جامعہ الباقیات الصالحات

آج سے (دسمبر 2013ء) ڈیڑھ سو سال قبل شمش العلماء حضرت شاہ عبد الوہاب صاحب قادری رحمة اللہ علیہ نے ویلور، تمل ناڈو میں "مدرسہ باقیات الصالحات" قائم کیا،[1] حضرت نے اول ا پنے گھر پر ہی 1274 ھ، بمطابق 1857 عیسوی میں اپنے ہاتھوں مدرسہ شروع فرمادیا جو بعد میں مدرسہ جامعہ باقیات الصالحات کے مبارک نام سے مشہور ہوا اور شہرت و مقبولیت کی چوٹیوں کو پہنچا، الحمد للہ علی ذالک اس طرح ہندوستان میں سب سے پہلے دینی مدرسہ آغاز کرنے کا سہرا بانئ باقیات کے سر ہے۔[2]

علوم دینیہ کو سارے عالم میں روشن کرنے اسلامی معاشرہ کو عام کرنے، شمش العلماء نے ایک مرکزی دینی درسگاہ بنائی۔ یہ جنوبی ہند کا اسلامی قلعہ ہے جہاں دین و ایمان کا تحفظ ہو رہا ہے جس سے علوم قرآن اور حدیث و فقہ کی ایسی نہر یں جاری ہوئی ہیں جن سے جنوبی ہند نے سیرابی حاصل کی اور جس کی شعاعیں جنوبی ہند کی سر زمین کو مستنیر و منور کر گئیں اس کی برکت سے سارا جنوبی ہند علم وعمل ہوا ہر طرف مدارس و مکاتب کا ایک عرفانی و نورانی سلسلہ جاری ہو گیا۔ باقیات الصلحات میں ہزاروں جید علما پیدا ہوئے جن کی خدمات روز روشن کی طرح روشن ہیں۔ جس زمانہ میں یہ مدرسہ قائم ہوا، اس وقت دینی مدارس کا عنقا تھا یہاں تک کہ مکاتب کا وجود بھی شاذ و نادر تھا، جب یہ مدرسہ قائم ہوا تو بہت کم مدت میں اس کی شہرت کو چار چاند لگ گئے اور جنوبی ریاستوں کرناٹک، آندھرا پردیش، کیرلہ، تامل ناڈ اور جنوبی ملکوں مالدیپ، جاوا، سماٹرا، سنگا پور، ملیشیا، انڈونیشیا، سری لنکا وغیرہ سے طلبہ بصد شوق، جوق در جوق اس کی طرف رجوع ہوئے اور اپنے اپنے علاقوں میں انھوں نے مکاتب و مدارس کو قائم کیا، اس ایک نورانی چراغ سے لاتعداد نورانی چراغ جلے اور جلتے رہے ہیں، اسی لیے اس مدرسہ کو "ام المدارس" کا خطاب دی گیا جو بالکل با صواب تھا۔

مدرسہ کے معلمین و مدرسین اور مدرسہ کے اراکیں و منتظمین، حضرت بانئ مدرسہ نہج و منہج پر ہی درس و تدریس میں اور نظم و نسق میں مصروف و سرگرم عمل ہیں کوئی شور اور پرو پیگنڈہ نہیں کوئی تشہیر و اشتہار نہیں کوئی انتشار و خلفشار نہیں طلبہ کرام و اساتذہ عظام اور مؤقر اراکین سب اپنے اپنے شغل و عمل میں بصد اطمینان و سکون مصروف رہے ہیں اور ہیں۔ بانئ مدرسہ حضرت شمش العلماء رح صاحب کی کرامتوں میں سے ایک کرامت یہ ہے کہ اس مدرسہ کو اول دن سے آج تک تعلیم و تدریس کے لیے اعلی استعداد کے مخلص اساتذہ نصیب ہوئے اور اس مدرسہ کے انتظامات کے اعلی درجہ کے مخیر اراکین میسر ہوئے مسلسل اتنے طویل عرصہ تک اتنے سکون و اطمینان کے ساتھ اتنے بڑے مدرسہ کا چلنا اور جاری رہنا حضرت بانئ مدرسہ ہی کی کرامت ہے۔

