دبستان مذاہب کے مطابق جدروپ گوسین کا تعلق 'دھنداری' سنیاسی (فقیر) کے گروہ سے تھا۔ وہ گجرات کے دولت مند جوہری براہمن کا بیٹا تھا۔[1] 22 برس کی عمر میں، اس نے اپنے والدین اور خاندان کو چھوڑ کر سنیاس لے لیا۔[2] وہ ویدانت کے علم اور تصوف کے علم میں ماہر تھا اور اسے ان پر زبردست عبور حاصل تھا۔[3] معتمد خان کے مطابق جدروپ مسلمانوں کے تصورات کی صفائی میں دلائل پیش کرتا تھا۔[4] 1617ء میں جب جہانگیر، اوجین سے گذر رہا تھا تو وہ جدروپ گوسین سے ملنے کے لیے چلا گیا، جو ایک جنگل کے گوشے میں رہتا تھا۔ جہانگیر اپنی یاداشتوں میں لکھتا ہے کہ جدروپ کی حد سے زیادہ سادہ زندگی کی مقبولیت نے ان سے ملنے کے لیے مجبور کیا، پہلے تو اس نے سوچا کہ جدروپ کو آگرہ بلا لے لیکن پھر حد ادب کی وجہ سے اس خیال کو ترک کر دیا۔ پھر اپنی بادشاہت کے گیارہویں سال جب جہانگیر اجین سے گذر رہا تھا تو وہ اس سنیاسی سے ملے بغیر نہ رہ سکا۔ وہ اس کی جائے سکونت تک پہنچنے کے لیے کچھ دور تک پیدل بھی چلا۔ اس کی قیام گاہ ایک پہاڑی کے پہلو میں ایک غار میں تھی۔[5]

جدروپ (دائیں) اور جہانگیر (بائیں)

جہانگیر نے اس کے مسکن کا طول و عرض اور اس کی سادہ ترین خوراک کا بھی ذکر کیا ہے۔ جہانگیر نے جدروپ کے ساتھ چھ گھڑیاں قیام کیا اور اس سے ویدانت پر گفتگو کی۔ جہانگیر، جدروپ کے انداز گفتگو سے بے حد متاثر ہوا۔[6] تین دن کے بعد جہانگیر دوبارہ جدروپ کے پاس گیا اور اس کے ساتھ زیادہ وقت گزارا۔[7] سر تھامس روئے نے بھی جہانگیر کی جدروپ سے 1617ء کو اجین میں ملاقات کا حوالہ دیا ہے۔[8]

اپنی تخت نشینی کے تیرہویں برس یعنی 1618 عیسوی کے لگ بھگ جب جہانگیر احمد آباد سے آرہا تھا اور شاہی قافلے نے اوجین کے قریب پڑاؤ ڈالا تو جہانگیر نے دو مرتبہ جدروپ سے ملاقات کی، دوسری ملاقات میں جدروپ نے جہانگیر کو اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں بتایا۔[9]

جہانگیر کی بادشاہت کے چودھویں برس 1619 عیسوی کو جدروپ اوجین سے نقل مکانی کر کے متھرا چلا گیا۔[10] متھرا میں بھی جہانگیر دو مرتبہ جدروپ سے ملنے گیا۔ اور اس کی روزمرہ زندگی کو بیان کیا کہ کس طرح وہ سردیوں، گرمیوں اور برساتوں میں صرف آدھ گز سوتی کپڑا پہنے تقریباً ننگا رہتا تھا اور پانی پینے کو اس کے پاس مٹی کا ایک پیالہ ہی تھا۔ اور اس کا حجرہ اتنا چھوٹا تھا کہ وہ بمشکل اس میں حرکت کرتا تھا۔[11] جب جہانگیر متھرا سے جانے لگا تو جدروپ سے الوداعی ملاقات کرنے گیا اور بوجھل دل سے اسے خدا حافظ کہہ کر واپس ہوا۔[12]

ایک ملاقات میں جدروپ نے جہانگیر سے کہا کہ وداس میں ایک سیر کا وزن 36 دام لکھا ہے اور کیا ہی اچھا ہو اگر سیر کا وزن 36 دام مقرر کر دیا جائے۔ جہانگیر نے جدروپ کے احترام میں اُس کے اس مشورے پر حکم جاری کیا کہ پوری سلطنت میں سیر کا وزن 30 کی بجائے 36 دام کر دیا جائے۔[13]

