تقلید (اصطلاح)

(تقلید سے رجوع مکرر)

مشترک قوانین کا ایسا مجموعہ جو استنباط حکم شرعی میں فقیہ کو مسئلہ کشف کرنے کے لیے درکار ہوتا ہے

لغوی معنی ترمیم

تقلید کا معنی لغت میں پیروی ہے اور لغت کے اعتبار سے تقلید، اتباع، اطاعت اور اقتداء کے سب ہم معنی ہیں۔ مختار الصحاح : 758، موسوعه فقہیہ : 1 / 264 - 265، فیروز الغاتآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ islamicbookslibrary.wordpress.com (Error: unknown archive URL): ا - ت]

تقلید کے لفظ کا مادہ "قلادہ" ہے۔ جب انسان کے گلے میں ڈالا جائے تو "ہار" کہلاتا ہے۔

تقلید کا مادہ "قلادہ" ہے، باب تفعیل سے "قلد قلادۃ" کے معنی ہار پہننے کے ہیں؛ چنانچہ خود حدیث میں بھی "قلادہ" کا لفظ "ہار" کے معنی میں استعمال ہوا ہے:

حضرت عائشہ رضي الله عنہا سے مروی ہے: "اسْتَعَارَتْ مِنْ أَسْمَاءَ قِلَادَةً"۔ (بخاری، كِتَاب النِّكَاحِ،بَاب اسْتِعَارَةِ الثِّيَابِ لِلْعَرُوسِ وَغَيْرِهَا،حدیث نمبر:4766، شامله، موقع الإسلام) ترجمہ:انھوں نے حضرت اسماءؓ سے ہار عاریۃً لیا تھا۔

تقلید کا اصطلاحی معنی ترمیم

اصولین کے نزدیک تقلید کے اصطلاحی معنی:

دلیل کا مطالبہ کیے بغیر کسی امام مجتہد کی بات مان لینے اور اس پرعمل کرنے کے ہیں،

قاضی محمدعلی لکھتے ہیں:

"التقلید اتباع الانسان غیر ہ فیما یقول او یفعل معتقدا للحقیقة من غیر نظر الی الدلیل"۔

(کشف اصطلاحات الفنون:1178)

ترجمہ: تقلید کے معنی یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی دوسرے کی قول و فعل میں دلیل طلب کیے بغیر اس کو حق سمجھتے ہوئے اتباع کرے۔

جائز و ناجائز اتباع و تقلید ترمیم

اسلام میں کسی بھی امام نے شخصی تقلید کی شرعی حیثیت بیان نہیں کی اگر دیکھا جائے تو چاروں ائمہ کرام نے صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل بیان کیے ہیں لیکن دین اسلام کے پچیدہ مسائل میں اپنی "ذاتی رائے" بھی شامل کی ہے اسی بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے چاروں اماموں نے اپنی تقلید کرنے سے بھی منع فرمایا ہے چنانچہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ "اگر میرا قول قرآن و حدیث کے مطابق نہ ہو تو اسے دیوار سے مار دو" اسی طرح باقی ائمہ کرام کا بھی یہ موقف ہے کہ پیروی صرف قرآن و صحیح احادیث کی جائز ہے کیونکہ ائمہ اربعہ سے اجتہادی غلطیوں کا خدشہ بہرحال موجود ہے اس لیے عمل اسی بات پر کیا جائے گا جس کا حکم ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو دیا ہے اور فرد واحد کی تقلید نہیں کی جائے گی۔

جس طرح لغت کے اعتبار سے کتیا کے دودھ کو بھی دودھ ہی کہا جاتا ہے اور بھینس کے دودھ کو بھی دودھ کہتے ہیں۔ مگر حکم میں حرام اور حلال کا فرق ہے اسی طرح تقلید کی بھی دو قسمیں ہیں۔ اگرحق کی مخالفت کے لیے کسی کی تقلید کرے تو یہ مذموم ہے جیسا کہ کفار و مشرکین، خدا اور رسول ﷺ کی مخالفت کے لیے اپنے گمراہ وڈیروں کی تقلید کرتے تھے۔ اگر حق پر عمل کرنے کے لیے تقلید کرے کہ میں مسائل کا براہ راستی استنباط نہیں کر سکتا اور مجتہد کتاب و سنت کو ہم سے زیادہ سمجھتا ہے۔ اس لیے اس سے خدا و رسول ﷺ کی بات سمجھ کر عمل کرے تویہ تقلید جائز اور واجب ہے ۔

علامہ خطیب بغدادی شافعی رح (٣٩٢-٤٦٢ھ) فرماتے ہیں:

احکام کی دو قسمیں ہیں: عقلی اور شرعی۔

عقلی احکام میں تقلید جائز نہیں، جیسے صانع عالم (جہاں کا بنانے-والا) اور اس کی صفات (خوبیوں) کی معرفت (پہچان)، اس طرح رسول الله صلے الله علیہ وسلم اور آپ کے سچے ہونے کی معرفت وغیرہ۔ عبید الله بن حسن عنبری سے منقول ہے کہ وہ اصول_دین میں بھی تقلید کو جائز کہتے ہیں، لیکن یہ غلط ہے اس لیے کہ الله تعالٰیٰ فرماتے ہیں کہ "تمھارے رب کی طرف سے جو وحی آئی اسی پر عمل کرو، اس کے علاوہ دوسرے اولیاء کی اتباع نہ کرو، کس قدر کم تم لوگ نصیحت حاصل کرتے ہو"(٧:٣).