اس مدرسہ کے فارغین حفاظ، علما، فضلاء کے اوصاف حمیدہ میں سے ایک نمایا وصف "عجز و انکسار، سادگی و نرم خوئی" ہے، ان کے ساتھ رہنے والے اور تھوڑی دیر کے لیے ہی ان سے ملنے والے لوگ اس وصف کو ضرور محسوس کرتے ہیں، بلکہ اس کا آپس میں تذکرہ بھی کرتے ہیں، دراصل یہ وصف حضرت شاہ صاحب بانئ مدرسہ کا خاص وصف تھا، باوجود متبحر عالم اور عارف با للہ ہونے کے آپ بے نفسی و کسر نفسی کا پیکر تھے، حضرت کا یہ وصف اس مدرسہ کے فارغین کو وراثت کے طور پر ملا ہے۔[3] جنوب ہند کے اکثر و بیشتر مدارس مدرسئہ باقیات کے فیض یافتگان کے ذریعہ وجود میں آئے ہیں، اسی وجہ سے اس جامعہ باقیات الصالحات کو ام المدارس کہاجاتا ہے، بانئ جامعہ حضرت مولانا عبد الوہاب صاحب قادری علمائے ربانین کی اس صف میں اونچا مقام رکھتے ہیں جن کے پیش نظر صرف دین اسلام کی ترویج و اشاعت ہے، جس کے لیے آپ نے دور اندیشی سے کام لیا آپ کی دور اندیشی ایک مثال مدرسہ باقیات صالحات کی ملکیت کو اوقاف میں داخل نہ کرانا ہے اس کی بہت سی مصلحتوں میں سے ایک مصلحت یہ بھی ہے کہ اس کے سبب سے حکومت کا مدرسہ اور مدر سہ کی ملکیت میں کوئی عمل دخل نہیں ہو سکتا۔ آپ نے مدرسہ اور قوانین مجلس شوری مرتب فرماکر مجلس شوری کی منظوری سے حسب قانون حکومت ہند (برطانوی) کو اٹھارہ سو ساٹھ میں رجسٹری کے لیے پیش کیا اور رجسٹر آف جائنٹ اسٹاک کمپنیز کے دفتر میں مذکور قوانین بتاریخ یکم اکتوبر اٹ چھیانوے کو رجسٹر ہوئے، ص 429-430 آپ کو قدرت نے جن کمالات سے نوازا تھا وہ سبھی قابل ذکر ہیں مگر خاص طور پر آپ کی دور اندیشی بے مثال ہے، آپنے جامعہ باقیات الصالحات کے لیے مجلس شوری تشکیل دی اور اس وقت کی حکومت کے قانون کے مطابق دفعہ اکیس کی بابت اٹ اسی میں رجسٹر کرادیا جب کہ اس وقت کسی کو اس کا تصو بھی نہ تھا، جس سے دسیوں فتنوں کا سدباب ہوا اور مدرسہ حکومت کی دخل اندازیوں سے محفوظ ہو گیا، باقیات کو بجا طور پر "ام المدارس" ہونے کا شرف حاصل ہے، جنوبی ہند کے کسی بھی شہر یا گاؤں میں کوئی بھی مدرسہ یا مکتب چل رہاہو آپ دیکھیں گے وہ بالواسطہ یا بالا واسطہ باقیات الصالحات ہی کے فضلاء کا قائم کیا ہوا ہوگا، الحمد للہ علی ذالک۔

باقیات سے متعلق ایک اجمالی خاکہ: ولادت: بانئ مدرسہ اعلی حضرت یکم ربیع الاول 1226 ہجری، وفات: بائیس ربیع الثانی 1337 ہجری مطابق 25 جنوری 1919عیسوی کو ہوئی، آغاز باقیات حضرت کے مکان میں ہجری 1274، مطابق 1857 عیسوی کو ہوا، آغاز باقیات مسجد کے صحن میں 1286 ہجری، مطابق 1869 عیسوی کو ہوا، قدیم تعمیر مدر سہ: ہجری 1304، مطابق 1887 عیسوی میں ہوئی، جشن سوسالہ 1394 ہجری مطابق 1974 عیسوی میں منایا گیا جشن ڈیڑھ سو سالہ دسمبر 2013 میں منایا گیا۔[2]

حوالہ جات ترمیم

  1. مجلہ الباقیات دسمبر 2013
  2. ^ ا ب "آرکائیو کاپی"۔ 17 دسمبر 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جنوری 2021 
  3. مجلہ الباقیات دسمبر 2013 ص 183-184