کتاب الآثار
کتاب الآثار یہ امام اعظم ابو حنیفہ نعمانؒ کی تصنیف ہے ۔[1]
جسے ان کے شاگرد امام ابو یوسفؒ (113ھ-182ھ/731ء-798ء)اور امام محمد بن حسنؒ اور دوسرے بہت سے شاگردوں نے امام ابوحنیفہؒ سے روایت کیا ہے ۔
کتاب الآثار - امام ابوحنیفہ نعمان ؒ
ترمیمحدیث کی قدیم ترین صحیح کتاب
ترمیماس وقت احادیث مبارکہ کی دستیاب کتب میں سب سے قدیم کتاب صحیفہ ہمام ابن منبہ ؒہے ۔
اس کے بعد تابعی صغیر امام اعظم ابو حنیفہ نعمانؒ کی کتاب الآثار ہے ۔ اور یہ حدیث کی سب سے پہلی کتاب ہے جو باقاعدہ موضوع کے حساب سے ہے ، یعنی ابواب پر مشتمل ہے ۔
اس کتاب کو امام ابوحنیفہؒ سے ائمہ فقہا و محدثین کے جم غفیر نے روایت کیا ہے ۔ جن میں امام ابو یوسفؒ ، امام محمد بن حسن شیبانیؒ ،
امام زفر بن ہذیلؒ ، امام حسن بن زیاد لؤلؤیؒ ، امام حماد بن ابی حنیفہ ؒ کے نسخے مشہور ہیں ۔ دوسرے ائمہ میں سے امام اسد بن عمروؒ ، امام ابو عبد الرحمٰن المقرئ ؒ ، امام المقرئ حمزۃ بن زیات ؒ ، امام مکی بن ابراہیم ؒ ، امام عبد اللہ بن مبارکؒ ، امام حفص بن غیاثؒ اور ان کے علاوہ بہت بڑی تعداد میں ائمہ نے کتاب الآثار کو روایت کیا ہے ۔ سب سے مشہور نسخے امام محمد بن حسن شیبانیؒ اور امام ابویوسف قاضی ؒ کے ہیں اور مطبوع ہیں ۔
ان دونوں نے ان نسخوں کو روایت کرنے کے ساتھ اس میں چند روایات کا اضافہ بھی کیا ہے جن کی حیثیت زوائد کی سی ہے ، بالکل اسی طرح جس طرح مسند احمد میں امام حمد بن حنبلؒ کے صاحبزادہ نے چند روایات کا اضافہ کیا ہے ۔ یا امام محمد بن حسن ؒ نے موطا امام مالکؒ کوروایت کر کے اس میں بھی چند روایات کا اضافہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے غلط فہمی کی جس سے بعض لوگ ان کا انتساب شاگردوں سے کر دیتے ہیں ، جو درست نہیں ۔
اسی لیے نامور حافظ حدیث امام ابن حجر عسقلانی ؒ المتوفی 852ھ نے ائمہ اربعہ ؒ کی کتب کے رجال پر کتاب ((تعجيل المنفعة بزوائد رجال الأئمة الأربعة)) ج1ص239 میں فرماتے ہیں۔
وَالْمَوْجُود من حَدِيث أبي حنيفَة مُفردا إِنَّمَا هُوَ كتاب الْآثَار الَّتِي رَوَاهَا مُحَمَّد بن الْحسن عَنهُ
ترجمہ : ’’ اور امام ابوحنیفہؒ کی حدیث میں مستقل کتاب موجود ہے جو کتاب الآثار ہے جس کو امام محمد بن حسن ؒ نے اُن سے روایت کیا ہے ‘‘۔
کتاب کا علمی مقام:
ترمیمیہ کتاب بالکل صحیح روایات پر مشتمل ہے ۔
عبد الله بن المبارك قال: سألت أبا عبد الله سفيان بن سعيد الثوري ۔۔۔۔۔
قال: كان أبو حنيفة شديد الأخذ للعلم، ذاباً عن حرام الله عز وجل عن أن يستحل، يأخذ بما صح عنده من الأحاديث التي تحملها الثقات
وبالآخر من فعل رسول الله صلى الله عليه وسلم، وما أدرك عليه علما الكوفة، أَبَا حَمْزَةَ السُّكَّرِيَّ يَقُولُ سَمِعْتُ أَبَا حَنِيفَةَ يَقُولُ إِذَا جَاءَ الْحَدِيثُ الصَّحِيحُ الإِسْنَادِ عَنِ النَّبِيِّ عَلَيْهِ السَّلامُ أَخَذْنَا بِهِ
((مناقب ۔ الحافظ ابن ابی العوامؒ - الانتقاء، ابن عبد البرؒ عن ابن الدخیلؒ - مناقب ائمہ اربعہ ص63، حافظ ابن عبد الہادی الحنبلیؒ عن حافظ دولابیؒ )
یعنی ، امام عبد اللہ بن مبارکؒ کے سوال پر امام سفیان ثوریؒ نے فرمایا کہ امام ابوحنیفہؒ صرف ثقہ راویوں کی روایت ہی کو لیتے ہیں۔ اور نبی کریمﷺ کے آخری فعل کو ہی لیتے ہیں اور جس پر علما کوفہ عمل کرتے ہوں ۔