اسی طرح الله تعالٰیٰ فرماتے ہیں کہ "جب ان سے کہا جاتا ہے کہ الله کی اتاری ہوئی کتاب کی اتباع کرو تو وہ لوگ کہتے ہیں یا نہیں، ہم اس چیز کی اتباع کرینگے جس پر ہم نے اپنے باپ دادہ کو پایا، چاہے ان کے باپ دادا بے عقل اور بے ہدایت ہوں"(٢:١٧٠)

اسی طرح الله تعالٰیٰ فرماتے ہیں کہ"ٹھہرالیا اپنے عالموں اور درویشوں کو خدا (یعنی الله کے واضح احکام_حلال و حرام کے خلاف ان کو حاکم - حکم دینے والا), اللہ کو چھوڑ کر۔.."(٩:٣١)

دوسری قسم: احکام_شرعیہ اور ان کی دو قسمیں ہیں:

١) دین کے وہ احکام جو وضاحت و صراحت سے معلوم ہوں، جیسے نماز، روزہ، حج، زكوة اسی طرح زنا و شراب کا حرام ہونا وغیرہ تو ان میں تقلید جائز نہیں ہے کیونکہ ان کے جاننے میں سارے لوگ برابر ہیں، اس لیے ان میں تقلید کا کوئی معنی نہیں۔

٢) دین کے وہ احکام جن کو نظر و استدلال کے بغیر نہیں جانا جا سکتا، جیسے: عبادات، معاملات، نکاح وغیرہ کے "فروعی" مسائل، تو ان میں تقلید کرنی ہے۔

اللّہ تعالٰیٰ کے قول "پس تم سوال کرو اہل_علم (علما) سے، اگر تم نہیں علم رکھتے"(١٦:٤٣، ٢١:٧) کی دلیل سے .

اور وہ لوگ جن کو تقلید کرنی ہے (یہ) وہ حضرات ہیں جن کو احکام_شرعیہ کے استنباط (٤:٨٣) کے طریقے معلوم نہیں ہیں، تو اس کے لیے "کسی" عالم کی تقلید اور اس کے قول پر عمل کے بغیر چارہ نہیں ہے۔ الله تعالٰیٰ کا ارشاد ہے: "پس تم سوال کرو اہل_علم (علما) سے، اگر تم نہیں علم رکھتے"(١٦:٤٣، ٢١:٧)

حضرت ابن_عباس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی رسول الله صلے الله علیہ وسلم کے دور میں زخمی ہو گئے، پھر انھیں غسل کی حاجت ہو گئی، "لوگوں" نے انھیں غسل کا حکم دے دیا جس کی وجہ سے ان کی موت ہو گئی۔ اس کی اطلاع نبی صلے الله علیہ وسلم کو ہوئی تو آپ نے فرمایا: الله ان کو قتل (برباد) کرے کہ ان لوگوں نے اس کو قتل کر دیا۔، ناواقفیت کا علاج (اہل_علم سے ) دریافت کرنا نہ تھا؟...الخ (سنن أبي داود » كِتَاب الطَّهَارَةِ » بَاب فِي الْمَجْرُوحِ يَتَيَمَّمُ، رقم الحديث: ٢٨٤(٣٣٦)

دوسری اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ اہل_اجتہاد میں سے نہیں ہے تو اس پر تقلید ہی فرض ہے۔ جیسے نابینا، جس کے پاس ذریعہ_علم نہیں ہے تو قبلے کے سلسلے میں اس کو کسی دیکھنے والے(بینا) کی بات ماننی ہوگی۔

مومن (اسلام کے ماننے والے) باپ دادا کی اتباع: اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد بھی (راہ) ایمان میں ان کے پیچھے چلی۔ ہم ان کی اولاد کو بھی ان (کے درجے) تک پہنچا دیں گے۔..(٥٢:٢١) الفقيه والمتفقه: ٢ /١٢٨-١٣٣،علامہ خطیب بغدادی شافعی رح (٣٩٢-٤٦٢ھ)، مطبوعہ دار ابن الجوزیہ

تقلید کی قسمیں ترمیم

تقلید کی دوقسمیں ہیں: (1) تقلیدِ مطلق (2) تقلیدِ شخصی۔

تقلید مطلق ترمیم

تقلید مطلق سے مراد یہ ہے کہ مسائل و احکام کی تحقیق میں انسان کسی ایک فقیہ کا پابند ہوکر نہ رہ جائے؛ بلکہ مختلف مسائل میں مختلف اصحاب علم سے فائدہ اٹھائے، یہ تقلید ہر زمانہ میں ہوتی رہی ہے، خود قرآن اس تقلید کا حکم دیتا ہے، ارشادِ خداوندی ہے:

  1. "يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ"۔ (النساء:59)

ترجمہ:اے ایمان والو! اللہ اور رسول اللہ (صلی الله علیہ وسلم) کی اطاعت کرو اور تم میں جوصاحب امر ہیں ان کی اطاعت کرو۔

