جمشید مشرور ناروے میں مقیم پاکستانی نژاد اردو شاعر، پروفیسر، تمثیل نگار اور ادیب ہیں۔ ان کا پیدائشی نام جمشید اقبال رانا ہے۔

جمشید مشرور

ابتدائی حالات زندگی

ترمیم

سترہ سال کی عمر میں ان کی ایک غزل ادبی مجلہ " اوراق " میں شائع ہوئی۔ اس کے کچھ سال بعد روزگار کی تلاش میں وہ اپنے آبائی شہر گجرات سے لاہور منتقل ہو گئے۔ اس دوران وہ ریڈیو پاکستان لاہور کے مشاعروں میں حصہ لیتے رہے۔ ان کا کلام اس زمانے کے ادبی رسالوں میں شائع ہؤاتھا۔ اس کے علاوہ گلوکاروں نے بھی ان کی غزلوں کو گایا۔ مشہور اردو شاعر احسان دانش مرحوم کی سوانح حیات ’’ جہان دانش ‘‘ میں بھی ان کا تذکرہ موجود ہے۔

ناروے منتقلی

ترمیم

لاہور میں دس سال رہنے کے بعد جمشید مسرور ناروے آ گئے اوراب وہیں مقیم ہیں۔

عملی زندگی کے کچھ پہلو

ترمیم
  1. جمشید پروفیسر لیلٰی رتھ شمیت کے معاون مدرس کے طور پچھلے پندرہ سالوں اوسلو یونیورسٹی میں پڑبھا رہے ہیں۔
  2. ان کا ایک شاگرد اوئے ویند جوہان اسٹین برگ (Oyvind Johan Stenberg) لیلٰی رتھ شمیت کی سرکردگی میں پی ایچ ڈی کیا تھا۔ اسے جمشید کی سفارش لاہور میں منیر نیازی نے دی تھی۔ یہ طالب علم تین مہینے کے مطالعاتی دورے (study tour) پر تھا جس میں وہ جمشید سے روز تبادلہ خیال کرتا تھا۔ اس میعاد کا حاصل یہ رہا کہ اوئے ویند نے جلدی ہی پی ایچ ڈی کی تکمیل کی۔
  3. جمشید اور اوئے ویند کو گورنمنٹ کالج اوسلو کی جانب سے اردو مادری زبان کی اساتذہ کی صلاحیتوں میں اضافے کا ذمہ سونپا گیا تھا ۔
  4. صلاحیتوں میں اضافے کا یہ پروگرام دو سالہ بیچلرکی ڈگری کی شکل میں تھا۔ جمشید نے اردو کے مختلف پہلو سکھائے اور ان لوگوں نے کافی دیدہ ریزی سے کورس مکمل کیا۔ اس پروکرام میں 32 طالب علم تھے، تقریبًا سبھی پاکستانی خواتین تھیں اور ایک بھارتی پنجابی خاتون تھی۔
  5. جمشید پچھلے33 سالوں میں 33 بین الاقوامی مشاعرے منعقد کر چکے ہیں۔ ان میں وہ کئی پاکستان، بھارت، یورپ اور امریکا کے شعرا کو مدعو کر چکے ہیں۔
  6. جمشید پچھلے پندرہ سالوں سے ایک ماہنامہ "بازگشت / Ekko" (ایکو) نئی نسلوں کو اردو سے روشناس کرنے کے لیے ناروے سے چھاپ چکے ہیں۔