اقبال نامہ جہانگیری میں مصنف لکھتا ہے کہ جہانگیر کے بیٹے خسرو مرزا (جو بغاوت کرنے کی وجہ سے 1606ء سے زندان میں تھا) کے سسر مرزا عزیز کوکا نے خفیہ طور پر جدروپ سے ملاقات کی اور اس سے گزارش کی کہ وہ خسرو کی رہائی کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے۔ چنانچہ جدروپ گوسین کی سفارش پر جہانگیر نے خسرو کی رہائی کے احکامات جاری کیے۔[14]

دلچسپ بات یہ ہے کہ جہانگیر نے جدروپ سے متھرا میں ملاقات کے فوراً بعد خسرو کی رہائی کا تذکرہ کیا[15] لیکن جہانگیر کی یادداشتوں میں جدروپ سے ملاقاتوں میں کہیں بھی خسرو کی رہائی کے متعلق کسی گفتگو کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔

نورجہاں کے بہنوئی اور متھرا کے جاگیردار حکیم بیگ نے ایک بار کسی بہانے سے جدروپ گوسین کو کوڑے مروائے، جب جہانگیر کو اس سانحے کی اطلاع ہوئی تو اس نے حکیم بیگ کو برطرف کر دیا۔[16] اور اس کے بعد حکیم بیگ کو کبھی کوئی شاہی خدمت سپرد نہیں کی گئی۔[17] جدروپ کے لیے جہانگیر کی تکریم کی تصدیق دبستان مذاہب نے بھی کی ہے۔[18] مغل شرفاء بھی جدروپ کے پاس جایا کرتے تھے، جب وہ بنارس میں تھا تو حکیم کامران شیرازی اس سے ملاقات کو جایا کرتا تھا۔ عبد الرحیم خانخاناں جدروپ کی اس قدر تعظیم کرتا تھا کہ جھک کر اس سے ملتا تھا۔[19] اقبال نامہ جہانگیری کے مصنف معتمد خان نے جدروپ کی تعریف میں ایک مثنوی لکھی جس میں اس نے جدروپ کے حجرے کی تنگی ، اس کی کم خوراکی اور دنیا سے بے رغبتی کا ذکر کیا۔[20]

مغل مصوروں نے بھی جدروپ کی ستائش میں کام کیا۔ مغل مصوری کے کچھ نادر نمونوں میں جدروپ کے حجرے میں جہانگیر کو اس سنیاسی سے ملاقات کرتے دکھایا گیا ہے۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. Dabistan-i-Mazahib, op.cit.p.p. 184-85
  2. Tuzuk, op.cit. Eng. Trans. vol-II, p.52
  3. Ibid – p.15. Eng. Trans. vol-II, p.356
  4. Mutamad Khan, Iqbalnam-i-Jahangiri, vol-III, p.p.95-96
  5. Tuzuk, op.cit.Eng. Trans. vol-I, p.355
  6. Ibid – op.cit. Eng. Trans. vol-I, p. 356
  7. Ibid – op.cit. Eng. Trans. vol-I, p. 359
  8. The Embassy of Sir Thomas Roe, op.cit. p. 343
  9. Tuzuk, op.cit. Eng. Trans. vol-II, p.p. 49,52
  10. Ibid – op.cit. Eng. Trans. vol-II, p. 104
  11. Ibid – Eng. Trans. vol-I, p. 105
  12. Ibid – Eng. Trans. vol-II, p.116
  13. Ibid –Eng. Trans. vol-II, p. 108
  14. Iqbal nama-i-Jahangiri, op.cit, vol-III, 129-30
  15. Tuzuk –Eng. Trans. vol-II, p. 107
  16. Shaikh Farid Bhakkari, Zakhirat-ul-Khawanin, ed. By Dr. Moinul Haq, Karachi, 1961, Part-II p.288, Eng.Trans. by Z.A. Desai Sandeep Prakash, N.Delhi, 2003, part-II, p.101
  17. Shahnawaz Khan, Maasirul Umara,-1, p.p.573-76
  18. Dabistan-i-Mazahib, op.cit.p.186
  19. Ibid – p.186
  20. Iqbalnama-i-Jahangiri. op.cit. III, p.p.97-98