اس آیتِ کریمہ میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کے بعد "أُولِي الْأَمْرِ" کی اتباع کا حکم فرمایا گیا ہے "أُولِي الْأَمْرِ" سے کون لوگ مراد ہیں؛ اگرچہ اس میں علما کی رائیں مختلف ہیں؛ لیکن اکثرمفسرین اس سے فقہا اور علما مراد لیتے ہیں، حاکم نے حضرت عبد اللہ ابن جابر کا قول نقل کیا ہے:

"أُولِي الْأَمْرِ، قال الفقہ والخیر"۔ (مستدرک:1/123)

ترجمہ: "أُولِي الْأَمْرِ" سے مراد اصحابِ فقہ وخیر ہیں۔

ترجمان القرآن میں حضرت ابن عباسؓ کی بھی یہی تفسیر نقل کی گئی ہے:

"أُولِي الْأَمْرِ، یعنی اهل الفقه والدین"۔ (مستدرک:1/123)

ترجمہ: "أُولِي الْأَمْرِ" سے اصحاب فقہ اور اہلِ دین مراد ہیں۔

فَإِن تَنٰزَعتُم فى شَيءٍ فَرُدّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسولِ إِن كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ ۚ ذٰلِكَ خَيرٌ وَأَحسَنُ تَأويلًا {4:59}

پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اس کو لوٹاؤ طرف اللہ کے اور رسول کے اگر یقین رکھتے ہو اللہ پر اور قیامت کے دن پر یہ بات اچھی ہے اور بہت بہتر ہے اس کا انجام۔

مفسر امام ابو بکر جصاص رح نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہیں کہ:

"اولو الامر" کی اطاعت دینے کے فورا بعد الله تعالٰیٰ کا یہ فرمانا کہ "پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اس کو لوٹاؤ اللہ اور رسول کی طرف" یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اولو الامر سے مراد "علما و فقہا" ہیں، کیونکہ الله تعالٰیٰ نے لوگوں کو ان کی اطاعت کا حکم دیا (یعنی جس بات پر ان کا اتفاق و اجماع جو وہ بھی قرآن و سنّت کی بعد قطعی دلیل و حکم ہے)، "پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں" فرماکر اولو الامر (علما) کو حکم دیا جس معاملہ میں ان کے درمیاں اختلاف ہو اسے الله کی کتاب اور نبی کی سنّت کی طرف لوتادو، یہ حکم "علما و فقہا" ہی کو ہو سکتا ہے، کتونکہ عوام الناس اور غیر عالم کا یہ مقام نہیں ہے، اس لیے کہ وہ اس بات س واقف نہیں ہوتے کہ کتاب الله و سنّت کی طرف کسی معاملہ کو لوٹانے کا کیا طریقہ ہے اور نہ انھیں نت نئے مسائل (کا حل قرآن و سنّت سے اجتہاد کرتے) مستنبط کرنے کے دلائل کے طریقوں کا علم ہوتا ہے، لہذا ثابت ہو گیا کہ یہ خطاب علما و فقہا کو ہے۔ [ احکام القرآن : 2/257]

  1. ... فَسـَٔلوا أَهلَ الذِّكرِ إِن كُنتُم لا تَعلَمونَ (النحل:٤٣)

...پس تم سوال کرو اہل_علم (علما) سے، اگر تم نہیں علم رکھتے۔

اس آیت میں یہ اصولی ہدایت دیدی گئی ہے کہ جو لوگ کسی علم و فن کے ماہر نہ ہوں، انھیں چاہیے کہ اس علم و فن کے ماہرین سے پوچھ پوچھ کر عمل کر لیا کریں، یہی چیز تقلید کہلاتی ہے چنانچہ علامہ آلوسی بغدادی (الحنفی) رح اس طرح فرماتے ہیں: اور اس آیت میں اس بات پر بھی استدلال کیا گیا ہے جس چیز کا علم اسے خود نہ ہو اس میں علما سے رجوع کرنا واجب ہے۔ اور علامہ جلال الدین السیوطی (الشافعی) رح اقلیل میں لکھتے ہیں کہ اس آیت میں اس بات پر استدلال کیا گیا ہے کہ عام آدمیوں کے لیے فروعی مسائل میں تقلید جائز ہے۔[تفسیر روح المعانی: ١٤/١٤٨،سورہ النحل]

حضرت جابر (رضی الله عنہ) سے روایت ہے رسول الله صلے الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عالم (دینی بات جاننے والے) کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ جانتے ہوئے خاموش رہے اور جاہل (نہ جاننے والے) کے لیے مناسب نہیں ہے کہ اپنی جہالت پر خاموش رہے۔ الله تعالٰیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ... پس تم سوال کرو اہل_علم (علما) سے، اگر تم نہیں علم رکھتے۔ (النحل:٤٣) [المعجم الأوسط للطبراني » بَابُ الْمِيمِ » مَنِ اسْمُهُ : مُحَمَّدٌ، رقم الحديث: ٥٥١١(٥٣٦٥) بحوالہ تفسیر_در_منثور] تابعین میں، جیسے عطاء، حسن بصریؒ وغیرہ سے بھی "أُولِي الْأَمْرِ" کے معنی اہلِ علم اور اصحاب فقہ کے منقول ہیں، آیتِ مذکورہ کے علاوہ قرآن پاک کی بعض اور آیات (النساء، التوبۃ) میں بھی اس کی طرف اشارہ موجود ہے، حدیثیں تواس پرکثرت سے شاہد ہیں اور صحابہ م اجمعین کا طرزِ عمل بھی تقلید مطلق کی تائید میں ہے۔