ادبی ذوق

ترمیم
  1. جمشید ناروے ادبی میدان میں اپنی نارویجین نظم "اسمگلر حکمرانوں کے نام" سے شروع کیے جو 80 کے دہے میں اخباروں چھپی تھی۔
  2. ایک نارویجین ناول نگار لارس سابیے کرسٹین سین (Lars Saabye Christensen) نے 1991 میں ایک مجموعہ اشعار شائع کیا جس میں جمشید کی کچھ غزلوں کے خود ان کی جانب سے فراہم کر دہ نارویجین ترجمہ بھی شائع ہوا۔
  3. جمشید کا پہلا مجموعہ کلام "شاخ منظر" 1989 میں لاہور کی فلیٹیس ہوٹل میں جاری ہوا تھا۔ اس محفل میں کئی ادبی شخصیتیں شریک تھے۔
  4. اوسلو کی ڈیچمانسکے مرکزی لائبریری (Deichmanske central library of Oslo) نے جمشید کے کلام کو اپنے اردو سیکشن کا حصہ بنایا۔
  5. اس کے کچھ ہی وقت بعد یہ کتب خانہ جمشید مسرور کے ساتھ ایک ماہ منایا۔
  6. ناروے کے سب سے بڑے ناشر گائلڈینڈالنارسکفارلاگ (Gyldendalnorskforlag) نے جمشید کی پہلے دو لسانی مجموعہ کلام کو چھاپا تھا، جس جس کے لیے انھوں نے نارویجین شاعر ایرلنگ کیٹیل سن (ErlingKittelsen) کی ناشر کی سفارش پر مدد لی تھی۔ یہ 1994 میں چھپا تھا اور اس کا مقامی زبان میں نام "Oseaner av øieblikk LamhoNkesamundar" تھا۔
  7. جمشید پہلے پاکستانی اور غیر ملکی تھے جنہیں نارویجین رائٹرس یونین کے رکن کے طور پر منظور کیا گیا تھا۔
  8. جمشید کو 1999 میں نارویجین فنکار ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔
  9. جمشید کو مذکورہ بالا انعام کے بعد پہلا نارویجین ثقافتی وظیفہ (Norwegian cultural stipend) بھی حاصل ہوا تھا۔
  10. نارویجین ثقافتی کونسل، اوسلو، اوسلو اسپورویئیر (Oslo sporveier) جو وہاں کی ٹریم وے میٹرو سرویس ہے، کے اشتراک سے عوام میں شاعرانہ ذوق بڑھانے کا ایک پروگرام جاری کیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی جمشید اور دو نارویجین کا انتخاب کیا گیا۔ جمشید کی نظم "AikManzar – منظرنامہ" چنی گئی۔ ٹریموں میں ان تینوں شعرا کا کلام عوام کے مطالعے کے لیے پیش کیا گیا تھا۔ تاہم جمشید کا کلام نارویجین اور اردو زبان میں برابر پیش کیا گیا۔ مقامی لوگ نارویجین پڑھ تو لیتے تھے مگر اردو زبان میں کلام کو صرف دیکھ سکتے تھے۔ یہ سلسلہ تین مہینوں تک جاری تھا۔
  11. اسی سلسلے کے تحت یہ تین شعرا عوامی مجمعوں میں اپنا کلام بھی کئی بار سنا چکے تھے۔
  12. ناشر گائلڈینڈالنارسکفارلاگ (Gyldendalnorskforlag) نے جمشید کا ایک اور مجموعہ کلام جاری کیا جس کا مقامی زبان میں نام "Pichhlay bara ski dhoop – solskinn fra i fjor"
  13. اسی کتاب سے ایک نظم منتخب کر کے ٹریموں میں تشہیر کے لیے استعمال کی گئی جیساکہ اور "AikManzar – منظرنامہ" کا ذکر کیا گیا ہے۔
  14. ووڈبرگ یونیورسٹی لاس اینجلس، ریاستہائے متحدہ امریکا کی پروفیسر ایلزبیتھ سینڈبرگ نے جمشید کے کلام کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔ اس مجموعے کو اردو متن کے ساتھ دو لسانی شاعرانہ کلام کے طور چھاپا گیا تھا۔
  15. جمشید کو اس جامعہ کی جانب سے مدعو کیا گیا تھا۔ اس کے بعد وہ ایلزبیتھ سینڈبرگ کی معیت میں چھ شہروں میں بنفس نفیس اپنا کلام سنا چکے ہیں۔

تراجم

ترمیم
  1. جمشید لارس سابیے کرسٹین سین (Lars Saabye Christensen) کے مجموعہ کلام "Stempler" کو اردو میں "دیوار ہوا پر آئینہ" کے عنوان سے ترجمہ کیا جسے سنگ میل پبلی کیشنز کی جانب سے چھاپا گیا تھا۔
  2. انھوں نے ایرلنگ کیٹیل سن (ErlingKittelsen) کی کتاب کا اردو میں ترجمہ کیا جس کا عنوان "راکا داستان گو" تھا۔ اسے بھی سنگ میل پبلی کیشنزنے چھاپا تھا۔
  3. انھوں نے مرزا ہادی رسوا کی امراؤجان ادا کا نارویجین میں اوئے ویند جوہان اسٹین برگ (Oyvind Johan Stenberg) کی مدد سے ترجمہ کیا۔ اس کتاب کا آرڈر اور اشاعت کا کام سولوم فورلاگ (Solumforlag)، اوسلو کی جانب سے کیا گیا اور اسے مقامی زبان میں "Kurtisanenfra Lucknow" کا نام دیا گیا تھا۔
  4. وہ اپنے ماہنامے بازگشت کے عالمی ادب نمبر کے خود مدیر ہیں جس میں چھ سو صفحات پر مشتمل اردو اصناف سخن جیسے کہ شاعری، افسانہ وغیرہ کا احاطہ کیا گیا تھ
  5. کئی نارویجین شعرا کے کلام کو جمشید اردو میں ترجمہ کر چکے ہیں۔

ڈرامے

ترمیم

جمشید دو ڈراموں کے لکھاری اور ہدایت کار ہیں جنہیں دی اوپن تھیٹر آف اوسلو میں پیش کیا گیا۔ ان کے لکھنے اور پیش کش میں اردو، پنجابی اور نارویجین زبانوں کا مخلوط استعمال کیا گیا تھا:

  1. Naukarwohtida ( Rannanwalyan de pakkanprothay)# Munda bigrajaye

ان ڈراموں کی پیش کش میں پاکستانی اور نارویجین اداکاروں اور اداکاراؤں کی صلاحیتوں کو بہ روئے کار لایا گیا۔

پڑوسی ممالک میں مقبولیت

ترمیم

مسرور ناروے کے پڑوسی ملک ڈنمارک میں بھی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ مسرور ڈنمارک میں منعقد ہونے والے کئی مشاعروں میں بھی شریک رہے ہیں ۔[1]

تمغا امتیاز

ترمیم

2015ء میں مسرور کو ان کی ادبی خدمات کی وجہ سے پاکستان کے اعلٰی شہری اعزاز تمغا امتیاز سے نوازا گیا تھا۔[2][3]

حوالہ جات

ترمیم
  1. "Urdu Hamasr - ادبیات"۔ 05 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 جون 2015 
  2. Roznama Dunya : پاکستان:-آرمی اسکول پشاور کے طلبہ سمیت 329 عسکری و سول شخصیات میں ایوارڈز تقسیم
  3. "Hedret av sine egne - Aftenposten"۔ 02 جولا‎ئی 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 جون 2015