اور امام ابو حمزہ السکریؒ کی روایت میں امام ابوحنیفہؒ نے فرمایا کہ کہ اگر نبی کریم ﷺ سے جو حدیث صحیح سند سے ہم تک پہنچ جائے ہم اس پر عمل کرتے ہیں۔
امام ابوحنیفہؒ سے منسوب کتب احادیث :
ترمیمامام الائمہ، سراج الامت نعمان بن ثابت امام ابوحنیفہ کی طرف حدیث کی کئی کتابیں منسوب ہیں؛
- (1)کتاب الآثار
- (2)مسندامام ابی حنیفہ
- (3)اربعینات امام ابی حنیفہ
- (4)وحدانیات امام ابی حنیفہ،
ان میں سے "کتاب الآثار" آپ کی تصنیف کردہ ہے؛ مگربہت سے حضرات نے اس کتاب کو ان لوگوں کی تصنیف قرار دے دیا ہے جواس کتاب کے رواۃ میں سے ہیں جوصحیح نہیں ہے؛
البتہ اس کے علاوہ باقی تینوں کتابیں آپ کی تصنیف کردہ نہیں ہیں؛ بلکہ بعد کے لوگوں نے ان میں امام ابو حنیفہ کی روایت حدیث کوموضوع کے لحاظ سے جمع کیا ہے۔[2]
اس سلسلے کا سب سے بڑا کام موسوعہ حدیثیہ لمرویات امام ابوحنیفہ ؒ ہے جو شیخ لطیف الرحمٰن بہرائچی کی کاوش ہے ۔
جامعین کتاب الآثار
ترمیمکتاب الآثار کوامام ابو حنیفہ سے مختلف تلامذہ نے مختلف دور میں روایت کیا ہے، جونسخے دنیا میں رائج ہیں وہ حسب ذیل ہیں
- (1)کتاب الآثار ابوحنیفہ - بروایت، امام محمد بن حسن شیبانی ؒ
- (2)کتاب الآثار بروایت امام ابو یوسف
- (3)کتاب الآثار بروایت حسن بن زیاد لؤلوی
- (4)کتاب الآثار ابوحنیفہ - بروایت، حماد بن امام ابی حنیفہ
- (5)کتاب الآثار بروایت حفص بن غیاثؒ، یہ نسخہ زیادہ مشہور نہیں ہے
- (6)کتاب الآثار بروایت محمد بن خالد وہبیؒ جو "مسنداحمد بن محمد کلاعی" کے نام سے مشہور ہے
- (7)کتاب الآثار بروایت امام زفر جو "سنن زفر" کے نام سے بھی معروف ہے۔[3]
ترتیب وتبویب
ترمیماس کتاب "کتاب الآثار" کی ترتیب کتاب وار، وباب وار ہے؛ البتہ یہ ضرور ہے کہ امام ابو حنیفہ نے صرف ابواب کے عناوین تجویز فرمائے، کتب کے عناوین تجویز نہیں فرمائے؛ مگران کے سامنے کتب کی رعایت بھی تھی؛ کیونکہ ایک اصل سے متعلق ابواب آپ نے ترتیب وار ذکر کیے ہیں؛ البتہ "کتاب المناسک" کا عنوان خود آپ نے قائم فرمایا ہے، اس کے بعد پھرابواب کا ذکر کیا ہے۔ امام محمدکے نسخے میں کل 305/ابواب ہیں، اس کی ترتیب درحقیقت فن فقہ میں لکھی جانے والی کتاب کی ترتیب کے مطابق ہے؛ کیونکہ فن فقہ میں سب سے پہلے طہارت کا بیان کرتے ہیں؛ پھراس کے بعد کتاب الصلوٰۃ؛ جیسا کہ امام ابوداؤد اور امام ترمذیؒ نے اپنی کتاب کوفقہی طرز پر مرتب کیا ہے، برخلاف بخاری ومسلم وغیرہ کے انھوں نے اس کا لحاظ نہیں کیا، بس من وعن اسی فقہی انداز پر امام ابو حنیفہ کی کتاب "کتاب الآثار" مرتب کی گئی ہے۔
امتیازات
ترمیم- یہ ایک ایسی کتاب ہے، جس کے مصنف کوتابعیت کا شرف حاصل ہے، آج دنیا میں کوئی ایسی کتاب نہیں پائی جاتی ہے، جس کویہ ناقابل فراموش فضیلت حاصل ہو۔
- اسلام میں فقہ کے نہج پر جوکتاب لکھی گئی، اس میں اوّلین کاوش امام صاحبؒ ہی کی ہے،
- یہ کتاب اسلام کی اولین مؤلفات میں سے ہے، اس لیے کہ امام صاحب علیہ الرحمہ کا زمانہ سنہ 150ھ تک کا ہے؛
- اس سلسلہ میں عموماً اولیت امام مالک اور ان کی کتاب "موطا" کی بتائی جاتی ہے؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس انداز پر اولین تالیف امام صاحبؒ کی "کتاب الآثار" ہے، امام مالکؒ ودیگر حضرات جواس انداز سے کام کرنے والے ہیں، وہ ثانوی درجہ میں اس مذاق ومزاج کواپنانے والے ہیں[4]