تقلیدِ شخصی ترمیم

تقلید کی دوسری قسم تقلید شخصی ہے، یعنی کسی ناواقف عامی (غیر عالم شخص) کا کسی متعین شخص کے علم و کمال پر بھروسا کر کے اسی کے بتائے ہوئے طریقہ کار پر عمل کرنے کو تقلید شخصی کہتے ہیں۔

مشہور حدیث ہے کہ رسول اللہ (صلی الله علیہ وسلم) نے حضرت معاذ ابنِ جبل کو یمن کا حاکم بناکر بھیجا؛ تاکہ وہ لوگوں کو دین کے مسائل بتائیں اور فیصلہ کریں:

"عَنْ مُعَاذٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذًا إِلَى الْيَمَنِ فَقَالَ كَيْفَ تَقْضِي فَقَالَ أَقْضِي بِمَا فِي كِتَابِ اللَّهِ قَالَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ قَالَ فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَجْتَهِدُ رَأْيِي وَلَا آلُو، فَضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدْرَهُ، وَقَالَ : الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللَّهِ لِمَا يُرْضِي رَسُولَ اللَّهِ "

[سنن ابوداؤد:جلد سوم: فیصلوں کا بیان :قضاء میں اپنی رائے سے اجتہاد کرنے کا بیان; (جامع ترمذی، كِتَاب الْأَحْكَامِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب مَاجَاءَ فِي الْقَاضِي كَيْفَ يَقْضِي،حدیث نمبر:1249، شاملہ، موقع الإسلام]

ترجمہ: جب حضور اکرم نے حضرت معاذ کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجنے کا ارادہ کیا فرمایا تم کس طرح فیصلہ کرو گے جب تمھارے پاس کوئی مقدمہ پیش ہو جائے انھوں نے فرمایا کہ اللہ کی کتاب سے فیصلہ کروں گا آپ نے فرمایا اگر تم اللہ کی کتاب میں وہ مسئلہ نہ پاؤ تو فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر سنت رسول میں بھی نہ پاؤ تو اور کتاب اللہ میں بھی نہ پاؤ تو انھوں نے کہا کہ اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور اس میں کوئی کمی کوتاہی نہیں کروں گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے سینہ کو تھپتھپایا اور فرمایا کہ اللہ ہی کے لیے تمام تعریفیں ہیں جس نے اللہ کے رسول کے رسول (معاذ) کو اس چیز کی توفیق دی جس سے رسول اللہ راضی ہیں۔

پس گویا اہلِ یمن کو حضرتِ معاذؓ کی شخصی تقلید کا حکم دیا گیا۔

کن مسائل میں تقلید کی جاتی ہے؟ ترمیم

درج بالہ حدیث اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اگر مجتہد کوئی مسئلہ کتاب و سنت میں نہ پائے تو اجتہاد کر سکتا ہے اور لوگوں کے لیے اس کی اتباع و تقلید ضروری ہوگی۔

مثال کے طور پر چند جدید مسائل_اجتہادیہ؛ جن کا واضح حکم نہ قرآن میں ہے نہ حدیث میں:

١. ٹیلی فون کے ذریعے نکاح

٢. انتقال_خون(خون کا کسی مریض کو منتقل کرنا)

٣. اعضاء کی پیوند-کاری

٤. حالت_روزہ میں انجیکشن کا مسئلہ

٥. لاؤڈ-اسپیکر پر اذان کا مسئلہ

٦. ڈیجیٹل تصویر کا مسئلہ وغیرہ

کن کی تقلید کی جائے؟ ترمیم

ظاہر ہے مسائل اجتہاديہ میں مجتہد کی ہی تقلید کی جائے گی اور مجتہد کا اعلان ہے کہ

قیاس مظہر لامثبت (شرح عقائد نسفی)

یعنی ہم کوئی مسئلہ اپنی ذاتی رائے سے نہیں بتاتے بلکہ ہر مسئلہ کتاب و سنت و اجماع سے ہی ظاہر کر کے بیان کرتے ہیں

کون تقلید کرے؟ ترمیم

مسائل اجتہادیہ میں کتاب وسنت پر عمل کرنے کے دو ہی طریقے ہیں:

جو شخص خود مجتہد ہو گا وہ خود قواعد اجتہادیہ سے مسئلہ تلاش کر کے کتاب و سنت پر عمل کرے گا

اور غیر مجتہد یہ سمجھ کر کہ میں خود کتاب و سنت سے مسئلہ استنباط کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا، اس لیے کتاب و سنت کے ماہر سے پوچھ لوں کہ میں کتاب و سنت کا کیا حکم ہے۔ اس طرح عمل کرنے کو تقلید کہتے ہیں۔ اور مقلد ان مسائل کو ان کی ذاتی رائے سمجھ کرعمل نہیں کرتا بلکہ یہ سمجھ کر کہ مجتہد نے ہمیں مراد خدا اور مراد رسول ﷺ سے آگاہ کیا ہے۔

