جنگ پلاسی
جنگ پلاسی کی وجہ
ترمیمنواب سراج الدولہ کا دادا نواب علی وردی خان ایک جہاندیدہ اور زیرک انسان تھا ۔ اس نے سلطنت کے معاملات کو بہت اچھے طریقے سے چلایا میر جعفر نواب علی وردی خان کے دور سے ہی سالار تھا لیکن نواب سراج الدولہ میں وہ خوبیاں نہیں تھی ناب جوان اور درباری سیاست سے آشنا نہ تھا۔ 20جون 1756 کو نواب نے پنی 50000 کی فوج کو ساتھ ملا کر کلکتہ کی ایک برطانوی چوکی پر حملہ کیا جس کے نتیجہ میں نواب کے چند سپاہیوں کی غفلت سے بہت سے انگریز مارے گئے اس واقع کو بلیک ہو ل آف کلکتہ بھی کہتے ہیں۔
جنگ پلاسی
ترمیم23 جون 1757ء، سراج الدولہ نواب بنگال اور انگریز جرنیل کلائیو کے درمیان جنگ پلاسی کلکتہ سے 70 میل کے فاصلے پر دریائے بھاگیرتی کے کنارے قاسم بازار کے قریب واقع ہے۔ انگریز جرنیل کلایو تمام بنگال پر قبضہ کرنا چاہتا تھا۔ شہنشاہ دہلی پہلے ہی اس کے ہاتھ میں کٹھ پتلی تھا۔ بنگال پر قبضے کے لیے بلیک ہول کا فرضی افسانہ تراشا گیا اور میر جعفر سے سازش کی گئی۔ میر جعفر سراج الدولہ کے نانا علی وردی خان کا بہنوئی تھا۔ اس کو نوابی کا لالچ دے کر توڑ لیا گیا۔ اس کے علاوہ اوما چند نامی ایک سیٹھ کو بھی سازش میں شریک کیا گیا۔ لیکن اس کو 3,000,000 روپیہ دینے کا جو معاہدہ کیا گیا وہ جعلی تھا۔
کلائیو اپنی روایتی تین ہزار فوج کو لے کر نواب پر چڑھ آیا۔ اس کی فوج میں صرف 500 گورے تھے جبکہ 2500 ہندوستانی تھے۔ نواب کے پاس بقول مورخین 50,000 پیادے، 18,000 گھڑ سوار اور 55 توپیں تھیں لیکن اس فوج کا ہر حصہ میر جعفر کے زیر کمان کلائیو سے مل چکا تھا۔ اس لیے نواب میدان جنگ میں ناکام ہوا اور گرفتار ہو کر میر جعفر کے بیٹے میرن کے ہاتھوں قتل ہوا۔
انگریز مورخوں کا یہ دعوی کہ کلائیو نے تین ہزار سپاہیوں کی مدد سے نواب کی لاتعداد فوج پر فتح پائی قرین قیاس نہیں ہو سکتا کیوں کہ 50,000 میں سے ہر ایک کے حصے میں 3,000 کی بوٹی تک نہیں آسکتی۔ دراصل خود نواب کی فوج کا بیشتر حصہ اپنے گھر کو آگ لگا رہا تھا۔ نیز یہ کہنا کہ میر جعفر آخر دم تک کلائیو کے ساتھ نہیں ملا، بالکل غلط ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو اس کو انگریز کبھی نواب نہ بناتے۔ یہ اسی شخص کی غداری تھی جس کے باعث بنگال میں اسلامی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ اس پر بھی اگر سراج الدولہ کا سپہ سالار نہ مرتا تو نتیجہ کچھ اور ہوتا۔ اس سپہ سالار کو، جو میر جعفر کے ساتھ شریک نہ تھا۔ میر جعفر کے آدمیوں نے قتل کر دیا تھا۔ جس سے وفادار فوج بھی بدحواس گئی۔ کلائیو کے صرف بیس آدمیوں کا مارا جانا اور پچاس کا زخمی ہونا تعجب خیز نہیں۔ کیوں کہ توپ خانے کو بھی پہلے ہی خرید لیا گیا تھا اور توپوں میں پانی ڈلوا دیا گیا تھا۔ پروپیگینڈا یہ کیا گیا کہ جنگ سے پہلے بارش ہو گئی تھی اور نواب کے پاس ترپال نہیں تھے اس لیے اس کا سارا بارود بھیگ کر نا کارہ ہو گیا تھا۔