- "کتاب الآثار" کوامام اعظم ابوحنیفہ نے چالیس ہزار احادیث کے مجموعہ سے منتخب فرمایا ہے اور ان میں سے اپنی شہرۂ آفاق کتاب میں ایک ہزار احادیث و آثار کوجمع فرمایا ہے؛
- آپ سے امام محمدؒ نے روایت کرکے کتابی شکل میں مرتب فرمایا ہے۔
امام ابو حنیفہ کی جلالتِ قدر کے لیے اس سے زیادہ اور کیا درکار ہے کہ وہ امت میں امام اعظم کے لقب سے مشہور ہوئے اور ان کے اجتہادی مسائل پر اسلامی دنیا کی دوتہائی آبادی تقریباً چودہ سوبرس سے برابر عمل کرتی آ رہی ہے اور تمام اکابر ائمہ آپ کے فضل وکمال کے معترف ہیں، اس کتاب میں علم شریعت کوباقاعدہ ابواب پر مرتب کیا گیا ہے اور یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ فقہ حنفی کی بنیاد کتاب الآثار کی احادیث وروایات پر مبنی ہے۔[4]
اصول و شرائط
ترمیمامام ابو حنیفہ نے اپنے مقرر کردہ اصول وشروط کے پیش نظر اپنی صوابدید سے چالیس ہزار احادیث کے ذخیرہ سے اس مجموعہ کا انتخاب کرکے اپنے تلامذہ کواس کا املا کرایا ہے اور انتخاب کے بعد اس میں جومرویات لی ہیں وہ مرفوع بھی ہیں اور موقوف ومقطوع بھی، زیادہ ترحصہ غیر مرفوع کا ہے،
مرویات کی مجموعی تعداد نسخوں کے اختلاف کی وجہ سے مختلف بھی ذکر کی گئی ہے،
امام ابویوسفؒ کے نسخے میں ایک ہزار ستر کے قریب ہے اور امام محمدؒ کے نسخے میں صرف مرفوعات ایک سو بائیس ہیں۔[5]
مشہور نسخے
ترمیمسب سے مشہور نسخے دو ہیں، ایک امام محمدؒ کا اور دوسرا امام ابویوسفؒ کا اور یہی دونوں نسخے شائع بھی ہوئے ہیں
اور ان میں بھی امام محمدؒ کا نسخہ زیادہ معروف متداول ہے اور علما نے بھی اس پر زیادہ کام کیا ہے،
مثلاً امام طحاویؒ، شیخ جمال الدین قونویؒ ، ابوالفضل علی بن مراد موصلیؒ اور ماضی قریب میں مفتی مہدی حسن صاحبؒ شاہجہاں پوری "سابق صدر مفتی دار العلوم دیوبند" نے "قلائدالازھار" کے نام سے اس کی نہایت ضخیم شرح لکھی ہے،[6]
مولانا عبد الباری فرنگی محلیؒ اور مولانا ابوالوفاء افغانیؒ کا کتاب الآثار پر حاشیہ بھی ہے؛
نیز شیخ عبد العزیز بن عبد الرشید اور شیخ محمدصغیرالدین نے اس کا اردو میں ترجمہ بھی کیا ہے اور شیخ عبد العزیز نے ترجمہ کے ساتھ کچھ اضافہ بھی کیا ہے
اور اردو ترجمہ کے ساتھ مولانا عبد الرشید نعمانی کا کتاب الآثار کے تعارف سے متعلق ایک مبسوط مقدمہ بھی ہے،
امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ کے دونوں نسخوں کے ساتھ علامہ ابوالوفا افغانی کے عربی میں مقدمے بھی ہیں،
ان کے علاوہ دیگر شراح ومحشین نے بھی مقدمے لکھے ہیں، امام ابویوسف کے نسخے پر مولانا ابوالوفاء کی تعلیقات بھی ہیں
اور حافظ ابن حجر عسقلانی اور ان کے شاگردِ رشید قاسم بن قطلوبغا حنفی، دونوں حضرات نے کتاب الآثار لمحمد کے رجال پر "الایثار بمعرفۃ رجال کتاب الآثار" کے نام سے کتابیں لکھی ہیں،
کتاب الآثار کے متعدد نسخے یا ان کے کافی اجزاء "مسانید امام اعظم" کے مجموعے "جامع المسانید" میں بھی شامل ہیں،
مثلاً امام ابویوسف کے نسخے کی مرفوع روایات اور امام زفر وحفص بن غیاث کے علاوہ دیگر حضرات کے نسخے بھی اس میں شامل کر دیے گئے ہیں۔[7][8]
حوالہ جات
ترمیمكتاب الآثار كا تعارف اور مقام - مقدمہ ، مولانا عبد الرشید نعمانی ؒ