تقلیدِ_شخصی حیات_نبوی (صلی الله علیہ وسلم) میں ترمیم

ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا:

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا أَبَانُ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، حَدَّثَنِي أَبُو حَسَّانَ، عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ، أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، وَرَّثَ أُخْتًا وَابْنَةً فَجَعَلَ لِكُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا النِّصْفَ، وَهُوَ بِالْيَمَنِ وَنَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ حَيٌّ .(تیسیر کلکتہ : صفحہ#٣٧٩، کتاب الفرائض، فصل ثانی)

ترجمہ: أسود بن يزيد سے روایت ہے کہ انھوں نے بیان کیا کہ ہمارے پاس معاذ (بن جبل رضی اللہ تعالٰیٰ عنہ) یمن میں معلم اور امیر ہو کر آئے تو ہم نے ان سے اس شخص کے متعلق پوچھا جو فوت ہو گیا اور ایک بیٹی اور ایک بہن چھوڑ کر گیا تو انھوں نے بیٹی کو نصف اور بہن کو نصف دلایا۔

فائدہ: اس حدیث سے تقلید_شخصی ثابت ہوتی ہے اور وہ بھی حیات_رسول الله صلے الله علیہ وسلم میں۔ کیونکہ جب رسول الله صلے الله علیہ وسلم نے تعلیم_احکام اور فیصلوں کے لیے قاضی مقرر کرتے حضرت معاذ (رضی الله عنہ) کو یمن بھیجا تو يقينا اہل_یمن کو اجازت دی کہ ہر مسئلے میں ان سے رجوع کریں اور یہی تقلید_شخصی ہے، جیسا ابھی اوپر بیان ہوا۔

تقلیدِ_شخصی بعد حیات_نبوی (صلی الله علیہ وسلم) ترمیم

  1. عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ أَبِيهِ : " أَنَّ امْرَأَةً سَأَلَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا، فَأَمَرَهَا أَنْ تَرْجِعَ إِلَيْهِ، فَقَالَتْ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ إِنْ جِئْتُ فَلَمْ أَجِدْكَ؟ قَالَ أَبِي : كَأَنَّهَا تَعْنِي الْمَوْتَ، قَالَ : فَإِنْ لَمْ تَجِدِينِي فَأْتِي أَبَا بَكْرٍ "

[صحيح مسلم » كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ » بَاب مِنْ فَضَائِلِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ ...رقم الحديث: 4405(2388)]

ترجمہ: حضرت محمد بن جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالٰیٰ عنہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی چیز کا سوال کیا تو آپ نے اس عورت کو دوبارہ آنے کے لیے فرمایا، اس عورت نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر میں پھر آؤں اور آپ کو (موجود) نہ پاؤں؟ (یعنی آپ اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہوں تو؟) آپ نے فرمایا اگر تو مجھے نہ پائے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰیٰ عنہ کے پاس آ جانا (اس حدیث سے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰیٰ عنہ کی خلافت بلا فصل اور تقلید_شخصی ثابت اور واضح ہے، اس عورت کو آپ صلے الله علیہ وسلم سے مسئلہ ہی تو پوچھنا تھا۔[جن احادیث میں سوال کا لفظ واضح لکھا ہے:

فائدہ: "من بعدی" سے ان کی تقلید_شخصی ثابت اور واضح ہے، پس ایک معین شخص کی اتباع کا حکم فرمایا اور یہ کہیں نہیں فرمایا کہ ان سے احکام کی دلیل بھی دریافت کر لیا کرنا اور نہ یہ عادت مستمرہ (جاریہ) تھی کہ دلیل کی تحقیق ہر مسئلے میں کی جاتی ہو اور یہی تقلید_شخصی ہے۔ کیونکہ حقیقت_تقلید_شخصی یہ ہے کہ ایک شخص کو جو مسئلہ پیش آوے وہ کسی مرجح کی وجہ سے ایک ہی عالم سے رجوع کیا کرے اور اس سے تحقیق کر کے عمل کیا کرے۔ اور اس مقام میں اس کے وجوب سے بحث نہیں اور آگے مذکور ہے اس کا جواز اور مشروعیت اور موافقت اور سنّت ثابت کرنا مقصود ہے، گویا ایک معین زمانے کے لیے سہی۔

  1. عن هُزَيْلَ بْنَ شُرَحْبِيلَ، قَالَ : " سُئِلَ أَبُو مُوسَى، عَنْ بِنْتٍ، وَابْنَةِ ابْنٍ، وَأُخْتٍ، فَقَالَ : لِلْبِنْتِ النِّصْفُ، وَلِلْأُخْتِ النَّصْفُ "، وَأَتِ ابْنَ مَسْعُودٍ فَسَيُتَابِعْنِي، فَسُئِلَ ابْنُ مَسْعُودٍ، وَأُخْبِرَ بِقَوْلِ أَبِي مُوسَى، فَقَالَ لَقَدْ ضَلَلْتُ إِذًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُهْتَدِينَ " أَقْضِي فِيهَا بِمَا قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لِلْابْنَةِ النِّصْفُ، وَلِابْنَةِ ابْنٍ السُّدُسُ تَكْمِلَةَ الثُّلُثَيْنِ، وَمَا بَقِيَ فَلِلْأُخْتِ " . فَأَتَيْنَا أَبَا مُوسَى، فَأَخْبَرْنَاهُ بِقَوْلِ ابْنِ مَسْعُودٍ، فَقَالَ : لَا تَسْأَلُونِي مَا دَامَ هَذَا الْحَبْرُ فِيكُمْ .