لڑائی کے بعد کلائیو مرشد آباد پہنچا جو ان دنوں بنگال کا دار الحکومت تھا۔ کٹھ پتلی شاہ دہلی سے پہلے ہی میر جعفر کی تقرری کا فرمان حاصل کیا جا چکا تھا۔ چنانچہ اس کو گدی پر بٹھا دیا گیا۔ میر جعفر کو تمام خزانہ اور ذاتی زروجواہر کلائیو کی نذر کرنے پڑے جن میں سے ہر انگریز کو معقول حصہ دیا گیا۔ صرف کلائیو کا حصہ 5,301,000 روپے تھا۔ اس کے علاوہ برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کو ایک کروڑ روپیہ کلکتہ کے نقصان کے عوض اور حملے کی پاداش میں دیا گیا۔
اس کے علاوہ بنگال میں چوبیس پرگنے کا زرخیز علاقہ بھی کمپنی کی نذر ہوا۔ 1759ء میں شاہ عالم نے اس تمام علاقے کا محاصل جو چار لاکھ پچاس ہزار ہوتا تھا۔ کلائیو کو بخش دیا اور اس طرح تقریباً سارا بنگال انگریزوں کے تسلط میں آگیا۔ چند روز بعد انگریزوں نے میر جعفر کو بے دست و پا کر دیا، لیکن یہ شخص نہایت سمجھ دار نکلا۔ اس نے ایسے اقدامات شروع کیے جن سے انگریزوں کے پنجے ڈھیلے ہونے شروع ہو گئے اور پٹنہ میں دو سو انگریز قتل کر دیے گئے۔ میر قاسم نے دیگر مسلمان نوابوں کو متحد کرکے بکسر کے مقام پربہادری سے انگریزوں کا مقابلہ کیا جس میں ایک ہزار انگریز مارے گئے لیکن پھر غداری اور سازش اپنا رنگ لائی۔ میر قاسم کی فوج میں بھگدڑ مچ گئی اور انگریز بنگال پر قابض ہو گئے۔
نام
ترمیماردو میں جنگ کا نام پلاسی ہے، درحقیقت یہ بنگالی زبان کا لفظ پلاشی (بنگلہ:পলাশী) ہے، جس کے معنی پھولوں کا علاقہ ہے۔ یہ جنگ جس علاقے میں لڑی گئی تھی اس علاقے میں پھول زیادہ پائے جاتے ہیں اور انھیں پھولوں کی وجہ سے پورے علاقے کا نام پلاشی پڑ گیا ہے۔
اقتباس
ترمیم- مورخ لکھتے ہیں کہ جنگ پلاسی تو وہ جنگ تھی جو لڑی ہی نہیں گئی تھی
Historians says" Battle of Plassey was a war which was never fought"
- 23 جون 1757ء کی پلاسی کی چھوٹی سی لڑائی کو مورخوں نے جنگ قرار دیا۔
- کتاب: انارکی از ولیم ڈیلر مپل، صفحہ 156-157 سے اقتباس
"جنگ سے پہلے کی رات کو، (فرانسیسی) لا نے آخری مرتبہ عشاء کے ساتھ کھانا کھایا۔ یہ بہت ہی نجی معاملہ تھا، ماحول بہت اطمینان بخش تھا اور وہاں کوئی بھی عمومی تقریب اور آداب مجلس کا تقاضا نہیں تھا۔ میں نے وہاں دوستانہ انداز میں بتایا کہ ہماری حالت بہت خراب ہے۔ شہزادے نے پھر اپنا دل بدقسمتیوں کے بارے میں کھول کے رکھ دیا جو مسلسل اس کا تعاقب کر رہی تھیں۔ میں اس کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ اس کی حفاظت اور امن کے لیے یہ بہتر ہوگا کہ وہ اپنی نگاہیں بنگال کی بجائے کسی اور علاقے پر لگائے ۔ “افسوس !” اس نے کہا: “اگر میں پسپا ہوتا ہوں تو وہ کیا کہیں گے؟ نفرت کا اس میں اضافہ ہو جائے گا جس سے میری رعایا مجھے پکارتی ہے”۔
آنے والے دن علی الصبح، کمپنی کے سپاہیوں نے حملے کا آغاز کیا، تیزی سے اپنی خندقوں سے بڑھے اور بڑھنے کے دوران گولہ باری کرتے رہے۔ ایک باره پاونڈ کے گولے نے شہنشاہ کے ہاتھی کے مہاوت کو مار ڈالا، جسے میدان جنگ سے باہر شہنشاہ کے ساتھ لے جایا گیا۔ اسی دوران میں میر جعفر، اپنی عمومی سابقہ گندی حکمت عملیوں کی جانب مڑا اور اس نے شاہ عالم کے کمان دار کام گار خان اور دوسرے متعدد درباریوں کو حدم و حشم کے ساتھ زبردست رشوت کی پیشکش کی جو جلد ہی شاہ عالم کو چھوڑ کر نواب کی فوجوں سے مل گئے ۔ اس کی اطلاع خوش قسمت فرانسیسی سپاہی جین بیپ ٹسٹ جینٹل نے دی۔ اس کے بعد وہاں نتیجے کے بارے میں کوئی ابہام باقی نہیں رہا تھا۔ جنرل اور درباریوں نے فوراً اپنی وفاداریاں بدلیں اور اپنے ساتھ مغل فوج کا ایک بڑا حصہ بھی لے گئے ۔ موسیو لا ڈی لاؤرسٹن ، جو شاہی توپ خانے کا سربراہ تھا، اپنی تمام دلیری اور فوجی مہارت اور کوششوں کے باوجود ان کو روکنے میں ناکام رہا اور فرانسیسی افسر کو قید کر لیا گیا۔
