing۔ ص 13–17۔ ISBN:978-81-7022-017-6
  125. Mohan Kodarkar۔ "Implementing the ecosystem approach to preserve the ecological integrity of urban lakes: the case of lake Hussain Sagar, Hyderabad, India" (PDF)۔ Ecosystem approach for the conservation of lake Hussainsagar۔ International Lake Environment Committee Foundation۔ ص 3۔ 2012-12-09 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-06-11
  126. "Miyapur most 'searched' on web"۔ The Hindu۔ 2 مارچ 2013۔ 2013-03-05 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-03-02
  127. ^ ا ب Ananya Roy؛ Ong Aihwa (2011)۔ Worlding cities: Asian experiments and the art of being global۔ John Wiley & Sons۔ ص 253۔ ISBN:978-1-4051-9277-4
  128. ^ ا ب Swati Bharadwaj Chand (13 اکتوبر 2011)۔ "An Amazon shot for city"۔ دی ٹائمز آف انڈیا۔ 2015-02-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-10-13
  129. John Burton-Page؛ George Michell (2008)۔ Indian Islamic architecture: forms and typologies, sites and monuments۔ Brill Publishers۔ ص 146–148۔ ISBN:978-90-04-16339-3
  130. ^ ا ب پ ت Jonathan Bloom؛ Sheila Blair (2009)۔ The grove encyclopedia of Islamic art and architecture, volume 2۔ Oxford University Press۔ ص 179 and 286۔ ISBN:978-0-19-530991-1
  131. "Architecture of Hyderabad during the CIB period"۔ aponline.gov.in۔ 2012-12-12 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-02-24
  132. "Heritage award for Hyderabad raises many eyebrows"۔ The Times of India۔ 2 مارچ 2012۔ 2015-02-11 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-03-20
  133. ^ ا ب George Michell (1987)۔ The new Cambridge history of India, volumes 1–7۔ Cambridge University Press۔ ص 218–219۔ ISBN:978-0-521-56321-5* "Jubilee hall a masterpiece of Asaf Jahi architecture"۔ The Siasat Daily۔ 31 دسمبر 2011۔ 2012-05-12 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-04-12
  134. "The Qutb Shahi monuments of Hyderabad Golconda Fort, Qutb Shahi tombs, Charminar"۔ یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ۔ 2010۔ 2013-02-22 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-02-22
  135. ^ ا ب Tourist guide to Andhra Pradesh۔ Sura Books۔ 2006۔ ISBN:978-81-7478-176-5۔ 2021-06-28 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-02-22
  136. "Qutb Shahi style (mainly in and around Hyderabad city)"۔ aponline.gov.in۔ 2013-01-10 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-02-24
  137. G. H. R. Tillotson (1993)۔ "Vincent J. Esch and the Architecture of Hyderabad, 1914–36"۔ South Asian Studies۔ ج 9 شمارہ 1: 29–46۔ DOI:10.1080/02666030.1993.9628458
  138. "UNESCO Asia-Pacific heritage awards for culture heritage conservation"۔ یونیسکو۔ 2010۔ 2012-04-03 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-10-08
  139. "Palaces of the Nizam: Asaf Jahi style (mainly in and around Hyderabad city)"۔ aponline.gov.in۔ 24 فروری 2013۔ 2013-07-06 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-02-24
  140. "Structure so pure"۔ The Hindu۔ 31 دسمبر 2003۔ 2012-10-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-02-22
  141. "The Paigah Palaces (Hyderabad city)"۔ aponline.gov.in۔ 2012-12-12 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-02-24
  142. "India's 25 most competitive cities"۔ Rediff.com۔ 10 دسمبر 2010۔ 2010-12-11 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2010-12-10
  143. "Employee census 2006"۔ Directorate of Economics and Statistics, Andhra Pradesh Government۔ 2006۔ 2010-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2010-05-17
  144. B. K. Sharma؛ N. T. Krishna (اکتوبر 2007)۔ "Employment–unemployment situation in million plus cities of India"۔ National Seminar on N.S.S. 61st Round Results (PDF)۔ Delhi Government۔ ص 15۔ 2011-08-12 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-06-18
  145. "Country briefing:India–economy"۔ Massachusetts Institute of Technology۔ 1 ستمبر 2010۔ 2013-05-17 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-06-18
  146. Louis Werner (1998)۔ "City of Pearls"۔ سعودی آرامکو۔ 2013-05-10 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-05-03
  147. ^ ا ب
  148. "IT exports grew 12.98% to ₹1.45 lakh cr. last fiscal"۔ The Hindu۔ 10 جون 2021۔ اخذ شدہ بتاریخ 2022-03-23
  149. Kenneth Pletcher (2011)۔ The Geography of India: Sacred and Historic Places۔ Britannica educational publishing۔ ص 188۔ ISBN:978-1-61530-202-4