[صحيح البخاري » كِتَاب الْفَرَائِضِ » بَاب مِيرَاثِ ابْنَةِ الِابْنِ مَعَ بِنْتٍ، رقم الحديث: 6269]

ترجمہ: حضرت هذيل بن شرحبيل رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو موسیٰ رضی الله عنہ سے ایک مسئلہ پوچھا گیا پھر وہی مسئلہ حضرت ابن_مسعود رضی الله عنہ سے پوچھا گیا اور حضرت ابو موسیٰ رضی الله عنہ کے فتویٰ کی بھی ان کو خبر دی گئی تو انھوں نے اور طور سے فتویٰ دیا، پھر ان کے فتویٰ کی خبر حضرت ابو موسیٰ رضی الله عنہ کو دی گئی تو انھوں نے فرمایا کہ جب تک یہ عالم متبحر تم لوگوں میں موجود ہیں تم مجھ سے مت پوچھا کرو۔- روایت کیا اس کو بخاری، ابو داود اور ترمذی نے

فائدہ: حضرت ابو موسیٰ رضی الله عنہ کے اس فرمانے سے کہ ان کے ہوتے ہوئے مجھ سے مت پوچھو، ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ہر مسئلہ میں ان سے پوچھنے کے لیے فرمایا ہے اور یہی تقلید_شخصی ہے کہ ہر مسئلہ میں کسی مرجح کی وجہ سے کسی ایک عالم سے رجوع کر کے عمل کرے۔

صحابہ_کرام رضی الله عنھم اور تقلید ترمیم

اس بات میں ذرہ برابر بھی گنجائش نہیں کہ نبی صلے الله علیہ وسلم کے جملہ صحابہ کرام رضی الله عنہ شرف_صحبت_نبوی کے فیض و برکت سے سب کے سب عادل، ثقه، متقی، خدا-پرست اور پاکباز تھے، مگر فہم_قرآن، تدبر_حدیث اور تفقہ فی الدین میں سب یکساں نہ تھے، بلکہ اس لحاظ سے ان کے آپس میں مختلف درجات اور متفاوت مراتب تھے۔

امام الفقیہ اور احد الاعلام حضرت امام مسروق رح (المتوفی ٢٣-ہجری) سے مروی ہے کہ میں نے اصحاب_رسول الله صلے الله علیہ وسلم کے علم کی خوشبو حاصل کی تو میں نے ان کے علم کی انتہا چھ (٦) پر پائی، حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عبد الله، حضرت معاذ(بن جبل)، حضرت ابو درداء اور حضرت زید بن ثابت رضی الله عنہم۔ میں نے ان کے علم کی خوشبو پائی تو مجھے تو مجھے ان کے علم کی انتہا حضرت علی اور حضرت عبد الله (بن مسعود) رضی الله عنہم پر ملی۔طبقات ابن سعد:٢/٢٥، تذكرة الحفاظ:١/٢٤ و مقدمه ابن صلاح:٢٦٢ مع شرح العراقي، مستدرك حاكم:٣/٤٦٥ اور اس روایت پر امام حاکم اور امام ذہبی رح خاموش رہے یعنی جرح نہیں فرمائی]

معلوم ہوا کہ صحابہ_کرام رض بھی فقہ_دین (قرآن=٩:١٢٢) پر عمل-پیرا تھے اور اپنے دور کے چھ بڑے معتبر اصحاب کی تقلید کرتے تھے۔ کتب_احادیث مصنف عبد الرزاق، مصنف ابن ابی شیبہ، تہذیب الآثار طبری، شرح معانی الآثار طحاوی، کتاب الآثار امام محمّد، کتاب الآثار امام ابی یوسف میں صحابہ اور تابعین کے ہزا رہا فتاویٰ درج ہیں جن کے ساتھ دلائل مذکور نہیں، انھوں نے بلا-ذکر_دلیل یہ فتاویٰ صادر فرماتے اور سب لوگوں نے بلا-مطالبہ_دلیل ان پر عمل کیا، یہ عمل اسلام میں پہلے دن سے آج تک تواتر سے ثابت ہے۔

تقلید پر اجماع_صحابہ ترمیم

اسی لیے امام غزالی (شافعی) رح فرماتے ہیں: "تقلید تو اجماع_صحابہ سے بھی ثابت ہے، کیونکہ وہ عوام کو فتویٰ دیتے اور عوام کو یہ حکم نہیں دیتے تھے کہ تم (خود عربی دان ہو) اجتہاد کرو اور یہ بات ان کے علما اور عوام کے تواتر سے مثل_ضروریات_دین ثابت ہے" [المستصفى:٢/٣٨٥]

ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید پر اجماع ترمیم

ائمہ اربعہ میں کسی ایک کی تقلید پر امت کا اجماع ہو چکا ہے اور امت کے اجماع کی دو صورتیں ہیں:

اول یہ کہ امت کے قابل قدر علما متفق ہوکر یہ کہیں کہ ہم نے اس مسئلہ پر اجماع کر لیا ہے، جب کہ مسئلہ کا تعلق قول سے ہو یا اگر مسئلہ کا تعلق کسی فعل سے ہے تو وہ اس فعل پر عمل شروع کر دیں۔

دوسری صورت یہ ہے کہ امت کے کچھ بڑے علما مذکورہ طریقہ پر اجماع کریں اور دوسرے قابل قدر علما اس پر سکوت کریں اور اس پر ان کی طرف سے کوئی رد نہ ہو اس کو اجماعِ سکوتی کہتے ہیں۔

اجماع کی یہ دونوں صورتیں معتبر ہیں۔ نور الانوار میں ہے: رکن الإجماع نوعان: عزیمة وھو التکلم منھم بما یوجب الاتفاق أي اتفاق أي الکل علی الحکم بأین یقولوا أجمعنا علی ھذا إن کان ذلک الشيء من باب القول أو شروعھم في الفعل إن کان من بابہ․ ورخصة: وھو أن یتکلم أو یفعل البعض دون البعض وسکت الباقون منھم ولا یردون بعد مضي مدة التأمل وھی ثلاثة أیام ومجلس العلم ویسمی ھذا إجماعا سکوتیًا وھو مقبول عندنا: 219۔

چنانچہ جب علما نے دیکھا کہ جو تقلید کا منکر ہوتا ہے وہ شتر بے مہار کی طرح زندگی بسر کرتے ہوئے اپنی خواہشات پر عمل کرتا ہے، اس لیے علما نے ائمہ اربعہ میں کسی ایک کی تقلید پر اجماع کیا، اگرچہ ان کا یہ اجماع ایک جگہ متفق ہوکر نہیں ہوا؛ لیکن ان سب کے ائمہ اربعہ میں کسی ایک کی تقلید کرنے اور عدم تقلید پر نکیر کرنے کی وجہ سے یہ اجتماع منعقد ہوا ہے، چنانچہ اس سلسلہ میں بہت سے بڑے بڑے علما نے عدم تقلید پر اپنی آراء کا اظہار کیا اور امت کے سامنے عدم تقلید کے مفاسد کو کھل کر بیان کیا۔ اس کی چند مثالیں یہ ہیں:

  1. علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

وعلی ھذا ما ذکر بعض المتأخرین منع تقلید غیر الأربعة لانضباط مذاھبھم وتقلید مسائلھم وتخصیص عمومہا ولم یدر مثلہ في غیر ہم الآن لانقراض اتباعھم وہو صحیح۔

ترجمہ: اور اسی بنیاد پر ائمہ اربعہ ہی کی تقلید متعین ہے نہ کہ دوسرے ائمہ کی، اس لیے کہ ائمہ اربعہ کے مذاہب مکمل منضبط ہو گئے ہیں اور ان مذاہب میں مسائل تحریر میں آچکے ہیں اور دوسرے ائمہ کے مذاہب میں یہ چیز نہیں ہے اور ان کے متبعین بھی ختم ہو چکے ہیں اور تقلید کا ان یہ چار اماموں میں منحصر ہوجانا صحیح ہے۔ (التحریر في اصول الفقہ: 552)

  1. علامہ ابن نجیم مصری لکھتے ہیں:

وما خالف الأئمة الأربعة فھومخالف للإجماع

یعنی ائمہ اربعہ کے خلاف فیصلہ اجماع کے خلاف فیصلہ ہے۔ (الأشباہ: 131)

  1. محدث ابن حجر مکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

أما في زماننا فقال أئمتنا لا یجوز تقلید غیر الأئمة الأربعة: الشافعي ومالک وأبي حنیفة وأحمد رضوان اللہ علیھم أجمعین

یعنی ہمارے زمانے میں مشائخ کا یہی قول ہے کہ ائمہ اربعہ یعنی امام شافعی، مالک، ابوحنیفة اور احمد ہی کی تقلید جائز ہے اور ان کے علاوہ کسی اور امام کی جائز نہیں (فتح المبین 166)

  1. امام ابراہیم سرخسی مالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

و أما في ما بعد ذلک فلا یجوز تقلید غیر الأئمة الأربعة

یعنی دورِ اول کے بعد ائمہ اربعہ کے سوا کسی کی تقلید جائز نہیں۔ (الفتوحات الوہبیہ: 199)

  1. مشہو رمحدث ومفسر قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

فإن أھل السنة والجماعة قد افترق بعد القرن الثلثة أو الأربعة علی أربعة المذاھب، ولم یبق في فروع المسائل سوی ھذہ المذھب الأربعة فقد انعقد الإجماع المرکب علی بطلان قول من یخالف کلھم․ یعنی تیسری یا چوتھی صدی کے فروعی مسائل میں اہل سنت والجماعت کے مذاہب رہ گئے، کوئی پانچواں مذہب باقی نہیں رہا، پس گویا اس امر پر اجماع ہو گیا کہ جو قول ان چاروں کے خلاف ہے وہ باطل ہے (تفسیر مظہری:2/64)

