جامعہ دار العلوم بلتستان غواڑی
جامعہ دار العلوم بلتستان غواڑی سو سالہ پرانی و تاریخی دینی درس گاہ اور اسلامک یونیورسٹی ہے جو گلگت بلتستان کے ضلع گانچھے کے قصبے غواڑی میں واقع ہے۔ اس کی بنیاد ایک مقامی عالم دین مولانا محمد موسٰی رحمۃ اللہ علیہ نے 1318ھ میں رکھی تھی۔ شروع میں اس کا نام دارالحدیث غواڑی تھا۔[1] اُس وقت یہ غواڑی کے محلہ گھربی کھور میں قائم کیا گیا تھا۔ بعد میں اس کے نام و مقام دونوں تبدیل ہو گئے اور اسے جامعہ دار العلوم بلتستان غواڑی کا نام دیا گیا۔ 2000ء اس کو دوسری جگہ منجر منتقل کیا گیا، جو اسی قصبے میں ایک اور محلے کا نام ہے، جبکہ پرانی عمارت میں بچیوں کی تعلیم کے لیے اسی اسلامک یونیورسٹی کا وومن کیمپس قائم کیا گیا ہے۔
پس منظر
ترمیمعلاقہ بلتستان
ترمیماسلامی جمہوریہ پاکستان کے انتہائی شمال میں کوہ قراقرم اور ہمالیہ کی چند وادیوں پر مشتمل قدیم آبادی ہے۔ یہ انتظامی لحاظ سے چار ضلعوں شگر، کھرمنگ، سکردو اور گانچھے میں منقسم ہے۔ یہاں تقریبا چار لاکھ افراد بستے ہیں۔ ان میں سے تقریبا پندرہ فیصد اہل سنت والجماعت سے تعلق رکھتے ہیں، یہ علاقہ سیاچن گلیشئر، کے ٹو اور دیوسائی میدان وغیرہ کے بنا پر دفاعی و سیاحتی نقطہ نظر سے انتہائی اہمیت کے حامل اور بین الاقوامی مہم جو سیاحوں کی جولا نگاہ ہے۔
دخول اسلام
ترمیممقامی روایات کے مطابق یہاں آٹھویں صدی ہجری کے آخری عشروں میں نامور مبلغ دین سید علی ہمدانیؒ کی مساعی جمیلہ سے اسلام پھیلا۔ بعد میں ان کا نام لیتے ہوئے متعدد داعی وارد ہوئے اور عوام الناس رفتہ رفتہ فرقہ بندی کا شکار ہوئے اور اولین مبلغ کا اپنا مذہب (شافعی) ناپید ہو گیا۔
تجدید دعوت و توحید
ترمیمتیرویں صدی کے اواخر میں بابا محمد حسین پشاوری رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھوں توحید و سنت کے تبلیغ و تعلیم کو فروغ حاصل ہوا۔ انہی کے فیض یافتہ عبد الرحیم عبد العزیز ؒ نے مولانا حافظ عبدالمنان وزیر آبادی ؒسے سند فراغت حاصل کر لی۔ 1305ھ بمطابق 1884ء غواڑی میں کتاب و سنت کی ترویج کے لیے جدو جہد شروع کی۔ لیکن انھیں مختلف ہتھکنڈوں سے واپس جانے پر مجبور کر دیا گیا۔
جامعہ کی تاریخ
ترمیمپہلا مرحلہ
ترمیمکچھ عرصے کے بعد داعی موصوف عبد الرحیم عبد العزیز ؒ کے بھتیجے مولانا محمد موسی بن علی بن عبد العزیز کو حصول علم نبوی کا شوق دہلی لے گیا۔ آپ محدث العصر سید نذیر حسین دہلوی سے سند فراغت لے کر 1318ھ 1897ء میں وطن واپس آئے اور محلہ گھربی کھور میں مدرسہ دارالحدیث قائم کیا۔ اسی دور میں کریس ، شگر ، بلغار وغیرہ میں ایسے ہی دینی مدارس قائم ہوئے اور ہر جگہ ان مدارس نے داعی اول کے منہج و عقیدے کی ترویج میں گرانما خدمات سر انجام دیے۔ لیکن بعد میں غواڑی کا مدرسہ مشن میں کامیابی کے لحاظ سے سب پر فوقیت حاصل کر گیا۔ اور ترقی کے ساتھ ساتھ اس کے نام میں بھی کئی بار تبدیلی آّئی۔
دوسرا مرحلہ
ترمیممولانا خليل الرحمن ؒنے مولانا مفتی کریمؒ کے ساتھ مل کر مدرسہ کی تعمیر وترقی میں نمایاں کردار ادا کیا ۔ تقسیم ہند کے بعد ملکی سطح پر تعارف کرایا ِ اورمتعدد نامورشخصیات کے مدرسہ دروہ کروایا۔ مولانا مفتی کریم بخشؒ کے رحلت کے بعد مدرسہ کی تمام ذمہ داری مولانا حاجی خلیل الرحمن ؒ نے سمبھالی ۔ اس دور میں بہترین نظم ونسق قائم کیا اور نام دارالعلوم الاسلامیہ کردیا۔ اس دور میں دارالعلوم کے لیے مستقل آمدنی کے مواقع فراہم کیے گئے[2]۔
