جولیس ولہاؤزن جرمنی کا بائبلی محقق، مورخ، ماہر الہیات اور مستشرق تھا۔ اثنائے تحقیق وہ اسلامی مطالعات کی وجہ سے عہد نامہ قدیم سے عہد نامہ جدید تک جا پہنچا۔ ولہاؤزن نے تورات کی تاریخ تالیف کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور اسلام کے ابتدائی دور کا بھی مطالعہ کیا۔ نیز ولہاؤزن کو تورات کے دستاویزی مفروضہ کے بانیوں میں بھی شمار کیا جاتا ہے۔[2][3][4]

جولیس ولہاؤزن
(جرمنی میں: Julius Wellhausen ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

معلومات شخصیت
پیدائش 17 مئی 1844(1844-05-17)
ہاملن، Hanover، جرمن کنفیڈریشن
وفات 7 جنوری 1918(1918-10-07) (عمر  73 سال)
Göttingen، Hanover، جرمن سلطنت
شہریت مملکت پرشیا   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رکن سائنس کی پروشیائی اکیڈمی   ویکی ڈیٹا پر (P463) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
تعليم جامعہ گوٹنجن
مادر علمی جامعہ گوٹنجن   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ الٰہیات دان ،  مستعرب ،  ماہر اسلامیات ،  استاد جامعہ ،  مستشرق ،  مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان جرمن [1]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت جامعہ گوٹنجن ،  جامعہ ماربورگ   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
 آرڈر آف میرٹ فار آرٹس اینڈ سائنس   ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دستخط
 

ذاتی زندگی ترمیم

جولیس ولہاؤزن 17 مئی 1844ء کو ہاملن، جرمنی میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ ایک پروٹسٹنٹ مسیحی تھا اور ولہاؤزن بھی عمر بھر پروٹسٹنٹ عقیدے سے منسلک رہا۔ اس نے گوتنگن یونیورسٹی میں جارج ہنرش آگست ایوالڈ کے زیر نگرانی علم الہیات پڑھا۔ 1872ء میں ولہاؤزن گرائفس والڈ یونیورسٹی میں الہیات کا پروفیسر مقرر ہوا اور دس برس بعد 1882ء میں اس عہدے سے مستعفی ہوا۔ بعد ازاں ہال یونیورسٹی میں شعبہ علم لسانیات میں السنہ مشرق کا اور 1885ء میں ماربرگ میں پروفیسر منتخب ہوا۔ اس کے بعد 1892ء میں اس کا گوتنگن میں تبادلہ ہو گیا اور اس ادارے سے وہ اپنی وفات یعنی 7 جنوری 1918ء تک وابستہ رہا۔

ماہرین الہیات اور کتاب مقدس کے محققین کے نزدیک ولہاؤزن اپنی کتاب "مقدمہ تاریخ قدیم اسرائیل" (Prolegomena zur Geschichte Israels، 1882ء) اور "تدوین کتب خمسہ و عہد نامہ قدیم اور ان کی تاریخ" (1876ء) کے باعث معروف ہے۔

جدید علوم کی تحقیق میں ولہازوں کا اسلوب ترمیم

بعض ناقدین ولہازون کے اسلوب پر یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ اس میں سامی[5] اور کاتھولک مخالف عنصر پایا جاتا ہے۔ ولہازون تورات کے ربیائی اجزا (یہودی احبار اور کاتھولک راہب دونوں) کے تئیں اپنی عداوت کا صراحت سے اظہار کرتا ہے۔ جب ولہازون کو کارل ہینرش گراف کے اس مفروضہ کا علم ہوا جس کے مطابق موسوی قانون انبیا کے اصل روحانی مذہب میں بعد کا اضافہ ہے تو بغیر کسی دلیل کے اسے قبول کرنے میں ادنی جھجھک محسوس نہیں کی۔[6]

مشہور تصنیفات ترمیم

  • عرب بت پرستی کی باقیات (Reste arabischen Heidentums)، برلن 1887ء۔ اس کا عربی ترجمہ بقایا الوثنیہ العربیہ کے نام سے ہو چکا ہے۔
  • مقدمہ برائے قدیم تاریخ اسلام (Prolegomena zur altesten Geschichte des islams) برلن 1899ء
  • حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) مدینہ میں، برلن 1882ء۔ یہ واقدی کی کتاب المغازی کا ترجمہ ہے۔
  • قدیم اسلام کے سیاسی و مذہبی احزاب: خوارج اور شیعہ، گوتنگن 1901ء۔ معرکہ جمل تا زوالِ بنی امیہ کے دور میں خوارج اور شیعہ کے نشو و نما، ان کی تحریکیں اور بغاوتیں اس کتاب میں ذکر کی گئی ہیں۔ انگریزی میں اس کا ترجمہ The Religio-Political Opposition Parties in Early Islam: 1: The Khawarij 2:Shi’ites) کے نام سے ہوا۔ عبد الرحمن بدوی نے جرمنی سے اس کا عربی ترجمہ بنام احزاب المعارضۃ السیاسیۃ الدینیۃ فی صدر الاسلام، الخوارج والشیعۃ کیا جو قاہرہ سے 1958ء میں شائع ہوا۔ اسی عربی سے اس کا اردو ترجمہ پروفیسر محسن علی صدیقی نے کیا۔ پہلا حصہ شیعہ بنام ’عہد اموی میں سیاسی و مذہبی احزاب‘ (2001ء) شائع ہوا اور پھر الخوارج (2009ء) کے نام سے دوسرا حصہ شائع ہوا۔ یہ دونوں حصے قرطاس کراچی سے شائع ہوئے۔
  • اس سے اگلے سال 1902ء میں سلطنت و دولتِ عربیہ کی تاریخ پر جامع کتاب "سلطنت عرب اور اس کا سقوط" (Das arabiche Reich und sein Sturz) برلن سے شائع ہوئی، جرمن سے اس کا انگریزی میں ترجمہ مارگریٹ گراہم ویئر نے "The Arab Kingdom and its Fall" کے نام سے کیا جو 1927ء میں کلتہ یونیورسٹی سے شائع ہوا۔ اس کے بعد انگریزی سے عربی میں شامی فاضل یوسف العش نے ترجمہ کیا جو دمشق سے 1952ء میں شائع ہوا اور دوسرا ترجمہ براہِ راست جرمن سے مصری عالم عبد الہادی ابوریدہ نے کیا جو قاہرہ سے 1957ء میں طبع ہوا۔

حوالہ جات ترمیم

  1. فرائیڈے اسپیشل 4 جنوری 2019ءآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ fridayspecial.com.pk (Error: unknown archive URL)
  1. http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb135366245 — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  2. Nathan Lopes Cardozo۔ "On Bible Criticism and Its Counterarguments"۔ Torat Emet 
  3. http://www.leaderu.com/orgs/probe/docs/moses.html
  4. Richard Elliott Friedman (1986)۔ Who Wrote the Bible?۔ Harper Collins۔ صفحہ: 26 
  5. دیکھیں http://www.jewishencyclopedia.com/view.jsp?artid=119&letter=W
  6. Encyclopaedia Judaica (2007) The Pentateuch