  1. حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

وھذہ المذاھب الأربعة المدونة المحررة قد اجتمعت الأمة أو من یعتد بھا منھا علی جواز تقلیدھا إلی یومنا ھذا یعنی یہ مذاہب اربعہ جو مدون ومرتب ہو گئے ہیں، پوری امت نے یا امت کے معتمد حضرات نے ان مذاہب اربعہ مشہورہ کی تقلید کے جواز پر اجماع کر لیا ہے۔ (اور یہ اجماع) آج تک باقی ہے۔ (حجة اللہ البالغہ: 1/361)# شارح مسلم شریف علامہ نووی فرماتے ہیں:

أما الاجتہاد المطلق فقالوا اختتم بالأئمة الأربعة الخ یعنی اجتہاد مطلق کے متعلق علما فرماتے ہیں کہ ائمہ اربعہ پر ختم ہو گیا حتی کہ ان تمام مقتدر محققین علما نے ان چار اماموں میں سے ایک ہی امام کی تقلید کو امت پر واجب فرمایا ہے اور امام الحرمین نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ (نور الہدایہ: 1/10)

اصول دین یعنی عقائد میں تقلید جائز نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اصول دین میں ظن اور گمان پر اکتفا نہیں کیا جا سکتا ہے، اس لیے کہ اعتقاد، دلیل و یقین محکم کا نام ہے اس کے برعکس احکام اور فروع دین میں تقلید کافی ہے، قابل ذکر بات ہے کہ اسلامی عقائد اور اعتقادات کے دو حصے ہیں- اس کا ایک حصہ اصول دین ہے اور اس کا اعتقاد رکھنا ضروری ہے، اسلام کے محقق ہونے اور ایک انسان کے مسلمان ہونے کے لیے اس کی ضرورت ہوتی ہے ،مثلاًتوحید ورسالت کا اقرار-اللہ تعالیٰ کے وجود کا اعتقاد یا انبیا علیهم السلام کی نبوت اور حضرت محمد صلی الله علیه وآلہ وسلم کی رسالت کا اعتقاد، معاد و قیامت کا اعتقاد کہ انسان مرنے کے بعد دوباره زنده ہوں گے، تاکہ اپنے اعمال کی جزا پا سکیں، جیسے اصولوں پر اعتقاد رکھنا علم و یقین پر مبنی ہونا ہے، اس سلسلہ میں گمان اور دوسروں کی تقلید کرنا کافی نہیں ہے- عقائد کا دوسرا حصہ، اصول دین کی تفصیل اور جزئیات ہیں، مثال کے طور پر کہ کیا اللہ تعالیٰ کی صفات اس کی عین ذات ہیں؟ اللہ تعالیٰ کی صفات کی کتنی قسمیں ہیں، صفات فعلی کے کیا معنی ہیں؟ اشیاء کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے علم کی کیفیت کیا ہے کیا نبوت میں عصمت ضروری ہے یا نہیں؟ عصمت کے حدود کیا ہیں؟ کیا معاد جسمانی ہے یا روحانی؟ بہشت کی کیفیت کیا ہے؟ کیا اهل دوزخ ہمیشہ دوزخ میں ہوں گے یا نہیں؟ مشرکانہ باتیں کیا ہیں،کفریہ اعمال کیا ہیں - اگرچہ یہ بھی عقائد و اعتقادات میں شمار ہوتے ہیں، جن کو ہم اعتقاد کے فروعی مسائل کہہ سکتے ہیں ان فروعی مسائل میں ہم باعتبار تعلیم ہم کسی مستند اور معتبر عالم کی اقتدا کرسکتے ہیں۔ ۔ واضح ہے کہ انسان، اصول دین کے بارے میں اعتقاد اور یقین حاصل کرنے کے لیے ۔۔۔ تعبدی و نقلی دلیل کے عنوان سے ۔۔۔ آیات و روایات کی طرف رجوع نهیں کر سکتا ہے، کیونکہ اس صورت میں تسلسل لازم آتا ہے- اس کے برخلاف احکام اور فروع دین کو آیات و روایات کی طرف رجوع کیے بغیر حاصل کرنا ممکن نہیں ہے- اس بنا پر، عقائد کا احکام سے موازنہ کرنا ایک بے جا موازنہ ہے- جس چیز کو احکام اور فروعات سے موازنہ کیا جا سکتا ہے، وہ عقائد کی تفصیلات اور جزئیات ہیں کہ ان میں تقلید کرنا جائز ہے، اگرچہ ان میں سے بہت سی چیزوں میں تقلید کرنا واجب اور ضروری نہیں ہے- مجتہد کی طرف رجوع کرنے اور مرجع تقلید کو پہچاننے کے سلسلہ میں دَور اور تسلسل لازم نهیں آتا ہے، کیونکہ مجتہد اور اعلم کو پہچاننے کے لیے علم و فقہ میں مہارت اور اس مجتہدکے ساتھ معاشرت کی ضرورت نهیں ہے، بلکہ معاشره میں شائع ہونے اور مشہور ہونے یا چند قابل اعتماد افراد کے بیان جیسی راہوں سے بھی مجتہد و اعلم کوپہچانا جا سکتا ہے-

حوالہ جات ترمیم