تیسرا مرحلہ
ترمیم1395ھ 1974 میں سماحۃ الشیخ ابن باز ؒ کی خصوصی ہدایت پر الشیخ عبد الرحمان خلیق ؒ اور الشیخ عبد الوہاب حنیف ؒ یہاں مبعوث ہوئے ۔ ان کے دور میں دار العلوم بلتستان غواڑی کے مادی وسائل میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ مدینہ یونیورسٹی میں داخلے کا سلسلہ قائم ہوا۔ بلتستان میں پہلے سے قائم قابل ذکر مدارس میں سے مدرسہ منبع العلوم شگر کے علاوہ باقی تمام مدارس اس کی برانچیں بن گئیں۔ حسب ضرورت نئے برانچ مدارس قائم کیے گئے۔ 1982 میں مرکز اسلامی سکردو قائم ہوا۔ [3]
چوتھا مرحلہ
ترمیمنصرت الٰہی ہمرکاب رہی اور بزرگوں کی مخلصانہ دعائیں رنگ لاتی رہیں۔ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے فاضل علما کی خدمات حاصل رہیں اور مخلص اہل احسان کا فیاضانہ تعاون برگبار لاتا رہا۔ مرکزی دار العلوم بلتستان غواڑی کی عمارت توسیع کے باوجود تنگی داماں کا شکوہ رہیں اور مخلص محسنین کے باہمی تعاون سے غواڑی کے علاقہ منجر میں یونیورسٹی کا مین کیمپس قائم کیا گیا۔
کلیات
ترمیمجامعہ کے مندرجہ ذیل کلیات الدرسات (Faculties of Studies) قائم کیے گئے ہیں۔
احاطۂ دار العلوم
ترمیم1۔ کلیۃ الحدیث:
2000ء کو کلیۃ الحدیث کا افتتاح کیا گیا۔ یہاں مرحلہ متوسطہ(مڈل گروپ) سے آخر تک کے طلبہ کو منتقل کیا گیا۔ جبکہ مرحلہ ابتدائیہ (پرائمری گروپ) کو مناسب کمروں کی فراہمی تک حسب سابق وہاں رکھا گیا۔
2۔ کلیۃ الشریعۃ:
کلیۃ الحدیث کے ساتھ ہی مین کیمپس منجر میں بعد میں کلیۃ الشریعۃ کی شاندار عمارت بھی مکمل ہوئی۔
3۔ کلیۃ القرآن:
اس کلیۃ کے تحت قسم لتحفیظ القرآن قائم ہے جہاں طلبہ کو قرآن پاک حفظ کروایا جاتا ہے۔
احاطۂ نسواں
ترمیم4۔ کلیۃ الدراسات الاسلامیہ للبنات:
دار العلوم کے سابق عمارت میں قائم معہد خدیجۃ الکبری کے نصاب اور نظام میں بہتر ترمیم کے ساتھ اس سے کلیۃ الدراسات الاسلامیہ للبنات کا نام دیا گیا۔ اب وہاں بھی نئے دور کے تقاضوں کے مطابق عمارت بن چکی ہے۔ یہاں پر بچیوں کی تعلیم کے لیے اسی اسلامک یونیورسٹی کا وومن کیمپس قائم کیا گیا ہے۔
جامعہ کی خدمات
ترمیمتعارف
ترمیمجامعہ بنیادی طور پر ایک خالص دینی تعلیمی و تبلیغی ادارہ ہے۔ لیکن دعوت و توحید و سنت اور تعلیم کتاب و سنت کے تقاضوں کو پورا کرتے کرتے اس سے بہت سے فلاحی اور رفاہی نوعیت کی خدمات بھی ادا ہو رہی ہے۔ اور تعلیمی، ثقافتی، عدالتی اور فلاحی میدانوں میں کام چلانے کے لیے متعدد ادارے اور کمیٹیاں قائم کی گئی ہیں۔ ان خدمات کی مختصر سی جھلک پیش خدمت ہے۔ [حوالہ 1]
ادارۃ التعلیم
ترمیمیہ ادارہ جامعہ دار العلوم غواڑی کے چاروں شعبوں پر ہمہ وقت توجہ مرکوز رکھتا ہے۔ تعلیمی، امتحانی اور ادارتی معاملات کے ایک مربوط نظام کے تحت جامعہ کے تمام امور کی باقاعدہ نگرانی کرتا ہے۔
دارالقضاء والافتاء
