جموں و کشمیر میں اردو
جموں و کشمیر میں اردو کے وسیع پیمانے پر استعمال کا دور وہاں کے ڈوگرا حکمرانوں کے دور سے شروع ہوا۔ اس سے پہلے کشمیر میں فارسی زبان کو سرکاری حیثیت حاصل تھی ۔
ابتدا
ترمیم1846ء میں ڈوگرا اقتدار کشمیر کی تاریخ کا حصہ بنا۔ اس کے پہلے حکمران مہاراجا گلاب سنگھ نے اپنی سلطنت کی توسیع کرتے ہوئے لداخ، کشتواڑ اور چیناب وادی کے سبھی اضلاع پر حکومت قائم کی۔[1] حکومت کی زبان ابتدا میں فارسی تھی، تاہم شروع میں جموں میں اردو کو زیادہ ترجیح دی جانے لگی، پھر یہی صورت حال باقی ریاست پر چھا گئی۔ ڈوگرا سلطنت کے حکمران مہاراجا رنبیر سنگھ نے اردو کو زیادہ فروغ دینا شروع کیا۔ اسے سرکاری اسکولوں میں ذریعہ تعلیم کا درجہ دیا گیا۔ اس نے اردو میں ایک اخبار رنبیر کے نام سے جاری کیا جس سے حوصلہ افزائی پاکر کئی اور اردو اخبارات موجود میں آئے۔[2]
ادبی دنیا میں اردو
ترمیم- جموں میں سفرنامہ نخارا چھپ کر سامنے آیا۔ یہ ریاست کی پہلی اردو کتاب تھی جسے چودھری شیر سنگھ نے لکھا تھا۔
- احمدی پریس کے نام سے پہلا چھاپاخانہ اسی شہر میں قائم ہوا۔
- شہر میں اردو اور ہندی کا مشترکہ اخبار بِدیا بِلاس جاری ہوا۔
- جموں سے شروع ہو کر ریاست کی اور جگہوں پر اردو کے مشاعرے منعقد ہونے لگے۔[2]
اردوکا ریاست میں موقف
ترمیمجموں کشمیر کے آئین کی دفعہ 145 کے تحت بھارتی ریاست جموں و کشمیر کو سرکاری زبان کو موقف حاصل ہے۔ ریاستی حکومت چوتھی سے لے کر دسویں تک اردو کو ثانوی زبان کے طور پر لازمی بنا دیا ہے۔ سرکاری رودادیں اور اعلامیے انگریزی کے علاوہ اردو میں جاری ہوتے ہیں۔ اردو سے واقفیت ریاستی حکومت کی ملازمت کے لیے بے ضروری قرار دی گئی ہے۔[2]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ ہماری زبان، تاریخ اشاعت: 02-06-17، 8-14 جون، 2017، شمارہ 22، جلد 76، مدیر: اطہر فاروقی، عبد الباری کی جانب سے انجمن ترقی اردو (ہند) کی اشاعت، صفحہ 1
- ^ ا ب پ ہماری زبان، تاریخ اشاعت: 02-06-17، 8-14 جون، 2017، شمارہ 22، جلد 76، مدیر: اطہر فاروقی، عبد الباری کی جانب سے انجمن ترقی اردو (ہند) کی اشاعت، صفحہ 7