غلام حسین خان (اٹھارویں صدی کا مورخ[1]) لا کی آخری استقامت اور تیقن کو بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے، “یہ دیکھ کر کہ سب نے شہنشاہ کو چھوڑ دیا تھا حتہ کے اس کی فوج کے سربراہ اعلیٰ نے بھی جنگ کے دوران غداری کر کے شاہ کی موت کا راستہ وا کر دیا تھا، ایم لا چھوٹی سی فوج اور توپ خانے کے چند ٹکڑوں کو جن کو وہ اکھٹا کر سکتا تھا ان کے ساتھ انگریزی فوج سے لڑا اور بسا اوقات وہ ان کی عددی برتری پر بھی حاوی ہو گیا تھا۔ مٹھی بھر سپاہی جنھوں نے ایم لا کی پیروی کی ، وہ شہنشاہ کے فرار اور ابھی تک اس کی خدمت میں ادھر اُدھر گشت کرنے سے دل شکستہ ہو چکے تھے ، وہ بھی پلٹے اور فرار ہو گئے ۔ ایم لا نے خود کو تنہا چھوڑا ہوا پایا اور اپنی پشت نہ دکھانے کا فیصلہ کیا۔ وہ بندوقوں میں سے ایک پر دونوں ٹانگیں پھیلا کر کھڑا ہوا اور اسی حالت میں استقامت سے کھڑا اپنی موت کا انتظار کرتا رہا۔
لا کی بہادری سے متاثر ہو کر کمپنی کمانڈر کارنک اپنی سواری سے اترا، محافظ لیے بغیر، لیکن بہت سینئر افسران کو لے کر اس کی طرف پیدل چلا اور اپنے ہیٹ کو سر سے اتار کر اس کی جرات ہمت اور دلیری کو سلام پیش کیا اور اس کو گرفتاری دینے کی ترغیب دی اور کہا "تم نے ہر وہ چیز کی جو ایک بہادر اور نڈر آدمی سے توقع کی جاتی ہے اور آپ کا نام بلاشبہ تاریخ دانوں کے قلم کے ذریعے آنے والی نسلوں تک منتقل کیا جائے گا ،” اس نے التجا کی ۔ “اب اپنی تلوار لنگوٹ سے اتار دو، ہمارے درمیان آجاؤ اور ان تمام خیالات کو بھول جاؤ جو تم انگریزوں کے بارے میں رکھتے ہو”۔
لا نے جواب دیا کہ اگر وہ بذات خود اس کے ہتھیار ڈالنے کو اس کی موجود حالت میں قبول کرتے ہیں ، اسے کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن بغیر تلوار کے ہتھیار ڈالنا بے عزتی کے مترادف ہے اور وہ اس ذلت کو کبھی قبول نہیں کرے گا ، بھلے وہ اس کی زندگی لے لیں اگر وہ اس شرط سے مطمئن نہیں ہیں۔ انگریز کمانڈروں نے اس کی پختگی، ہمت اور جرات کو خراج تحسین پیش کیا اور اسے اسی طرح سے اپنے آپ کو انگریز فوج کے سپرد کرنے کی اجازت دی جیسی اس کی چاہت تھی۔ میجر نے اس سے انگریزی انداز میں مصافحہ کیا اور دشمنی کے تمام جذبات دونوں فریقین کے دلوں سے رفع ہو گئے۔"
شکست کی وجوہات
ترمیماس جنگ میں سراج الدولہ کی شکست کی بہت سی وجوہات میں سے ایک وجہ بارش تھی۔سراج الدولہ کے پاس توپیں تھیں لیکن ان کو ڈھاپنے کے لیے تمبو نہیں لے کر گئے تھے۔جب بارش اچانک برسی تو توپیں اور بارود بے کار ہو گیا۔انگریزوں نے توپیں ڈھانپ کے رکھی تھیں۔ ہندوستانی یہی سمجھتے رہے کہ انگریزوں کی توپیں بھی خراب ہو گئی ہوں گی۔سو پیادے توپوں کے سامنے اتار دیے گئے۔ جب انگریزی توپوں نے آگ اگلی تو دیسی افواج کے پاؤں اکھڑ گئے۔