جرگہ
جرگہ (پشتو:جرګہ) جس کے معنی پشتو میں اسمبلی یا پنچایت کی ہے۔ ایک روایتی پنچایت ہوتا ہے جو خصوصا پشتون اور ان کے قریبی نسلی گروہ جیسے بلوچ وغیرہ میں ہوتا ہے۔ ایک جرگے میں قبائلی سردار (پشتو:د قبیلو مشران) اکھٹے ہوگے کسی مسلے پہ بحث و مباحثہ کرتے ہیں۔ جرگہ کا رواج زیادہ ترافغانستان میں اور پاکستان کے فاٹا اور پختونخوا میں ہوتا تھا تاہم پختونخوا میں یہ رواج تھوڑا کم ہو گیا ہے پر فاٹا میں اب بھی بکثرت ہوتا ہے۔ جرگے میں جو سردار یا بڑے ہوتے ہیں ان کو جرگہ مشران کہتے ہیں۔
11 سے 14 مارچ 2022 تک پشتون قومی جرگہ کا پہلا اجلاس بنوں، خیبر پختونخوا میں منعقد ہوا جس میں پاکستان میں پشتونوں کو درپیش نازک مسائل پر غور کیا گیا۔
انتظام اور اہمیت
ترمیمبمعنی پنچایت، لفظی معنی ’’اسمبلی‘‘۔ بلوچستان ،خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں فاٹا میں انگریزی دور سے پہلے عموما مقامی جرگوں کا رواج پہلے سے موجود تھا۔ جو وصیت، طلاق، منگنی، قتل، شید چوٹ اور فتنہ و فساد کے مقدمات کے فیصلے صادر کرتے تھے۔ اس طرح ہر قبیلہ عدلی لحاظ سے آزاد تھا۔ بلوچستان کے پہلے ایجنٹ گورنر جنرل سر رابرٹ سنڈیمن نے نہ صرف جرگے کے وسیع استعمال پر زور دیا بلکہ اضلاع، قبائل اور صوبوں کے لیے جرگے منظم کیے۔ اضلاع میں قبائل کے باہمی جھگڑوں کے لیے شاہی جرگہ، گرمی میں کوئٹہ اور سردی میں سبی میں منعقد ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ فورٹ منرو میں سالانہ جرگہ ہوتا تھا جو پنجاب اور بلوچستان کے سرحدی مقدمات سنتا تھا۔ اسی طرح قبائلی علاقوں اور صوبہ خیبر پختونخوا میں بھی حکومتی قانون کے ساتھ ساتھ جرگے کی اپنی ایک اہمیت رہی۔ اور جرگے کے مشران مختلف مقدمات کے فیصلے کرتے رہتے تھے۔
جرگے کا کوئی تحریری دستور یا قانون نہ تھا۔ بلکہ عموماً ہر قسم کے تنازعے کے لیے روایتی سزائیں مقرر تھیں۔ جو اہل جرگہ حالات کے مطابق دیتے تھے۔ مثلا مکران میں معتبر بلوچ کا خون بہا تین ہزار روپیہ تھا، ایک عام بلوچ کا دور ہزار روپیہ، میر یعنی ملاح کا پانچ سو روپی اور غلام کا دو سو روپیہ۔ اس میں سے ایک تہائی نقد۔ ایک تہائی آلات اور ایک تہائی جائداد کی صورت میں ادا کرنا پڑتا تھا۔ اکثر امور شرعی قانون کے مطابق حل ہوتے تھے۔ لیکن بعض امور میں مقامی رسم کو ترجیح دی جاتی تھی۔ جرگے کے ارکان نامزد ہوت تھے اور صدر کوئی اعلیٰ سرکاری افسر جس کا تعلق قانون اور امن سے ہو، جیسے مجسٹریٹ یا پولیٹکل ایجنٹ وغیرہ۔ قیام پاکستان کے بعد بھی یہ نظام عدل قائم رہا۔ 1970ء میں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل یحیی خان نے اسے منسوخ کر دیا۔ لیکن منسوخی کے بعد بھی صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان اور قبائل میں تقریباً نوے فیصد فیصلے اسی جرگہ سسٹم یا مشران کے تحت ہوتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ فوری فیصلہ اور مقامی قانون ہے۔ عدالتوں میں ایک فیصلہ کرنے میں لوگوں کی نسلیں ختم ہوجاتی ہیں اور جرگہ سسٹم میں وہی فیصلہ چند دنوں میں ہوجاتا ہے۔ ایسی حالت میں زیادہ تر لوگ جرگہ سسٹم پر بھروسا کرتے ہیں اور ہماری حکومتی عدالتیں بغلیں بجاتی ہیں اور انصاف کو مزید سستا کرنے کے لیے فیصلوں میں تاخیر کے عمل کو آگے بڑھاتی ہیں۔
وزیرستان میں 2004 کے بعد خراب ہونے والے حالات کی ذمہ داری بھی حکومت پر اس لیے عائد کی گئی کہ اس نے مقامی جرگے کے فیصلوں سے روگردانی کی۔ 2006ء میں مقامی طالبان اور حکومت کے درمیان جرگہ کی کوششوں سے ہی صلح ہوئی اور وزیرستان میں تاحال امن ہے۔
جرگہ پشتو لفظ ہے جس کا مطلب ہوتا ہے ’’اسمبلی‘‘۔ جرگہ یا تو ایک ہوتا ہے لیکن کہیں علاقوں میں دو جرگے بھی رائج رہی جن میں ایک کو لویہ جرگ یعنی بڑی جرگہ یا جرگۂ عظمٰی اور دوسرا وڑہ جرگہ یعنی چھوٹی جرگہ ۔