    • Greg Felker؛ Shekhar Chaudhuri؛ Katalin György (1997)۔ "The pharmaceutical industry in India and Hungary"۔ World and Regional Supply and Demand Balances for Nitrogen, Phosphate, and Potash۔ World Bank Publications: 9–10۔ ISSN:0253-7494
  150. "Biotechnology and pharmaceutical opportunities in India" (PDF)۔ UK Trade & Investment۔ 2010۔ 2012-12-02 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2014-02-04
  151. "Biotech industry India" (PDF)۔ Department of Information Technology, Biotechnology and Science & Technology, Government of Karnataka۔ 2012۔ 2012-09-07 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2014-02-04
  152. "Hyderabad: India's genome valley"۔ Rediff.com۔ 30 نومبر 2004۔ 2011-05-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-06-13
  153. "Special governance for Hyderabad needed for growth"۔ The Times of India۔ 25 جون 2013۔ 2015-09-10 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-06-25
  154. ^ ا ب K.C. Sivaramakrishnan (12 جولائی 2011)۔ "Heat on Hyderabad"۔ The Times of India۔ 2015-09-10 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-04-19
  155. "Ease of doing business in Hyderabad – India (2009)"۔ World Bank Group۔ 2011-01-27 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-02-08
  156. "Telangana emerging as automobile hub"۔ The Hindu۔ 14 مارچ 2018۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-06-27
  157. "Automobile"۔ Government of Telangana۔ 2021۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-06-28
  158. "Fiat Chrysler setting up $150 million global digital hub in Hyderabad"۔ The Hindu۔ 16 دسمبر 2020۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-06-27
  159. ^ ا ب Marlis Wipper؛ Christoph Dittrich (2007)۔ "Urban street food vendors in the food provisioning system of Hyderabad" (PDF)۔ ہمبولٹ یونیورسٹی آف برلن۔ 2013-05-04 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا (PDF)۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-06-18
  160. ^ ا ب پ Sharit K. Bhowmik؛ Debdulal Saha (2012)۔ "Street vending in ten cities in India" (PDF)۔ Tata Institute of Social Sciences۔ 2013-11-05 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-06-18
  161. V.Rishi Kumar (3 نومبر 2019)۔ "Hyderabad in UNESCO list for rich culinary heritage"۔ Business Line۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-03-01
  162. "Telangana signs agreement with WEF for setting up C4IR in Hyderabad"۔ دی ہندو۔ 17 جنوری 2024۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-04-10
  163. "The courtesans of Hyderabad & Mehboob Ki Mehendi"۔ The Times of India۔ 23 دسمبر 2012۔ 2015-09-10 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-04-04
  164. sadiq Jaisi؛ Narendra Luther (2004)۔ The Nocturnal Court: The Life of a Prince of Hyderabad۔ Oxford University Press۔ ص xlii۔ ISBN:978-0-19-566605-2
  165. Hyderabad: an expat survival guide۔ Chillibreeze۔ 2007۔ ص 9۔ ISBN:978-81-904055-5-3
  166. Harriet Ronken Lynton (1987)۔ Days of the beloved۔ Orient Blackswan۔ ISBN:978-0-86311-269-0
  167. "Languages"۔ Government of Andhra Pradesh۔ 2011۔ 2012-02-08 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-04-14
  168. Md Naseeruddin (11 اگست 2011)۔ "Mosques in Hyderabad remain a picture of neglect"۔ The Times of India۔ 2015-09-11 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-08-10
  169. Radhika Rajamani (21 مارچ 2002)۔ "Clothes make-over for men"۔ The Hindu۔ 2010-11-27 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-04-22
  170. "Changing trends in city's culture"۔ The Times of India۔ 8 جولائی 2012۔ 2015-09-11 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-07-08
  171. ^ ا ب پ Karen Isaksen Leonard (2007)۔ Locating home: India's Hyderabadis abroad۔ Stanford University Press۔ ص 14 and 248–255۔ ISBN:978-0-8047-5442-2
  172. Syeda Imam (2008)۔ The Untold Charminar۔ Penguin۔ ص 187۔ ISBN:978-81-8475-971-6۔ 2021-06-28 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-08-09
  173. "Efforts should be made to preserve traditional wear"۔ The Hindu۔ 23 مارچ 2009۔ 2013-11-10 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-04-14
  174. "Anjuman Muhibban-e-Urdu to hold international mushaira"۔ The Siasat Daily۔ 13 اپریل 2012۔ 2013-11-11 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-04-13
