جمیل الدین بجنوری دارالعلوم دیوبند کے ایک جید عالم دین، فقیہ اور مدرس تھے۔ آپ کا تعلق دیوبندی مکتب فکر سے تھا اور آپ نے اپنی زندگی کو دینی تعلیم و تدریس اور فقہ اسلامی کی خدمت کے لیے وقف کر دیا۔ دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد آپ نے دین کی خدمت میں نمایاں کردار ادا کیا۔[1][2]

جمیل الدین بجنوری
ذاتی
پیدائش1900
وفات1985
معتقداتدیوبندی
بنیادی دلچسپیفقہ اسلامی
قابل ذکر خیالاتدیوبندی مکتب فکر میں علمی خدمات اور تدریس
وجہ شہرتعالم دین، فقیہ، استاد
پیشہعالم دین
مرتبہ
متاثر

ابتدائی زندگی

ترمیم

جمیل الدین بجنوری کی پیدائش بجنور میں ہوئی۔ آپ کا تعلق ایک علمی خاندان سے تھا، جس کی وجہ سے بچپن ہی سے دینی تعلیم میں گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا جہاں آپ نے اساتذہ سے اسلامی علوم میں مہارت حاصل کی۔[3]

دارالعلوم دیوبند سے وابستگی

ترمیم

آپ نے دارالعلوم دیوبند سے تعلیم مکمل کی اور وہاں سے فراغت کے بعد تدریس کی خدمات انجام دینے لگے۔ آپ نے بے شمار طلبہ کو اسلامی علوم میں تربیت دی اور فقہ اور حدیث کے اصولوں کو عام کیا۔[4]

دینی خدمات

ترمیم

فراغت کے بعد آپ نے دین کی خدمت میں مصروفیت جاری رکھی اور مختلف موضوعات پر تحقیق و تدریس کا کام کیا۔ آپ کی علمی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جاتا ہے اور آپ کے شاگرد آپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دینی علوم میں کام کر رہے ہیں۔[5]

علمی مقام اور اثرات

ترمیم

جمیل الدین بجنوری کو دیوبندی مکتب فکر میں ایک ممتاز مقام حاصل تھا۔ آپ کے شاگرد اور ہم عصر علماء آپ کے علم و فضل کو تسلیم کرتے تھے۔ آپ کی شخصیت اور علمی خدمات کو آج بھی احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور آپ کے شاگرد آپ کی تعلیمات سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔[6]

وفات

ترمیم

جمیل الدین بجنوری کی وفات کے بعد علمی حلقوں میں ایک بڑا خلا پیدا ہو گیا جسے پر کرنا آسان نہ تھا۔ آپ کی دینی خدمات کو دیوبندی مکتب فکر میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔[7]

حوالہ جات

ترمیم
  1. سید مہدی حسن، "تاریخ دیوبند"، جلد 2، صفحہ 325، دیوبند پبلیکیشنز
  2. محمد اسحاق بھٹی، "ہندوستان کے ممتاز علماء"، صفحہ 112، لاہور، 1980ء
  3. محمد یوسف، "بجنور کے علما"، صفحہ 210، مکتبہ بجنور، 1975ء
  4. مفتی عبد القادر، "دیوبند کا علمی ورثہ"، صفحہ 90، کراچی یونیورسٹی، 1982ء
  5. مولانا محمد زکریا، "ہندوستان کے دینی مدارس"، صفحہ 115، لاہور، 1984ء
  6. مولانا قاری محمود، "دیوبند کے فقیہ"، صفحہ 60، لاہور اسلامی انسٹیٹیوٹ، 1985ء
  7. محمد اعظم، "علماء دیوبند کی خدمات"، صفحہ 50، مکتبہ اسلامی، 1986ء