تکارام

ہندومت کے بھگتی سنت شاعر

سنت تُکا رام (1577ء یا 1608ء – 1650ء) سترہویں صدی کے ایک مہان سنت شاعر تھے جو بھارت میں لمبے عرصے تک چلی بھگتی تحریک کے ایک اہم رکن تھے۔

تکارام
سنت تکارام، راجا روی ورما کی مصوری
ذاتی
پیدائش1577ء یا 1608ء[1][2]
وفات1649ء یا 1650ء[2][3]
مذہبہندومت
فرقہہندو مت کا ورکاری-ویشنویت
سلسلہکنبی
مرتبہ
ادبی کامتکارام گاتھا

سنت تکارام کی پیدائش اور موت کے سال بیسویں صدی کے درمیان میں کے آپس میں جھگڑے اور کھوج کا موضوع ہیں۔[5][6] تکارام مولہوبا کی پیدائش 1577ء یا 1608ء میں ہوئی تھی اور انھوں نے اپنی زیادہ تر زندگی پونے کے قریب دیہو قصبے میں گزاری۔ کمار،[7] منشی،[8] کنچید اور پرسسنیسا،[9] ان کو کنبی مراٹھا یا کاشت کار یا وانی ذات کا مانتے ہیں۔ ایک بھارتی روایت کے مطابق، تکارام کا اصل ان کی پہچان کے لیے نہیں استعمال کیا جاتا۔ ان کا اصل نام تکارام بولہوبا آمبیلے ہے۔ بھارت کی ایک اور روایت کے مطابق سنت کے طور پر عزت رکھنے والے شخص کے لیے اس کے نام کے ساتھ "سنت" (مراٹھی: संत) جوڑ دیا جاتا ہے۔ تکارام مہاراج کو عامَ طور پر مہاراشٹر میں سنت تکارام (مراٹھی: संत तुकाराम) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جنوبی بھارتی لوگ ان کو بھگت تکارام کے طور پر بھی جانتے ہیں۔ ان کو تکوبا یا تکوبارایا بھی کہا جاتا ہے۔[10] تکارام کو گاتھا کا اعزاز حاصل ہے جو 4500 ابھنگوں کا مجموعہ ہے۔ انھوں نے ابھنگ کی شکل میں بھگود گیتا کا مراٹھی زبان میں ترجمہ کیا۔[11] ان کا انتقال 1649ء یا 1650ء میں ہوا لیکن لوگوں کا عام طور سے عقیدہ تھا کہ ان کا انتقال نہیں ہوا بلکہ ان کی نیکی اور پاکیزگی کی وجہ سے خود وشنو دیوتا نے انھیں اٹھا کر سورگ میں پہنچا دیا۔[12]

حوالہ جات

ترمیم
  1. RD Ranade (1994)، Tukaram, State University of New York Press, آئی ایس بی این 978-0791420928، pages 3-7
  2. ^ ا ب پ SG Tulpule (1992)، Devotional Literature in South Asia (Editor: RS McGregor)، Cambridge University Press, آئی ایس بی این 978-0521413114، page 148
  3. RD Ranade (1994)، Tukaram, State University of New York Press, آئی ایس بی این 978-0791420928، pages 1-2
  4. Mohan Lal (1993)، Encyclopedia of Indian Literature: Sasay to Zorgot, Sahitya Akademi, South Asia Books, آئی ایس بی این 978-9993154228، pages 4403-4404
  5. RD Ranade (1994)، Tukaram, State University of New York Press, ISBN 978-0-7914-2092-8, pages 1-7
  6. Richard M. Eaton (2005)، A Social History of the Deccan, 1300–1761: Eight Indian Lives, Cambridge University Press, ISBN 978-0-521-71627-7, pages 129-130
  7. Raj Kumar (1 جنوری 2003)۔ Essays on medieval India۔ Discovery Publishing House۔ ص 204–۔ ISBN:978-81-7141-683-7۔ مؤرشف من الأصل في 2018-12-25۔ اطلع عليه بتاريخ 2012-02-09
  8. Kanaiyalal Maneklal Munshi (1956)۔ Indian inheritance۔ Bharatiya Vidya Bhavan۔ مؤرشف من الأصل في 2018-12-25۔ اطلع عليه بتاريخ 2012-02-09
  9. Charles Augustus Kincaid؛ Dattātraya Baḷavanta Pārasanīsa (1925)۔ A history of the Maratha people۔ H. Milford, Oxford university press۔ مؤرشف من الأصل في 2018-12-25۔ اطلع عليه بتاريخ 2012-02-09
  10. Maxine Bernsten (1988)، The Experience of Hinduism: Essays on Religion in Maharashtra, State University of New York Press, ISBN 978-0-88706-662-7, pages 248-249
  11. Saints of India By Swami Mukundananda page 101
  12. تکارام[مردہ ربط] اردو انسائکلوپیڈیا۔ اخذ کردہ بتاریخ 22 اکتوبر 2017ء