  175. Papri Paul (21 جون 2021)۔ "Wah! This Hyderabadi family has been carrying foward [sic] the legacy of qawwali for over 900 years"۔ The Times of India۔ 2021-08-20 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-09-22
  176. Parmanand Panchal (2009)۔ "Traditional Indian Forms of Deccani Poetry"۔ Indian Literature۔ ساہتیہ اکادمی۔ ج 53 شمارہ 5 (253): 211–19۔ JSTOR:23340243۔ 2022-07-13 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2022-07-13
  177. Masud Hussain Khan (1996)۔ Mohammad Quli Qutb Shah۔ Sahitya Akademi۔ ص 50–77۔ ISBN:978-81-260-0233-7
  178. Ali Alber Husain (2001)۔ Scent in the Islamic Garden: A Study of Deccani Urdu Literary Sources۔ Oxford University Press۔ ص 40۔ ISBN:978-0-19-579334-5
  179. Amaresh Datta (2005)۔ Encyclopaedia of Indian literature: Devraj to Jyoti, Volume 2۔ Sahitya Akademi۔ ص 1260, 1746–1748۔ ISBN:978-81-260-1194-0
  180. Susie J. Tharu؛ K. Lalita (1991)۔ Women writing in India volume 1, 600 BC to the early twentieth century۔ The Feminist Press۔ ص 120–122۔ ISBN:978-1-55861-027-9
  181. "Celebrating creativity"۔ Hyderabad Literary Festival 2012۔ 2012۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-04-14
  182. "Celebrating creativity"۔ The Hindu۔ 16 جولائی 2012۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-07-16
  183. "Hyderabad-born novelist wins Sahitya Akademi Award"۔ The Hindu۔ 17 نومبر 2011۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-11-17
  184. Mohan Lal Nigam؛ Anupama Bhatnagar (1997)۔ Romance of Hyderabad culture۔ Deva Publication۔ ص 44۔ OCLC:644231278
  185. Rekha Pande (2012)۔ Tiwari, Pushpa (مدیر)۔ "Women in the Hyderabad State in 19th and 20th centuries"۔ Journal of History and Social Sciences۔ ISSN:2229-5798۔ 2013-01-04 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-12-06
  186. Abhijit Dev Kumar (23 اکتوبر 2008)۔ "It's "teen maar" for marriages, festivals"۔ The Hindu۔ 2012-01-29 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-06-17
  187. Harsh K Gupta؛ Aloka Parasher Sen؛ Dorairajan Balasubramanian (2000)۔ Deccan Heritage۔ Universities Press۔ ص 218۔ ISBN:978-81-7371-285-2
  188. "Doorway to culture in the name of Taramati"۔ The Times of India۔ 28 دسمبر 2003۔ 2015-09-12 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-06-23
  189. S. Sandeep Kumar (19 جنوری 2009)۔ "Theatre is catching up in Hyderabad"۔ The Hindu۔ 2013-11-10 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-06-23
  190. Gudipoodi Srihari (15 اپریل 2011)۔ "Verse drama feast"۔ The Hindu۔ 2013-11-10 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-06-23
  191. "Andhra Pradesh state film television and theater development corporation limited"۔ aponline.gov.in۔ 31 مارچ 2008۔ 2013-11-10 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-11-18
  192. "Exhibition named 'Numaish' at last"۔ The Siasat Daily۔ 20 دسمبر 2009۔ 2012-02-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-06-17
  193. "Tollywood | ఆ విషయంలో బాలీవుడ్‌ను వెనక్కి నెట్టేసిన టాలీవుడ్.."۔ Namasthe Telangana۔ 5 جنوری 2022۔ 2023-07-18 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2023-08-29
  194. Ashish Rajadhyaksha؛ Paul Willemen (2014)۔ Encyclopedia of Indian Cinema۔ Routledge۔ ص 172–173۔ ISBN:978-1-315-06254-9۔ 2023-10-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-09-15
  195. Suresh Kavirayani (1 مئی 2011)۔ "New breed of Hyderabadi stars"۔ The Times of India۔ 2015-09-11 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-04-13
  196. "17th international children's film fest starts in Hyderabad"۔ CNN-IBN۔ 26 دسمبر 2011۔ 2012-02-27 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-04-13
    • Sangeetha Devi K. (15 مارچ 2007)۔ "Fuelled by passion"۔ The Hindu۔ 2012-11-07 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-04-14
  197. Largest film studio۔ Guinness World Records۔ 1 جنوری 2005۔ 2014-12-18 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-02-22
  198. ^ ا ب "Miniature painting"۔ Centre for Cultural Resources and Training۔ 2013-03-18 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-06-09
  199. Mark Zebrowski (1983)۔ Deccani painting۔ University of California Press۔ ص 40–66۔ ISBN:978-0-85667-153-1
    • Ralph James؛ L Lefèvre (2010)۔ National exhibition of works of art, at Leeds, 1868: official catalogue۔ The Executive Committee۔ ص 301–313۔ ISBN:978-1-165-04393-4
