تعویذ
تعویذ کی لغوی معنی "حفاظت کی دعا کرنا" کے ہیں۔[1] عربی میں "عَوَّذَ تَعوِِِيذًا وِ أعَاذَ" (مادہ عوذ کے تحت) باب تفعيل کے وزن سے تعویذ بنتا ہے۔[2] دوسرے لفظوں میں اسے "تحریری دعا" کہا جا سکتا ہے۔ جس طرح زبانی دعا کی قبولیت و اثرپذیری الله تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہے، ٹھیک اسی طرح پر قرآن کی آیات پر مشتمل تعویذ یعنی "تحریری دعا" کے اثرات و فوائد بھی الله تعالیٰ کی مشیت و مرضی پر ہی منحصر ہے۔ معاشرے میں جوں جوں شرح خواندگی بڑھ تعویذ گنڈے پر اعتقاد لوگوں کا کم ہو رہا ہے
مَثَلاً : حدیث_بخاری و مسلم میں ہے کہ رسول الله (صلی الله علیہ وسلم) پر لبید بن اعصم یہودی کے کیے ہوئے سحر (جادو) کے اثرات ختم کرنے کے لیے وحی الہی کی ہدایت پر آپ (صلی الله علیہ وسلم) پر "معوذتين" یعنی سوره الناس اور سوره الفلق کا تلاوت کرنا، صحابی رسول حضرت ابو سعید خدری (رضی الله عنہ) سے مروی وہ حدیث جس میں انھوں ایک سفر میں سورہ الفاتحہ پڑھ کر دم کرنے کے عمل سے سانپ کے کاٹے ہوئے ایک مریض کا علاج کیا تھا اور وہ تندرست ہو گیا تھا اور بعد میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے سارا واقعہ سنکر سورہ الفاتحہ کی اس تاثیر کی تصدیق فرمائی تھی۔
احادیث میں تعویذ بطور دعا ہونے کا ثبوت
ترمیمعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَوِّذُ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ «أُعِيذُكُمَا بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ، مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ، وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ» ثُمَّ يَقُولُ: «كَانَ أَبُوكُمْ يُعَوِّذُ بِهِمَا إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ» قَالَ أَبُو دَاوُدَ: «هَذَا دَلِيلٌ عَلَى أَنَّ الْقُرْآنَ لَيْسَ بِمَخْلُوقٍ[3]
عن جابر رضی اللہ عنہ السئل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن النشرة فقال ہو من عمل الشیطان رواہ أبوداوٴد قال العلي القاري فی المرقاة النوع الذي کان من أہل الجاھلیة یعالجون بہ ویعتقدون فیہ وأما ما کان من الآیات القرآن والأسماء والصفات الربانیة والدعوات والماثورة النبویة فلا بأس بل یستحب سواء کان تعویذًا أو رقیة أو نشرة.[4]
احادیث میں تعویذ بطور تحریر ہونے کا ثبوت
ترمیمعَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " يُعَلِّمُهُمْ مِنَ الْفَزَعِ كَلِمَاتٍ : أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ غَضَبِهِ وَشَرِّ عِبَادِهِ وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَأَنْ يَحْضُرُونِ " وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرٍو يُعَلِّمُهُنَّ مَنْ عَقَلَ مِنْ بَنِيهِ وَمَنْ لَمْ يَعْقِلْ كَتَبَهُ فَأَعْلَقَهُ عَلَيْهِ. [5]
ترجمہ : حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ ان کے والد سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی نیند میں ڈر جائے تو یہ دعا پڑھےأَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضَبِهِ وَعِقَابِهِ وَشَرِّ عِبَادِهِ وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَأَنْ يَحْضُرُونِ فَإِنَّهَا لَنْ تَضُرَّهُ وَکَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ يُلَقِّنُهَا مَنْ بَلَغَ مِنْ وَلَدِهِ وَمَنْ لَمْ يَبْلُغْ مِنْهُمْ کَتَبَهَا فِي صَکٍّ ثُمَّ عَلَّقَهَا فِي عُنُقِهِ (یعنی۔ میں اللہ کے غضب، عقاب، اس کے بندوں کے فساد، شیطانی وساوس اور ان (شیطانوں) کے ہمارے پاس آنے سے اللہ کے پورے کلمات کی پناہ مانگتا ہوں) اگر وہ یہ دعا پڑھے گا تو وہ خواب اسے ضرر نہیں پہنچا سکے گا۔ عبد الرحمن بن عمرو یہ دعا اپنے بالغ بچوں کو سکھایا کرتے تھے اور نابالغ بچوں کے لیے لکھ کر ان کے گلے میں ڈال دیا کرتے تھے۔[6][7][8]
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ مصباح اللغات: 583
- ↑ "المنجد: صفحہ 593"
- ↑ ترمذي : ج2 ص26
- ↑ مرقاة : ج8 ص361
- ↑ أبوداوٴد : ج2 ص97
- ↑ جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 1479 (29413) دعاؤں کا بیان
- ↑ سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 503 (18572) - طب کا بیان : تعویز کیسے کیے جائیں
- ↑ مصنف ابن أبي شيبة » كِتَابُ الطِّبِّ » مَنْ رَخَّصَ فِي تَعْلِيقِ التَّعَاوِيذِ، رقم الحديث: 22933