جنگ پلاسی
23 جون 1757ء، سراج الدولہ نواب بنگال اور انگریز جرنیل کلائیو کے درمیان جنگ پلاسی کلکتہ سے 70 میل کے فاصلے پر دریائے بھاگیرتی کے کنارے قاسم بازار کے قریب واقع ہے۔انگریز جرنیل کلایو تمام بنگال پر قبضہ کرنا چاہتا تھا۔ شہنشاہ دہلی پہلے ہی اس کے ہاتھ میں کٹھ پتلی تھا۔ بنگال پر قبضے کے لیے بلیک ہول کا فرضی افسانہ تراشا گیا اور میر جعفر سے سازش کی گئی۔ میر جعفر سراج الدولہ کے نانا علی وردی خان کا بہنوئی تھا۔ اس کو نوابی کا لالچ دے کر توڑ لیا گیا۔ اس کے علاوہ اوما چند نامی ایک سیٹھ کو بھی سازش میں شریک کیا گیا۔ لیکن اس کو 3,000,000 روپیہ دینے کا جو معاہدہ کیا گیا وہ جعلی تھا۔
کلائیو اپنی روایتی تین ہزار فوج کو لے کر نواب پر چڑھ آیا۔ اس کی فوج میں صرف 500 گورے تھے جبکہ 2500 ہندوستانی تھے۔ نواب کے پاس بقول مورخین 50,000 پیادے، 18,000 گھڑ سوار اور 55 توپیں تھیں لیکن اس فوج کا ہر حصہ میر جعفر کے زیر کمان کلائیو سے مل چکا تھا۔ اس لیے نواب میدان جنگ میں ناکام ہوا اور گرفتار ہو کر میر جعفر کے بیٹے میرن کے ہاتھوں قتل ہوا۔
انگریز مورخوں کا یہ دعوی کہ کلائیو نے تین ہزار سپاہیوں کی مدد سے نواب کی لاتعداد فوج پر فتح پائی قرین قیاس نہیں ہو سکتا کیوں کہ 50,000 میں سے ہر ایک کے حصے میں 3,000 کی بوٹی تک نہیں آسکتی۔ دراصل خود نواب کی فوج کا بیشتر حصہ اپنے گھر کو آگ لگا رہا تھا۔ نیز یہ کہنا کہ میر جعفر آخر دم تک کلائیو کے ساتھ نہیں ملا، بالکل غلط ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو اس کو انگریز کبھی نواب نہ بناتے۔ یہ اسی شخص کی غداری تھی جس کے باعث بنگال میں اسلامی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ اس پر بھی اگر سراج الدولہ کا سپہ سالار نہ مرتا تو نتیجہ کچھ اور ہوتا۔ اس سپہ سالار کو، جو میر جعفر کے ساتھ شریک نہ تھا۔ میر جعفر کے آدمیوں نے قتل کر دیا تھا۔ جس سے وفادار فوج بھی بدحواس گئی۔ کلائیو کے صرف بیس آدمیوں کا مارا جانا اور پچاس کا زخمی ہونا تعجب خیز نہیں۔ کیوں کہ توپ خانے کو بھی پہلے ہی خرید لیا گیا تھا اور توپوں میں پانی ڈلوا دیا گیا تھا۔ پروپیگینڈا یہ کیا گیا کہ جنگ سے پہلے بارش ہو گئی تھی اور نواب کے پاس ترپال نہیں تھے اس لیے اس کا سارا بارود بھیگ کر نا کارہ ہو گیا تھا۔
لڑائی کے بعد کلائیو مرشد آباد پہنچا جو ان دنوں بنگال کا دار الحکومت تھا۔ کٹھ پتلی شاہ دہلی سے پہلے ہی میر جعفر کی تقرری کا فرمان حاصل کیا جا چکا تھا۔ چنانچہ اس کو گدی پر بٹھا دیا گیا۔ میر جعفر کو تمام خزانہ اور ذاتی زروجواہر کلائیو کی نذر کرنے پڑے جن میں سے ہر انگریز کو معقول حصہ دیاگیا۔ صرف کلائیو کا حصہ 5,301,000 روپے تھا۔ اس کے علاوہ برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کو ایک کروڑ روپیہ کلکتہ کے نقصان کے عوض اور حملے کی پاداش میں دیا گیا۔
اس کے علاوہ بنگال میں چوبیس پرگنے کا زرخیز علاقہ بھی کمپنی کی نذر ہوا۔ 1759ء میں شاہ عالم نے اس تمام علاقے کا محاصل جو چار لاکھ پچاس ہزار ہوتا تھا۔ کلائیو کو بخش دیا اور اس طرح تقریباً سارا بنگال انگریزوں کے تسلط میں آگیا۔ چند روز بعد انگریزوں نے میر جعفر کو بے دست و پا کر دیا، لیکن یہ شخص نہایت سمجھ دار نکلا۔ اس نے ایسے اقدامات شروع کیے جن سے انگریزوں کے پنجے ڈھیلے ہونے شروع ہو گئے اور پٹنہ میں دو سو انگریز قتل کر دیے گئے۔ میر قاسم نے دیگر مسلمان نوابوں کو متحد کرکے بکسر کے مقام پربہادری سے انگریزوں کا مقابلہ کیا جس میں ایک ہزار انگریز مارے گئے لیکن پھر غداری اور سازش اپنا رنگ لائی۔ میر قاسم کی فوج میں بھگدڑ مچ گئی اور انگریز بنگال پر قابض ہو گئے۔
نامترميم
اردو میں جنگ کا نام پلاسی ہے، درحقیقت یہ بنگالی زبان کا لفظ پلاشی (بنگلہ:পলাশী) ہے، جس کے معنی پھولوں کا علاقہ ہے۔ یہ جنگ جس علاقے میں لڑی گئی تھی اس علاقے میں پھول زیادہ پائے جاتے ہیں اور انہیں پھولوں کی وجہ سے پورے علاقے کا نام پلاشی پڑ گیا ہے۔
اقتباسترميم
- مورخ لکھتے ہیں کہ جنگ پلاسی تو وہ جنگ تھی جو لڑی ہی نہیں گئی تھی
Historians says" Battle of Plassey was a war which was never fought"
- 23 جون 1757ء کی پلاسی کی چھوٹی سی لڑائی کو مورخوں نے جنگ قرار دیا۔
شکست کی وجوہاتترميم
اس جنگ میں سراج الدولہ کی شکست کی بہت سی وجوہات میں سے ایک وجہ بارش تھی۔سراج الدولہ کے پاس توپیں تھیں لیکن ان کو ڈھاپنے کے لئے تمبو نہیں لے کر گئے تھے۔جب بارش اچانک برسی تو توپیں اور بارود بے کار ہو گیا۔انگریزوں نے توپیں ڈھانپ کے رکھی تھیں۔ ہندوستانی یہی سمجھتے رہے کہ انگریزوں کی توپیں بھی خراب ہو گئی ہونگی۔سو پیادے توپوں کے سامنے اتار دیے گئے۔ جب انگریزی توپوں نے آگ اگلی تو دیسی افواج کے پاؤں اکھڑ گئے۔