  200. "Proving their mettle in metal craft"۔ The Times of India۔ 2 جنوری 2012۔ 2015-09-11 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-04-13
  201. "Geographical indications journal no:49" (PDF)۔ Government of India۔ ج 1 شمارہ 49: 15۔ 2012۔ 2013-08-09 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-09-16
  202. Allen G. Noble (2019)۔ India: Cultural Patterns And Processes۔ Routledge۔ ص 1۔ ISBN:978-0-429-72463-3۔ 2021-06-28 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-06-23
  203. Seema Singh (1988)۔ "Golconda Chintz: Manufacture and Trade in The 17th Century"۔ Proceedings of the Indian History Congress۔ ج 49: 301–305۔ JSTOR:44148394
  204. Syed Mohammed (20 جنوری 2012)۔ "Kalamkari losing Islamic thread"۔ The Times of India۔ 2015-09-11 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-04-14
  205. "Partnership with the Salar Jung museum, Hyderabad"۔ World collections programme۔ برٹش میوزیم۔ 2012-06-17 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-04-13
  206. "Muffakham Jah opens city museum"۔ The Hindu۔ 12 مارچ 2012۔ 2012-03-16 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-04-13
    • Aparna Menon (16 مئی 2011)۔ "Here's a treasure trove"۔ The Hindu۔ 2012-05-02 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-04-14
  207. Elsa Hahne (2008)۔ You are where you eat: stories and recipes from the neighborhoods of New Orleans۔ University Press of Mississippi۔ ص 47–49۔ ISBN:978-1-57806-941-5
  208. Serish Nanisetti (1 نومبر 2019)۔ "Hyderabad figures in UNESCO list for rich culinary heritage"۔ The Hindu۔ 2021-01-17 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-01-01
  209. "UNESCO designates 66 new Creative Cities"۔ یونیسکو۔ 30 اکتوبر 2019۔ 2021-02-01 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-01-07
  210. ^ ا ب Sanjeev Kapoor (2008)۔ Royal Hyderabadi cooking۔ Popular Prakashan۔ ص 3۔ ISBN:978-81-7991-373-4
  211. "Hyderabadi haleem now close to being patented"۔ این ڈی ٹی وی۔ 2 ستمبر 2010۔ 2011-12-04 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-04-14
  212. "The french connection"۔ The New Indian Express۔ 3 دسمبر 2020۔ 2021-10-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-10-26
  213. "A plateful of culture"۔ The Hindu۔ 25 نومبر 2010۔ 2016-01-01 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-10-31
  214. Khan Masood Ali (1995)۔ The history of Urdu press: a case study of Hyderabad۔ Classical Publishing۔ ص 27۔ OCLC:246868337
  215. "Magazine publishers of India"۔ Publishers Global۔ ص 1۔ 2013-02-18 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-05-13
  216. "Hyderabad Urdu papers launch campaign for simple weddings"۔ The Indian Express۔ 12 دسمبر 2012۔ 2016-01-01 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-08-01
  217. "The long and interesting story of all India Radio, Hyderabad – part 1"۔ ontheshortwaves.com۔ 15 اگست 2010۔ 2013-05-05 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-01-20
  218. ^ ا ب "South Asia: India"۔ سی آئی اے۔ 12 اپریل 2012۔ 2021-03-18 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-05-22
  219. "Radio stations in Andhra Pradesh, India"۔ asiawaves.net۔ 2011-09-27 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-09-18
  220. "Kendra's origin"۔ Doordarshan Kendra Hyderabad۔ 2008۔ 2011-11-06 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-10-07
  221. Usha Manchanda (1998)۔ "Invasion from the skies: the impact of foreign television in India"۔ Australian Studies in Journalism۔ ج 7: 146
  222. "Consolidated list of channels allowed to be carried by cable operators/ multi system operators/ DTH licensees in India" (PDF)۔ وزارت اطلاعات و نشریات، حکومت ہند۔ 2012-09-05 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-05-13
  223. Robert.S Fortner؛ P. Mark Fackler (2011)۔ The handbook of global communication and media ethics۔ John Wiley & Sons۔ ISBN:978-1-4051-8812-8
  224. "Information and communication technologies throughout the world" (PDF)۔ یونیسکو۔ 1998۔ ص 210۔ 2013-10-05 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا (PDF)۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-05-26
  225. "Hyderabad begins rollout of public WiFi"۔ Livemint۔ 16 اپریل 2015۔ 2015-04-18 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-04-16

حوالہ جات

ترمیم

بیرونی روابط

ترمیم