تعریض تعریض یہ ہے کہ مخاطَب(جس سے کلام کیا جا رہا ہے) کلام کو بغیر صراحت کے نہ سمجھ سکے۔[1] تعریض کا لغوی معنی ہے : دوسرے پر ڈھال کر بات کرنا۔[2]
علامہ ابن منظور افریقی لکھتے ہیں تعریض‘ تصریح نہ کرنے کو کہتے ہیں اور معارض کا معنی ایک چیز کا دوسری چیز سے توریہ (کنایہ) کرنا ہے
تعریض (تفعیل) مصدر۔ اشارۃ یا کنایۃ کہنا۔ تم نے اشارۃ یا کنایۃ کہا۔ جو تم نے مبہم طور پر بغیر کھولے بات کی۔
لغات القرآن میں تفسیر کبیر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے۔
امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر میں رقم طراز ہیں" تعریض لغت میں تصریح کی ضد ہے۔ اور اس کے معنی ہیں اپنی کلام میں ایسی چیز کو لے آنا کہ جو اپنے مقصود پر بھی دلالت کی صلاحیت رکھتی ہو اور غیر مقصود پر بھی مگر جانب مقصود کی طرف اس کی رہنمائی زیادہ مکمل اور زیادہ راجح ہو"۔ یہ اصل میں عرض الشیٔ سے ماخوذ ہے جس کے معنی جانب اور کنارے کے ہیں۔ گویا تعریض کرنے والا شخص اپنے مقصد کے گرد گھومتا ہے مگر اسے ظاہر نہیں کرتا۔[3]
عمران بن حصین بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا
معاریض میں جھوٹ سے بچنے کی گنجائش ہے‘ عمرفاروق نے فرمایا : معاریض مسلمان کو جھوٹ سے مستغنی کردیتی ہیں۔ ابن عباس نے فرمایا : مجھے معاریض سرخ اونٹوں سے زیادہ پسند ہیں۔ اگر کسی عورت کو اس کی عدت میں نکاح کا پیغام دینا ہو تو اس کی تصریح نہ کرے اور تعریضا کہے : تم بہت خوبصورت ہو‘ یا کہے : مجھے نکاح کی ضرورت ہے
حدیث میں ہے‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عدی بن حاتم سے فرمایا :
’’إِنَّ وِسَادَكَ لَعَرِيضٌ طَوِيلٌ‘‘ تمھارا تکیہ بہت چوڑا ہے‘‘ اور تکیہ سے ان کی نیند کا ارادہ کیا یعنی تم بہت سوتے ہو‘ حدیث میں ہے : ’’ من عرض عرضنا لہ ومن مشی علی الکلا القیناہ فی النھر‘‘۔ جو شخص تعریض کرے گا تو ہم بھی اس کے ساتھ تعریض کریں گے اور جو شخص دریا کے کنارے چلے گا وہ اس کو دریا میں ڈال دیں گے۔ اس کی تفسیر یہ ہے کہ جو شخص کسی مسلمان پر تعریضا تہمت لگائے گا تو ہم اس کو تعریضا سزا دیں گے یعنی ایسی سزا دیں گے جو حد سے کم ہوگی اور جو شخص کسی پر صراحۃ تہمت لگائے گا اور تہمت کی کشتی پر سوار ہو کر دریا میں چلے گا ہم اس پر حد جاری کریں گے اور اس کو ’’ حد‘‘ کے دریا میں ڈبو دیں گے۔[4] علامہ تفتازانی تعریض کی تعریف میں لکھتے ہیں : کلام کو ایک ایسی جانب پھیرنا جو مقصود پر دلالت کرے‘ تعریض ہے‘ یعنی جب اشارہ ایک جانب کیا جائے اور مراد دوسری جانب ہو تو یہ تعریض ہے۔[5] جب کلام میں صراحۃ ایک شخص کی طرف کسی فعل کا اسناد ہو اور اشارہ اور مراد کوئی دوسرا شخص ہو تو یہ تعریض ہے مثلا کوئی بڑا افسر دیر سے دفتر میں آتا ہو جس سے لوگوں کے کاموں میں دشواری ہوتی ہو اور اس کو صراحۃ تنبیہ کرنا اس کے وقار اور مرتبہ کے خلاف ہو تو کوئی شخص اس سے کہے کہ دفتر کا سٹاف یا کلرک وغیردیر سے دفتر آتے ہیں اور اس سے بڑا حرج ہوتا ہے۔ درمختارمیں ہے
الْكَذِبُ مُبَاحٌ لِإِحْيَاءِ حَقِّهِ وَدَفْعِ الظُّلْمِ عَنْ نَفْسِهِ وَالْمُرَادُ التَّعْرِيضُ لِأَنَّ عَيْنَ الْكَذِبِ حَرَامٌ۔
اپنے حق کو ثابت اور ظلم کو ختم کرنے کے لیے جھوٹ مباح ہے اس جھوٹ سے مراد تعریض ہے نہ کہ عین جھوٹ کیونکہ ٰیہ حرام ہے۔[6] ردالمحتارمیں ہے:
وَحَيْثُ أُبِيحَ التَّعْرِيضُ لِحَاجَةٍ لَا يُبَاحُ لِغَيْرِهَا لِأَنَّهُ يُوهِمُ الْكَذِب
جہاں کسی حاجت کی وجہ سے تعریض جائز ہے وہاں بغیر حاجت جائز نہیں، کیونکہ تعریض جھوٹ کا وہم پیدا کرتی ہے۔[7]

حوالہ جات

ترمیم
  1. التعریفات،جرجانی،باب التاء ،ص45
  2. المنجد
  3. اانوار البیان فی حل لغات القرآن، علی محمد، البقرہ،235
  4. لسان العرب ج 7 ص 184۔ 183 مطبوعہ نشر ادب الحوذۃ‘ قم
  5. مختصر المعانی ص 441۔ 440‘ مطبوعہ میرمحمد کتب خانہ‘ کراچی
  6. درمختار، کتاب الحظر والاباحۃ ،فصل فی البیع
  7. ردالمحتار، کتاب الحظر والاباحۃ، فصل فی البیع،داراحیاء التراث العربی بیروت