ترمیممقتدر علما کی کمیٹی ہے جس کے ذریعے مقدمات کا شرعی فیصلہ صادر کیا جاتا ہے۔ سرکاری عدالتیں بھی بعض مقدمات میں فریقین کو اس کمیٹی کی طرف بھیج دیتی ہیں۔ نیز عوام کی طرف سے آنے والے سوالات کا جواب اور فتوی بھی دیا جاتا ہے ۔
عصری تعلیم
ترمیمجامعہ کی سر پرستی میں رائج الوقت سرکاری نصاب تعلیم کے فروغ کے لیے کئی پرگرام چل رہے ہیں:
بورڈ کے امتحانات
ترمیمجامعہ دار العلوم بلتستان غواڑی کے قسم البنین(بوائز کیمپس) اور قسم البنات (وومن کیمپس) دونوں میں زیر تعلیم طلبہ و طالبات کو مڈل سے میٹرک کی سطح تک بنیادی مضامیں کی تیاری کا موقع اور علمی معاونت فراہم کی جاتی ہے۔
تاریخی اعزاز
ترمیم2002ء میں قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی گلگت کے میٹرک سال اول آرٹس گروپ کے امتحان میں اسی جامعہ کے ہونہار طلبہ نے پہلی تین پوزیشنیں حاصل کیں۔ جس پر جامعہ کو خصوصی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ان طلبہ میں حاٖفظ زاہد سعید (شاعر شمال)، پروفیسر عبد اللہ عبد الرحیم اور فداءاللہ عبد الکریم ناصری بالترتیب فرسٹ، سیکنڈ اور تھرڈ پوزیشن ہولڈر تھے۔ تینوں طالب علموں کا تعلق پڑوسی بستی یوگو سے تھا جو گانچھے کا دوسرا اہم تجارتی و کاروباری مرکز ہونے اور پوری آبادی کے اہلحدیث مکتب فکر سے تعلق رکھنے کے حوالے سے معروف ہے۔
پروگرام المساعدۃ التعلیمیہ
ترمیمتعلیمی تعاون یا ایجوکیشنل اسسٹنس پروگرام (The Educational Assistance Program) کے تحت مرکز اسلامی سکردو میں کالج کے ریگولر طلبہ کے لیے قیام و طعام اور تعلیمی و تربیتی ماحول فراہم کیا گیا ہے۔
الاثر پبلک اسکول
ترمیمجامعہ دار العلوم کے سر پرستی اور کوشش سے الاثر پبلک اسکولز کا سلسلہ قائم کیا گیا ۔ غواڑی میں کامیابی کے بعد اب یہ اسکول کریس، یوگو ،کھرفق میں بھی قائم ہو چکے ہیں۔ ان اسکولوں کے اخراجات طلبہ کے فیس سے پورے کیے جاتے ہیں۔ کمی بیشی کی صورت میں ادارہ کفالت کرتا ہے۔
لائبریری
ترمیمجامعہ دار العلوم کی مرکزی لائبریری کے علاوہ علاقہ بھر میں درجنوں ذیلی لائبریریاں قائم کی کئی ہیں تاکہ تعلیم یافتہ لوگ اپنے فرصت کے قیمتی لمحات علوم نبوت کی روشنی میں حیات انسانی کا اصل مقصد سمجھنے میں صرف کریں۔ ان لائبریریوں میں اردو، عربی اور انگریزی میں مختلف موضوعات پر کتابیں موجود ہیں۔
مجلہ التراث
ترمیمیہ مجلہ جامعہ ہذا کا ترجمان ہے جو اردو زبان میں توحید و سنت کی دعوت اور اصلاح معاشرہ کا درد لیے 1998ء سے ہر چھ ماہ بعد طلوع ہو رہا تھا۔ اب اس کی بڑھتی ہوئی مانگ اور قارئین کرام کے اصرار پر سہ ماہی کر دیا گیا ہے۔ اس رسالے کے ذریعے مقامی تاریخ اور شخصیات پر بھی اچھا خاصہ کام ہو چکاہے۔ عبد الوہاب خان صاحب اس کے ایڈیٹر اور جناب عبد الرحیم روزی سیکریٹری ہیں۔ [4]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ عنایت اللہ صدیقی (2002)۔ جماعت اہلحدیث اور غواڑی۔ مکتبہ الشباب الاسلامی۔ صفحہ: 56
- ↑ جائزہ مدارس عربیہ مغربی پاکستان ۱۹۶۰ گوشوارہ جات دارالعلوم بلتستان۔ جائزہ مدارس عربیہ مغربی پاکستان ۱۹۶۰؛ گوشوارہ جات دارالعلوم بلتستان
- ↑ "جامعہ دارالعلوم بلتستان غواڑی"۔ اردو مجلس فورم۔ میری درس گاہ۔ 26/01/2013 [مردہ ربط]
- ↑ عبدالرحیم روزی (05/05/2012)۔ "ماہنامہ رُشد"۔ محدث فورم۔ مجلس التحقیق السلامی