جمال الدین ہانسوی
سید جمال الدین ہانسوی اکمل بزرگاں اورپیشوائے عارفاں سے ہیں۔انھیں شیخ جمال ہانسوی بھی کہا جاتا ہے۔
جمال الدین ہانسوی | |
---|---|
فائل:جمال الدین ہانسوی مزار.jpg | |
ذاتی | |
پیدائش | 583 ہجری (1187ء) |
وفات | 659 ہجری (1260ء) ہریانہ میں ہنسی کے مقام پر، بھارت |
مذہب | اسلام، خاص طور پر چشتیہطریقت |
مرتبہ | |
مقام | ہریانہ |
دور | ابتدائی 13ویں صدی |
پیشرو | بابا فرید الدین گنج شکر |
جانشین | مختلف، شیخ بہاء الدین الدین سمیت اور شیخ قطب الدین منور |
سلسلہ نسب
ترمیمکا سلسلہ نسب براہ راست امام ابوحنیفہ سے ملتا ہے، جو اسلامی قانون (فقہ) پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والی شخصیت ہیں۔
ولادت
ترمیمآپ غزنی (خراسان) میں پیدا ہوئے، جو موجودہ افغانستان میں ہے۔ 583ھ میں جب آپ 5 سال کے تھے، آپ کے خاندان نے بھارت کے شہر ہریانہ کے مقام ہانسی کی طرف ہجرت کی۔
خطابات
ترمیماہل تمکین ہیں آپ کا خطاب خطیب اور قطب تھا۔
بیعت و طریقت
ترمیمآپ 50 سال کی عمر میں بابا فرید الدین گنج شکر کے شاگرد اور خلیفہ خاص بنے۔ جہاں سے آپ نے طریقت کی تعلیم پائی۔ شیخ جمال الدین ہانسوی سے بابا فرید اس قدر محبت کرتے تھے کہ ان جذبات کو الفاظ میں ظاہر نہیں کیا جا سکتا۔ شیخ جمال کی خاطربابا فرید نے بارہ سال تک ہانسی میں قیام کیا تھا۔ اپنے محبوب مرید کے بارے میں آپ فرمایا کرتے تھے۔ ’’جمال، جمال ماست‘‘ (جمال، ہمارا جمال ہے) بابا فرید جب اپنے کسی مرید کو خلافت نامہ عطا کرتے تو اس شخص کو تاکید فرمادیتے کہ ہانسی جاکر شیخ جمال الدین سے مہر لگوالینا۔ اگر شیخ جمال ہانسوی خلافت پر مہر لگادیتے تو وہ مستند سمجھا جاتا… اور اگر شیخ جمال مہر نہ لگاتے تو بابا فرید بھی اس خلافت نامے کو قبول نہ فرماتے اور صاف صاف کہہ دیتے۔ ’’جمال کے چاک کیے ہوئے کو ہم سی نہیں سکتے‘‘ بابا فرید کے یہ الفاظ اس واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ جب شیخ جمال نے آپ کے ایک مرید کا خلافت نامہ اس کی بے ادبی اور غرور کے سبب چاک کر دیا تھا اور پھر اس شخص نے بابا فرید کی خدمت میں حاضر ہوکر شیخ جمال کی شکایت کی تھی۔ جواباً بابا فرید نے تمام اہل مجلس کے سامنے فرمایا تھا ’’جسے ہمارا جمال چاک کر دے، ہم اسے نہیں سی سکتے‘‘[1]
سیرت
ترمیمآپ ایک اچھے خطیب تھے۔حضرت باباصاحب کی خدمت میں پیوست ہونے کے بعدخطابت چھوڑ دی تھی۔فقروفاقہ کوتاج وتخت پر فوقیت دیتے تھے۔علم ترک وتجرید آپ کاشعارتھا۔آپ کمالات ظاہری و باطنی میں بے نظیرتھے۔[2]
تصانیف
ترمیمشیخ جمال الدین کی تصانیف میں سے چند رسالے ملتے ہیں اُن میں سے ایک رسالہ بڑی خوبصورت عربی میں لکھا ہوا ہے اس کا نام ملحمات تھا، اس کی عبارت نہایت ہی مرغوب اور پسندیدہ تھی۔
وفات
ترمیمحضرت جمال الدین چھ سو اُنسٹھ ہجری 659ھ میں فوت ہوئے آپ کا مزار گوہر بار ہانسی میں ہے[3]